وہ موسم بہار کی ایک اتوار کی صبح تھی اور ایک بیوپاری جورج بیڈیمین اپنے گھر کی پہلی منزل پر اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس کا گھر ان خستہ حال گھروں میں سے ایک تھا جو دور سے اپنے حجم اور رنگ کی وجہ سے ایک جیسے ہی لگتے تھے۔
جورج اپنے ایک ایسے دوست کو خط لکھ کر فارغ ہوا تھا جو دیارِ غیر میں جا بسا تھا۔اس نے بےخیالی میں خط کو لفافے میں ڈالا تھا اور اب وہ اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔ اسے دور ایک دریا، دریا پر پل اور دریا کی دوسری طرف پہاڑیوں پر سبزہ دکھائی دے رہا تھا۔
جورج اپنے دوست کے بارے میں سوچنے لگا جو چند سال پہلے اپنا ملک چھوڑ کر روس چلا گیا تھا کیونکہ وہ اپنے ملک کے کاروبار سے مایوس ہو چکا تھا۔
جورج کے دوست نے سینٹ پیٹرزبرگ میں نیا کاروبار شروع کر رکھا تھا۔ شروع میں تو وہ کاروبار ترقی کر رہا تھا لیکن اب اس کاروبار میں مندی کا رجحان آ گیا تھا۔ وہ دوست جب کبھی کبھار اپنی مادرِ وطن کے پاس آتا اور پرانے دوستوں سے ملتا تو کاروبار کے مندی کے رجحان کی شکایت کرتا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ تھک گیا ہو۔ اس نے داڑھی بھی بڑھا لی تھی۔ وہ داڑھی اس کے چہرے پر تو پردہ ڈال دیتی تھی لیکن اس کے داخلی کرب کو چھپانے میں ناکام رہی تھی۔ اس کی جِلد کا رنگ بھی زرد ہو گیا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ کسی داخلی بیماری کا شکار ہو گیا ہو۔
اس دوست نے جورج کو خود بتایا تھا کہ نہ تو اس نے روس میں نئے دوست بنائے تھے اور نہ ہی وہ اپنے ملک کے مہاجر باسیوں سے راہ و رسم رکھتا تھا۔ وہ نجانے کب سے تجرد کی زندگی گزار رہا تھا۔
جورج نے سوچا کوئی انسان ایسے دوست کو خط میں کیا لکھ سکتا ہے جو تارک الدنیا ہو گیا ہو۔۔ انسان ایسے انسان سے ہمدردی تو کر سکتا ہے، اس کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔
کیا ہمیں ایسے دوست کو مشورہ دینا چاہیے کہ وہ اپنے ملک واپس لوٹ آئے اور پرانے دوستوں سے از سر نو روابط قائم کرے؟
کیا ایسا مشورہ دینے کا یہ مطلب ہے کہ اس کی نئے ملک کی تمام کوششیں ناکام رہی ہیں؟
کیا واپس آنا اعترافِ شکست نہ ہوگا؟
کیا ایسا مشورہ دینے کے یہ معنی ہوں گے کہ وہ ایک ایسے بچے کی طرح ہے، جسے اپنے دوستوں کے مشورے پر عمل کرنا چاہیے، کیونکہ وہ اپنی زندگی کے بارے میں دانشمندانہ فیصلے کرنے سے قاصر ہے؟
سوال یہ بھی ہے کہ اگر وہ واپس بھی آ جاتا ہے تو کیا وہ یہاں بھی کامیاب ہوگا یا نہیں، کیونکہ پچھلے چند سالوں سے دیارِ غیر میں رہنے کی وجہ سے وہ مقامی مارکٹ سے قطع تعلق ہو گیا تھا؟
کیا اس سے بہتر نہیں کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے، کیونکہ یہ بات حتمی طور پر نہیں کہی جا سکتی کہ اگر وہ لوٹ بھی آئے تو وہ اپنے ملک میں ضرور کامیاب ہوگا۔
جورج کا وہ دوست تین برس سے روس میں قیام پزیر تھا۔ وہ اپنے ملک آنے سے کتراتا تھا اور جواز یہ پیش کرتا تھا کہ روس کے سیاسی حالات غیر یقینی ہیں، اس لیے وہ ملک نہیں چھوڑ سکتا۔
ان تین سالوں میں جورج کی زندگی بہت بدل چکی تھی۔ دو سال پیشتر اس کی والدہ فوت ہو گئی تھیں اور جورج اور اس کے والد ایک گھر میں رہنے لگے تھے۔ جورج نے اپنے دوست کو والدہ کی وفات کی خبر سنائی تھی لیکن اس کی تعزیت کے خط میں روکھا پن تھا۔
والدہ کی وفات کے بعد جورج نے والد کے کاروبار میں زیادہ محنت اور مشقت سے کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ والدہ کی زندگی میں جورج کے والد ایک آمرانہ انداز سے کاروبار کرتے تھے لیکن بیگم کی وفات کے بعد ان کے لہجے میں نرمی آئی تھی۔ خوش قسمتی سے پچھلے دو سالوں میں کاروبار نے اتنی ترقی کی تھی کہ ان کے ملازموں کی تعداد دگنی ہو گئی تھی اور آئندہ مزید ترقی کی امید بھی تھی۔
جورج کے دوست کو اس ترقی کی بالکل خبر نہ تھی، اسی لیے اس نے اپنے تعزیت کے خط میں جورج کو مشورہ دیا تھا کہ وہ بھی ہجرت کر کے روس آ جائے۔
جورج اپنے دوست سے سطحی باتیں کرتا تھا۔ ایک خط میں جورج نے لکھا تھا کہ اس کے ایک واقف کار کی کسی دوشیزہ سے منگنی ہو گئی ہے اور جورج کی توقعات کے خلاف اس کے دوست نے اس خبر میں دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔
جورج اپنے دوست کو ادھر ادھر کی غیر ضروری باتیں تو لکھتا لیکن دل کی باتیں کرنے سے کتراتا تھا۔ اس نے دوست کو نہیں بتایا تھا کہ اس نے خود ایک پری چہرہ فریدا سے منگنی کر لی ہے۔
ایک شام جورج اپنی منگیتر سے اپنے دوست کا ذکر کر رہا تھا کہ منگیتر نے پوچھا
کیا تمہارا دوست ہماری شادی کی تقریب میں شرکت کرے گا؟ میں تمہارے سب دوستوں سے ملنا چاہتی ہوں۔
جورج نے جواب میں کہا کہ اگر میں بلاؤں گا تو وہ ضرور آئے گا لیکن یہ بھی سمجھے گا کہ میں نے اسے زبردستی بلایا ہے۔۔ اور جب وہ واپس جا رہا ہوگا تو حد سے زیادہ تنہا محسوس کرے گا۔۔ کیا تم جانتی ہو کہ احساس تنہائی بہت تکلیف دہ احساس ہے؟
منگیتر نے کہا کہ اگر تم اپنے دوست کو خود نہیں بتاؤ گے تو اسے دوسرے دوستوں سے تمہاری منگنی کی خبر مل جائے گی۔
اسی لیے جورج نے اس صبح اپنے دوست کو طویل خط میں اپنی منگنی کے بارے میں ان الفاظ میں مطلع کیا تھا، ”میں نے بہترین خبر خط کے آخر کے لیے چھوڑ رکھی تھی۔ میں نے ایک متمول خاندان کی دوشیزہ فریدا سے منگنی کر لی ہے۔ تم اسے نہیں جانتے کیونکہ وہ تمہارے ملک کے جانے کے بعد اس علاقے میں ہجرت کر کے آئی تھی۔ میں منگنی کے بعد زیادہ خوش رہتا ہوں اس لیے اب تمہارا سنجیدہ دوست ایک خوش مزاج دوست بن گیا ہے۔ میری منگیتر تمہیں اپنی نیک خواہشات بھیج رہی ہے۔ تم اس سے مل کر بہت خوش ہوگے اور وہ تمہاری بھی دوست بن جائے گی۔ ہم دونوں کی خواہش ہے کہ تم ہماری شادی کی تقریب میں شامل ہو لیکن اگر کسی مجبوری کی وجہ سے شامل نہ ہو پاؤ تو ہم تمہارے فیصلے کا احترام کریں گے۔“
جورج اس خط کو اپنے ہاتھوں میں لیے اپنے کمرے میں کافی دیر تک بیٹھا رہا اور کھڑکی سے دریا کا منظر دیکھتا رہا۔ وہ اس منظر میں اتنا مگن تھا کہ اس نے دیکھا ہی نہیں کہ اس کے ایک واقف کار نے ہاتھ ہلا کر اسے آداب کہا تھا۔
بالآخر جورج نے خط اپنی جیب میں ڈالا اور سیڑھیاں چڑھ کر اپنے والد کے کمرے میں چلا گیا، جہاں وہ مہینوں سے نہ گیا تھا۔ اپنے والد کے کمرے میں جانے کی ضرورت اسے اس لیے پیش نہ آئی تھی کیونکہ وہ اپنے والد سے ہر روز دفتر میں ملتا بھی تھا اور ان کے ساتھ لنچ بھی کرتا تھا، سوائے ان دنوں کے جب وہ کبھی اپنے دوستوں سے اور کبھی اپنی منگیتر سے لنچ کرنے چلا جاتا تھا۔
جورج جب اپنے والد کے کمرے میں داخل ہوا تو اسے احساس ہوا کہ باہر سورج کی روشنی ہونے کے باوجود کمرہ تاریک تھا۔ جورج کے والد کھڑکی کے پاس بیٹھے تھے جہاں جورج کی مرحوم والدہ کی تصویریں تھیں۔ جورج کے والد صبح کا اخبار پڑھ رہے تھے۔ ان کے سامنے میز پر ناشتے کا ٹرے رکھا تھا لیکن انہوں نے بہت کم ناشتہ کھایا تھا اور باقی چھوڑ دیا تھا۔
”صبح بخیر جورج“ اس کے والد نے اٹھ کر جورج کا استقبال کیا۔
’میرے والد ایک دراز قد انسان ہیں‘ جورج نے سوچا۔۔ ”آپ کے کمرے میں تاریکی ہے اور آپ نے کھڑکی بھی بند کر رکھی ہے۔“
”مجھے ایسا ہی اچھا لگتا ہے۔“ والد نے جواب دیا۔
”باہر موسم خوشگوار ہے۔“ یہ کہہ کر جورج کرسی پر بیٹھ گیا۔
جورج کے والد نے اپنے ناشتے کا ٹرے دور ہٹایا اور جورج کے پاس ایک صوفے پر بیٹھ گئے۔
جورج نے کہا، ”میں آپ کو یہ بتانے آیا ہوں کہ میں اپنے دوست کو جو سینٹ پیٹرزبرگ میں رہتا ہے، اپنی منگنی کی خبر بھیج رہا ہوں۔“
جورج نے جیب سے خط نکالا اور پھر اسے واپس جیب میں رکھ دیا۔
”سینٹ پیٹرزبرگ۔۔۔“ جورج کے والد نے حیرت سے کہا۔
”ہاں یہ خط اپنے دوست کو بھیج رہا ہوں جو پیٹرزبرگ میں رہتا ہے۔۔ پہلے میں نے سوچا اسے نہ بتاؤں کیونکہ وہ ایک عجیب و غریب انسان ہے، پھر سوچا میں خود ہی اسے یہ خبر دے دوں، اس سے پہلے کہ وہ یہ خبر اوروں سے سنے۔“
”تو تم نے اپنی رائے بدل لی ہے۔“ جورج کے والد نے کہا
”جی ہاں رائے بدل لی ہے۔۔ وہ میرا اچھا دوست ہے۔ خبر سن کر خوش ہوگا، لیکن دوست کو بتانے سے پہلے میں آپ کو بتانا چاہتا تھا۔“
”جورج اچھا کیا تم نے مجھے یہ خبر سنائی لیکن تم جانتے ہے کہ ہمیں چند ایسے موضوعات پر تبادلہ خیال کرنا چاہیے، جو اس سے زیادہ اہم ہیں۔جب سے تمہاری والدہ کا انتقال ہوا ہے، کچھ ایسی باتیں ہوئی ہیں جو درست نہیں ہیں۔۔ تم یہ بھی جانتے ہو کہ تمہاری والدہ کی وفات نے مجھے تم سے کہیں زیادہ افسردہ اور دکھی کیا ہے۔ اب تم مجھے سچ سچ بتاؤ کہ کیا واقعی سینٹ پیٹرزبرگ میں تمہارا کوئی دوست ہے؟“
جورج پریشان ہو کر اٹھا اور کہنے لگا، ”آپ میرے دوستوں کو چھوڑیں۔۔ آپ مجھے دوستوں سے ہزار گنا زیادہ عزیز ہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ اپنا خیال نہیں رکھتے۔ شاید یہ بڑھاپے کا اثر ہے۔ اگر کاروبار آپ کی صحت کو منفی انداز سے متاثر کر رہا ہے تو ہم اسے کسی بھی وقت بند کر سکتے ہیں۔۔ مسئلہ آپ کے طرز حیات کا بھی ہے۔ آپ اپنے کمرے میں اندھیرے میں بیٹھے رہتے ہیں، کھڑکی بھی نہیں کھولتے اور ناشتہ بھی صحیح طریقے سے نہیں کرتے۔
ہم آپ کو دوسرے کمرے میں منتقل کر سکتے ہیں، جہاں سورج کی روشنی زیادہ ہوگی۔“
”جورج میرا نہیں خیال تمہارا کوئی سینٹ پیٹرزبرگ میں دوست ہے۔۔ کیا تم میرے ساتھ کوئی مذاق کر رہے ہو؟“
جورج نے کہا، ”اس دوست کو یہاں سے گئے تین سال ہو گئے ہیں، آپ شاید اسے بھول رہے ہیں۔ آپ اس دوست سے مل بھی چکے ہیں۔۔ آپ شروع میں اسے پسند نہیں کرتے تھے لیکن بعد میں ایک دفعہ آپ کا اس سے مکالمہ بھی ہوا تھا۔ آپ نے اس سے سوال بھی پوچھے تھے اور اس نے روس کے بارے میں آپ کو عجیب و غریب واقعات بھی سنائے تھے۔“
پھر جورج نے اپنے والد کو گود میں اٹھایا اور بستر پر جا کر لٹایا اور ان پر چادر بھی ڈال دی۔
پھر جورج کے والد کو اس کا دوست یاد آیا اور انہوں نے جورج سے پوچھا، ”کیا تمہارے دوست کا اتنی دور جا کر بسنا ضروری تھا؟“
پھر جورج کے والد بڑبڑانے لگے جیسے ان پر ایک ہذیانی کیفیت طاری ہو گئی ہو، کہنے لگے، ”اس نے اپنی سکرٹ اٹھا دی تھی، ایسا کرنے سے اس نے تمہاری مرحوم ماں کی یاد کی بھی اور تمہاری بھی توہین کی تھی۔“
جورج کے والد بے تکا بولتے چلے گئے، آخر میں کہنے لگے، ”جورج کیا تم ایک مسخرے ہو؟ تم اپنے آپ کو طاقتور سمجھتے ہو۔۔ لیکن تم یہ نہیں جانتے کہ میں اس عمر میں بھی تم سے زیادہ مضبوط ہوں۔۔ تم یہ بھی نہیں جانتے کہ تمہارا دوست سب کچھ جانتا ہے۔۔ تم کسی شیطان سے کم نہیں، تمہیں تو کہیں ڈوب مرنا چاہیے!“
جورج یہ سن کر اپنے والد کے کمرے سے نکلا اور تیزی سے سیڑھیاں اترتا نیچے چلا گیا اور دریا کی طرف قدم بڑھانے لگا۔
وہ جلد ہی دریا کے پل پر پہنچ گیا۔ اس نے کچھ دیر انتظار کیا اور جب اس کے قریب سے ایک بس گزر رہی تھی، اس نے پانی میں چھلانگ لگا دی۔
جب وہ پانی میں ڈوب رہا تھا اس وقت پل کے اوپر سے بھاری ٹریفک گزر رہی تھی
بھاری ٹریفک کے شور میں اس کے ڈوبنے کی آواز ڈوب گئی۔