ان لاکھوں بھاگتی دوڑتی گاڑیوں میں ایک چودہ مسافروں کے لیے بنی گاڑی میں وہ پندرہویں سواری تھا، جو اکڑوں ہو کر بیٹھا تھا۔
’تو کیا میں یہاں اتر جاؤں؟‘ اس نے سوچا۔
’لیکن اگر میں اتر گیا تو پھر مجھے گھنٹوں انتظار کرنا پڑے گا۔‘ اسے محسوس ہوا کہ اس کی سانس رُک رہی ہے۔
’اوہ یہ کیا مصیبت ہے۔۔‘ اس نے خودکلامی کی۔
”روکو گاڑی۔“
”میں کہتا ہوں گاڑی روکو!“ وہ پوری قوت سے چلایا، لیکن اس کی آواز کسی نے نہیں سنی۔
”پٹرول کی قیمتیں بہت بڑھ چکی ہیں۔۔“ ایک بڑے ہوئے پیٹ والا مسافر اخبار پڑھتے ہوئے بڑبڑایا۔
پندرہویں سواری نے حیرت سے اس موٹے شخص کو دیکھا۔
”میرا دم گُھٹ رہا ہے اور آپ کو پٹرول کی قیمتوں کی فکر کھائے جاتی ہے؟“
”آج گرمی بھی بہت ہے۔“ موٹے آدمی نے کہا اور اخبار سے پنکھا جھلنے لگا۔ اس نے ٹانگیں مزید پھیلا لیں، حتٰی کہ موٹے شخص کا جوتا دم گھٹتے آدمی کے کندھے پر آ کر رک گیا۔
”یہ، یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟ میرے لیے پہلے ہی یہاں بیٹھنا بہت مشکل ہو چکا ہے اور آپ نے اپنے پاؤں میرے کندھے پر رکھ دیے ہیں۔ براہِ مہربانی اپنے پاؤں اٹھائیے۔۔ میں کہتا ہوں اپنے پاؤں اٹھائیے۔“
لیکن موٹے آدمی نے اس کے احتجاج کو ذرا بھی اہمیت نہ دی۔
”آپ اپنے پاؤں ہٹا لیں ورنہ میں آپ کے خلاف پولیس کو شکایت کروں گا۔“ اس کے لہجے میں اب دھمکی تھی۔
موٹے شخص نے غصے سے اس کی جانب دیکھا، اس کی نظریں صاف کہہ رہی تھیں کہ پولیس بھی اس کے جوتوں کو یہاں سے نہیں ہٹا سکتی۔
پندرہواں مسافر، جو ایک ڈرا ہوا شخص تھا، ان نگاہوں سے گھبرا گیا۔
”دیکھیں آپ غصہ نہ کریں، اس میں لڑنے کی کوئی بات نہیں۔ دراصل میرا دم گُھٹ رہا تھا، اس لیے میری آواز کچھ اونچی ہو گئی۔ اچھا آپ ایک پاؤں میرے کندھے پر رکھ سکتے ہیں لیکن دوسرا اتار لیں۔ میرے کندھے اتنے کمزور ہیں کہ میں دونوں پیروں کا وزن اٹھانے سے قاصر ہوں۔“
”پٹرول کی قیمتیں نیچے نہیں آسکتیں۔“ موٹے آدمی نے کہا اور سر سیٹ کی پشت پر ٹکا کر آنکھیں موند لیں۔
دم گھٹتے آدمی کی جانب اس نے توجہ نہ کی تو اس نے گھبرا کر ایک اور مسافر کی جانب دیکھا جس نے چار سیٹیں اپنے قبضے میں لے رکھی تھیں۔
وہ اس طرح بیٹھا ہوا تھا کہ ساری سیٹوں پر اس نے اپنا کوٹ پھیلا رکھا تھا۔
پندرہویں سواری نے نگاہوں میں دنیا بھر کی ہمدردی سمیٹ کر کہا ”سنیے، کیا آپ یہ کوٹ اٹھا سکتے ہیں تاکہ میں یہاں بیٹھ سکوں۔ اس کونے میں اکڑوں بیٹھنا اب ناممکن ہے اور گرمی سے میرا دم گھٹ رہا ہے۔“
یہ کہہ کر وہ رونے لگا۔
کوٹ والے صاحب نے ایک نظر اس کی جانب دیکھا اور پھر کھڑکی سے باہر کے خوبصورت مناظر میں گُم ہو گیا۔
”ارے واہ! تو یہ ہے شہر کی سب سے شاندار اونچی عمارت، جس کی چھت اتنی بلند ہے کہ آدمی بادلوں کو چُھو سکتا ہے۔۔“ کوٹ والے صاحب نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہا۔
”اگر آپ یہ کوٹ اٹھا لیں تو بہت مہربانی ہوگی۔۔“ ، پندرہویں سواری نے پھر التجا کی۔
”ہر طرف قانون کی بالادستی ہے اسی لیے بڑی عمارتوں پر لوگ خوشی کے گیت گا رہے ہیں۔“ کوٹ والے صاحب نے کہا۔
پندرہویں سواری بھی مجبوراً کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی، مگر اس کی نظر بڑی عمارتوں کے بجائے ان کے سامنے احتجاج کرتے لوگوں پر ٹھہر گئی۔
”عمارتوں کے نیچے کچھ لوگوں نے احتجاجی بینر اٹھا رکھے ہیں، کچھ نعرے بھی لگا رہے ہیں، وہ غالباً رو رہے ہیں، کیا آپ نے دیکھا؟“
اس نے کوٹ والے صاحب کی توجہ ایک جلوس کی جانب مبذول کرائی لیکن کوٹ والے صاحب اب سڑک کی دوسری جانب دیکھنے لگ گئے تھے۔
”آہا! امن و سکون سڑک کے دوسری جانب بھی ویسے کا ویسا ہے۔۔“
پندرہویں سواری کا دم اب اور گھٹنے لگا تھا۔
”سنیے! آپ لوگ میری بات سنتے کیوں نہیں، یہ میری سانس دیکھیں، میرا دم گھٹ رہا ہے، آپ اپنے پاؤں تو اٹھا لیں یا پھر آپ یہ کوٹ ایک طرف کیجیے۔۔ میں تھوڑی دیر کے لیے ایک لمبا سانس لینا چاہتا ہوں۔ خدا کے لیے مجھے ایک طویل گہرا سانس لینے دیں۔۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے میں نے زندگی بھر کبھی بھی گہرا سانس نہیں لیا۔“ پندرہویں سواری کی بات پر کسی نے توجہ نہیں دی۔
ایک اشارے پر گاڑی رکی، اس نے باہر ایک پولیس والے کو دیکھا تو فوراً چلایا کہ ”جناب یہاں قانون کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، یہاں کوٹ کے لیے تو جگہ ہے لیکن میرے لیے نہیں اور میرا دم گھٹ رہا ہے، میں ان جوتوں کے نیچے دب کر مر جاؤں گا۔“
پولیس والا آیا اس نے کھڑکی سے کوٹ والے صاحب اور موٹے آدمی کو سلام کیا، ان کی خیریت پوچھی، ڈرائیور کو اشارہ کیا کہ سب کچھ درست ہے، وہ گاڑی آگے لے کر جا سکتا ہے۔
”ڈرائیور گاڑی روکو، میں نے نہیں جانا اس گاڑی میں۔۔ کیا تم سن رہے ہو؟“ دم گھٹتا مسافر ایک بار پھر چلایا۔
”آخر تم اس گاڑی کو روکتے کیوں نہیں؟“ پندرہویں سواری نے یہ کہہ کر گاڑی کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔
ڈرائیور نے ایک کے بعد دوسری سگریٹ جلائی اور گاڑی کی رفتار بے حد آہستہ کردی، جس سے پندرہویں سواری کی اذیت مزید بڑھ گئی۔
”یہ کیا مصیبت ہے۔۔ نہ مجھے نیچے اتارتے ہو اور نہ گاڑی تیز چلاتے ہو، اس طرح تو میرا دم لازمی گھٹ جائے گا۔“
”لوگو کیا تم دیکھ رہے ہو یہ گاڑی کس قدر سست روی سے اپنی منزل کی جانب رواں ہے۔ اس طرح تو ہم کبھی بھی اپنی منزل پر نہ پہنچ سکیں گے، آخر تم لوگ ڈرائیور کو کچھ کہتے کیوں نہیں؟“ اس نے آخری سیٹ پر بیٹھے چار مسافروں کو کہا جو اس طرح بیٹھے ہوئے تھے کہ پہلے تین مسافروں نے چوتھے کی جگہ گھیر رکھی تھی، جو شاید بیمار تھا۔ کبھی اس کی سانس اکھڑ رہی تھی اور کبھی کبھار وہ زور زور سے کھانسنے لگتا، حالت سنبھلتی تو وہ باقی تین مسافروں کی جانب دیکھتا تھا جو آپس میں کسی بات پر جھگڑ رہے تھے اور اس سے بے پرواہ تھے، سو وہ گھبرا کر ہاتھ کھڑکی سے باہر نکال کر دوسری گاڑیوں کو پکڑنے کی کوشش کرتا۔
”ہاتھ باہر مت نکالو ورنہ گاڑی سے باہر گرجاؤ گے۔“ پندرہویں سواری نے اسے کہا.
موٹے آدمی نے اپنے پاؤں کا سارا دباؤ پندرہویں سواری کے کندھوں پر ڈال دیا، کوٹ والے صاحب لگاتار نظاروں میں گم تھے، اور ان کا کوٹ وہیں کا وہیں موجود تھا۔ آخری تین مسافر آپس میں جھگڑ رہے تھے اور چوتھا مسافر اب آدھا گاڑی سے باہر تھا۔
دم گھٹتا مسافر چلانا چاہتا تھا لیکن اس کی آواز گم ہو گئی تھی، اب درد اس کے سارے جسم میں پھیل چکا تھا، مکمل اندھیرا چھانے سے پہلے اس نے جو آخری منظر دیکھا تھا، اس میں کوئی بھی اس کی جانب متوجہ نہ تھا۔