ڈاکیے کا تھیلا (روسی ادب سے منتخب افسانہ)

کونسٹنٹین اوشینسکی (ترجمہ: جاوید بسام)

کولیا ایک خوش مزاج، مگر غائب دماغ لڑکا تھا۔ اس نے پیٹرزبرگ میں اپنی دادی کو ایک بہت اچھا خط لکھا، جس میں انہیں برائٹ ہالیڈے کی مبارکباد دی، اپنے گاؤں کی زندگی کے بارے میں بتایا، اور یہ کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے، وہ اپنا وقت کیسے گزارتا ہے، سب تفصیل سے بیان کیا۔ ایک جملے میں بس یہ کہا جا سکتا تھا کہ خط بہت اچھا لکھا گیا تھا، لیکن کولیا نے خط کے بجائے خالی کاغذ کی آدھی شیٹ لفافے میں ڈال دی اور خط اسی کتاب میں رہ گیا، جہاں اس نے رکھا تھا۔ اس نے لفافے پر ٹکٹ لگائے، صاف ستھری لکھائی میں پتہ لکھا اور ڈاک خانے کا رخ کیا، جہاں لفافے پر مہر لگائی گئی اور کاغذ کی ایک خالی آدھی شیٹ، کولیا کی دادی کو چھٹی کی مبارک باد دینے سینٹ پیٹرزبرگ روانہ ہو گئی۔

کولیا کے خط نے پانچ سو میل کا فاصلہ سرپٹ دوڑتے ہوئے طے کیا جیسے کسی اہم کام کے لیے جلدی میں ہو۔ ابھی وہ یہاں ہے، ابھی سینٹ پیٹرزبرگ میں اور کچھ دیر بعد ڈاکیے کے تھیلے میں، جو سڑکوں پر سائیکل دوڑاتا، داخلی راستوں پر گھنٹی بجاتا اور گھروں پر خط بانٹتا چلا جارہا تھا، لیکن کولیا کا لفافہ تھیلے میں خاموش نہیں تھا، وہ تمام خالی مخلوقات کی طرح بہت باتونی اور متجسس تھا۔

”آپ کہاں جا رہے ہیں؟ اور آپ میں کیا لکھا ہے؟“ کولیا کے خط نے اپنے پڑوسی سے پوچھا، جو ویلم پیپر (چمڑے کی جھلی) سے بنا ایک موٹا اور خوبصورت لفافہ تھا۔ وہ ایک سرکاری مونو گرام سے آراستہ تھا، جس پر ایک شاہی تاج اور نقرئی سجاوٹ تھی۔
خوش نما خط نے فوری طور پر جواب نہیں دیا۔ اس نے پہلے یہ جانچا کہ اس کا مخاطب کس حیثیت کا مالک ہے، اور یہ دیکھ کر کہ جس گستاخ نے اس کے ساتھ بات کرنے کی جسارت کی ہے، وہ ایک صاف اور خوبصورت لفافہ ہے۔ اس نے جواب دینے کا فیصلہ کیا۔
”میرے پیارے بچے! مجھ پر لکھے گئے پتے سے آپ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ میں ایک بہت ہی اہم شخص کے پاس جا رہا ہوں۔ ذرا تصور کریں کہ میرے لیے اس اندھیرے اور بدبودار تھیلے میں لیٹنا کتنا دشوار ہے، خاص طور پر اس طرح کے لفافوں کے ساتھ، جیسا میرا بایاں پڑوسی ہے۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ آپ اس خاکی اور گندے بدصورت لفافے کو نہیں دیکھ سکتے، جسے موم کے بجائے بریڈ کرمب جیسی کسی چیز سے بند کیا گیا ہے اور ڈاک ٹکٹ کے بجائے اس پر فوجی مہر ہے اور اِس پر پتہ کیا ہے۔۔۔۔؟ یہ کہاں جا رہا ہے؟ بڑی بدخط تحریر ہے۔۔۔ ہاں پیٹرزبرگ کی طرف، کچی گلی تک، اور یہاں تک کہ تہہ خانے تک، افف۔۔۔ کیسی بے بسی ہے۔ ایسے پڑوسی کے پاس خود کو گندا ہونے سے نہیں بچایا جا سکتا۔“

”یہ میری غلطی نہیں ہے کہ انہوں نے ہمیں ایک ساتھ رکھ دیا ہے۔“ سپاہی کے خط نے غصیلے لہجے میں جواب دیا، ”اور مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی آر نہیں کہ آپ جیسے شاندار، لیکن خالی اور احمق لفافے کا قرب میرے لیے بیزار کن ہے۔ آپ کا اوپری پیرہن اچھا ہے، لیکن اندر کیا ہے؟ تمام بناوٹی جملے جن میں ایک لفظ بھی سچائی نہیں ہے۔ جس نے آپ کو لکھا، وہ اس شخص کی دل سے عزت نہیں کرتا، جس کے لیے آپ کو لکھا گیا ہے، پھر بھی نیک تمنائیں، دلی مبارکباد اور آخر میں گہرا احترام اور عقیدت۔۔ حالاں کہ یہ سب بکواس اور جھل فریب ہے۔ یہاں نہ عزت ہے اور نہ عقیدت، اگر آپ اس عاجز بندے سے کوئی کام کہیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس فرض شناسی اور احترام کی خوشبو کیسی ہے۔“

”بدتمیز! جاہل! تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھ سے اس لہجے میں بات کرنے کی؟ میں حیران ہوں کہ ڈاکیا تم کو اتنا بے غیرت ہونے کی وجہ سے سڑک پر کیوں نہیں پھینک دیتا، ذرا میرے کوٹ آف آرمز کو دیکھو۔“

”کیا ہتھیاروں کا کوٹ؟“ سپاہی کے خط نے تمسخرانہ انداز میں کہا، ”آپ کا کوٹ اچھا ہے، لیکن ہتھیاروں کے کوٹ کے نیچے کیا ہے؟ بے روح اور بناوٹی جملے، سچ کا ایک قطرہ بھی نہیں، سب جھوٹ، نخوت اور تکبر ہے۔“

مُہر والا لفافہ غصے سے پھٹنے کے لیے تیار تھا اور شاید وہ پھٹ جاتا، اگر اسی لمحے ڈاکیہ اسے تھیلے سے نکال کر ایک عالیشان سنہرے دروازے پر کھڑے دربان کے حوالے نہ کر دیتا۔

”خدا کا شکر ہے کہ ایک بیوقوف کم ہوا۔“ سپاہی کے خط نے بات جاری رکھی، ”وہ گاؤدی اور مغرور اس بات پر ناراض ہو رہا ہے کہ وہ میرے ساتھ پڑا ہے۔۔۔ کاش اسے معلوم ہوتا کہ میرے اندر کیا لکھا ہے۔“

کولیا کے خط نے جب خود کو اس خاکی لفافے کے ساتھ پایا، جس پر فوجی مہر لگی تھی تو تجسس سے پوچھا، ”تم میں کیا لکھا ہے؟“

”میرے پیارے ملنسار دوست! میں بتاتا ہوں کہ مجھ میں کیا لکھا ہے۔ میں ایک غریب اور خستہ حال بوڑھی عورت کو یہ خبر پہنچانے جا رہا ہوں کہ اس کا بیٹا زندہ ہے۔ جب سے وہ فوج میں بھرتی ہوا ہے، اس نے اپنے بیٹے کے بارے میں کچھ نہیں سنا۔ دس سال ہو گئے ہیں۔ وہ زندہ ہے، خیریت سے ہے اور جلد ہی چھٹی پر گھر آئے گا۔ یہ سچ ہے کہ میں بری سگ ماہی موم سے بند ہوں، لیکن میں جانتا ہوں کہ اس مہر بند موم کو توڑتے ہوئے بوڑھی عورت کا ہاتھ کیسے کانپے گا۔ یہ سچ ہے کہ میں خراب لکھائی میں تحریر کیا گیا ہوں، لیکن اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں، مجھے ایک سپاہی نے لکھا ہے جس نے یہ فن خود ایک خراب قلم سے سیکھا اور سب سے گھٹیا خاکی کاغذ استعمال کیا، لیکن اگر آپ دیکھ سکتے کہ اس کی آنکھوں سے کیسے ایک گرم آنسو نکلا اور مجھ پر آ گرا۔ ایک شاندار آنسو، میں اسے احتیاط سے اس کی ماں کے پاس لے جا رہا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ ایک پرجوش استقبال میرا منتظر ہے۔ اس مغرور آدمی کی طرح نہیں جو خدا کا شکر ہے کہ چلا گیا ہے۔ وہ بمشکل اسے دیکھتے ہیں، پھر اسے پھاڑ کر پہلے میز کے نیچے اور پھر کچرے کے گڑھے میں پھینک دیتے ہیں۔ اس مکتوب نگار کی ماں میرے ہر ہر لفظ پر گرم آنسو بہائے گی۔ وہ مجھے ہزار بار پڑھے گی، ہزار بار پیار سے اپنے دل پر دبائے گی، پھر وہ مہربان ماں مجھے اپنے سینے میں چھپالے گی۔ اوہ یہ بے صبرا ڈاکیا۔۔۔ مجھے کتنی جلدی لے جا رہا ہے۔“

”تم کہاں جا رہے ہو اور تم میں کیا لکھا ہے؟“ متجسس کولیا کے خط نے اپنے نئے پڑوسی سیاہ مہر والے خط کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا۔

”میری مہر کے رنگ سے اندازہ کرو۔“ اس نے جواب دیا، ”تم دیکھ رہے ہو کہ میں ایک افسوسناک خبر لایا ہوں۔ غریب لڑکا جو ہسپتال میں ہے، مجھے پڑھ کر جانے گا کہ اس کا باپ مرگیا ہے۔ میں بھی آنسوؤں میں بھیگا ہوا ہوں، لیکن یہ خوشی کے آنسو نہیں ہیں۔ میں ایک عورت کے کانپتے ہاتھ سے لکھا گیا، جس نے اپنے پیارے شوہر کو کھو دیا ہے، ایک ماں کا ہاتھ جو اپنے بیمار بیٹے کو بتا رہا ہے کہ اس نے اپنے باپ کو کھو دیا ہے۔ بیچارہ وانیا! وہ اس جاں گسل خبر کو کیسے برداشت کر پائے گا؟ میں تصور کرتا ہوں کہ جب وہ میری منحوس مہر کو دیکھے گا تو کتنا خوفزدہ ہوگا، جب وہ مجھ میں لکھی خوفناک خبر پڑھے گا تو وہ کتنا کانپے گا، کیسے تکیے پر منہ کے بل گرے گا اور آنسو بہائے گا۔ آہ! اس طرح کی خبروں کے ہمراہ جانے سے بہتر ہے کہ میں زمین میں دفن ہو جاؤں۔“

کسی تعلیمی ادارے کے قریب رک کر ڈاکیے نے اپنے تھیلے میں ہاتھ ڈالا اور کالی مہر والا اداس خط نکال لیا۔ کولیا نے اپنے آپ کو ایک نئے پڑوسی کے ساتھ پایا جو بالکل مختلف نوعیت کا تھا۔

”ہاہاہا۔۔۔۔“ اس نے کولیا کے خط کا قہقہہ لگا کر جواب دیا، ”کاش تم کو معلوم ہوتا کہ مجھ میں کیا مزاحیہ باتیں لکھی گئی ہیں؟ میرا مکتوب نگار ایک خوش مزاج آدمی ہے۔ میں جانتا ہوں جو مجھے پڑھے گا، وہ ضرور ہنسے گا۔ اگرچہ مجھ میں تمام الم غلم باتیں لکھی ہوئی ہیں، لیکن وہ سب مضحکہ خیز ہیں۔“

دوسرے خطوط نے بھی ان کی گفتگو سن کر اس میں فرداً فرداً حصہ لیا۔ ہر کوئی اس بات کا اظہار کرنے کی جلدی میں تھا کہ وہ کیا خبر لے جا رہا ہے۔

’’میں ایک امیر سوداگر کے لیے خبر لا رہا ہوں کہ اس کا سامان گراں قدر نرخوں پر فروخت ہوا ہے۔“

”اور میں دوسرے کو بتا رہا ہوں کہ وہ دیوالیہ ہو گیا ہے۔“

”میں واسیا کو سرزنش کرنے جا رہا ہوں کہ اس نے اتنے عرصے سے اپنے والدین کو خط کیوں نہیں لکھا۔“

”مجھے ایک گاؤں کے چھوٹے پادری نے اکولینا ٹریفونونا کی طرف سے پیٹرزبرگ میں اس کے شوہر کے لیے لکھا ہے۔ میں اوپر سے نیچے تک پیار بھرے دل اور تیروں سے بھرا ہوں۔“

”اور میرا ہر لفظ جھوٹ ہے، واقعی اتنے بوجھ کے ساتھ جاتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے۔“

منی آرڈروں نے بھی اس گفتگو میں حصہ لیا۔ ”میں جسے ملوں گا، وہ خوش ہوگا۔“ ایک منی آرڈر نے کہا۔

”خوش ہونے کی کوئی بات نہیں۔“ دوسرے نے ٹوکا، ”آپ صرف دس روبل ہیں، جبکہ میں پانچ ہزار ہوں۔“

”لیکن جس کے پاس مجھے بھیجا جا رہا ہے، وہ نہیں جانتا کہ ہالیڈے پر افطار کیسے کرے گا۔ (اس کے لیے دس بھی بہت ہیں۔) جبکہ وہ تمہاری طرف توجہ بھی نہیں دیں گے۔“ پہلے نے جواب دیا۔

”ہاں، وہ کندہ ناتراش نوجوان، جس کے پاس مجھے بھیجا جا رہا ہے، دو تین دن میں تمام پیسے خرچ کر دے گا۔ وہ اس رقم کو ہوٹلوں اور پیسٹری کی دکانوں پر اڑا دے گا۔ گو کہ وہ نہیں جانتا کہ جس ماں نے انہیں بھیجا ہے، اس نے ان روبل اور ایک ایک کوپیک کو پس انداز کرنے کے لیے کتنی محنت اور مشقت برداشت کی ہے۔ یہاں تک کہ اپنی چھوٹی بیٹی کو ہالڈے گفٹ سے بھی محروم کر دیا ہے۔“

بہرکیف وہ سب خطوط اور منی آرڈر ڈاکیے کے تھیلے میں آپس میں باتیں کرتے رہے۔ اس دوران وہ سڑکوں پر سائیکل دوڑاتا رہا اور خوشی اور غم، ہنسی اور اداسی، محبت اور غصہ، دوستی اور نفرت، سچ اور جھوٹ، اہم اور احمقانہ خبریں، اور بے روح جملے گھر گھر پہنچاتا رہا۔

آخرکار کولیا کے خط کی باری بھی آ گئی۔ ڈاکیے نے چوکیدار کو، چوکیدار نے نوکرانی کو، نوکرانی نے بوڑھی دادی کو خط دیا، جو کھڑکی کے پاس بیٹھی تھیں اور آنکھوں پر موٹے شیشوں کی عینک لگائے جرابیں بُن رہی تھیں۔ دادی نے خط کھولا، ایک خالی شیٹ نمودار ہوئی، انہوں نے حیرت سے اسے دیکھا، ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ان کے ساتھ ایسا احمقانہ مذاق کس نے کیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close