کپڑے بدلتے ہوئے راجن نے ریتا سے کہا، جو کچن میں رات کے کھانے کی تیاری کر رہی تھی، ”لفٹ میں آتے سمے میں نے ڈاکٹر پامانی کو لفٹ سے باہر نکلتے دیکھا ہے۔ بلڈنگ میں شاید کوئی بیمار ہے۔“
ریتا نے ہاتھ میں پکڑی پلیٹیں رومال سے پونچھتے ہوئے کہا، ”رتی بیمار ہے، آج آفس بھی نہیں گئی۔“
کھانے کا پہلا لقمہ منہ میں ڈالتے ہوئے راجن نے کہا، ”آج آفس میں مجھ سے کام بھی نہیں ہو پا رہا تھا، ایسے لگ رہا تھا جیسے طبعیت ٹھیک نہیں ہے۔“
ریتا نے راجن کی طرف جانچتی نظروں سے دیکھا اور پھر کھانا کھاتی ہوئی کہنے لگی، ”بدھ کو چھٹی ہے، آپ ڈاکٹر سے چک اپ کروانا۔“
”بچے کیا کر رہے ہیں؟“
”پڑھ رہے ہیں، ٹرمینل ٹیسٹ ہونے والے ہیں۔“
پھر دونوں چپ چاپ کھانا کھانے لگے۔ مہانگر کا شور آہستہ آہستہ کم ہو رہا تھا۔
ریتا نے کہا، ”بھگوان کے پاس انصاف نہیں ہے۔“
راجن اندر ہی اندر سے جیسے چونک گیا۔ وہ سوالیہ نظروں سے بیوی کو دیکھنے لگا۔
ریتا نے کہا، ”رتی اتنی اچھی عورت ہے، لیکن اس کی قسمت میں کیسا شوہر تھا۔۔ اچھے گھر کی کھاتی پیتی لڑکی کہاں پھنس گئی۔ کہتے ہیں کہ اس کا پتی روز شراب پی کر آتا ہے۔ پتہ ہے ترقی کرنے کے بعد رتی کی تنخواہ اور بڑھ گئی ہے؟“
راجن کوئی بھی جواب نہیں دے سکا۔ وہ چپ چاپ کھانا کھاتا رہا۔ دوسرے کمرے سے بیٹی کی کتاب پڑھنے کی آواز آ رہی تھی۔
بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ریتا نے کہا، ”رتی اب افسر بن گئی ہے۔ اس کی تنخواہ ایک ہزار اور بڑھ گئی ہے۔“
راجن کے چہرے پر کچھ سنجیدگی تھی، جیسے کوئی خاص خبر سنی ہو۔
”بیچاری رتی،صبح کو جلدی اٹھ کر گھر کا کام کاج کر کے بچوں کو اسکول کے لئے تیار کرتی ہے، سب کو ناشتہ دے کر دوپہر کا کھانا بنا کر شوہر کو دیتی ہے اور خود کھانا لے کر دفتر جاتی ہے۔ سارا دن دوپہر میں کام کرنے کے بعد گھر لوٹتے ہی پھر کام۔۔“ ریتا کی آواز میں عورت کا درد چھپا تھا۔
راجن نے کوئی جواب نہیں دیا۔
راجن کا من کچھ دیر تک اپنے اندر کچھ تلاش کرتا رہا۔ پھر اچانک اسے ایک جھٹکا لگا۔ کئی مناظر اس کی آنکھوں کے سامنے فلم کی طرح گھومنے لگے۔
روز صبح اٹھنے میں دیر ہو جانے سے بچنے کے لئے جو پہلا خیال راجن کے ذہن میں آتا، وہ یہ کہ اس کی کہیں بس نہ چھوٹ جائے۔ وہ اپنا کام جلدی جلدی میں کرتا اور بار بار گھڑی دیکھتا۔ جلد بازی میں ناشتہ بھی پورا نہیں کرتا۔
کبھی کبھی پینٹ کی زپ بند کرنا بھی بھول جاتا۔ کئی بار پین بھی میز پر رہ جاتا۔ پینٹ کا بیلٹ بھی لفٹ میں اترتے اترتے باندھتا۔ راستے میں اس کہ پاؤں چلتے نہیں ڈورتے ہیں۔ کبھی کبھی اسے اپنی ہی تیز رفتاری پر حیرانی ہوتی۔ اسٹاپ پر پہنچ کر رتی کو وہاں قطار میں کھڑا دیکھ کر سکون محسوس کرتا۔ اس کا قطار میں کھڑا ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کی بس ابھی نہیں آئی۔ وہ کچھ آہستہ چلنے لگتا ہے۔ سوچتا ہے کہ پریشان رہنا اور اپنے آپ کو تیز رکھنا اس کی عادت بن گئی ہے۔ فضول باتیں اور وہم کی پرورش اس کی فطرت کا حصہ بن چکی ہے۔ وہ بس کے بارے میں ایسے سوچتا ہے، جیسے وہ بس اسٹینڈ اس کی زندگی کی دوڑ کی منزل ہے۔
ریتا نے کہا، ”راجن بھگوان نے عورتوں کی زندگی کو اتنے دکھوں میں کیوں رکھا ہے؟بدلتے ہوئے اس زمانے میں کہا جاتا ہے کہ سب کچھ بدلا ہے، پر عورتوں کی تقدیر کہاں بدلی ہے؟“
راجن منہ دھو کر واپس آیا تو تولیے سے ہاتھ پونچھتے ہوئے اس نے پوچھا، ”کیا مسٹر سجنانی صاحب بہت زیادہ پینے لگے ہیں؟“
ریتا نے کہا، ”سنا ہے کہ اب تو کاروبار کی طرف بھی دھیان نہیں دے رہے۔ سارا کاروبار ہی ٹھپ ہو گیا ہے۔ اب تو بیوی کی ہی تنخواہ پر گھر چل رہا ہے۔“
راجن نے خشک آواز میں کہا، ”یہ کاروبار بھی تو رتی کے والد نے شروع کروا کر دیا تھا۔“
ریتا نے آہ بھرتے ہوئے کہا، ”ماں باپ بیٹی کے لئے سو امیدیں رکھیں، ہزار کوششیں کریں، پر قسمت بھی ساتھ دے، تب نا۔۔۔“
راجن کو دفتر میں گزرا دن یاد آ گیا۔ ریتا سے بولا، ”میں آج صبح کا تھکا تھکا محسوس کر رہا ہوں۔ آفس میں بھی کام کرنے میں دل نہیں لگ رہا تھا۔“
”صوفے پر آرام سے بیٹھ کر ٹی وی دیکھیں، پر آواز کم ہی رکھئے گا، بچوں کے پڑھنے میں ڈسٹربنس نہ ہو۔ میں ذرا رتی کو دیکھ آؤں۔“
راجن صوفے پر بیٹھ کرٹی وی دیکھنے لگا۔ چترہار میوزیکل پروگرام چل رہا تھا۔ فلمی گانوں پر ہیرو اور ہیروئن ناچ رہے تھے۔ پیچھے کے مناظر بار بار بدل رہے تھے۔ہیروئن کبھی ساڑھی میں، کبھی شلوار قمیض میں، اور کبھی جینز اور ٹی شرٹ میں ناچ رہی تھی۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی یہ پروگرام راجن کو خوش نہیں کر سکا۔ اسے لگا کہ اس کا دماغ جیسے کئی حصوں میں بٹ گیا ہے۔ ٹی وی پر ناچنے والے لوگ اسے انسانوں کی بجائے بیٹری سے چلنے والے پلاسٹک کے کھلونے لگے۔اس نے اٹھ کر ٹی وی بند کر دیا۔
وہ سوچنے لگا، ’انسان کی زندگی کتنی مضحکہ خیز اور تھکا دینے والی ہے۔ ہر روز ایک ہی کام کرنا ہے، بغیر کسی مقصد کے۔۔ زندگی کا جیسے کوئی مقصد ہی نہیں رہا۔۔ جینا جیسا ایک عادت بن گئی ہے۔“
آج آفس میں کام کرتے سمے، اس کا جسم اور روح دونوں تھکے ہوئے تھے۔
اسی سمے ریتا پاس والے گھر سے واپس آ گئی، اور بولی، ”ٹی وی کیوں بند کر دیا؟“
راجن بولا: ”دیکھنے میں مزہ نہیں آ رہا تھا۔“
”آپ آج کچھ تھکے تھکے سے لگ رہے ہیں۔ میں بچوں کو سُلا کر اپنا بستر ٹھیک کر کہ آتی ہوں۔ ڈسپرین کی گولی کھا کر سو جانا، نیند آ جائے گی۔“ دروازے کے پاس پہنچ کر ریتا نے اپنے شوہر کو دیکھا اور پھر بولی، ”رتی کو ایک سو دو بخار تھا، لیکن وہ بخار میں بھی مسکرا رہی تھی۔“
ریتا سے رتی کی مسکراہٹ کی بات سنتے ہی راجن کے چہرے پر ایک چھوٹی سی مگر پیار بھری، کچھ دکھ بھری، کچھ سکھ بھری اور کچھ دوج کے باریک چاند کی طرح باریک مسکراہٹ نظر آنے لگی۔ راجن جانتا تھا کہ یہ ننھی سی مسکراہٹ طرف اس کے لئے ہے، اور کسی کے لئے نہیں۔
وہ جب صبح صبح بس میں سوار ہوتا تو ساری تکلیفیں اور پرشانیاں بھول جاتا ہے۔ بس جنگی گھوڑے کی طرح راستہ بناتی اور ڈھکی آنکھوں والے گھوڑے کی طرح ڈورتی ہے۔ تب وہ ننھی سی مسکراہٹ غبارے کی طرح پھول جاتی ہے اور اس کے دل کو انجانی خوشی سے بھر دیتی ہے۔ اس کے دل سے بہنے والا خون اس کی مسکراہٹ کو پورے جسم میں پھیلا دیتا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے کہ رتی بھی اسی بس میں کہیں بیٹھی ہے۔ دونوں طرف وہی مسکراہٹ اس کے ساتھ ہوتی ہے اور اس کے جسم میں لوہے میں دھنسے کیل کی طرح طاقت بھرتی رہتی ہے۔
اس نے اور رتی نے کبھی آپس میں بات نہیں کی۔ وہ صرف اتنا جانتا ہے کہ وہ بس پڑوسی ہیں اور ایک دوسرے کے قریب رہتے ہیں۔ ان کی روحیں ایک دوسرے کے گرد پھڑپھڑاتی رہتی ہیں۔ راجن کو لگتا ہے کہ وہ مرا نہیں ہے۔ بس میں بیٹھا کوئی بھی انسان مرا نہیں ہے۔ دونوں طرف بنی عمارتیں محض دیواریں نہیں ہیں، ان کے اندر بھی دھڑکتے دل ہیں۔ شاید رتی کی یہ ننھی سی مسکراہٹ اس کی بے معنی زندگی کو کچھ دیر کے لیے معنی خیز بنا دیتی ہے۔
بڑے شہروں میں بسوں کا سفر اکثر طویل ہوتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ یہ سفر مکمل نہیں ہوگا لیکن ہر بس کسی نہ کسی مقام پر آ کر رک جاتی ہے۔ تمام مسافر وہاں اتر جاتے ہیں۔ بس ایک خالی کھوکھا بن جاتی ہے۔ راجن کا دفتر آخری اسٹاپ کے قریب ہے اور رتی کا دفتر تھوڑا دور ہے۔ دونوں بس کے آخری اسٹاپ پر اترتے ہیں اور لوگوں کے ہجوم میں گم ہو جاتے ہیں۔ گم ہو جانے سے پہلے راجن کی آنکھیں رتی کو ڈھونڈ لیتی ہیں۔ انجانے میں اس کے چہرے پر مسکراہٹ اتر آتی ہے۔ جواب میں رتی کے چہرے پر بھی مسکراہٹ نمودار ہوجاتی ہے۔ یہ سب راجن کی عادت بن گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ جب اس کی آنکھیں رتی کی آنکھوں کو ڈھونڈتی ہیں تو شاید رتی بھی اس کی نظروں کا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔ شاید وہ بھی اس کی مسکراہٹ نہ پا کر خود کو کچھ کھوئی ہوئی محسوس کرتی ہے۔
ریتا دوسرے کمرے میں بچوں کو سُلانے کی تیاری کر رہی ہے اور بچے کسی بات پر آپس میں بحث کر رہےتھے۔ اچانک راجن کو خیال آیا کہ آج اسے رتی کی مسکراہٹ نظر نہیں آئی۔ کیا اسی وجہ سے وہ پریشان تھا؟ آج آفس میں کام کرنے میں بھی من نہیں لگ رہا تھا۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ رتی کا میرے ساتھ کوئی رشتہ نہیں۔ آپس میں ایک دوسرے سے بات کرنے یا پاس آنے کی بھی کوشش نہیں کی۔ موقع ملنے پر بھی ہم دونوں بس میں کبھی پاس نہیں بیٹھے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے اتنے پاس یا دور ہیں، جتنے دو ستارے۔
راجن نے خود سے پوچھا، ’کیا ایسے ہو سکتا ہے کہ وہ مسکراہٹ مجھے سارا دن تازگی دیتی ہے؟ سارا دن میرے چاروں طرف اس کا اثر بنا رہتا ہے؟‘
اُسی سمے ریتا کمرے میں آئی اور بولی، ”میں نے بستر بچھا دیا ہے۔“
دونوں سونے والے کمرے میں چلے آئے۔ راجن نے روز کی طرح پلنگ پر بیٹھتے ہی ٹیبل لیمپ نہیں جلایا۔
ریتا نے حیرت سے پوچھا، ”کیا آج آپ کتاب نہیں پڑھیں گے؟“
راجن کی عادت تھی کہ سونے سے پہلے وہ کچھ دیر تک کوئی کتاب پڑھتا تھا۔
”نہیں“ اس نے کہا اور تکیے پر سر رکھ کر لیٹ گیا۔
بتی بند کر کے ریتا راجن کہ پاس لیٹ گئی اور بولی، ”رتی کو ڈاکٹر نے کہا ہے کہ اسے ایک ہفتے تک آفس نہیں جانا چاہیے۔“
راجن اندھیرے میں چھت کی طرف دیکھنے لگا اور سوچنے لگا، ”کہ اس ہفتے رتی کی ننھی سی مسکراہٹ دیکھے بغیر وہ دفتر میں کیسے کام کر پائے گا؟“