تربت سے لانگ مارچ کی صورت میں اسلام آباد پہنچے بلوچ یکجہتی مارچ کے شرکا کا کہنا ہے کہ اب بھی ان کے سو سے زیادہ ساتھی پولیس کی حراست میں ہیں۔
تاہم حکام کا دعویٰ ہے کہ ان تمام بلوچ مظاہرین کو رہا کر دیا گیا ہے جو گزشتہ ہفتے لاپتہ افراد کے معاملے کو اجاگر کرنے کے لیے اسلام آباد پہنچے تھے لیکن کریک ڈاؤن میں گرفتار کر لیے گئے تھے۔
جبکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) — احتجاج کے منتظمین — اس پر اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسلام آباد پولیس تین دن کی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے باوجود تمام حراست میں لیے گئے مظاہرین کو رہا کرنے میں ناکام رہی ہے۔
احتجاجی مظاہروں کے شرکا کہا کہنا ہے کہ پولیس انہیں اب بھی ہراساں کر رہی ہے اور یہ کہ وہ مطالبات کی منظوری تک دھرنا جاری رکھیں گے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز ڈبن کیبن گاڑی میں آئے چند ہتھیار بند افراد مظاہرے کی جگہ سے مظاہرین کے اسپیکرز بھی لے اڑے تھے
مارچ میں شریک ایک خاتون گل زادی نے حکومت کی جانب سے مظاہرین کے مطالبات کو پورا کرنے کے عزم میں کمی اور ڈیڈ لائن سے محروم ہونے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ اس کے نتیجے میں، اس نے کہا، بی وائی سی احتجاج کے دائرہ کار کو بڑھا رہی ہے۔
انہوں نے کہا، ”بلوچستان میں بدھ سے بند اور ریلیوں کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔“ گل زادی نے ایک واقعے کی اطلاع دی جہاں منگل کی رات مسلح افراد کے ایک گروپ نے مبینہ طور پر مظاہرین کو ہراساں کیا، احتجاجی رہنماؤں کی جانب سے تقریروں کے لیے استعمال کیے جانے والے لاؤڈ اسپیکر پر قبضہ کر لیا۔
سن کے مطابق ”ان افراد نے یہاں [پریس کلب میں] کیمپ لگانے والوں کو دھمکیاں دیں۔ اگرچہ پولیس قریب ہی تھی، لیکن انہوں نے ان نقاب پوش ہراساں کرنے والوں کے خلاف کوئی مداخلت نہیں کی۔“
تاہم بلوچ یکجہتی کمیٹی کی طرف سے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے دھرنا جاری ہے، جس میں نیشنل پارٹی، عوامی ورکرز پارٹی، پروگریسیو اسٹوڈنٹ فیڈریشن اور دوسری سیاسی جماعتوں کے کارکنان نے اظہار یکجہتی کے طور پر شرکت کی اس کے علاوہ سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ان احتجاجیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی اور دھرنے میں شرکت کی۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ نہ ہی حکومت کی تشکیل کردہ کمیٹی اور نہ ہی حکومت جبری گمشدیوں کے مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ ہے اور یہ کہ حکومت نے جبری طور پہ پہلے سے گمشدہ کیے گئے افراد کو رہا کرنے کی بجائے مزید کو غائب کر دیا ہے
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے ان خبروں کی سختی سے تردید کی کہ حکومت نے تمام احتجاجیوں کو رہا کر دیا ہے۔ ”یہ بات بالکل غلط ہے کہ حکومت نے تمام احتجاجیوں کو رہا کر دیا ہے۔ اب بھی سو سے زیادہ احتجاجی گرفتار ہیں۔‘‘
ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ حکومت جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے اور حکومت کی طرف سے قائم کردہ کمیٹی نے ان سے آج کوئی رابطہ نہیں کیا۔ ”ہمیں اس ملک کی عدالتوں اور سیاستدانوں سے بھی کوئی امید نہیں ہے کیونکہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کا اختیار ہی نہیں رکھتے ہیں، گو کہ وہ کہتے ہیں کہ وہ سیاسی رہنما ہیں اور ملک آئین سے چلتا ہے لیکن اگر ملک آئین اور قانون پر چل رہا ہوتا تو گرفتار افراد کو چوبیس گھنٹے میں عدالت میں پیش کیا جاتا، انہیں برسوں سے غائب نہیں رکھا جاتا۔‘‘
ان کا کہنا تھا ”چونکہ بلوچستان کے مختلف علاقوں کے درمیان کافی طویل فاصلہ ہے اس لیے گمشدہ افراد کے حوالے سے مکمل اعداد و شمار مشکل ہیں۔ یہ مشکل اس وجہ سے آ رہی ہے کیونکہ حکومت ایف آئی آر کٹنے ہی نہیں دیتی۔ میں اپنے بھائی کی ایف آئی آر کٹوانے کے لیے کئی بار تھانے گئی۔“
ماہ رنگ بلوچ کے مطابق ”ہمارا اندازہ یہ ہے کہ ستر ہزار کے قریب لوگوں کو جبری طور پر گمشدہ کیا گیا ہے، جن میں سے پندرہ ہزار کا ہمارے پاس مکمل ڈیٹا ہے اور ان لوگوں کا بھی جنہیں ماورا عدالت قتل کیا گیا۔‘‘
مہرنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ گمشدہ افراد کے حوالے سے بننے والے کمیشن کا کام صرف متاثرہ افراد کے رشتے داروں کو دھمکیاں دینا ہیں۔ ”بلوچ، سندھی، مہاجر، پشتون اور دوسرے گمشدہ افراد کے رشتے داروں سب کا یہ کہنا ہے کہ یہ کمیشن کسی کام کا نہیں ہے۔ اور اس کا کام صرف ہمارے دکھوں میں اضافہ کرنا ہے اور ہمیں دھمکانا ہے۔‘‘
اس سوال پر کہ دھرنوں کا سلسلہ کب تک رہے گا، ماہ رنگ بلوچ نے کہا، ”یہ ریاست پر منحصر ہے۔ جب تک ریاست گمشدہ افراد کو برآمد نہیں کرتی، ہم احتجاج ختم نہیں کریں گے۔‘‘
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ انہیں سیاسی جماعتوں سے بھی کوئی امید نہیں ہے۔ ”آصف علی زرداری نے ماضی میں اعتراف کیا ہے کہ وہ گمشدہ افراد کو بازیاب نہیں کراسکتے لیکن وہ درخواست کر سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ملک آئین سے چلتا ہے، تو وہ کیوں یہ مسئلہ حل نہیں کر سکتے۔‘‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ وزیر اعظم اور چیئرمین سینیٹ سمیت کئی عوامی عہدوں پر بلوچستان سے لوگ موجود ہیں، تو ان کا کہنا تھا کہ اس ملک میں کس سیاسی رہنما کے پاس اختیار ہے۔ ”صورت حال یہ ہے کہ سی ٹی ڈی بلوچوں کو ماورائے عدالت قتل کر رہی ہے۔ ڈسٹرکٹ کورٹ نے سی ٹی ڈی کے خلاف ایف آر کاٹنے کا کہا ہے سرفراز بگٹی ان کو تحفظ دینے کی بات کرتا ہے۔ تو ایسے رہنماؤں سے بلوچوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘
ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ وہ پنجابی مزدوروں کے قتل کی مذمت کرتی ہیں۔ ”یہ سوال ریاست سے کیا جانا چاہیے۔ ریاست سے یہ بھی پوچھا جانا چاہیے کہ بلوچستان کو کالونی کی طرح کیوں چلایا جا رہا ہے۔ ہماری نسل کشی کیوں کی جا رہی ہے؟ حقوق کیوں چھینے جارہے ہیں۔‘‘
دوسری جانب اسلام آباد پولیس کے ترجمان جاوید بلوچ کا کہنا ہے کہ پولیس کی تحویل میں کوئی بلوچ احتجاجی نہیں ہے۔ ان کے بقول ”تمام گرفتار شدگان کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔‘‘
بی وائی سی نے اعلان کیا ہے کہ بلوچستان میں لوگ آج (بدھ) سے شروع ہونے والے مظاہروں اور ہڑتالوں کا آغاز کریں گے تاکہ حکام کی بے رحمی کے خلاف احتجاج کیا جا سکے۔
ایک احتجاجی رہنما نے کہا ”ہمیں حکومت کے اخلاص پر شک ہے کیونکہ اس کی مذاکراتی ٹیم، جسے وزیر اعظم نے مذاکرات کے لیے تفویض کیا تھا، پچھلے دو دنوں میں ہم تک نہیں پہنچی“
نگراں وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی، جو وزیراعظم کی کمیٹی کا حصہ ہیں، نے تصدیق کی کہ بی وائی سی مارچ کے شرکاء کو قانونی طریقہ کار کے بعد عدالت نے رہا کیا۔ ”ہم مذاکرات کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے مظاہرین کے مطالبات کا انتظار کر رہے ہیں۔ ایک بار جب یہ مطالبات پیش ہو جاتے ہیں، تو ہم مزید بات چیت کی توقع کرتے ہیں‘‘
پیر کو اسلام آباد پولیس نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ ہفتے دارالحکومت میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے دوران گرفتار کیے گئے تمام 290 بلوچ کارکنوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔
وزارت داخلہ کے ترجمان نے بتایا کہ گرفتار مظاہرین کی رہائی کا فیصلہ وزیر اعظم کی کمیٹی کے مذاکرات اور اسلام آباد ہائی کورٹ (IHC) کی ہدایات کی وجہ سے کیا گیا۔
ترجمان نے پرامن احتجاج کے حق پر زور دیا لیکن قانون کو ہاتھ میں لینے کی مذمت کی۔ دارالحکومت کے ریڈ زون میں ہر قیمت پر آئینی اداروں اور ڈپلومیٹک انکلیو پر مشتمل سیکیورٹی کو یقینی بنانے پر روشنی ڈالی گئی۔
بی وائی سی نے حکام کو تین دن کا الٹی میٹم جاری کیا تھا، جس میں طلبا اور کارکنوں کے خلاف مقدمات کو برخاست کرنے اور تمام مظاہرین کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ایک بلوچ نوجوان کے مبینہ ماورائے عدالت قتل کے بعد 6 دسمبر کو تربت سے شروع ہونے والا مارچ 20 دسمبر کو وفاقی دارالحکومت پہنچا۔
اسلام آباد پولیس کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے اور حراست میں لینے کے لیے طاقت کے استعمال کی انسانی حقوق کی تنظیموں، سیاست دانوں، آئی ایچ سی، اور یہاں تک کہ صدر ڈاکٹر عارف علوی اور وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ سمیت اعلیٰ ترین دفاتر کی طرف سے بھی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی۔
ادہر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے ان خبروں پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ حکومت نے پرانے گمشدہ افراد کی رہائی کی کوشش کرنے کی بجائے مزید لوگوں کو حراست میں لے کر غائب کر دیا ہے۔ کمیشن کے چیئر پرسن اسد بٹ نے کہا ”ہمیں ان اطلاعات پر سخت تشویش ہے کہ حکومت نے مزید لوگوں کو گرفتار کر کے غائب کر دیا ہے اور وعدے کرنے کے باوجود ان کو رہا نہیں کیا گیا اس سے وفاق کے خلاف نفرتوں میں مزید اضافہ ہوگا جو ملک کے لیے بہتر نہیں ہوگا۔‘‘
اسد بٹ کا کہنا تھا ”ایچ ار سی پی احتجاج کرنے والوں سے مکمل یکجہتی کا اظہار کرتی ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ فوری طور پر احتجاجیوں کے مطالبات کو تسلیم کرے۔ تمام گرفتار شدگان کو رہا کریں اور جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرے۔‘‘