چھوٹی اداکارہ بڑی کہانی (برطانوی ادب سے منتخب افسانہ)

ایچ ای بیٹس (ترجمہ: منور آکاش)

کلے پول میں پندرہ ہزار لوگ رہتے تھے لیکن ان میں صرف ایک اداکارہ تھی، جس کی زنانہ ٹوپیوں کی دکان تھی۔ میرا نام سپارک ہے، میری گھڑیوں اور جیولری کی دکان مِس پوریٹس کی دکان کے سامنے پندرہ سال سے ہے۔ اس تمام عرصے میں وہ مجھ سے کبھی نہیں بولی اور میرا نہیں خیال کہ وہ کبھی کسی سے بولی ہوگی۔ میں نے کبھی نہیں دیکھا۔

میں اور میری بیوی ایک مہذب، شائستہ اور جانثار جوڑا ہیں۔ ویرلینس بھی کبھی کسی سے زیادہ نہیں بولتی۔ میرا اپنا ایک مقامی کلب ہے جس میں گانا اور تقریر ہوتی ہے، لیکن ہمارے تعلقات مس پوریٹس سے کبھی اچھے نہیں ہو سکے۔ شاید یہ اس کے افئیرز کی وجہ سے تھا۔۔ اگر وہ اتنی غیر دوستانہ نہ ہوتی تو یقیناً آج زندہ ہوتی۔ ایسا ہی ہوا، وہ مرگئی۔ یہ خبر ہر کسی نے اخبار کے فرنٹ پیج پر پڑھی۔

کلے پول میں کوئی بھی مس پوریٹس کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا تھا۔ ہم جانتے ہیں وہ ایک اداکارہ تھی۔ کیا وہ اداکارہ تھی؟ کسی ڈرامے، کس تھیٹر میں، کب، کوئی نہیں جانتا تھا۔ وہ ایک اداکارہ کی طرح دکھتی تھی۔ وہ دراز قد اور مغرور لگتی تھی۔ صاف جلد اور سنہرے بال۔ اس کے بال ایسے تھے جیسے تمباکو کے بگڑے ہوئے رنگ کی مونچھیں، جنہیں تیز طرار بنانے کی کوشش کی گئی ہو، جیسے ڈائی کرنے میں غلطی کی گئی ہو۔ اس کے ہونٹ سرخ تھے۔ اپنے مغرور چہرے کی وجہ سے وہ کسی ڈرامے میں سرد طوفان کی طرح دکھتی ہوگی۔

اس کا لباس صرف دکھاوے کے لئے کلے پول میں ہر عورت سے مختلف ہوتا تھا۔ سردیوں میں وہ ریشمی ململ پہنے باہر نکلتی اور گرمیوں میں لومڑی کی کھال کے بنے ہوئے لمبے سے کوٹ میں، جس کا رنگ اس کے بالوں کے جیسا تھا۔ گالف کورس میں واک کرتی نظر آتی لیکن کسی سے بولتی ہوئی نہیں۔ اس کی دکان بھی ایسی ہی تھی۔ کلے پول میں زنانہ ٹوپیاں بیچنے والے اپنی دکانوں کو ٹوپیوں سے بھر لیتے اور ہر طرف ٹوپیاں ہی ٹوپیاں ہوتیں تو مس پوریٹس ایک ٹوپی کو ایسے اسٹائل سے متعارف کرواتیں جو ایک اسٹینڈ پر قیمتی پھول سے بھرے منقش مرتبان پر ویلوٹ سے بھی ہوتی لیکن وہ کبھی کبھار ہی کامیاب ہوتی۔ اکیلے ہیٹ بھی مس پوریٹس کی طرح تنہا، مغرور اور اپنے ماحول سے کٹے نظر آتے۔ اس کی دکان کا پچھلا راستہ اور ہمارا ایک ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ باغیچہ، بوڈرز اور جنگلے سے دو حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ لیکن ہم اپنے باتھ روم سے مس پوریٹس کے باتھ روم میں دیکھ سکتے ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہو بڑے شیشے کے نیچے فینسی کاسمیٹکس کی بوتلوں کی قطار۔ آپ مس پوریٹس کو بھی اس کے ٹوائلٹ میں دیکھ سکتے ہو لیکن آپ کسی اور کو کبھی نہیں دیکھ سکتے۔

پھر ایک دن ہم نے وہاں کسی اور کو دیکھا۔۔ ایک صبح بدھ کو میری بیوی جوتیاں چٹخاتی دکان میں داخل ہوئی۔ کاؤنٹر کے پیچھے آئی، جہاں میں دو پینیز کے ایک سکے کو موڑ رہا تھا جو میرے پاس ایک ماہ سے تھا۔ اس نے کہا کہ میں نے مس پورٹس کے عقبی صحن میں کسی آدمی کو دیکھا ہے۔

”اچھا! کس کو؟“ میں نے کہا۔

”مجھے پروا نہیں، چاہے وہاں پچاس لوگ بھی ہوں۔“

”شاید وہ ایسا ہی چاہتی تھی۔ ایک یا دو آدمی۔۔“ میں نے اسی کی طرح کہا

”میں مصروف تھی، میں نے اس کے بارے میں زیادہ نہیں سوچا“

جیسے ہی وہ سامنے مڑی میری بیوی نے اسے دیکھا۔ میری بیوی بہت متجسس تھی، جب وہ بیڈ روم کے پردے ٹھیک کر رہی تھی۔ اس نے آدمی کو واضح طور پر کئی بار دیکھا۔ وہ ایک درمیانی عمر کا آدمی تھا اور اس نے پیلے رنگ کی ٹائی لگائی ہوئی تھی۔

اس رات جب میں بستر پر گیا، مس پوریٹس کے باتھ روم میں لائٹ جل رہی تھی۔ لیکن میں مس پوریٹس کو نہ دیکھ سکا۔ پھر جب میں اگلی صبح ہاتھ روم گیا لائٹ اس وقت بھی جل رہی تھی، میں نے سوچا مس پوریٹس نے تمام رات بھی کھلی چھوڑ دی لیکن میں نے اس کے بارے میں زیادہ نہ سوچا۔ جب میں دو پہر کو گیا، لائٹ اس وقت بھی آن تھی۔ پھر شام کو بھی اور تمام رات بھی۔ میری بیوی نے انجانے سے خوف کا اظہار کیا لیکن میں نے کہا آج جمعرات ہے اور اس نے ایک دن کی چھٹی کی ہوگی اور لندن چلی گئی ہوگی۔ لیکن لائٹ اگلے تمام دن جلتی رہی اور رات گئے تک بھی۔۔

وقت گزرنے کے ساتھ میں بھی پریشان ہوا۔ میں مس پوریٹس کی دُکان پر گیا لیکن وہاں دروازے پر تالا لگا ہوا تھا۔ یہ کوئی عجیب بات نہ تھی، اس وقت رات کے گیارہ بجے ہوئے تھے اور تالا ہی لگا ہونا چاہیے تھا۔ ہم بستر پر لیٹ گئے لیکن میری بیوی نہ سو سکی۔ وہ کہتی رہی مجھے کچھ کرنا چاہیے۔

”میں کیا کر سکتا ہوں؟“ میں نے کہا۔

آخر کار وہ بستر سے اٹھ کھڑی ہوئی، ”تمہیں سیڑھی اٹھانی چاہیے اور اندر کودنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے۔۔ مس پوریٹس کے باتھ روم میں سب ٹھیک تو ہے ناں۔۔“ اس نے کہا۔

”ہاں! ٹھیک ہے۔“ ، میں نے کہا۔

میں نے سیڑھی اٹھائی، اسے بورڈ سے لگایا اور اوپر مس پوریٹس کے غسل خانے کی کھڑکی میں چلا گیا۔ یہاں ایسا منظر تھا، جس نے میرے ہوش اُڑا دیے۔ سیڑھیوں کے اوپر غسل خانے کی کھڑکی پر ایک کراس کا نشان تھا اور اس میں کاغذ بھرے ہوئے تھے۔ جو میں نے غسل خانے کی کھڑکی سے دیکھا بہت برا تھا۔ اس کے بعد میں نے پولیس اسٹیشن فون کیا۔ اندر داخل ہوتے ہی جو میں نے دیکھا، حقیقت میں کتنا کربناک تھا۔

مس پوریٹس غسل خانے کے فرش پر لیٹی ہوئی تھیں اور ان کے سینے پر گولی کے زخم کا نشان تھا۔ ہم نے دروازے کو اس کی مخالف سمت میں گھمایا اور اندر داخل ہو گئے ۔

وہ کچھ وقت پہلے ہی مرچکی تھی۔ میں اندازہ لگانے لگا کہ کتنا وقت پہلے۔۔ اس نے گلابی رنگ کا ٹائٹ گاؤن پہنا ہوا تھا اور لائٹ کی وجہ سے خون نے اس کے سینے کو اور بھی سرخ کر دیا تھا۔

”باغیچے کے گیٹ کی کنڈی لگا دو اور کسی سے کچھ مت کہنا۔“ سارجنٹ نے کہا۔

میں نے کچھ نہیں کہا۔

اگلی صبح تمام کلے پول جان چکا تھا کہ مِس پوریٹس قتل ہو چکی ہیں اور دوپہر تک تمام انگلینڈ جان چکا تھا۔ آرگس، ایک مقامی اخبار کا رپورٹر، بھاگتا ہوا سات بجے سے پہلے مجھ سے ملنے آیا۔

”مجھے بتاؤ،“ اس نے کہا، ”مجھے بتاؤ، اس سے پہلے کہ وہ یہاں آئیں، میں سب کچھ سچ چھاپوں گا۔ وہ حقائق بتاؤ جو تم نے دیکھے، میں لکھوں گا۔“

پھر میں نے ایک بیان دیا، ایک سیدھا سا بیان اور اس کا ہر لفظ درست تھا۔

ڈنر سے تھوڑا پہلے میں نے تین لوگوں کو کیمرے کے ساتھ گلی کے دوسری طرف دیکھا۔ انہوں نے مس پوریٹس کی دُکان کی تصویریں لیں اور پھر روڈ کراس کر کے میری دُکان پر آ گئے۔ وہ اصرار کر کے عقبی صحن آ گئے اور مس پوریٹس کے غسل خانے کی کھڑکی کی تصویریں لیں۔

ایک کیمرہ مین نے ایک پاؤنڈ کا نوٹ میرے ہاتھ میں تھمایا اور کہا، ”سیڑھیوں کے اوپر؟“

سیڑھی ابھی بھی وہیں تھی۔ میں اوپر چڑھ گیا اور کھڑکی کی طرف اشارہ کیا۔ انہوں نے میری تصویریں لیں۔

دوپہر کو گلی میں لوگوں کا کافی ہجوم تھا اور وہ میری کھڑکی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ میں نے شٹر اوپر کیا، جیسے انہیں ختم کر دوں گا۔ چار آدمی اوپر آئے اور بولے ہم اخبار سے آئے ہیں اور کیا میں انہیں مس پوریٹس کے بارے میں کچھ حقائق بتا سکتا ہوں۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا، وہ دُکان میں گھس آئے اور دروازہ بند کر دیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ چار نہیں بارہ تھے۔ میں کاؤنٹر سے پیچھے آ گیا، انہوں نے اپنی نوٹ بکس نکالیں اور میرے شیشے کے شوکیس پر رکھ کر جلدی جلدی لکھنا شروع کر دیا۔ میں نے انہیں وہی کچھ بتانے کی کوشش کی جو کچھ مقامی اخبار والے کو بتایا تھا۔ صرف سچ، نہ کچھ زیادہ نہ کچھ کم۔ لیکن وہ یہ نہیں سننا چاہتے تھے۔ انہوں نے مجھ پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔۔۔مِس پوریٹس کو کیا پسند تھا؟ کیا پوریٹس اس کا اصلی نام تھا؟ اس کے بالوں کا رنگ کیسا تھا؟ وہ یہاں کتنے عرصے سے تھیں؟ آپ کو یہ عجیب نہیں لگتا کہ ایک اداکارہ ٹوپیوں کی دُکان چلاتی تھیں؟ آپ نے اس کو آخری دفعہ کب دیکھا؟ غسل خانے کے متعلق، بالوں کے متعلق، میں نے بالوں کے متعلق کچھ کہا۔۔ اس پر کسی رپورٹر نے کوئی بات کہی اور وہ سب ہنسنے لگے، میں تمتما اٹھا۔ پھر ایک اور نے کہا۔ ہر کسی نے کہا کہ عورت اداکارہ تھی لیکن وہ اداکاری کہاں کرتی تھی؟ لندن؟ کس تھیڑ میں؟ کہاں؟

”میں نہیں جانتا“ میں نے کہا۔

”تم اتنے عرصے سے اس کے ہمسائے ہو اور نہیں جانتے؟ کیا تم نے کسی سے نہیں سنا کہ وہ کسی خاص ڈرامے میں تھی۔“

”نمبر ایک، وہ ایک طرح سے اجنبی تھیں۔۔۔۔“

”اجنبی!؟“ انہوں نے اس پر زور دیا۔ کیسے؟ کیا؟ حیران کن۔۔۔۔!“

”وہ ایک عورت کی شکل میں بڑے بھاری سے لومڑی کی کھال سے بنے ہوئے کوٹ میں باہر آتی ۔ وہ مختلف تھی۔۔“

”متجسس؟ او نہیں۔۔ بہت عجیب۔۔“

”نمبر ایک میں نے یہ نہیں کہا۔“

”اس کی اداکاری کے متعلق“ انہوں نے کہا، ”تم نے ضرور کچھ سنا ہوگا۔“

”نہیں۔“ میں نے کچھ یاد کیا ، کورل سوسائٹی کی ریہرسل میں ایک دفعہ اس کا نام آیا تھا۔ کسی نے کچھ کہا تھا۔ اوتھیلو میں اس کے ہونے کی وجہ سے۔ میں نے اسے یاد کیا۔ کچھ شواہد تھے کہ اوتھیلو ایک خاص سیاہ فام تھا یا ملا جلا ۔۔۔ اوتھیلو؟

اخبار والوں نے جلدی سے لکھا۔

”وہ کیا تھیں۔۔ ڈلیس ڈی مورنا؟“

”اچھا،“ میں نے کہا ”میرا خیال ہے تم اسے نہ لکھو۔ میں اچھی طرح نہیں جانتا کہ یہ سچ ہے یا نہیں۔ میرے پاس اس کی کوئی تصدیق نہیں ہے۔ میرا نہیں خیال۔۔۔“

”اور وہ آدمی جو دیکھا تھا،“ انہوں نے کہا، ”وہ کب آیا۔ تم نے اسے کب دیکھا ۔ وہ کیا چاہتا تھا؟“

میں نے کہا ”میں نہیں جانتا۔ میں نے اسے نہیں دیکھا بلکہ میری بیوی نے۔۔۔“

پھر انہوں نے میری بیوی کو اندر بلایا، اس سے انہوں نے سوالات کئے، وہ اس سے آرام سے پیش آئے پر میری طرح انہوں نے اسے بھی چڑا دیا۔ چیزیں جو اس نے دیکھیں۔ پیلی ٹائی۔۔

کالا؟ کتنا کالا۔۔۔ غیر ملکی؟ کیسا دکھتا تھا؟ کیا اداکار؟

انہوں نے ہم سے تمام دوپہر سوالات کئے۔ اگلی صبح کے اخبار کی سرخی تمام کلے پول میں پھیل گئی۔۔ چھوٹی اداکارہ ۔۔ بڑی کہانی۔۔۔ یہ میری کہانی تھی، تاہم جو کچھ اخبار میں تھا وہ سچ نہیں تھا۔ انہوں نے میری تصویر چھاپی اور مس پوریٹس کی دکان کی تصویر اور ناامیدی، تنہا سی مس پوریٹس کی تصویر ۱۹۷۰ء کی لگتی تھی۔ تمام اخبارات نے سیاہ حاشیوں میں بڑی بڑی خبریں چھاپیں۔ ’چھوٹی اداکارہ جسے دھوکے سے قتل کر دیا گیا‘ ۔ ’پولیس کو پیلی ٹائی والے اجنبی کی تلاش۔‘ ’ڈلیس ڈی مورنا کی اصل زندگی‘ ’ظالمانہ نفرت کا شکار تنہا اداکارہ غسل خانے میں مردہ پائی گئی۔‘ ۔۔۔ “گرم موسم میں بڑا کوٹ پہنے والی اداکارہ کی خفیہ زندگی۔‘ ’خوبصورت سرخ بالوں والی اداکارہ جو کسی سے نہیں بولتی تھی۔۔‘ ’کالے اجنبی کی روپوشی۔۔۔‘

یہ ہفتہ تھا اور کلے پول سینکڑوں لوگوں سے بھرا ہوا تھا، جو وہاں کے نہیں تھے۔ جو آنجہانی مس پوریٹس کی دکان کی طرف بڑھ رہے تھے اور میری جانب۔ ایک ندی کی طرح، پیدل، سائیکلوں اور کاروں پر، وہ مس پوریٹس کی کھڑکی کی طرف جانا چاہتے تھے۔ وہ میرے عقبی باغیچے کے جنگلے سے پھلانگتے، پھولوں اور کلیوں کو کچلتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ پولیس نے انہیں روکا۔ شام تک باہر اور سامنے ہجوم اتنا بڑھ چکا تھا کہ میں نے دکان چھ بجے ہی بند کر دی۔ پولیس ہجوم کو منتشر کر رہی تھی لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ یہ ہجوم بڑی گلی سے ہوتا ہوا ساتھ والی گلی میں پھیل گیا اور پھر بڑی گلی میں آ گیا۔ سینکڑوں لوگ جو مس پورٹس کی دکان کو روز دیکھتے تھے، اس کو گھورنے لگے، وہ اس کو گھورتے گئے یہاں تک کہ سورج کی روشنی مدھم ہو گئی۔ جیسے انہیں کوئی اور دکان نظر ہی نہ آتی تھی۔ ماہر جوہری کی طرح مِس پوریٹس کے غسل خانے کے شیشوں کو دیکھ رہے تھے۔

اس دن کلے پول کی تمام چائے کی دکانوں میں رش تھا۔ فوٹو گرافر، رپورٹر اور ڈیٹیکٹرز اس دن اور اگلا سارا دن گھر اور باغیچے میں ادھر ادھر پھرتے رہے۔ اتوار کی صبح میں قریبی چرچ نہ جا سکا، جہاں میں بلند آواز میں میں مذہبی گیت پڑھا کرتا تھا اور ایسا پچھلے دس سال میں پہلی بار ہوا تھا۔ میری بیوی سو نہیں پائی تھی اور وہ غصے سے چلانے لگی۔ اتوار کے اخبار بھی بے چاری پوریٹس کی تصویر، اس کی دکان کی تصویر، باتھ روم کی ونڈو کی تصویر، میری دکان کی تصویر اور ایسے ہی خبروں سے بھرے ہوئے تھے۔ دوپہر کو وہ ہجوم اور بھی زیادہ ہو گیا اور چائے کی وہ دکانیں جو اتوار کو بند ہوتی تھیں، کھلی ہوئی تھیں اور لوگوں سے بھری پڑی تھیں۔ ایک آدمی نے کلے پول کی مرکزی گلی کی تصویر، فی تصویر بیس پینیز میں بیچنا شروع کر دی، جیسے وہ پولینڈ کا نوٹ یا مس پوریٹس کے بالوں کی لٹ بیچ رہا ہو۔ مٹھائی کی دکانیں کھلی تھیں اور لوگ کلے پول کی مشہور میٹھی ٹافیاں خرید رہے تھے جو یہاں کی سوغات تھیں۔ دس بجے کے قریب پولیس نے اپنے آدمیوں کی تعداد بڑھادی تا کہ اجنبی لوگوں کی آمدورفت کو روکا جا سکے۔ خاندان بھر کے افراد اپنے بچوں سمیت اتوار کے لباس میں مس پوریٹس کی کھڑکی کے سامنے جمع تھے اور منہ کھولے تکے جا رہے تھے۔

اس دوپہر میں کچھ منٹ کے لئے تازہ ہوا میں چہل قدمی کے لئے باہر آ گیا۔ ہر آدمی مجھے روکنا چاہتا تھا اور بات کرنا چاہتا تھا۔ ایک آدمی نے مجھے ہلکے سے روکا اور بولا، ”وہ نائٹ گاؤن میں کیسی دکھتی تھی؟ تم نے کچھ دیکھا۔“

دوسرا بولا، ”آہ۔ تم نے مجھے یہ کیوں نہیں بتایا کہ وہ یہاں اکیلی رہتی تھی۔“

قتل کی تفتیش سوموار کو ہونا تھی۔ تین دن گزر گئے تھے، میں اور میری بیوی گواہ تھے۔ یہ سننے میں آیا کہ پوریٹس کا اصلی نام پوریٹس نہیں بلکہ ہیلین ولیم تھا اور پوریٹس اس کا اسٹیج کا نام تھا۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ میڈیکل رپورٹس کے بارے میں بھی مختلف آراء تھیں اور یہ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا تھا کہ مس پوریٹس کا قتل ہوا ہے کہ اس نے خودکشی کی ہے۔

یہ ایک حیران کن، غیر معمولی اور سنجیدہ کیس بن گیا تھا کیونکہ پیلی ٹائی والا آدمی ابھی تک نہیں ملا تھا۔ جیوری بیٹھی اور بربریت کا فیصلہ دیا۔ اس سب نے حالات کو اور پراسرار بنا دیا۔ مس پوریٹس کے رومانوں کی خبر نے فضا میں ایک اور تجسس بھر دیا اور اس کی موت کے بارے میں ابہام بڑھ گیا اور جلد ہی مس پوریٹس کے بارے میں ایک مختلف کہانی پھیل گئی۔

”کیا تم نے یہاں کسی کو دیکھا۔ یا اندر جاتے“

‘”نہیں۔“

”اور نہ ہی تم نے کسی اور کو۔۔ کیا وہاں سے تم نے کبھی ٹوپی خریدی؟“

”نہیں۔“

لیکن پچھلا دروازہ ہمیشہ سب کچھ الٹ کر دیتا ہے۔ اس افواہ سےلوگوں کو کہنے کا موقع مل گیا۔

”سپارک،“ لوگوں نے کہنا شروع کیا، ”اس نے مجھے خود بتایا ہے کہ وہ فرش پر ننگی لیٹی ہوئی تھی۔ بعد ازاں انہوں نے اس کا نائٹ گاؤن اتار دیا۔ اب وہ صرف ایک عورت نہیں تھی بلکہ یقیناً ننگی اور حاملہ بھی۔ اس وجہ سے لوگوں نے کہنا شروع کیا وہ چھوٹی تھی یا چھوٹی بنی ہوئی تھی۔ آپ اسے جس طرح چاہے سمجھیں مگر میں سپارک کا نام لوں گا۔“

جیسے ہی مس پوریٹس کی کہانی پھیلی، میرا حصہ بھی بڑھ گیا۔ میرے بارے میں باتیں بھی بڑھ گئیں۔ کاروبار کی حالت بری تھی۔ تین دنوں سے فیصلے کی وجہ سے میں دکان بند کرنا چاہتا تھا کہ اچانک لوگ اندر آنا شروع ہو گئے ۔ انہوں نے گھڑیوں اور وال کلاکس کی طرف دیکھنا شروع کر دیا، جن کی مرمت ابھی ہوئی تھی۔ ڈیزائن جو سالوں سے پڑے تھے اور پرانے ہو چکے تھے، انہوں نے خرید لئے۔ انہوں نے ایش ٹرے، گھڑیاں، ہلکے پھلکے زیورات، گلے کے ہار اور بہت کچھ خریدا۔ ایک آدمی نے کلے پول کے چرچ کی تصویر والی ایش ٹرے کے بارے میں پوچھا۔ لیکن میں ایک ہفتے میں ایسی تمام ایش ٹرے بیچ چکا تھا۔ میں ہاتھ اوپر نہیں اٹھا سکتا تھا۔ دوکان ابھی خالی نہیں ہوئی تھی مجھے اپنا کھانا کھڑے ہو کر کھانا پڑا اور دن کے اختتام تک میں اور میری بیوی کاروبار کا اتنا رش دیکھ کر حیران ہو گئے۔

تھکاوٹ کی وجہ سے اتوار کا تمام دن ہم نے بستر پر آرام کیا اور سوموار سے یہ سب پھر شروع ہو گیا۔ یہ اتنا برا بھی نہیں تھا۔ ہم جانتے تھے کہ لوگ چیزیں خریدنے کے بہانے اندر آتے تھے کہ وہ مس پوریٹس کی موت کے بارے میں کچھ سن سکیں۔ میرے لئے یہ ایک صدمہ تھا۔ میں دوکان بند کرنا چاہتا تھا اور اس سب کو ختم کرنا چاہتا تھا لیکن کسی حد تک یہ ممکن نہیں تھا۔ کاروبار کاروبار ہے اور موت موت ہے۔ آخر زندہ تو رہنا تھا اور میں نے دکان کھلی رکھی۔

پھر پولیس میرے پاس دوبارہ آئی۔ پیلی ٹائی والا آدمی ابھی تک نہیں ملا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ میں اور میری بیوی اسٹیشن جائیں اور جو بیان ہم نے دیا تھا، اس کی جانچ پرکھ کریں۔ ہم نےدوکان بند کی اور ایک ٹیکسی میں اسٹیشن گئے۔ ہم تین گھنٹے وہاں رہے۔ جب ہم واپس آئے تو دوکان کے گرد پچاس لوگوں کا ہجوم تھا۔ بڑبڑاتے ، ایک دوسرے کو دھکیلتے اور ایک دوسرے کو قائل کرتے۔ ہر طرف یہ افواہ پھیل گئی تھی کہ پولیس نے مجھے گرفتار کر لیا ہے۔ ایک دفعہ افواہ پھیل جائے پھر کچھ بھی ہو جائے، اس کے نتائج کو نہیں روکا جا سکتا۔ یہ افواہ میرے لئے الجھن بن گئی اوریہ دھوئیں کی طرح پھیلی۔ آپ اسے نہیں روک سکتے۔ حقیقت میں کسی نے کچھ کہا لیکن کلے پول میں یہ افواہ پھیل گئی کہ میں اس سے زیادہ جانتا ہوں، جو میں نے بتایا ہے۔ یہ افواہ پھیلی اور میں اور میری بیوی اس کا شکار ہو گئے ۔ کس لئے ہم مس پورٹس کے غسل خانے میں جھانک رہتے تھے۔۔ اور صحن میں پیلی ٹائی والے آدمی کو ہم نے کیسے دیکھا۔۔۔ ہم نظر باز تھے۔۔۔ یہ میں نے کسی سے نہیں سنا، لیکن ایسا ہی تھا۔ میں نے لوگوں کے چہرے پر دیکھا محسوس کیا۔ جیسے انسان موسم کے بدلنے پر پرانے زخم کو محسوس کرتا ہے۔ لیکن ایک چیز تھی، میں نے انہیں کہتے سنا میں بھی اس کلے پول سے تعلق رکھتا تھا اور یہاں ایک کلب تھا جہاں بلیئرڈز کی چار بڑی میزیں پڑی تھیں اور شام کو میں بلیئرڈز کھیلنے، تاش کھیلنے، سگریٹ پینے اور گپ شپ لگانے وہاں جاتا تھا۔ مرکزی کمرہ کے ساتھ ایک چھوٹا سا کپڑے رکھنے کا کمرہ تھا اور ایک شام جیسے ہی میں نے اپنا کوٹ ٹانگا کسی نے دور سے آواز دی، ”بوڑھا سپارک ایک یا دو چیزیں جانتا ہے۔ سوچو اگر میرے پاس بھی پیسے ہوتے تو میں بھی بوڑھے سپارک کی طرح سیڑھیوں پر کھڑا ہوتا ۔ اداکارہ، بڑی آنکھیں، تھوڑی سی اداکاری، کتنی دلچسپ بات ہے کہ بوڑھا سپارک نائٹ گاؤن کا رنگ بھی اچھی طرح جانتا ہے۔“

میں نے کوٹ دوبارہ پہنا اور کلب سے باہر آ گیا۔ میں کانپ رہا تھا اور خوف زدہ تھا۔ میں نے، جو سنا افواہوں کی بنیاد تھا، جو سارے کلے پول میں پھیلی ہوئی تھیں اور میرے خوف کی بنیاد بھی تھیں۔ میں نہیں جانتا تھا، میں صرف یہ جانتا تھا محسوس کرتا تھا کہ جو کچھ میں نے کہا اس میں کوئی شبہ نہیں۔ میں نے کہا کہ مس پوریٹس نہ صرف یہ کہ ایک بُری عورت تھیں بلکہ میرے ساتھ اس کے ناجائز تعلقات تھے اور نہ صرف وہ حاملہ تھیں بلکہ اس کے حمل میں میں نے کچھ خرابی پیدا کی ہے اور یہ کہ وہ قتل ہوچکی ہے اور میں اس کے قتل کے بارے میں کچھ زیادہ جانتا ہوں ۔ جو کچھ میں نے کہا ہے میں خوف سے گھبرایا ہوا تھا۔ بہت خوف سے سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیا کیا جائے۔

ہر وقت دوکان پر گاہک آتے رہتے، سارا دن لوگ وہ چیزیں خریدتے جن کی انہیں ضرورت بھی نہیں ہوتی تھی، صرف اس لئے کہ شاید انہیں مس پوریٹس کی موت کے بارے میں سننے کو کچھ مل سکے۔ یا میں ان کے کسی سوال کا جواب دے سکوں۔ یہ سب تھکا اور اکتا دینے والا تھا۔ میں اپنا بچاؤ نہیں کر سکتا تھا۔ میں نے ایک خیال سوچا کہ میں ہر کسی سے ایک ہی بات کہوں گا کہ میں کچھ نہیں جانتا۔ میں نے ہر کسی سے کہا۔ صرف یہ کہ میں کچھ نہیں جانتا۔ میں جانتا ہوں کہ میں نے یہ الفاظ ایک دن میں سینکڑوں بار کہے۔ میں جانتا ہوں کہ میں اکثر کہہ دیتا چاہے اس وقت ضروری ہوتا یا نہیں اور جب ایک آدمی ایک جملے کو دن میں سینکڑوں بار دہرائے اور ایسا دو تین ہفتوں سے ہو رہا ہو تو فطری بات ہے شاید لوگ اس کی ذہنی حالت کے بارے میں مشکوک ہو جاتے ہیں۔
یہ خبر سارے کلے پول میں پھیل گئی کہ میں تھوڑا سا سٹھیا گیا ہوں۔

ایک دن میں کاروبار کے سلسلے میں لندن جا رہا تھا کہ میرے کمپارٹمنٹ میں ایک آدمی میری طرف متوجہ ہو کر دوسرے آدمی سے بولا، ”جسے تم چاہو قتل کر دو ایسا ہمیشہ کوئی جنونی کرتا ہے۔ اس کلے پول کو قتل کر دو ۔ دل کی روشنی کی طرح صاف اور کسی کے لئے پھندہ تیار۔۔“

یہ سب بظاہر میری طرف نہیں کہا گیا لیکن اس نے میرے خوف کو دہشت اور خدشات کے پھندے میں بدل دیا ۔ میں سو نہ سکا اور پچھلی رات جب میں نے آئینہ دیکھا تو مجھے ایک نہ ختم ہونے والا غصے سے بھرا ہوا چہرہ نظر آیا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا میں گاہکوں کے رش، سوالات اور افواہوں سے ٹوٹ پھوٹ جاؤں گا اور میں ایک بچے کی طرح رو دیا۔

پھر ایک عجیب واقعہ ہوا اور اس نے مس پوریٹس کی موت کے بارے میں اخبار کے صفحہ اول کو بھر دیا۔

پولیس نے پیلی ٹائی والے آدمی کو دریافت کر لیا تھا۔ یہ ایک سنسنی خیز خبر تھی۔ وہ آدمی ایک تھیڑ کا پروڈیوسر تھا اور اس کا نام پرائی ڈکس تھا۔ پولیس نے اسے برگ ٹاؤن سے دریافت کیا تھا۔ در حقیقت وہ ایک فرانسیسی تھا اور برگ ٹاؤن میں نیا نیا آباد ہوا تھا۔ مس پوریٹس کے قتل کے بارے میں یہ عوام کی رائے تھی۔ لیکن اس کے بعد اس نے وضاحت کی لیکن وہ خود سامنے نہ آیا۔ اور فطرتاً یہ بات درست تھی کہ وہ خوف زدہ تھا۔

مس پوریٹس اس کی پرانی دوست تھیں اور اس کی موت نے اسے بری طرح متاثر کیا تھا۔ یہ درست ہے کہ وہ مس پوریٹس کی موت سے پہلے اس سے ملنے آیا تھا کیونکہ مس پوریٹس نے اسے مدعو کیا تھا۔ اسے رقم کی ضرورت تھی۔ ٹوپیوں کے کاروبار سے اسے کچھ رقم حاصل نہیں ہو رہی تھی اور وہ بنک کے قرضے سے خوفزدہ تھی۔ پرائی ڈکس کے بقول اس خدشے نے اس کی جان لے لی۔ پرائی ڈکس نے اسے رقم دینے کا وعدہ کر لیا تھا اور وہ شام جلدی لندن آگیا تھا۔ اس نے یہ ثابت کیا۔ اس کے ہوٹل میں ٹھہرنے کے ریکارڈ سے یہ ثابت ہو گیا اور یہ بھی ثابت ہو گیا کہ اس شام پانچ بجے کے قریب لوگوں نے مس پوریٹس کو گالف کورس میں واک کرتے دیکھا تھا۔ ہوٹل کے ریکارڈ سے یہ ثابت ہو گیا کہ پرائی ڈکس اس وقت لندن میں تھا۔

یہ اختتام تھا۔ اب اس میں کوئی شبہ نہیں تھا کہ مس پوریٹس نے اپنی جان خود لی تھی اور اچانک مس پوریٹس کی موت کے بارے میں تمام تجسس اور سنسنی ختم ہو گئی۔ اب اخبارات کو اس میں زیادہ دلچسپی نہ تھی اور اس کا نام اخبار میں دوبارہ کبھی نہیں آیا۔

میں زیادہ عرصہ کلے پول میں نہیں رہا۔ یہ تمام صورتحال ناقابلِ یقین افسوس کے ساتھ مجھے پاگل کرنے کے لئے کافی تھی۔ یہ میری بیوی کےلئے بھی کافی تھی، میری طرح وہ بھی نہیں سو سکتی تھی اور اس صدمے نے اس کی زندگی کو ایسے توڑ پھوڑ دیا، جیسے وہ کسی بھاری پتھر سے ٹکرا گئی ہو۔ افواہوں، صدموں، اور دھچکوں نے اسے میں پوریٹس کی موت کے حقائق کھلنے سے پہلے ہی مار دیا۔ ایک ماہ بعد میں نے کاروبار ترک کیا اور قصبہ چھوڑ دیا۔ اس کی موت سے ایک ہفتہ پہلے تین لوگ دکان میں آئے، انہیں کسی چیز میں دلچسپی نہ تھی اور اب لوگ مس پوریٹس کی کھڑکی کو نہیں گھورتے تھے۔

بے چاری مس پوریٹس نے اپنی زندگی ختم کرلی کیونکہ اس کی زندگی مشکل اور مایوس ہو گئی تھی اور اس کے علاوہ اس کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ لیکن کلے پول میں کسی نے یقین نہیں کیا۔ میرا خیال ہے کہ صرف چند لوگوں نے، وہ اب بھی یہی سوچتے تھے کہ مس پوریٹس کا قتل ہوا ہے۔ وہ جانتے تھے کیونکہ اخبار میں ایسا ہی لکھا ہوا تھا کہ وہ ایک عجیب اور سنکی قسم کی عورت تھی۔ وہ جانتے تھے کہ اس نے ایک ڈرامے میں کالے آدمی کے ساتھ اداکاری کی تھی، وہ جانتے تھے کہ ایسا حقیقت میں کسی نے نہیں کہا کہ وہ ایک بُری عورت تھی اور حاملہ تھی اور کسی نے اسے اسی وجہ سے قتل کر دیا۔ وہ جانتے تھے کہ وہ لوگوں کو پچھلی سیڑھیوں سے اوپر بلاتی تھی اور پیسے لیتی تھی اور میں بھی ان میں سے تھا۔ وہ جانتے تھے کہ میں نے اسے غسل خانے میں ننگی حالت میں دیکھا اور میں اس سے زیادہ جانتا ہوں، جو میں نے اب تک بتایا۔

وہ کم جانتے تھے، جو کچھ مس پوریٹس کے ساتھ ہوا، لیکن وہ کبھی نہیں جان سکتے تھے جو کچھ میرے ساتھ ہوا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close