
وہ چھبیس سال کا تھا۔ اچھے کالج سے پڑھ کر ایم اے کیا تھا اور اچھی نوکری کا حامل تھا۔ اس صبح اس کی کمپنی کے صدر نے اسے پہلی مرتبہ ایک کاروباری ڈنر پر جانے کے لیے نامزد کیا تھا مگر ذرا سی لاپرواہی سے اس نے اپنی شرٹ کے سامنے والے حصے پر جوس گرا لیا تھا۔ اب یہ کہنے کی ضرورت تو نہیں کہ اسے کتنی شرمندگی ہوئی۔
گھر پہنچنے پر اس نے مایوسی سے گہرا سانس لیا۔ جب وہ دروازے سے داخل ہو رہا تھا تو اس کی ماں نے ایک نظر میں اس کا اترا ہوا چہرہ دیکھ لیا اور اس سے اِدھر ادھر کی باتیں کرنا شروع ہو گئی۔ اس نے فوراً شرٹ اتار کر دھونے کے لیے ماں کے حوالے کر دی۔ اس کے باپ نے اسے ڈانٹا نہیں بلکہ اس کے ساتھ چھیڑ خانی شروع کر دی، ”اسے دھونے کی اتنی جلدی کیا ہے۔“ اس نے اپنا پڑھائی والا چشمہ لگاتے ہوئے دھبے کو قریب سے دیکھا، ”میں کہتا ہوں اسے کچھ دن ایسے ہی لٹکا رہنے دو، آخر یہ کھانے کا تمغہ ہے۔“
اسے سمجھ نہیں آئی کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ اس کی ماں نے غصے کی اداکاری کرتے ہوئے اس کے باپ کو بازو پر مکا مارا، ”کتنے سال ہو گئے۔۔ اور اب بھی تم وہ بات کر رہے ہو۔“
یہ ایک مہنگی شرٹ تھی جو اسے اس کی دوست نے دو دن قبل سال گرہ کے تحفے کے طور پر دی تھی، اس وجہ سے وہ زیادہ پریشان اور غصے میں تھا۔ وہ صوفے پر سر جھکا کر بیٹھ گیا اور اس کی ماں شرٹ دھونے چلی گئی۔ فی الحال وہ دوسری شرٹ پہننے کے موڈ میں نہیں تھا۔
”یہ میری غلطی ہے۔“ اس کے باپ نے کہا۔
اس نے سر اٹھا کر اپنے باپ کو دیکھا مگر اس کی بات کا مطلب نہیں سمجھ پایا۔ اس کے باپ نے وضاحت کی، ”تم مجھ پر گئے ہو، میں بہت تیزی میں کھاتا ہوں، میرا کھانے کا انداز کبھی مہذب نہیں رہا۔ تمہارے دادا اکثر مجھے اس کے بارے میں لیکچر دیتے رہتے تھے، مگر میں نے کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ تمہیں اس پر توجہ دینی چاہیے۔ دوسرے لوگ تمہارے بارے میں کیا سوچتے ہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اصل بات یہ ہے کہ کمپنی میں تمہارا کام کیسا ہے اور کیا تم ان کے لیے مفید ہو یا نہیں۔“ پھر اس نے پوچھا، ”تمہارے باس کا کیا ردِعمل تھا؟“
”ایسا لگا جیسے اس نے مجھے گھورا ہو۔۔“ اس نے کہا، ”مگر بعد میں اس نے مجھ پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ کھانے کے بعد اس نے میرا کندھا تھپتھپایا اور کہا کہ جلدی ساری کاغذی کارروائی کرلوں اور انگریزی نقول بھی تیار کرلوں، جتنا جلدی ممکن ہو سکے۔“
”اور مہمانوں کا رویہ کیسا تھا ؟“ اس کے باپ نے پوچھا۔
”انہوں نے لازمی طور پر دیکھا ہوگا“ اس نے کہا، ”مگر وہ ایسا ظاہر کرتے رہے، جیسے انہوں نے نہیں دیکھا۔“
اس کے باپ نے آہ بھری، ”یہ بھی مہذب ہونے کا تقاضا ہے۔“ اس نے کہا، ”میں نے ایک مرتبہ چیخوف کا ایک ناول پڑھا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس میں ایک حصے میں ایک کردار میز پر پڑی بوتل اتفاق سے گرا دیتا ہے اور اس سے میز کا کپڑا خراب ہو جاتا ہے۔ وہاں بیٹھے تمام لوگ تعلیم یافتہ تھے، اس لیے کوئی بھی اس کی طرف توجہ نہیں دیتا اور حسبِ معمول اپنی گفتگو جاری رکھتے ہیں۔“
ابھی وہ یہ بات کر رہے تھے کہ اس کی دوست کا فون آ گیا۔ ہفتے کا آخری دن تھا اور انہوں نے رات فلم دیکھنے کا پروگرام بنایا ہوا تھا۔ اس کی ماں بھی شرٹ دھو کر کمرے میں آ گئی تھی۔ وہ اس سے زیادہ پریشان تھی کیوں کہ اس کا خیال تھا کہ اگر اس نے اپنی سال گرہ پر وہ شرٹ نہیں پہنی ہوئی تو یہ غیر مہذب بات ہوگی۔ سچ بتانے پر شاید اس کی دوست برا مان جائے اور اگر اسے بتائے بغیر اس نے کوئی اور شرٹ پہن لی تو شاید وہ اس کا کچھ غلط مطلب نکال لے۔
اس کی دوست کا پھر فون آ گیا، اس نے اپنا ارادہ بدل لیا تھا کیوں کہ اس کے کسی دفتر کے ساتھی نے اسے بتایا تھا کہ فلم اتنی اچھی نہیں تھی کہ اسے سینما میں جا کر دیکھا جائے۔ اس نے فلم Black swan کی سی ڈی لے لی تھی، جس پر نتالی پورٹ مین کو اداکاری کا آسکر ایوارڈ ملا تھا۔ وہ یہاں آ رہی تھی تا کہ وہ دونوں اس کے کمپیوٹر پر یہ فلم دیکھ سکیں۔ وہ کہہ رہی تھی کہ فلم میں ’بیلے‘ رقص کے بہت مناظر ہیں، جنہیں دیکھ کر لطف آئے گا اور یہ بھی کہ فلم کے مکالمے سادہ انگریزی میں تھے اور اس سے ان کی انگریزی سننے کی صلاحیت بھی بہتر ہوگی۔
پچھلے چھ ماہ سے اس کی دوست کا اس کے گھر آنا اور اس کا اس کے گھر جانا معمول کی بات ہو چکا تھا اور ان دونوں کے گھر والے بھی اس بات سے کافی خوش تھے۔ علاوہ ازیں ان دونوں کے گھر بھی کافی کشادہ تھے۔ بچوں کے اپنے کمرے تھے اور وہ اتنے سمجھ دار ہو چکے تھے کہ ادھر اُدھر گند نہ پھیلاتے پھریں۔
اُس نے اپنی دوست کے آنے سے پہلے نہا کر کپڑے تبدیل کر لیے۔ جب وہ آئی تو اسے دیکھنے کے بعد اس نے پہلی بات یہی پوچھی ”جو شرٹ میں نے تمہیں دی تھی، وہ اتنی جلدی میلی کیسے ہو گئی؟“
اس کی ماں نے بات چھپانے کی کوشش کی، ”گرمی میں کچھ لوگوں کو پسینہ زیادہ آتا ہے، اس لیے یہ اتنی عجیب بات نہیں کہ ان کے کپڑے روز دھونے پڑیں۔“
دوسری طرف اس کا باپ ابھی تک مذاق اڑا رہا تھا، ”آج اسے کھانے کا تمغہ ملا ہے۔“
”وہ کون سا تمغہ؟“ اس کی دوست نے پوچھا، ”کیا ہوا؟“
اس کے پاس بتانے کے لیے الفاظ نہیں تھے، اس لیے اس کے باپ کو پورا واقعہ بتانا پڑا۔
اس کا باپ ’ثقافتی انقلاب‘ کے دنوں میں بننے والے برائے نام اسکولوں میں سے ایک کا تعلیم یافتہ تھا۔ (دراصل تب اسکول بند رہتے تھے) اس نے 1966 میں جونیئر ہائی اسکول پاس کیا تھا۔ تب اس کی عمر کے بچے دیہی علاقوں میں بھیجے جاتے تھے۔ اسے سرحدی علاقے میں ایک فوجی یونٹ میں بھیجا گیا۔
ان دنوں وہاں زندگی بہت مشکل ہوتی تھی۔ انہیں کھانے کے لیے تقویت بخش چیز چاول ہی ملتے تھے اور وہ بھی بہت مشکل سے۔۔ پکانے کا تیل اور صاف پانی ناقابلِ یقین حد تک کم یاب تھے۔ تمام لباس بھی ایک ہی ناپ کے سیئے جاتے تھے اس لیے اکثر لڑکے ڈھیلے ڈھالے دکھائی دیتے تھے۔ جب گوشت پکتا تو لڑکے اپنے کھانے کی رکابیوں میں ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوتے رہتے اور زیادہ سے زیادہ کھانے کی کوشش کرتے۔ ان میں سے کچھ اپنی قمیضوں پر شوربے کے چھینٹے ڈال لیتے۔ حسبِ روایت ان دھبوں کو ’کھانے کا تمغہ‘ کہا جاتا تھا، چاہے وہ شرٹ کے کسی بھی حصے پر ہوں۔
ایک دن کمانڈ اسٹاف نے ایک انسپکٹر کو معائنے کے لیے بھیجا۔ رجمنٹ نے اس کی دعوت میں یہ دکھانے کے لیے کہ وہ بہت اچھے جارہے تھے ایک بچھڑا ذبح کیا۔ رجمنٹ اور کمپنی کے تمام افسران نے انسپکٹر کے ساتھ ہی میز پر کھانا کھایا۔ وہ اپنی رجمنٹ کا ایک عام سپاہی تھا مگر رجمنٹ کے قائد نے اسے معائنہ کمیٹی میں موجود خاتون، جو نائب معائنہ کار کی حیثیت سے آئی تھی، کو ’پھپھو‘ کہتے سن لیا تھا۔ انہوں نے اسے کوئی عہدہ دے کر اپنے ساتھ کھانے کی میز پر بٹھا لیا۔
اس دن سارے عام سپاہیوں کو بھی کھانے میں بڑی بوٹیاں ملیں مگر عہدیداروں کی میز پر کھانا کہیں زیادہ بہتر معیار اور مقدار کا تھا۔ وہ اپنی پھپھو کے ساتھ بیٹھا بڑے جوش سے کھانا کھا رہا تھا۔ اپنے کھانے کی سلائیوں سے گوشت کا ایک بڑا ٹکڑا اٹھاتے ہوئے اس نے چھاتی کے دائیں طرف گرا لیا۔ اس سے ایک بڑا اور واضح ’کھانے کا تمغہ‘ بن گیا۔
”اس وقت مجھے اس پر فخر محسوس ہوا۔ مجھے کئی دن تک اسے دھونے کا خیال بھی نہیں آیا بل کہ میں اپنی رجمنٹ میں اکثر اکڑ کر اپنا کھانے کا تمغہ لہراتا پھرا۔ یہ اس بات کی نشانی تھی کہ اعلیٰ عہدیداروں سے میری واقفیت تھی۔ درحقیقت وہ میری دور پار کی پھپھو تھی جو ہمارے گھر زیادہ آتی بھی نہیں تھی۔ وہ تمہارے پیدا ہونے سے پہلے فوت ہو گئی تھی، مگر اس واقعے کے بعد رجمنٹ میں میری اہمیت بہت بڑھ گئی۔“
پھر باپ نے دونوں نو جوانوں سے مخاطب ہو کر کہا، ”یہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں سے ایک ہے جس کا تجربہ ہماری نسل کو ہوا، مگر جب تم ان سب چھوٹی چھوٹی باتوں کو اکٹھا کرتے ہو تو تاریخ مرتب ہوتی ہے۔“
اس رات وہ اور اس کی دوست "Black Swan” دیکھنے کے لیے نہیں اٹھے۔ انہوں نے اس کے باپ کی باتیں سنیں ۔ بعد ازاں اس کی ماں بھی گفتگو میں شریک ہو کر اپنی چھوٹی چھوٹی باتیں بتانے لگی۔ انہوں نے سوچا، ’ہمیں ان باتوں کا پتہ ہونا چاہیے، ہمیں انہیں جاننا چاہیے۔‘