کھیرتھر نیشنل پارک میں کچھ دیہاتیوں کی جانب سے تیندوے کو گولی مار کر ہلاک کرنے کے ایک دن بعد، سندھ کے محکمہ جنگلی حیات کی ایک ٹیم نے تیندوے کی لاش کو کراچی میں اس کے دفتر پہنچایا تاکہ اس کی اصلیت کا تعین کرنے کے لیے ضلع جامشورو میں قانونی کارروائی کی جائے۔
وائلڈ لائف پولیس کے مطابق فائرنگ سے تیندوے کی ہلاکت کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، جو کھیرتھر نیشنل پارک میں تقریباً پچاس سال بعد نظر آیا تھا۔
دریں اثنا تیندوے کی لاش کو سائنسی بنیاد پر حنوط کرنے کے بعد وائلڈ لائف میوزیم میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ کھیرتھر نیشنل پارک میں واقع بچل سنہرو گاؤں میں پیر اور منگل کی درمیانی رات میں نر بڑی بلی (تیندوے) کو مارا گیا۔
وائلڈ لائف پولیس پروٹیکشن کے انسپیکٹر غفار خان جمالی کے مطابق انہیں اطلاع ملی کہ کھیرتھر نیشنل پارک میں کانبھو پہاڑی کے قریب بچل سونہیرو میں گاؤں والوں نے فائرنگ کرکے ایک جانور کو ہلاک کر دیا ہے۔
بقول غفار خان: ’کسی نے بتایا کہ لگڑ بھگا ہے تو کسی نے چیتے یا بھیڑیے کی موت کی اطلاع دی۔‘
غفار خان جمالی نے بتایا: ’میں اپنی ٹیم کے ساتھ دفتر سے نکلا اور تقریباً 40 منٹ کے سفر کے بعد وہاں پہنچا تو تیندوے کی لاش دیکھی اور کچھ لوگ لاش کے ساتھ سیلفیاں بنا رہے تھے۔
’بچل سونہیرو تقریباً پانچ ہزار آبادی والا گاؤں ہے۔ جب ہم پہنچے تو گاؤں کے لوگوں نے بتایا کہ تیندوا گاؤں میں داخل ہوا تھا اور مویشیوں پر حملہ کیا، اس لیے اسے ہلاک کر دیا گیا، مگر تیندوے کی لاش گاؤں سے آدھے کلومیٹر دور ملی۔ ابتدائی طور پر گاؤں کی رہائشیوں نے لاش اپنے پاس رکھنے کی ضد کی، مگر بعد میں سمجھانے پر لاش ہمارے تحویل میں دے دی گئی۔‘
محکمہ نے کوٹری کے سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن پولیس اسٹیشن میں پانچ دیہاتیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ’ان کی جان اور مویشیوں کو بچانے کے لیے جانور کو مارنے پر مجبور کیے جانے کا ان کا دعویٰ درست نہیں ہے۔‘
سندھ کے وائلڈ لائف کنزرویٹر جاوید احمد مہر نے کہا ”ہم نے اب تک جو شواہد اکٹھے کیے ہیں، وہ واضح طور پر بتاتے ہیں کہ گاؤں والوں نے غریب جانور کا شکار کیا، جس کی وجہ سے ہم نے مجرمانہ کارروائی شروع کی ہے“
انہوں نے مزید کہا ”دوسری چیزوں کے علاوہ، وہ بکریوں کی باقیات نہیں دکھا سکے، جن کے بارے میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ تیندوے نے حملہ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔“
واضح رہے کہ کھیرتھر نیشنل پارک کے قریبی گوٹھ تگانہ عرب خان میں دو روز قبل تیندوے نے آباد علاقے میں حملہ کرکے 10 سے زائد بکریوں کو مار دیا تھا۔ علاقے مکینوں نے خوف و ہراس پھیلنے پر تیندوے کو گولی مار کر ہلاک کردیا،
انہوں نے مزید کہا کہ بڑی بلی کی باقیات اسی علاقے کے ایک گھر سے برآمد ہوئی ہیں، جہاں شوٹنگ ہوئی تھی۔
ان کے مطابق تیندوے کو مارنے کی سزا پانچ سال قید اور بارہ لاکھ روپے جرمانہ ہے۔
انہوں نے کہا ”اگرچہ تیندوے کا قتل افسوسناک ہے، لیکن مثبت بات یہ ہے کہ اب ہمارے پاس بڑی بلیوں اور ان کے تحفظ پر کام کرنے کے لیے ٹھوس بنیادیں موجود ہیں۔ پارک کے علاقے اور کراچی کے گرد و نواح میں بڑی بلیوں کی کچھ تعداد کے بارے میں جانا جاتا ہے“
انہوں نے کہا کہ چیتے کے نمونوں کے تجزیے سے اس کی اصلیت کا تعین کرنے میں مدد ملے گی۔ ”ایسا لگتا ہے کہ پارک میں ان بڑی بلیوں کی ایک محدود آبادی ہے جنہوں نے بدلتی ہوئی زندگی اور خطرات سے ہم آہنگ ہونا سیکھ لیا ہے۔ وہ فطرتاً شرمیلی اور رات کے وقت نکلتی ہیں۔“
کھیرتھر نیشنل پارک تاریخی طور پر چیتے کا گھر رہا ہے۔ رہائش گاہوں کی تباہی کی وجہ سے ان کی آبادی دہائیوں کے دوران تقریباً معدوم ہو چکی ہے۔ آخری مرتبہ 1970 کی دہائی میں دیکھا گیا تھا۔ وائلڈ لائف کے حکام کا خیال ہے کہ حالیہ برسوں میں آنے والے سیلاب نے ان کے مسکنوں کی بحالی کی ہے۔
لیکن بدقسمتی سے اس امر کی طرف نہ محکمہ جنگلی حیات اور نہ ہی کوئی اور ادارہ توجہ دینے کے لیے تیار ہے کہ کھیرتھر نیشنل پارک پر بحریہ ٹاؤن کی بے ہنگم وسعت کی وجہ سے کیا منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں
واضح رہے کہ گزشتہ سال تھر کے علاقے میں مشتعل دیہاتیوں نے ایک تیندوے کو مار ڈالا، جس نے اپنے مویشیوں کا شکار کیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ شکاری سرحدیں عبور کر کے پڑوسی ملک بھارت سے صوبے کے صحرائی ضلع میں داخل ہوا تھا۔
بہرحال محکمہ جنگلی حیات سندھ کی ٹیم نے بدھ کو تیندوے کی لاش کو جام شورو کی عدالت میں پیش کیا تھا، جسے پھر عدالت کی ہدایت پر کراچی منتقل کردیا گیا۔
محکمہ جنگلی حیات کے مطابق کیرتھر نیشنل پارک میں تیندوا تقریباً پچاس سال بعد نظر آیا تھا۔
محکمہ جنگلی حیات نے تیندوے کی ہلاکت کی فرسٹ آفینس رپورٹ (ایف او آر) دائر کی جس میں قادر بخش، غلام حسین اور تین نامعلوم افراد کو نامزد کیا گیا۔ بدھ کو ایف او آر اور تیندوے کو جامشورو کی عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں سے تیندوے کی لاش کو کراچی منتقل کر دیا گیا۔
وائلڈ لائف پولیس پروٹیکشن کے انسپیکٹر غفار خان جمالی نے مزید بتایا کہ تیندوے کو 12 بور بندوق کی تین گولیاں لگیں۔ یہ ایک نر تیدوا تھا جو پانچ فٹ 19 انچ لمبا اور اس کی عمر تقریباً پانچ سال تھی۔
ہلاک ہونے والا تیندوا کیرتھر نیشنل پارک میں تقریباً 50 سال بعد نظر آیا۔
محکمہ جنگلی حیات سندھ کے کنزرویٹر جاوید احمد مہر کے مطابق 1976 میں ایک شکاری نے کھیرتھر نیشنل پارک میں ایک تیندوے کو ہلاک کیا تھا، جس کے 48 سال بعد یہ تیندوا نظر آیا جسے منگل کو ہلاک کر دیا گیا۔
غفار خان جمالی کے مطابق کھیرتھر نیشنل پارک کے رہائشیوں نے انہیں کئی بار تیندوے کی موجودگی کی اطلاع دی، مگر کسی بھی فرد کو تیندوا نظر نہیں آیا۔
ایک سروے کے دوران غفار خان جمالی نے پاؤں کے نشانات دیکھے تھے مگر کسی نے تصدیق نہیں کی کہ وہ پاؤں کے نشانات تیندوے کے تھے یا کسی اور جانور کے تھے۔
تیندوے کی موجودگی کھیرتھر میں حیاتاتی تنوع کی بہتری کی نشانی تصور کی جاتی ہے
جاوید احمد مہر کے مطابق تیندوے کی کھیرتھر نیشنل پارک میں موجودگی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں حیاتاتی تنوع میں بہتری آئی ہے۔
’تیندوا وہیں نظر آتا ہے جہاں اس کے شکار کے لیے جانور وافر مقدار میں ہوں اور وہ جانور اس وقت ہی بڑھتے ہیں جب وہاں گھاس زیادہ ہو اور بہتر ماحول ہو۔ گذشتہ چند سالوں میں شدید بارشوں کے بعد کیرتھر میں مسلسل ہریالی ہے اور جانوروں کے تحفظ کے باعث ان کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔‘
جاوید احمد مہر کے مطابق ہلاک ہونے والا تیندوا مقامی ہے اور تاریخی طور پر کیرتھر نیشنل پارک میں تیندوے کی موجودگی تصدیق شدہ ہے، مگر پوسٹ مارٹم کے بعد لیبارٹری رپورٹ سے پتہ چلے گا کہ اس تیندوے کا تعلق کس نسل سے ہے۔
کیرتھر نیشنل پارک میں ہلاک ہونے والے تیندوے کا مقدمہ سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن، پریزرویشن، کنزرویشن اینڈ مینیجمنٹ ایکٹ 2020 کے تحت دائر کیا گیا ہے۔
اس قانون کے تحت سندھ میں جنگلی جانوروں کو غیر قانونی طور پر پکڑنے یا شکار کرنے پر انتہائی بھاری خون بہا اور جرمانے عائد کیے گئے ہیں۔
اس قانون کے تحت چیتے کی ہلاکت کا جرمانہ 12 لاکھ روپے اور پانچ سال قید یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں۔ آئی بیکس کے غیر قانونی شکار پر خون بہا کی قیمت کم از کم سات لاکھ روپے جبکہ اڑیال کی قیمت 14 لاکھ روپے تک وصول کی جائے گی۔
اسی طرح چنکارا ہرن کی قیمت دو لاکھ روپے، جنگلی گدھے کی قیمت پانچ لاکھ روپے، جنگلی بھیڑیے کی پانچ لاکھ روپے، کالے ہرن کی ڈھائی لاکھ روپے، خرگوش کی قیمت 20 ہزار روپے، انڈس ڈولفن کے غیر قانونی شکار کرنے پر خون بہا کی قیمت پانچ لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے۔
جانوروں کے تحفظ پر 2004 سے کام کرنے والی کراچی کی تنظیم فیلڈ سپورٹس اینڈ کنزرویشن سوسائٹی کے سیکریٹری اظہر احمد خان کے مطابق سندھ میں نہ صرف کھیرتھر نیشنل پارک بلکہ دیگر خطوں بمشول صحرائے تھر میں بھی تیندوے پائے جاتے ہیں۔
’دریائے سندھ کے مشرق کی جانب پائے جانے والے تیندوے انڈین لیپرڈ اور مغرب کی جانب پائے جانے پرشیئن لیپرڈ ہیں، اس لیے زیادہ امکان ہے کہ یہ لیپرڈ بھی پرشیئن نسل کا ہو۔‘
اظہر احمد خان کے مطابق جنگلی حیات کے تحفظ والی جگہ پر کیے جانے والے اقدامات میں تیندوے کو پہلی درجہ بندی یا اپیکس سپیشیز میں گنا جاتا ہے۔
کھیرتھر میں تیندوے کے ساتھ آئی بیکس، چنکارا ہرن، لگڑ بھگا، بھیڑیا، لومڑی اور کچھ جنگلی بلیاں اپیکس سپیشیز میں شامل ہیں۔
اظہر احمد خان نے مزید بتایا، ’تیندوا انسانی آبادی میں داخل نہیں ہوتا، اس لیے نظر آنے کی صورت میں ہلاک کرنے کے بجائے محکمہ جنگلی حیات کو اطلاع کریں تاکہ وہ اس جانور کو کسی اور جگہ منتقل کردیں۔‘
کیرتھر نیشنل پارک کی اہمیت کی بات کی جائے تو کھیرتھر نیشنل پارک سندھ میں کراچی اور جامشورو کے درمیان پہاڑی سلسلے پر پھیلا ہوا ایک وسیع پارک ہے، جس کا شمار پاکستان کے بڑے نیشنل پارکوں میں ہوتا ہے۔
محکمہ جنگلی حیات سندھ کے مطابق یہ 1192 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ اس علاقے کو 1972 میں وائلڈ لائف گیم سینکچری یعنی جنگلی حیات کی پناہ گاہ قرار دیا گیا، جس کے تحت اس علاقے کی حدود میں کسی قسم کا شکار کرنا، پرندوں یا جانوروں کو پکڑنا اور ان کے قدرتی مسکن میں کسی بھی قسم کا خلل ڈالنا غیر قانونی ہے۔
1974 میں نیشنل پارک کا درجہ دے کر اسے سرکاری طور پر قومی سطح پر تحفظ دیا گیا۔
یہ پاکستان کا پہلا پارک ہے جسے 1975 میں اقوام متحدہ کی مرتب کردہ دنیا کے نیشنل پارکوں کی فہرست میں شمار کیا گیا تھا، جو صوبہ سندھ کا واحد نیشنل پارک ہے۔
محکمہ جنگلی حیات سندھ کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق اس وقت کیرتھر نیشنل پارک میں 30 ہزار سندھ آئی بیکس، 14 ہزار اڑیال، دو ہزار چنکارا کے علاوہ کالے ہرن، 500 سے زائد اقسام کے چرند، پرند، ممالیہ، پرندے، اور کئی اقسام کے کیڑے مکوڑے پائے جاتے ہیں۔
کھیرتھر نیشنل پارک گیدڑ، جنگلی مور، لیپوریڈ کی نسل کے بلیک نیپڈ خرگوش، بھڑیے، سانپوں کی کئی اقسام، تیتر، سفید پیر والی لومڑی سمیت لومڑیوں کی کئی اقسام، چوہوں کی کئی اقسام، جنگلی بلیوں اور پرندوں میں عقاب، چیل اور مصری گدھوں سمیت کئی اقسام کے جانوروں کا قدرتی مسکن ہے۔
محکمہ سندھ جنگلی حیات کے مطابق کھیرتھر نیشنل پارک میں کچھ عرصہ قبل تک تیندوے بھی موجود تھے۔
کھیرتھر نیشنل پارک قومی سطح پر تحفظ دی گئی کئی سائٹس کے ایک بڑے کمپلیکس کا حصہ ہے، جس میں عالمی طور پر رام سر کنونشن کے تحت رامسر سائیٹ حب ڈیم، حب ڈیم وائلڈ لائف سینکچوری، محل وائلڈ لائف سینکچوری، سُرجان، سُمباک، ایری اور ہوتھیانو گیم سینچری بھی شامل ہیں۔
سندھ حیاتیاتی تنوع کے لحاظ سے ایک اہم خطہ سمجھا جاتا ہے۔ عالمی معاہدے ’رامسر کنونشن‘ کے تحت حیاتیاتی تنوع کے لحاظ سے اہمیت والی آب گاہوں کو رامسر سائٹ قرار دیا جاتا ہے۔
پاکستان میں کل 19 رامسر سائٹس ہیں، جن میں سے 10 صرف صوبہ سندھ میں ہیں۔
اس کے علاوہ روس، سائبیریا اور دیگر ممالک سے دنیا کے دوسروں خطوں میں جانے والے پرندوں کے راستے ’انڈس فلائے زون‘ پر واقعے ہونے کے باعث ہر سال بڑی تعداد میں مہمان پرندے سندھ کی آب گاہوں پر اترتے ہیں۔
سندھ کے مختلف قدرتی علاقوں میں موجود انواع و اقسام کے چرند، پرند کے قدرتی مسکن موجود ہیں۔