دنیا بھر میں عورتوں کے ختنے سے متعلق اقوامِ متحدہ کی حال ہی میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ کی اشاعت کے بعد انڈیا میں بوہری برادری کی جانب توجہ مبذول ہوئی ہے۔
جمعے کے روز یونیسیف نے ایسے اکتیس ممالک سے متعلق رپورٹ جاری کی ہے، جہاں اب بھی عورتوں کے ختنے کی روایت پر عمل ہوتا ہے۔ اگرچہ اس فہرست میں انڈیا شامل نہیں ہے، لیکن وہاں عورتوں کا ختنہ کرنے کی روایت پر بہت رازداری سے عمل کیا جاتا ہے اور اب اس معاملے پر بات کی جا رہی ہے۔
انڈیا میں’فیمیل جینیٹل میٹیلیشن‘ یعنی عورتوں کے ختنے کی روایت پر زیادہ تر داؤدی بوہرا فرقے میں عمل کیا جاتا ہے۔ یہ اہل تشیع کی اسماعیلی شاخ میں سے ایک فرقہ ہے۔ اس کے دنیا بھر میں دس سے بیس لاکھ کے قریب ماننے والے ہیں۔ حال میں جو سروے کیے گئے، ان سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ کم از کم 80 فی صد بوہرا لڑکیوں کا مذہبی بنیادوں کی وجہ سے ختنہ کیا جاتا ہے۔
داؤدی بوہرا کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی ایکٹوسٹ عارفہ جوہری نے عورتوں کے ختنے سے متعلق ایک ایڈووکیسی گروپ بنایا ہے، جس کا نام ’ساہیو‘ ہے۔
عارفہ جوہری کا کہنا ہے کہ ناانصافی اور خطرناک روایات کی مخالفت اس لیے کرنی چاہیے، کیوں کہ وہ غلط ہیں اور اس میں یہ دیکھنا نہیں چاہیے کہ اس سے کتنے لوگوں کو فرق پڑتا ہے
ان کے بقول اگرچہ ان (ختنہ کی گئی خواتین) کی تعداد کم ہے، مگر اس روایت کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
زیادہ تر پڑھی لکھی اور بااثر داؤدی بوہرا کمیونٹی کا اکثر حصہ انڈیا کی ریاست گجرات میں رہائش پذیر ہے جب کہ پاکستان، یمن، مشرقی افریقہ، مشرقِ وسطیٰ، آسٹریلیا اور شمالی امریکہ میں ان کی چھوٹی چھوٹی آبادیاں ہیں۔
عالمی ادارہِ صحت کے مطابق ’عورتوں کے ختنہ کرنے کی روایت کا کوئی طبی فائدہ نہیں ہے اور یہ لڑکیوں اور خواتین کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔‘
یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں تیئیس کروڑ سے زائد خواتین اور لڑکیاں ایسی ہیں، جن کا ختنہ کیا گیا اور وہ اب بھی حیات ہیں۔ آٹھ برس قبل جاری کیے جانے والے اعداد وشمار کے مطابق اس تعداد میں تین کروڑ لڑکیوں کا اضافہ ہوا ہے۔
افریقہ میں چودہ کروڑ چالیس لاکھ لڑکیوں کا ختنہ ہو چکا ہے، جب کہ ایشیا میں یہ تعداد آٹھ کروڑ ہے اور مشرقِ وسطیٰ میں یہ تعداد ساٹھ لاکھ کے قریب ہے۔
بین الاقوامی انسانی حقوق کی وکیل شیلبی قواسٹ کا کہنا ہے کہ خواتین کے ختنے سے متعلق یونیسیف کی رپورٹ نامکمل ہے اور انڈیا کو اس فہرست میں شامل کرنا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ دنیا بھر کے بانوے ممالک میں اس روایت پر عمل کیا جاتا ہے اور جہاں اس پر عمل ہوتا ہے، ایسے ممالک کو نہ دیکھا گیا تو 2030ع تک اس روایت کا خاتمہ ممکن نہیں۔
داؤدی بوہرا کمیونٹی کی روایت میں لڑکیوں کی کلیٹورس کا سر کاٹ دیا جاتا ہے۔ وہ اسے اعضا کاٹنے سے تعبیر نہیں کرتے بلکہ محض ختنہ تصور کرتے ہیں۔ اگرچہ مسلمان علما اس روایت کی حمایت نہیں کرتے لیکن داؤدی بوہرا اسے مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل تک بوہرا کمیونٹی کے باہر اس روایت سے متعلق عوامی طور پر علم نہیں تھا، لیکن 2011 میں ایک آن لائن کیمپئن میں اس روایت سے متاثر ہونے والی خواتین نے اس سے متعلق بات کی اور اپنے جسمانی اور نفسیاتی درد سے متعلق لوگوں کو بتایا۔
آسٹریلیا اور امریکہ میں عدالتوں میں کیسز ہونے کی وجہ سے باہر رہنے والی کمیونٹی میں اس کے عام ہونے سے متعلق عوامی طور پر پتا چلا۔
آسٹریلیا میں سن 2016 میں داؤدی بوہرا کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے تین افراد کو عورتوں کے ختنے پر پابندی کے باوجود ایسا عمل کرنے پر پندرہ ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ یہی نہیں 2017 میں اسی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے چار ارکان کو چھوٹی بچیوں کے ختنے کرنے پر گرفتار کیا گیا، جن میں دو ڈاکٹر بھی شامل تھے۔
بعد ازاں ایک وفاقی جج نے کیس غیر آئینی قرار دے کر خارج کر دیا تھا، لیکن اس سے بوہرا کمیونٹی میں اس روایت کے عام ہونے پر روشنی پڑتی ہے۔
دوسری جانب انڈیا میں انسانی حقوق کے کارکنان خواتین کے ختنے کے معاملے پر حرکت میں آ گئے ہیں۔
عارفہ جوہری کی تنظیم کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق کے مطابق انڈیا کی ریاست کیرالا کی ایک چھوٹی کمیونٹی میں خواتین کا ختنہ کرنے کی روایت موجود ہے۔
اس سے قبل ’فیمیل جینیٹل میٹیلیشن‘ کی روایت کا تعلق زیادہ تر افریقہ سے جوڑا جاتا تھا، لیکن اب حال ہی میں انڈیا اور دیگر ایشیائی ممالک میں اس روایت کی موجودگی سے پتا چلتا ہے کہ یہ روایت عالمی سطح پر موجود ہے۔
خود عارفہ جوہری اس روایت کا شکار ہیں۔ بہت سی دوسری داؤدی بوہرا لڑکیوں کی طرح عارفہ محض سات برس کی تھیں، جب ان کے ختنے کیے گئے۔
ان کے مطابق انہیں اس کے بہت زیادہ جسمانی نقصانات کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور وہ اس سلسلے میں خوش قسمت تھیں۔ بعض اوقات اس روایت کے جسمانی اثرات بلوغت تک دیکھے گئے ہیں۔
عارفہ کے بقول، ”جس بات نے مجھے بعد میں متاثر کیا، وہ اس بات کا احساس تھا کہ میرے ساتھ کیا کیا گیا۔ آپ کا چھوٹی سی عمر میں ختنہ کیا جاتا ہے، تو آپ یہ کبھی جان نہیں سکتے ہیں آپ کے جسم کی اصل ساخت کیا تھی، کتنا کاٹ لیا گیا، اور اس سے آپ کے جنسی تجربات پر کتنا اثر پڑا ہے۔‘‘
وہ کہتی ہیں ”ہماری کمیونٹی میں اس روایت کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ عضو کا بہت کم حصہ کاٹتے ہیں اور وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس سے جنسی تجربہ کم نہیں ہوتا، بلکہ بہتر ہوتا ہے۔“ لیکن عارفہ کا کہنا ہے کہ ان سب کے پاس اس بات کے تعین کی کوئی کسوٹی نہیں ہے۔ اور وہ اس وجہ سے مزید بے چین ہوتی ہیں۔
اس مدعے کی وجہ سے بوہرا کمیونٹی میں بھی اختلافات بڑھے ہیں، لیکن کمیونٹی کے روحانی رہنما سیدنا مفضل سیف الدین نے اس روایت کے خاتمے کی مخالفت کی ہے۔
انہوں نے 2016 میں ممبئی میں ایک خطبے میں کہا تھا کہ لوگ جو بھی کہیں، کمیونٹی کو اس سلسلے میں اپنا مؤقف بدلنا نہیں چاہیے اور اس روایت پر عمل ہر صورت ہونا چاہیے۔
جبکہ انڈین حکومت بھی اس سلسلے میں اقدامات اٹھانے میں سست روی کا شکار ہے۔
انسانی حقوق کی کارکن اور محقق لکشمی آننت رائین کا کہنا ہے کہ انڈین حکام نے پہلے خواتین کے ختنے کی روایت کے مکمل خاتمے کی تجویز دی، لیکن پھر اس کی موجودگی سے ہی مکر گئے۔
انڈین سپریم کورٹ میں 2017 میں ایک پٹیشن دائر کی گئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ اس روایت پر پابندی سے بوہرا کمیونٹی کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا ہے۔
اس پٹیشن میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ روایت غیر منصفانہ ہے اور عورتوں اور لڑکیوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
دوسری جانب بوہرا رہنما اور بوہرا عورتوں کے ایک گروپ نے اس روایت کی حمایت کی ہے، جس میں ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک ’اہم مذہبی روایت‘ ہے اور انڈیا کا آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔
اگرچہ سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں اس روایت کے آئینی ہونے کا جائزہ لینے کے لیے دو پینل تشکیل دیے تھے، لیکن اس سلسلے میں ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا اور اب تک یہ کیس زیرِ التوا ہے۔
لکشمی آننت رائین کہتی ہیں ”فیمیل جینیٹل میٹیلیشن پر کوئی فیصلہ نہ آنا، سیاسی کمزوری کی نشانی ہے۔ بھارت میں عورتوں کے خلاف ہونے والے دیگر مظالم کی طرح عورتوں کا ختنہ بھی جاری ہے اور حکومت اس پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔“