پاگل کے ہاتھ میں چھری (افسانہ)

ڈاکٹر ابوبکر بلوچ

یہ عصر کا وقت تھا، گرمی کی شدت قدرے کم ہو گئی تھی۔ اکرم اور مشتاق پٹھان کے ہوٹل پر بیٹھے چائے پی رہے تھے۔

اچانک ایک شخص، خون آلود کپڑوں کے ساتھ ہوٹل کے اندر پناہ لینے کے لیے آیا، وہ بری طرح کانپ رہا تھا، اس کے جسم سے مسلسل خون بہہ رہا تھا۔۔ ہوٹل میں موجود لوگوں کے پوچھنے پر اس نے کانپتی ہوئی آواز میں بتایا کہ ”پیچھے گلی میں ایک پاگل ہاتھ میں چھری لیے لوگوں پر حملہ کر رہا ہے، بدقسمتی سے میں بھی اس کی زد میں آگیا ہوں۔۔“

اتنے میں وہ گر گیا اور کچھ لوگ اس کو رکشے میں بٹھاکر قریبی ہسپتال کی طرف لے گئے۔۔۔

اکرم اور مشتاق یہ ماجرا سن کر بہت پریشان ہو گئے اور دوسرے لوگوں کے ساتھ گلی کی طرف چل دیے۔

گلی میں بھگڈر مچی ہوئی تھی، بعض لوگ چھتوں پر کھڑے یہ ہیبت ناک منظر دیکھ رہے تھے۔

وہ پاگل ہاتھ میں چھری لیے لوگوں کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔۔۔ اس کی آنکھوں سے وحشت چھلک رہی تھی۔ وہ اب تک چھ افراد کو زخمی کر چکا تھا، جن میں سے ایک کی حالت بہت تشویشناک تھی۔۔۔۔۔

کسی کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ پاگل شخص کے قریب جا کر اس کو قابو کر لے۔۔۔۔

اتنے میں ایک باہمت اور تنومند شخص ہجوم کو چیرتے ہوئے برآمد ہوا اور بجلی کی سی تیزی کے ساتھ اس پاگل شخص پر پل پڑا اور اس کو گرا کر اس پر قابو پا لیا اور بڑی مہارت سے اس کے ہاتھ سے چھری چھین کر ہجوم میں کھڑے ایک شخص کے حوالے کردیا۔۔

اس کے بعد اس تنومند شخص نے پاگل کو ایک درخت کے ساتھ باندھ لیا۔لوگوں کا ایک جمِ غفیر شدید خوف کے عالم میں اپنی آنکھوں سے یہ سارا تماشا دیکھ رہا تھا، اتنے میں پولیس اور پاگل خانے کا کہنہ مشق عملہ پہنچ گیا اور اس پاگل کو گاڑی میں بٹھا کر ساتھ لے گئے۔۔۔

اس واقعے پر اکرم پر شدید خوف کی کیفیت طاری تھی، اس کی پیشانی سے پسینے چھوٹ رہے تھے۔۔۔

”چھری اور وہ بھی پاگل کے ہاتھ میں۔۔۔ یار یہ کس قدر خوفناک منظر تھا!“ اکرم نے لرزیدہ لہجے میں مشتاق سے کہا۔

”واقعی یار۔۔۔ یہ بہت ہی پرخطر صورتحال تھی۔۔۔ بھلا ہو اس باہمت اور بہادر آدمی کا، جس نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر اس پر قابو پانے میں کامیابی حاصل کی۔“ مشتاق نے اکرم کی تائید کرتے ہوئے کہا۔

”اگر وہ اس کو قابو نہ کرتا تو پتہ نہیں کتنے لوگ اس کے ہاتھوں جان گنوا بیٹھتے یا زخمی ہو جاتے۔“ اکرم نے تشکر آمیز لہجے میں کہا۔

اس کے بعد محفل میں خاموشی طاری ہو گئی۔ مشتاق کے چہرے پر گہرے تفکر کے آثار نمایاں تھے۔

اچانک خاموشی کو توڑتے ہوئے اکرم کی آواز گونجی، ”یہ تم اچانک پریشان کیوں ہوگئے؟ کیا سوچ رہے ہو؟“ اکرم نے مشتاق کے چہرے سے چھلکتے گہرے تفکر کو بھانپتے ہوئے پوچھا۔

”میں سوچ رہا ہوں کہ اس پاگل پر ہی کیا موقوف، ہمارے سماج میں اَسی فیصد سے زیادہ لوگ ہائپر ٹینشن، فرسٹریشن اور ڈپریشن جیسے نفسیاتی امراض میں مبتلا ہیں، جن کی اکثریت کو سرے سے اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ وہ حقیقت میں نفسیاتی امراض میں مبتلا ہیں۔۔“ مشتاق نے تفکر آمیز لہجے میں جواب دیا۔

”لوگ بیچارے کیا کریں۔۔ حالات و واقعات ہی ایسے ہیں؟“ اکرم نے لوگوں کے رویوں کو جسٹیفائے کرتے ہوئے کہا۔

”حالات و واقعات بلاشبہ حقیقت ہیں جن سے انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن ان حالات و واقعات کو ذہنی اور نفسیاتی طور پر کس طرح ہینڈل کیا جائے، یہ بات بڑی حد تک انسان کے اپنے سوچنے کے انداز پر منحصر ہے۔۔۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ سوچنے کے انداز کو بدلنے کے لیے معاشرے میں ’ایٹیچیوڈ‘ اور ’بی ائیویئر‘ مینجمنٹ کے سیشنز کا اہتمام ہو۔ اس کے لیے حکومتی اداروں اور سماجی تنظیموں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔“ مشتاق نے اپنے طور مرض کا علاج بتاتے ہوئے کہا۔

”تمہاری بات درست ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کے لیے سوشل میڈیا بھی مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔“ اکرم نے مشتاق کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے تجویز دی۔

”بلاشبہ اس دور میں سوشل میڈیا کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اس میں بڑی اچھی چیزیں بھی موجود ہیں، جن سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔۔۔ مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہائپر ٹینشن، فرسٹریشن اور ڈپریشن جیسے بڑھتے ہوئے نفسیاتی امراض کی ایک بڑی وجہ سوشل میڈیا اور اس کا غیر ذمہ دارانہ استعمال بھی ہے۔۔۔۔ تم ایسا سمجھو کہ تعلیم اور تربیت کے بغیر سوشل میڈیا۔۔۔۔۔ پاگل کے ہاتھ میں موجود چھری کی طرح ہے، جس کے ذریعے وہ لوگوں کے جذبات، احساسات غرض پورے سماج کو گھائل کرتا ہے، جس طرح آج گلی میں موجود پاگل شخص چھری کے ذریعے لوگوں کے جسموں کو گھائل کر رہا تھا۔۔۔ سچی بات یہ ہے کہ آج کا واقعہ سوشل میڈیا پر سرگرم، تعلیم و تربیت سے عاری ’پاگلوں‘ کی حرکتوں کا بعینہٖ عکس تھا۔۔“ مشتاق نے اطمینان سے جواب دیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close