دکھ (روسی ادب سے منتخب افسانہ)

انتون چیخوف (ترجمہ: شاہد اختر)

پہاڑوں سے گھرے اس گاؤں سے، جہاں ’باکو‘ رہتا تھا، بڑے شہر کا فاصلہ پچاس کلو میٹر تھا۔ باکو ایک ترکھان تھا، خراد کی مشین اس کی زندگی کا محور تھی، اسے اپنی خراد اور اپنے ہنر پر بڑا فخر تھا۔ وہ اس خراد پر لکڑی کی خوبصورت چیزیں ایسی مہارت سے بناتا کہ دور دور سے لوگ دیکھنے آتے ۔ لیکن اسے عرصے سے شراب کی لت پڑی ہوئی تھی۔ خراد سے جتنے پیسے کماتا، آس پاس کے علاقوں کے شراب خانوں میں صرف کر دیتا۔

اس کی بیوی تانیا کی طبیعت کیٔ دن سے خراب تھی۔ آج اسے تانیا کو ہسپتال لے کر جانا تھا۔ اسے پچاس کلو میٹر کی اس مسافت کے بارے میں سوچ کر ہی الجھن ہو رہی تھی۔ بڑبڑاتے ہوئے اس نے تانیا کو گھوڑا گاڑی کے تختے پر بٹھایا، گھوڑے کو چابک لگایا اور گاڑی آہستہ آہستہ شہر کی سمت چلنے لگی۔

پچھلے دو دن سے برف باری رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ کھیت کھلیان، درخت، مکان، کچھ بھی تو صاف نظر نہیں آ رہا تھا۔ تانیا دو کمبلوں میں لپٹی گاڑی کے تختے پر بیٹھی تھی۔

گھوڑے کے سم برف میں دھنس رہے تھے۔ وہ جان کا زور لگا کر ایک ایک قدم آگے بڑھا رہا تھا۔ باکو بےصبری سےاسے چابک پر چابک مار رہا تھا۔ بیوی کے کراہنے کی آواز سن کر اس کی گھبراہٹ میں مزید اضافہ ہو رہا تھا۔

”مت رو تانیا، مت رو۔۔ ہم بہت جلدی ہسپتال پہنچ جایں گے۔ بڑے ڈاکٹر شاکوف صاحب تجھے دیکھیں گے اور اچھا کردیں گے۔ وہ بڑے مہربان ہیں، لیکن ذرا غصے والے ہیں۔ مجھے ڈانٹیں گے۔ کہیں گے او بےوقوف اتنی دیر سے کیوں آیا۔ میں تیرے باپ کا نوکر ہوں۔ تو اسے صبح کیوں نہیں لایا؟“

’ابے الو کے پٹھے‘ باکو اب گھوڑے سے مخاطب ہو رہا تھا، ’تیز چل، تجھ پر خدا کی مار‘ اس نے گھوڑے کو دو چابک رسید کیے، اور پھر گفتگو کا پینترا بدلا۔

”پھر میں ڈاکٹر صاحب سے کہوں گا۔ حضور، میں تو اندھیرے منہ نکل پڑا تھا، اوپر سے برف کا طوفان۔ میں صبح صبح کیسے آ سکتا تھا؟

اور پھر ڈاکٹر صاحب کے ماتھے پر اور بل پڑ جائیں گے اور وہ چیخ کر کہیں گے۔ ’بہانے باز، میں تجھ جیسے بد کرداروں کو جانتا ہوں۔ تو نشہ پورا کرنے کسی شراب خانے میں رکا ہو گا۔‘

میں پاوں پڑ کر بڑی عاجزی سے کہوں گا۔ ’مائی باپ آپ نے مجھےکیا سمجھا ہے؟ میری بیوی مرنے کے قریب ہے اور میں راستے میں شراب پینے کے لیے رکوں گا۔ کیسی بات کرتے ہیں آپ؟‘

ڈاکٹر صاحب پھر کہیں گے کہ ’نابکار تو اپنی بیوی کا خیال کیوں نہیں رکھتا۔ اسے مارتا پیٹتا کیوں ہے؟ چل اٹھ، مجھے اور غصہ نہ دلا ورنہ میں تیری چمڑی ادھیڑ کر رکھ دوں گا۔‘

‘ہاں سرکار’۔ میں کہوں گا۔ ‘آپ کا حق بنتا ہے میری چمڑی ادھیڑ دیں لیکن خدا کے لیے میری تانیا کو ٹھیک کر دیں۔ میری تانیا کو مرنے سے بچا لیں۔ ڈاکٹر صاحب آپ کو تو معلوم ہے مجھ جیسا خراد کا کام اور کوئی نہیں کرتا، میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جیسے ہی آپ میری بیوی کو اچھا کر دیں گے میں آپ کے لۓ جو آپ چاہیں گے بناؤں گا۔ آپ سگار پیتے ہیں نا، میں آپ کو اتنا خوبصورت آبنوس کا سگار کیس بنا کر دوں گا جیسا کسی نے آج تک نہ دیکھا ہو۔ آپ شہر جا کر ایسی چیز خریدیں تو کتنی مہنگی پڑے گی لیکن میں آپ سے ایک پیسہ بھی نہیں لوں گا حضور۔ بس آپ میری تانیا کو اچھا کر دیں۔“

ترکھان دیوانوں کی طرح خود کلامی میں مصروف تھا۔ ”ڈاکٹر صاحب ذرا نرم پڑ جاٰئیں گے۔ مجھ پر ہنسیں گے اور کہیں گے، ’اچھا، اچھا، ٹھیک ہے، مگر بڑے شرم کی بات ہے کہ تم شراب پینے سے باز نہیں آتے‘

تانیا بس تو دعا کر کہ ہم ہسپتال وقت پر پہنچ جایٔں اور گاڑی کہیں برف میں نہ پھنس جائے۔ برف میری آنکھوں میں گھسی جا رہی ہے، اس طوفان میں مجھے تو کچھ بھی نظر نہیں آرہا۔“

کل رات وہ حسبِ معمول شراب کے نشے میں گھر لوٹا تھا اور آتے ہی اپنی بیوی پر چیخنا چلانا شروع کر دیا تھا۔ اسے مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ بیوی کی آنکھوں میں ایک عجیب سا تاثر دیکھ کر اس کا ہاتھ ہوا میں معلق رہ گیا تھا۔ اس نے پہلی مرتبہ تانیا کی آنکھوں میں ایک منجمد سا تاثر دیکھا جیسے وہ تانیا کی نہیں کسی میت کی آنکھوں میں دیکھ رہا ہے۔

اب اسے اچانک یاد آیا کہ وہ پچھلے کئی دن سے کس قدر بیمار تھی۔ ہمسائے سے گھوڑا گاڑی ادھار مانگ کر وہ ہسپتال جا رہا تھا۔ اس امید میں کہ ڈاکٹر شاکوف، تانیا کو ٹھیک کر دیں گے۔

وہ تانیا سے پھر مخاطب ہوا، ”میری بات سن، اگر ڈاکٹر صاحب تجھ سے پوچھیں کہ میں تجھے مارتا پیٹتا ہوں تو فوراً کہنا کہ بلکل نہیں۔ ویسے بھی میں نے تجھے کبھی نفرت میں نہیں پیٹا۔ بس نشے میں بھول ہو جاتی ہے۔ دیکھ آخر اب میں تجھے ہسپتال لے جا رہا ہوں یا نہیں؟ تو بلکل ٹھیک ہو جائے گی۔ بتا ابھی بھی تیرے سینے میں درد ہو رہا ہے؟ بتا نا، بتا، تو بولتی کیوں نہیں۔ بول نا۔ تانیا“

جب کوئی جواب نہ ملا تو اس نے مڑ کر دیکھا۔ اس کی بیوی کا چہرہ پیلے موم کے میلے مجسمے کی طرح لگ رہا تھا جس پر برف پڑی ہوئی تھی لیکن عجیب بات تھی کہ برف پگھل نہیں رہی تھی۔

”تو بھی بلکل بیوقوف ہے، میں بات کر رہا ہوں اور تو جواب نہیں دے رہی۔ اگر مجھے غٌصٌہ آ گیا تو میں ابھی تجھے گھر واپس لے جاؤں گا۔ بھاڑ میں گیا ہسپتال۔“

وہ تانیا سے پوچھنا چاہتا تھا کہ وہ چپ کیوں ہے، لیکن خوف سے سوال پوچھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ وہ اس تذبذب کی کیفیت کو زیادہ دیر برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے پیچھے مڑ کر اپنی بیوی کی گود سے اس کا ہاتھ اٹھا کر اپنے ہاتھ میں تھام لیا۔

”بتا نا تیرے سینے میں ابھی بھی درد ہے؟ بول نا۔۔“ ہاتھ یخ بستہ تھا، جیسے ہی اس نے ہاتھ چھوڑا، بیوی کا اٹھا ہوا ہاتھ ایک پتھر کی طرح اس کی گود میں گر پڑا۔ یہ ہاتھ ایک میت کا ہاتھ تھا۔

’اوہ خدایا، یہ تو مر گئی ہے۔۔۔‘ ترکھان کی چیخ نکل گئی تھی۔ اسے یقیں نہیں آ رہا تھا کہ اس کی دنیا ایک لمحے میں ایسے پلٹ سکتی ہے۔

وہ اپنی شادی کے چالیس سالوں کے بارے میں سوچنے لگا۔ لیکن یہ تمام وقت جیسے ایک دھند میں گزرا تھا۔ اسے سوائے غربت اور مار پیٹ کے اور کچھ یاد نہیں پڑ رہا تھا۔ اوراب وہ جیسے اسے سزا دینے کے لیے مر گئی تھی۔

’اوہ خدایا، میں کیا باتیں کر رہا ہوں، میں گاڑی کہاں لے جا رہا ہوں۔ ہسپتال جانے کا اب کیا فائدہ، اب تو مجھے گاڑی موڑ لینی چاہیے، اب اسے دوا کی نہیں کفن کی ضرورت ہے۔ مجھے واپس مڑ جانا چاہیے۔‘

اس نے تیزی سے گاڑی موڑی اور گھوڑے کو پورے زور سے چابک مارنے شروع کر دیے۔ طوفان میں مزید شدت آ گئی تھی۔ سڑک اور خراب ہو گئی تھی۔ چاروں طرف سوائے برف کے اور کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس کا ذہن ماؤف ہو رہا تھا۔

اسے اپنی شادی کا دن یاد آیا، جب کوہ قاف کی پریوں جیسی خوبصورت لڑکی اس کی بیوی بنی تھی۔ وہ ایک کھاتے پیتے گھرانے کی لڑکی تھی۔ اور چونکہ اس کی کاریگری کی شہرت دور دور تک تھی، لڑکی کے ماں باپ نے اسے قبول کر لیا تھا۔ عمر پلک جھپکنے میں گزر گئی۔ اب اسے خوشی کا ایک لمحہ بھی یاد نہیں آ رہا تھا۔

برف کے سفید بادل اب سرمئی ہوتے جا رہے تھے۔ دن ڈھل رہا تھا۔

’میں کہاں جا رہا ہوں؟ میں پھر ہسپتال کی طرف کیوں مڑ گیا ہوں؟ مجھے تو قبرستان جانا چاہیے، اسے دفنانے کے لیے، میں کیا کر رہا ہوں؟ میرا دماغ تو نہیں چل گیا؟‘

اب اندھیرا بڑھنا شروع ہو گیا تھا۔ گھوڑے کو گھٹنے گھٹنے برف میں چلنے میں بہت مشکل پیش آ رہی تھی، سردی اور شدید ہو گئی تھی۔ ٹھنڈی ہوا میں چھری کی کاٹ آ گئی تھی۔

’اب میں اس سےبہت اچھا سلوک کروں گا۔ ایک نئی خراد کی مشین خریدوں گا۔ اسے اچھے اچھے تحفے دوں گا۔‘ ترکھان نے پھیر اپنے اپ سے باتیں شروع کر دی تھیں۔ ’اب میں اسے بہت پیسے بھی اور پیار بھی دیا کروں گا اور۔۔۔ اور۔۔۔‘

لگامیں اس کے ہاتھوں سے پھسل گئیں۔ اس نے انہیں اٹھانے کی کوشش کی لیکن وہ اپنے ہاتھ نہ ہلا سکا۔

’کوئی بات نہیں۔ گھوڑوں کو معلوم ہوتا ہے انہیں کہاں جانا ہے۔ وہ اپنے گھر کا راستہ جانتے ہیں۔ میں تھک گیا ہوں، ذرا آرام کر لوں۔ گھر جا کر اور بہت انتظام کرنے ہیں۔ تھوڑی دیر آنکھیں بند کر لیتا ہوں۔‘

اس نے آنکھیں بند کیں۔ ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ اس کو لگا کہ گاڑی رک گئی ہے۔ گھوڑا جہاں رکا تھا وہ ایک چھوٹی سی جھونپڑی تھی۔ اس نے گاڑی سے اترنا چاہا لیکن اس کی ٹانگون میں اترنے کی طاقت نہیں تھی۔ نیند سے اس کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔ وہ سو گیا۔

جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے اپنےآپ کو پٹیوں میں بندھا ایک بڑے سے کمرے میں پایا۔ کھڑکیوں پر پردے لٹکے ہوئے تھے، جن میں سے سورج کی روشنی چھن چھن کر آ رہی تھی۔ وہ ایک صاف ستھرے بستر پر لیٹا تھا۔ اس کے ارد گرد سفید کوٹ پہنے کچھ لوگ کھڑے تھے۔

باکو کے ذہن میں پہلا خیال جو آیا، وہ یہ تھا کہ یہ لوگ اس کو کوئی آوارہ شرابی نہیں بلکہ با عزت آدمی سمجھیں جو بڑے لوگوں سے گفتگو کر سکتا ہے ۔

”آپ لوگ فوراً کفن دفن کا انتظام کریں۔ ہر چیز مناسب طریقے سے ہونی چاہیے۔ کوئی کسر نہیں رکھیں۔ پیسے کی پرواہ نہ کریں۔“ اس نے بڑی کوشش کر کے صحیح الفاظ منہ سے نکالے۔

”ٹھیک ہے، ٹھیک ہے“ ایک بلند اور بارعب آواز نے اس کی بات کاٹی ”آرام سے لیٹے رہو۔ باتیں مت کرو۔“

”ڈاکٹر شاکوف صاحب۔“ ترکھان نے انتہائی حیرت سے کہا، ”حضور، مائی باپ۔ آپ یہاں میری مدد کرنے آ گئے۔ آپ کا بہت احسان ہے۔“

وہ اٹھ کر ڈاکٹر کے قدموں میں گرنا چاہتا تھا لیکن اس کے ہاتھ پاؤں اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ ”حضور، میں اٹھ کیوں نہیں سکتا؟ میری ٹانگوں کو کیا ہوا؟ میرے ہاتھ کہاں گئے؟“

”اب اپنے ہاتھ پاؤں کو بھول جاؤ۔ وہ سردی سے مفلوج ہو گئے تھے، اس لیے کاٹنے پڑے۔ اب تمہیں ان کے بغیر رہنا ہے۔“ ڈاکٹر شاکوف نے سخت گیر آواز میں کہا۔

”چپ۔ چپ، رو کیوں رہے ہو۔۔ تم کافی جی لیے، ساٹھ سال کے تو ہو گئے ہو گے۔ شکر کرو خدا کا۔۔ اتنی زندگی تم جیسوں کے لیے بہت ہے، اب اور کیا چاہیے؟“

”نہیں سرکار میں چند سال اور جینا چاہتا ہوں۔۔ اپنے ہاتھ پاؤں کے ساتھ۔“

”کیا کرو گے اب جی کر؟ کیا کرنا ہے تم نے؟“

”سرکار، میرے مالک، حضور، ابھی تو میں نے بہت کچھ کرنا ہے، اپنی بیوی کو دفنانا ہے، ہمسائے کا گھوڑا واپس کرنا ہے، حضور میں آپ کا بہت احسان مند ہوں۔ میں آپ کا احسان کیسے چکا سکتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب آپ کو تو معلوم ہے مجھ جیسا خراد کا کام اور کوئی نہیں کرتا ۔ آپ سگار پیتے ہیں نا، میں آپ کو اتنا خوبصورت آبنوس کا سگار کیس بنا کر دوں گا جیسا کسی نے آج تک نہ دیکھا ہو۔ آپ شہر جا کر ایسی چیز خریدیں تو کتنی مہنگی ملے گی لیکن میں آپ سے ایک پیسہ بھی نہیں لوں گا، آپ بس میری تانیا کو اچھا کر دیں۔۔ میرے مالک، میرے حضور۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close