بندوق کی نال میرے چہرے سے بالشت بھر دور تھی۔ دوسری جانب غصیلی، بے رحم اور سفاک آنکھیں تھیں، میرا دل جیسے سینے سے نکل کر حلق میں دھک دھک کر رہا تھا اور دماغ صرف یہ سوچ رہا تھا کہ یہ گولی تو نہیں چلا دے گا؟
یہ حاجی ابراہیم بھولو سے میری پہلی اور آخری ملاقات تھی۔
کیا آپ بھی بھولو سے ملنا چاہتے ہیں؟ لیکن کراچی کے پسماندہ علاقے میں پیدا ہونے والے بھولو سے یا دبئی سے جنوبی افریقہ تک کروڑوں ڈالر کا غیر قانونی دھندا چلانے والے حاجی ابراہیم بھولو سے؟
کراچی کے پٹنی محلے کی کچی پکی گلیوں کا بھولو بینکاک کےعالیشان اپارٹمنٹ، دبئی کے مہنگے ترین ہوٹلز اور موزمبیق کے دارالحکومت ماپوتو کے پُر تعیّش جُوا خانوں تک پہنچ کر حاجی ابرہیم، بھولو کیسے بنا؟ انڈر ورلڈ کی کمائی سے صدارتی انتخابات کی فنڈنگ کیسے کرنے لگا؟
یہ سنسنی خیز کہانی بہت حیران کن ہے۔۔
اس کہانی میں آپ انڈر ورلڈ کے ڈان داؤد ابرہیم سے بھی ملیں گے اور پاکستان سے دبئی تک پھیلے جوئے، سٹے، بھتے، منشیات، ہنڈی، حوالہ اور قتل و غارت کا دھندا چلانے والے کراچی انڈر ورلڈ کے کئی اور کرداروں سے بھی آپ کی ملاقات ہو گی۔
مگر پہلے بھولو سے ملنے بلدیہ ٹاؤن چلتے ہیں۔۔
کراچی کے پسماندہ ترین حصوں میں شمار ہونے والے اس علاقے میں اردو بولنے والوں کے ساتھ ساتھ، بلوچ، پشتون، سندھی، کچھی، میمن، پنجابی، کشمیری، سرائیکی، ہندکو، ہزارہ غرض کراچی میں بسنے والی تقریباً ہر قوم سے تعلق رکھنے والے یہاں آباد ہیں۔
1990 کی دہائی تک انتظامی لحاظ سے کراچی کے مغربی ضلع کی یہ گنجان آباد بستی ہمیشہ ہی کم آمدنی والے محنت کش طبقے کا علاقہ رہی اور اب ضلع کیماڑی کا حصہ ہے اور یہیں کہیں وہ چھوٹا سے پٹنی محلہ تھا جہاں ایک غربت زدہ گلی میں بھولو نے اپنا بچپن گزارا۔
میری کئی برس کی تحقیق کے مطابق پیشے کے اعتبار سے قصابوں کے خاندان میں پیدا ہونے والا بھولو کبھی تعلیم حاصل نہیں کر سکا۔
مگر حیرت انگیز طور پر یہی انگوٹھا چھاپ بھولو کراچی کی طُلبا سیاست کے اُفق پر ابھرا اور وہ بھی طالبعلم رہنما کے طور پر۔
یہ مجھے پاکستان پیپلز پارٹی کی طلبا تنظیم پیپلز سٹوڈینٹس فیڈریشن (پی ایس ایف) کراچی کے سابق نائب صدر اور میرے اور بھولو کے بہت پرانے دوست شاہنواز شانی نے بتایا۔
شاہنواز شانی نے بتایا کہ ’بالکل انگوٹھا چھاپ تھا یہ بھولو مگر تھا بہت ہی چالاک۔۔۔ کالج تو کیا اُس نے تو کبھی سکول تک بھی نہیں پڑھا تھا مگر بہت تیز تھا۔ بہت ہوشیار۔ بڑا ہی ذہین۔‘
شاہنواز شانی کے مطابق بھولو الطاف حسین کی ایم کیو ایم کے عسکری بازو سے تعلق رکھنے والے رہنما فاروق پٹنی کے کزن بھی تھے۔
شاہنواز شانی نے یہ بھی کہا کہ ’آپ کو یاد ہو گا کہ بقرعید کے سیزن میں قصاب برادری کے لڑکے بھی جانور ذبح کر کے پیسے کما لیتے تھے۔ بھولو بھی ایسے کام کر لیتا تھا مگر پھر اللّہ معاف کرے وہ تو سچ مُچ کا قصائی (قاتل) ہی بن گیا۔‘
بھولو ’طالبعلم رہنما‘ کیسے بنا؟
بھولو کے کئی دوستوں، سرکاری حکام، پولیس افسران اور فوجی و غیر فوجی خفیہ اداروں کے موجودہ و سابق عہدیداروں نے یہ کہانی آپ تک پہنچانے میں میری مدد کی۔
جنید مسعود بھی ان ہی میں سے ایک ہیں۔ 1987 میں گورنمنٹ کالج فار بوائز ناظم آباد میں پی ایس ایف کے صدر رہنے والے جنید مسعود اب بیرونِ مُلک مقیم ہیں۔
انھوں نے مجھے بتایا کہ ’بھولو پر ابتدا میں پی ایس ایف کے کسی رہنما نے کوئی توجہ دی ہی نہیں۔ اُس زمانے کے قائدین میں سے کسی نے بھولو کو شاہنواز شانی سے یہ کہہ کر متعارف کروایا تھا کہ یہ لڑکا سیاسی رجحان بھی رکھتا ہے اور ہاتھ پاؤں کا بھی مضبوط ہے۔ گٹھے ہوئے جسم کا درمیانہ سا قد رکھنے والے بھولو کی طاقت کے کئی قصے بھی مشہور تھے کہ یہ بیک کِک مار کر دیوار گرا دیتا ہے یا گائے جیسے جانور کو ہاتھ سے پکڑ کر گرا سکتا ہے۔ جسمانی طور پر وہ بہت مضبوط اور طاقتور تھا۔‘
شاہنواز شانی نے بتایا کہ بھولو شروع سے ہی انڈین فلموں والے ڈان جیسا بننا چاہتا تھا۔
بھولو کی کہانی تب شروع ہوئی، جب 17 اگست 1988 کو ملک کے فوجی صدر جنرل ضیا الحق ایک طیارہ حادثے میں ہلاک ہو گئے اور جنرل ضیا کے بعد ملک میں ہونے والے پہلے عام انتخابات کے نتیجے میں 2 دسمبر 1988 کو بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت قائم ہوئی۔
مگر اُس وقت تک بھی جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے اثرات معاشرے میں پوری طرح موجود تھے۔
اسلحہ بے انتہا عام ہو چکا تھا۔ مسلح جتھّوں اور تنظیموں کی سرکاری سرپرستی کی وجہ سے طلبا سیاست میں بھی تشدد کے رجحانات فروغ پا چکے تھے۔
ذرا ذرا سی بات اور معمولی سے اختلاف پر بھی اسلحہ نکل آتا، گولیاں چلنے لگتیں اور نوبت قتل و غارت تک پہنچ جاتی۔ اسلحے کے بَل پر چلنے والی طلبا سیاست میں آئے دن مسلح تصادم ہوتے جن میں طلبا تنظیموں کے کارکنان یا رہنماؤں کی جان بھی چلی جاتی تھی۔
یہی وہ زمانہ بھی تھا، جب الطاف حسین کی ایم کیو ایم بھی مقبولیت کے عروج پر تھی اور شہر میں قومی و صوبائی اسمبلی کی تقریباً تمام نشستوں پر کامیاب ہو کر کراچی کی واحد نمائندہ ہونے کی دعویدار بھی تھی۔
تب کراچی کی سیاست دہشت اور طاقت کے زور پر ایک نئی کروٹ لے رہی تھی۔
اردو آرٹس کالج پہنچ کر شاہنواز شانی کے ساتھ بھولو بھی پی ایس ایف کے عسکری بازو سے جُڑ گئے۔
اُس زمانے کے طالب علم رہنما اور شہر کی سرگرمیوں سے باخبر تمام ہی حلقے جانتے تھے کہ کئی بار جیل جانے والے شاہنواز شانی خود بھی پی ایس ایف کے عسکری بازو میں خاص مقام رکھتے تھے۔
اردو آرٹس کالج میں طویل عرصے تک شعبہ صحافت کے سربراہ رہنے والے پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد کہتے ہیں کہ ’1990 کی اُس دہائی میں سب طاقتور سیاسی تنظیمیں من مانی کرتی تھیں۔ ایم کیو ایم اور پی ایس ایف کے حلقے بھی یہی کرتے تھے۔ تب شاہنواز شانی کی قیادت میں بہت سے ایسے عناصر (طلبا کے طور پر) اردو آرٹس کالج میں وقت گزارا کرتے تھے جو کریمنل بیک گراؤنڈ رکھتے تھے۔ بھولو بھی ان ہی میں سے ایک تھے۔‘
بھولو کی نوجوانی کا یہ زمانہ ذہانت کا نہیں بلکہ طاقت کا زمانہ تھا۔ گولی، بندوق اور طاقت کے سامنے بینر، پوسٹر، پمفلٹ، منشور اور نظریات کی سیاست کی سانس اُکھڑ رہی تھی۔
ماحول گرمانے کا کام شعلہ بیاں طالبعلم رہنماؤں کی تقریر نہیں بلکہ اسلحے کی گھن گھرج کرنے لگی تھی۔ قریباً ہر سیاسی جماعت میں ایسے عناصر قیادت سنبھال رہے تھے جو جارحیت پسند یا گرم مزاج سمجھے جاتے تھے۔
آہستہ آہستہ اور بڑے غیر محسوس طریقے سے مسلّح جتّھے یا عسکری بازو تقریباً ہر سیاسی جماعت میں غلبہ حاصل کررہے تھے۔
طاقت کی سیاست کے یہ اثرات حکمراں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی صفوں میں بھی نمودار ہوئے مگر اُس سے کہیں زیادہ شدت سے دونوں سیاسی قوتوں کی طلبا تنظیموں پر پڑے۔
شہر بھر کے تعلیمی اداروں میں ایم کیو ایم کی طلبا تنظیم آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (اے پی ایم ایس او) اور پی ایس ایف کے حامیوں میں آئے دن معمولی کشیدگی سے شروع ہونے والا تنازع چند لمحوں میں مسلح تصادم کی شکل اختیار کرلیتا۔
یہ ذہانت کا نہیں بلکہ طاقت کا زمانہ تھا۔ طاقت اور ذہانت جتنی زیادہ ہوتی جاتی ہیں اتنی ہی کم لگنے لگتی ہیں اور بھولو تو جنید مسعود کے مطابق طاقتور اور شاہنواز شانی کے مطابق ذہین، چالاک اور ہوشیار تھے۔
طاقتور بھولو کی ذہانت نے ڈان بننے کے لیے سیاست کا راستہ منتخب کیا۔
جنید مسعود نے مجھے بتایا کہ ’اُس زمانے میں ہر وقت کشیدگی اور غیر اعلانیہ جنگ کی سی کیفیت رہتی تھی۔ طاقت کی سیاست کی وجہ سے پیپلز پارٹی سمیت شہر کی تقریباً ہر سیاسی تنظیم کی بقا خطرے میں تھی۔ ایسے میں بھولو جیسے کارکنوں پر ہی توجہ دی جا سکتی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کبھی کبھار چائے وغیرہ لانے والا بھولو اکثر شاہنواز شانی کے قریب دکھائی دینے لگا۔‘
رفتہ رفتہ شاہنواز شانی کے ذریعے بھولو شہر میں پی ایس ایف کی اعلیٰ قیادت یعنی کراچی کے صدر نجیب احمد وغیرہ کے اس قدر قریب ہو گیا کہ انھیں خاصی اہمیت دی جانے لگی۔
شاہنواز شانی بتاتے ہیں کہ ’دراصل نجیب احمد نے مجھ سے کہا کہ مجھے سکیورٹی کے لیے کچھ ساتھی دو تو میں نے ایوب عتیق، رؤف ناگوری اور بھولو کو کہا کہ تم سب نجیب کے ساتھ رہا کرو۔ ایوب، رؤف تو واپس لیاری یا اردو آرٹس کالج کے قریب آ گئے کیونکہ اُن کے دوست سب ادھر ہی تھے مگر بھولو نجیب کے بہت قریب ہو گیا۔‘
پی ایس ایف کے قائدین خصوصاً نجیب احمد سے اتنی قربت کی وجہ سے بھولو بھی ’طالبعلم رہنما‘ کہلائے جانے لگے۔
حاجی ابراہیم بھولو سنہ 1990 تک کراچی میں پیپلز پارٹی کی طلبا تنظیم پی ایس ایف کے کارکن رہ چکے تھے۔ غصّہ ور اور جارحانہ رجحان کے حامل بھولو کے بارے میں پاکستانی حکام کا دعویٰ رہا ہے کہ وہ پی ایس ایف کے عسکری بازو کا حصّہ تھے پھر مرتضیٰ بھٹّو سے منسوب تنظیم ’الذوالفقار‘ سے وابستہ رہے اور پھر جنوبی افریقہ میں منشیات، ہنڈی حوالہ، سمگلنگ اور دیگر جرائم کے منظم بھولو گینگ سے جُڑ گئے
بھولو سے میری پہلی اور آخری ملاقات
اور تب ہی میری اور بھولو کی پہلی اور آخری ملاقات ہوئی۔ دن اور تاریخ تو مجھے یاد نہیں مگر یہ شاید دسمبر 1989 کی بات ہے کیونکہ سردی ضرور تھی۔
تب میں این ایس ایف کراچی کا سیکریٹری جنرل اور شہر کے وسطی علاقے نارتھ ناظم آباد کے ایچ بلاک میں واقع پریمئیر کالج کا طالبعلم تھا۔
اُس روز این ایس ایف اور پی ایس ایف دونوں ہی جانب سے جارحانہ رجحان رکھنے والے اراکین میں غالباً جاگیرداری نظام کے خلاف این ایس ایف کا پوسٹر لگائے جانے پر کشیدگی شروع ہوئی اور پوسٹرز پھاڑ دیے گئے۔ صورتحال اتنی کشیدہ ہو گئی کہ اُسے معمول پر لانے کے لیے خود مجھے مداخلت کرنا پڑی۔
میری دعوت پر مذاکرات کا مقام کالج کا سبزہ زار طے پایا۔ یہ سوچ کر کہ کشیدگی کم کرنا ہے، کسی کارکن کو ساتھ لے جانے کی بجائے میں نے اکیلے جانا مناسب سمجھا۔
دوسری جانب سے آئے کلیم آفندی (فرضی نام اس لیے کہ پی ایس ایف کے یہ دوست اب ایک بڑے مالیاتی ادارے میں گروپ ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہیں اور اُن کا نام ظاہر ہو جانے سے اُن کی پیشہ ورانہ ساکھ متاثر ہو سکتی ہے)۔
پریمیئر کالج کے طالب علم کلیم آفندی تو میرے دوست بھی تھے مگر بات چیت کے لیے ایک اور نوجوان بھی کلیم کے ساتھ آیا جو میرے لیے بالکل اجنبی تھا اور وہ تھا بھولو۔۔۔
کرخت سا چہرہ، اندر کو دھنسی مگر جارحیت سے بھرپور آنکھیں، الجھی ہوئی سی داڑھی، درمیانہ سا قد مگر شلوار قمیض پر وہ جیکٹ جسے اُس وقت ’کلاشنکوٹ‘ کہا جاتا تھا اور اُس پر سندھ کی روایتی چادر اجرک اوڑھے ہوئے بھولو۔
اُس وقت تک تو میں نے بھولو کا نام بھی کبھی نہیں سُنا تھا۔ میں نے دونوں سے مصافحہ کرنا چاہا۔ کلیم نے تو نیم دلی سے ہاتھ ملا بھی لیا مگر بھولو نے میرے بڑھے ہوئے ہاتھ کو نظر انداز کر دیا۔
میں نے بڑے دوستانہ انداز میں کلیم کو مخاطب کیا کہ ’یار کیوں خوامخواہ کی کشیدگی ہے ماحول میں؟ کیا ہم اِسے ختم کرسکتے ہیں؟‘
جواب میں لمحے بھر کے لیے کلیم کی خاموشی سے مجھے اندازہ ہو گیا کہ معاملہ آسانی سے نمٹنے والا نہیں۔
میں نے پھر پوچھا ’کلیم کیوں مشتعل ہو تم لوگ؟ بس تب ہی بھولو نے اچانک مداخلت کی۔
میں بھولو کا چہرہ کبھی نہیں بھول سکا۔ مجھے تو اُس چہرے پر شدید غیض و غضب اور غصّے کے تاثّرات بھی آج تک یاد ہیں۔
بھولو نے اپنے بھینچے ہوئے ہونٹ پھیلائے، آنکھیں سُکیڑ لیں اور چلا کر مجھے حکم دیا کہ ’بیج اتار۔۔۔‘
اپنی قمیض پر لگا ہوا این ایس ایف کا بیج اتارنے کے بھولو کے مطالبے پر میری نگاہ بھولو کے سینے کی جانب اُٹھی جہاں پی ایس ایف کا بیج لگا ہوا تھا۔
بھولو کا جارحانہ لہجہ نظر انداز کرتے ہوئے میں بھولو سے مخاطب ہوا کہ ’بیج تو آپ نے بھی لگایا ہوا ہے۔ ہم بیج لگا کر بھی تو بات کرسکتے ہیں؟‘
جوابی ردّعمل بہت ہی غیر متوقع تھا۔
بھولو نے اچانک اپنی اجرک اتار پھینکی۔ اجرک اترتے ہی اُن کے سینے پر بندھی ہوئی کلاشنکوف رائفل (اے کے 47) برآمد ہوئی۔
سرعتِ رفتار اور کمالِ مہارت سے رائفل لوڈ کرتے ہوئے بھولو نے اُسے میری جانب کر دیا۔ میں شدید اضطراب و بے چینی کے عالم میں صرف ایک بات سوچ رہا تھا۔
جان بچاؤں یا پارٹی کی سیاست، ساکھ اور وقار؟ اگر میں بھولو کے حکم پر بیج اتار دیتا تو یہ این ایس ایف کو کمزور دکھا سکتا تھا۔ دور سے دیکھتے ساتھیوں کا حوصلہ پست کرسکتا تھا۔ کالج میں این ایس ایف کی مقبولیت اور سیاسی طاقت پر سوالیہ نشان لگا سکتا تھا۔
یہی سب سوچتے ہوئے میری نظریں نہ چاہتے ہوئے بھی بھولو کی انگلیوں پر تھیں۔ کہیں یہ گولی چلا تو نہیں دے گا؟
سوچنے کے لیے میں نے چند لمحوں کا جو وقت لیا اُسی سے بھولو اور بپھر گیا۔ بیج اتار۔۔۔ دوسری بار حُکم دیتے ہوئے بھولو نے مجھے گالی دی۔
آخری چیز جو میں اپنے ہوش میں دیکھ سکا وہ بندوق پر مچلتے ہوئے بھولو کے ہاتھ تھے۔
بیج نہ اتارنے پر شدید مشتعل بھولو نے جھنجھلا کر بندوق کا بٹ مجھے دے مارا اور پھر آس پاس موجود اُن کے دیگر ساتھی مجھ پر پل پڑے۔ جس کے ہاتھ میں جو چیز آئی اُس نے اُس سے مجھ پر حملہ کردیا۔
ہوش آیا تو پہلی چیز جو نظر آئی وہ بالکل میرے برابر میں ہاتھ کی دسترس میں پڑی ہوئی قینچی تھی۔ میں نے اپنے دفاع میں قینچی اٹھائی اور جو پہلا انسانی ہاتھ نظر آیا قینچی اُسی کی طرف تان لی۔
مگر حواس بحال ہونے پر سمجھ میں آیا کہ وہ قینچی دراصل ایک ڈاکٹر کی تھی جو نارتھ ناظم آباد کے ضیا الدین ہسپتال میں میرے زخموں کی مرہم پٹی کر رہے تھے۔
یہ بھی سمجھ میں آیا کہ میری اور بھولو کی پہلی اور آخری ملاقات ختم ہو چکی ہے۔
بھولو جیسے عناصر پر عرصہ حیات تنگ ہونے لگا
جس زمانے میں بھولو سے میری یہ ملاقات ہوئی بالکل اُسی دوران، حکمراں پیپلز پارٹی کی سیاسی پروفائل بدعنوانی کے الزامات سے دھندلانے لگی اور ملک کے سیاسی اُفق پر ایک عجیب نقشہ بننے لگا۔
تب تک بے نظیر بھٹو حکومت کی اتحادی رہنے والی ایم کیو ایم نے اچانک پیپلز پارٹی پر کرپشن اور وعدہ خلافیوں کے الزامات عائد کرنا شروع کیے اور مسلسل تنقید کے بعد بالآخر ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی کی اس مخلوط حکومت سے علیحدگی اختیار کرلی۔
اب پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان سیاسی طاقت کی نئی رسہ کشی شروع ہوئی اور میدان جنگ بنے شہر کے کوچہ و بازار اور تعلیمی ادارے۔
دونوں جماعتیں ایک دوسرے پر بدعنوانی، قتل و غارت اور دہشت گردی کے الزامات عائد کیا کرتیں اور تعلیمی اداروں میں آئے دن مسلح تصادم ہوا کرتے۔
ایسے میں ہی آٹھ جون 1989 کو کراچی یونیورسٹی میں عزیز اللّہ اُجن سمیت پی ایس ایف کے تین عہدیدار ایک مسلح کارروائی میں ہلاک ہو گئے۔ پی ایس ایف نے ایم کیو ایم کو اِن ہلاکتوں کا ذمہ دار قرار دیا۔
کشیدگی اس قدر بڑھی کہ پی ایس ایف کراچی کے صدر نجیب احمد نے ایک پریس کانفرنس میں اپنی تنظیم بند کرنے اور سیاسی سرگرمیاں معطل کرنے کا اعلان کردیا۔ چند ہی ماہ میں دونوں تنظیموں کے کئی کارکن طاقت کی سیاست کا نشانہ بنے۔
صورتحال اتنی بگڑی کہ چھ اپریل 1990 کو خود نجیب احمد نارتھ ناظم آباد میں اپنی رہائش گاہ کے قریب گھات لگا کر کیے جانے والے ایک قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوئے اور پانچ ہی دن بعد یعنی 11 اپریل 1990 کو زندگی کی بازی ہار گئے۔
یہ معمولی قتل نہیں تھا۔ حکمراں جماعت پیپلز پارٹی کی طلبا تنظیم کی تاریخ کے سب سے نامور رہنما اور کراچی کے صدر نجیب احمد کا شہر کے بیچوں بیچ قتل ہوا تھا۔
پی ایس ایف، پیپلز پارٹی اور حکومت سب نے نجیب احمد کے قتل کا ذمہ دار بھی ایم کیو ایم کو قرار دیا مگر ایم کیو ایم اور الطاف حسین دونوں ہی نجیب احمد سمیت تمام ہلاکتوں کے الزامات سے ہمیشہ انکار کرتے رہے۔
ایم کیو ایم نے اسی بیچ ہونے والی اپنے کارکنوں کی ہلاکت کا ذمہ دار پی ایس ایف یا پیپلز پارٹی کو قرار دیا۔
الطاف حسین کا موقف ہمیشہ یہی رہا کہ سرکاری خفیہ ادارے ایسی دہشتگردی میں ملوث ہیں جن کا مقصد ایم کیو ایم کو بدنام کر کے اس کی مقبولیت کے خلاف سرکاری کارروائی کی راہ ہموار کرنا تھا۔
اسی دوران پاکستان کے سیاسی تشدد کا ایک نیا رخ سامنے آیا۔
سرکاری حکام کی جانب سے یہ انکشاف کیا جانے لگا کہ مُلک میں موجود بیشتر سیاسی، مذہبی، فرقہ وارانہ، قوم پرست یا علیحدگی پسند جماعتوں اور جہادی تنظیموں سے منسلک عناصر اندرون و بیرون ملک پاکستانی یا غیرملکی خفیہ اداروں کے ’تربیتی مراکز میں دہشت گردی کی تربیت حاصل کرتے رہے ہیں۔
تواتر سے عوامی سطح پر عائد کیے جانے والے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر فوجی و غیر فوجی خفیہ اداروں کے یہ الزامات سنسنی خیز شہہ سرخیوں کے ساتھ پاکستانی ذرائع ابلاغ کی زینت بنتے رہے۔
حکام کا کہنا تھا کہ ایسے عناصر کو دہشت گردی کے لیے افغانستان، انڈیا اور کشمیر میں قائم تربیتی مراکز میں مسلح کارروائیوں کی تربیت دی جاتی ہے۔
بھولو کی کہانی میں میری مدد کرنے والے بعض سرکاری حکام اور دیگر افراد بھی تصدیق کرتے ہیں کہ بھولو بھی کسی تربیتی مرکز میں اسلحے اور مسلح کارروائیوں کی تربیت کے لیے آتے جاتے رہے۔
بالآخر 6 اگست 1990 کو اُس وقت کے صدر غلام اسحٰاق خان نے بدعنوانی کے الزامات کے تحت بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف کر دی اور ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھی مگر بے نظیر بھٹو کے مخالف غلام مصطفیٰ جتوئی کو نگران وزیراعظم مقرر کر دیا گیا۔
سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کے وزیراعلیٰ آفتاب شعبان میرانی کی حکومت تحلیل کر دی گئی اور پیپلز پارٹی کے دیرینہ مخالف سمجھے جانے والے جام صادق علی کو وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا۔
حکمرانی کی چھتری سر سے ہٹتے ہی پیپلز پارٹی، پی ایس ایف اور بھولو جیسے عناصر پر عرصہ حیات تنگ ہونے لگا۔
بیرون ملک مقیم پی ایس ایف کے ایک سابق رہنما اور بھولو کے دوست نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مجھ سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ ’وزیر اعلیٰ جام صادق نے ہم سب (نجیب احمد کے دوست پی ایس ایف کارکنان) کو بلوایا اور غلام مصطفیٰ جتوئی کی نیشنل پیپلز پارٹی میں شمولیت کی شرط پر جان بخشی کی پیشکش کی مگر ہم میں سے کسی نے بھی اس پیشکش کو قبول نہیں کیا۔‘ (چونک جام صادق اب اس دنیا میں نہیں، لہٰذا اُن کا ردعمل یا موقف نہیں لیا جا سکتا)۔
لیکن جنید مسعود نے بھی اپنے ساتھی کے دعوے کی تصدیق کی اور بتایا کہ ’جام صادق نے کہا کہ دو ہی راستے ہیں۔۔۔ یا ہمارے ساتھ ہو جاؤ یا۔۔۔‘
پھر اُس ’یا‘ کا آغاز ہوا۔ 22 اگست کو شہر میں ایم کیو ایم کے کئی کیمپس پر فائرنگ کے واقعات ہوئے اور الزام پی ایس ایف کے کارکنان پر لگا۔
پیپلز پارٹی اور پی ایس ایف کے ارکان کی گرفتاریوں اور پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہوا۔
اُس زمانے کے اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ کے مطابق پی ایس ایف کے بہت سے کارکنان پر مقدمات بنائے گئے۔ پی ایس ایف کے سابق رہنماؤں کے دعووں کے مطابق گرفتاریوں کے لیے پی ایس ایف کے کئی مطلوب رہنماؤں کے سر کی قیمت تک مقرر ہونے لگی۔
پیپلز پارٹی کی حکومت گر جانے اور سرکاری طاقت چھن جانے کے بعد یہ نئی فضا پی ایس ایف کے لیے انتہائی ناسازگار ہو گئی تو پی ایس ایف کے بہت سے کارکنوں نے بیرونِ ملک چلے جانے میں ہی عافیت جانی۔
ان ہی حالات میں شدید مشکلات کا شکار پیپلز پارٹی کے اندر ایک نئی صف بندی اور کھینچا تانی شروع ہوئی۔
اب تک تو ذرائع ابلاغ اور مخالفین پیپلز پارٹی کی مبینہ بدعنوانی پر تنقید کرتے تھے مگر اب خود پارٹی کے اندر سے بھی تنقید اور الزام تراشی کا سلسلہ سامنے آیا۔
حتّیٰ کہ خود وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے بھائی میر مرتضی بھٹو نے بھی اپنی بہن کی حکومت پر بدعنوانی کے تناظر میں کئی بار کھلے عام تنقید کی اور پیپلز پارٹی میں بے نظیر بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کے حامیوں میں تقسیم کی دراڑ گہری ہونے لگی۔
بالآخر میر مرتضیٰ بھٹو نے خود کو اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کا اصل وارث و جانشین قرار دیتے ہوئے پیپلز پارٹی شہید بھٹو کی بنیاد رکھی۔
مرتضی بھٹو 18 اکتوبر 1993 کے انتخابات میں پی ایس 31 لاڑکانہ کے اپنے آبائی ضلع سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے اور اپنی خود ساختہ جِلا وطنی ختم کر کے پاکستان واپس پہنچے تو یہاں اُن کی بہن (اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹّو) کے حکم پر مرتضیٰ بھٹو کو دہشت گردی کے الزامات کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔
اور تب ہی پیپلز پارٹی کے عسکری بازو کے بہت سے اراکین مرتضیٰ بھٹو سے جا ملے۔ جنید مسعود کا کہنا ہے کہ ’پھر بھولو سے ہمارے رابطے ٹوٹ گئے۔ وہ بھی مرتضیٰ بھٹوکے ساتھ جا ملا۔‘
پاکستانی حکام کی اکثریت کا کئی برس تک خیال رہا کہ مرتضیٰ بھٹو ایک شدت پسند تنظیم ’الذوالفقار‘ کی قیادت کرتے تھے جو جنرل ضیا الحق کے دور اور بے نظیر بھٹو کی حکومت کے دوران بھی دہشتگردی کے کئی واقعات میں ملوث رہی۔
اگرچہ ریاستی اداروں نے سندھ میں دہشت گردی کے کئی واقعات کو برسوں تک ’الذوالفقار‘ سے منسوب کیا مگر پیپلز پارٹی اور مرتضیٰ بھٹو ہمیشہ ’الذوالفقار‘ کے وجود سے ہی انکاری رہے اور اسے ریاستی حکام کا من گھڑت اور فرضی حوّا قرار دیتے رہے۔
لیکن شاہنواز شانی نے مجھ سے گفتگو میں تصدیق کی کہ بھولو بھی ’الذوالفقار‘ کا حصّہ بن گئے تھے۔
پولیس ریکارڈ، تفتیش کاروں، عدالتی دستاویزات، سرکاری حکام اور پی ایس ایف کے دوستوں کے مطابق ’ذہین اور طاقتور بھولو ’الذوالفقار‘ سے جُڑ کر بھی بہت کچھ کرتے رہے اور مبینہ طور پر مرتضیٰ بھٹو کے قریبی ساتھی علی سنارا وغیرہ کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے کئی واقعات میں ملوث رہے۔‘
بھولو کراچی سے موزمبیق پہنچ گیا
مشرقِ وسطیٰ میں قیام پذیر سابق پی ایس ایف رہنما نے مجھے بتایا کہ ’اُسی زمانے میں بھولو کسی طرح ملیر کینٹ کے قریب واقع کراچی میں گھوڑوں کی ریس پر جُوئے کے لیے مشہور ریس کورس کے رانا صاحب تک پہنچا۔‘
کئی سال پہلے ایک حساس سرکاری عہدیدار نے مجھے بتایا تھا کہ ’پتا نہیں کہ اُن کا ذاتی شوق تھا یا پیسے کی کشش تھی یا پھر وہ بطور ڈیوٹی یہ سب کرتے تھے مگر ہمارے بھی کچھ افسران ریس کورس کے معاملات سے منسلک رہے۔‘
مشرقِ وسطیٰ میں مقیم بھولو کے دوست اور پی ایس ایف رہنما کا کہنا ہے کہ ’پھر شاید ان ہی رانا صاحب اور اُن کی بیگم نے بھولو کو سمجھایا کہ کراچی میں حالات تمہارے لیے ٹھیک نہیں۔‘
’رانا صاحب اور اُن کی بیگم نے بھولو کو پیشکش کی کہ اگر بھولو چاہیں تو رانا صاحب افریقی ملک موزمبیق جانے کے لیے بھولو کی مدد کرسکتے ہیں۔‘
اب رانا صاحب اور ان کی بیگم کی مدد سے بھولو موزمبیق پہنچے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک مشترکہ دوست نے بتایا کہ بھولو کے جانے کے کچھ عرصے بعد اُن کے قریبی دوست اور سابق پی ایس ایف رہنما منظر عباس جعفری بھی جنوبی افریقہ پہنچے۔
کراچی پولیس کے کئی سابق اور بعض موجودہ اعلیٰ افسران کے مطابق ’پنجاب کے شہر گجرات سے تعلق رکھنے والے منظر عباس جعفری بھی اُسی راستے کے مُسافر تھے جس پر بھولو چل رہے تھے۔‘
بھولو اور منظر پی ایس ایف کے مقتول صدر نجیب کے قریبی ساتھی رہے تھے اور ایک غیر فوجی خفیہ ادارے کے سابق افسر کے مطابق ’دونوں کی کیمسٹری بڑی میچ کرتی تھی۔‘
شاہنواز شانی کا کہنا ہے کہ موزمبیق جانے کے بعد بھی بھولو کئی بار پاکستان آتے جاتے رہے۔
’ایک بار وہ آیا تو مجھے اپنی کامیابی کے قصّے سنا رہا تھا۔ میں نے پوچھا کہ یہ بتاؤ کہ ادھر کے بے وقوف، ادھر (موزمبیق یا جنوبی افریقہ) جا کر ڈان کیسے بن جاتے ہیں؟ تو بھولو ہنسنے لگا۔‘
صدارتی انتخابات کی فنڈنگ
شاہنواز شانی کا یہی سوال میرے لیے بھی ایک ایسی پہیلی بنا رہا جس کا جواب تلاش کرنے میں مجھے کئی سال لگے اور یہ جواب مجھے ملا افریقی ممالک میں پاکستانی گینگسٹرز کے ساتھ طویل عرصے تک جُڑے رہنے والے اپنے ایک ’ذریعے‘ سے جو زمانۂ طالبعلمی میں کبھی میرے رابطے میں رہے تھے۔
میرے ذریعے کے مطابق ’دراصل موزمبیق میں ایک پاکستانی میمن سیٹھ (جن کا نام کسی وجہ سے انھوں نے بھی ظاہر نہیں کیا) بھولو اور منظر سے کہیں پہلے موزمبیق کے انڈر ورلڈ دھندے کے بڑے کھلاڑی بن چکے تھے۔‘
’اصل میں اُسی میمن سیٹھ نے ہی بھولو منظر گینگ کو مقامی انڈر ورلڈ پر چھا جانے کے لیے مدد اور رہنمائی فراہم کی۔ وہ میمن سیٹھ انڈر ورلڈ دھندوں میں داؤد ابراہیم سے بھی جُڑے ہوئے تھے۔‘
میرے ذریعے کے مطابق وہ میمن سیٹھ کراچی ریس کورس کے رانا صاحب سے بھی رابطے میں تھے اور انھوں نے بھولو اور منظر کے ذریعے اپنے کام کو عروج پر پہنچا دیا۔‘
بعض مشترکہ دوستوں کے مطابق بھولو اور منظر نے پھر جنوبی افریقہ پہنچنے پر میمن سیٹھ کی بتائی گئی حکمتِ عملی پر جوہانسبرگ سے موزمبیق کے دارالحکومت ماپوتو تک ایک منظم گروہ تشکیل دیا۔
کراچی انڈر ورلڈ کے اہم کردار رہنے والے بھولو اور منظر کے لیے طاقت اور پیسے کے زور پر ماپوتو کے جرائم پیشہ افراد کے دھندے پر قبضہ کرلینا بہت ہی آسان ثابت ہوا۔
مشرقِ وسطیٰ میں مقیم دوست کے مطابق پہلے تو بھولو منظر گروہ نے ڈسکو کلب کی آڑ میں جرائم کے دھندے چلانے والی ماپوتو کی انڈر ورلڈ سے ٹکر لی۔
بھولو منظر گینگ نے جلد ہی مقامی جرائم پیشہ گروہوں کو مار بھگایا اور خود غیر قانونی دھندوں کے ہر شعبے پر قابض ہوتے چلے گئے۔
بھولوُ منظر گینگ نے شراب، جُوا، منشیات، جعلی کرنسی، سٹّے، بھتّے، ہنڈی، حوالہ اور سمگلنگ سمیت ہر وہ غیر قانونی کام کیا جس میں بے تحاشہ پیسہ کمایا جا سکتا تھا۔
پیسے کے بَل پر طاقت اور طاقت کے بَل پر مزید پیسہ کے فارمولے پر اس گروہ نے جنوبی افریقہ سے مشرق وسطیٰ تک ایک بہت ہی منظّم نیٹ ورک بنا لیا۔
بعض انتہائی قریبی ذرائع نے، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، کے بھولو اور منظر اور پی ایس ایف کے عسکری بازو سے علیحدہ ہو جانے والے بہت سے سابق لوگ بھی اس گینگ کا حصہ بنتے گئے۔
مگر جلد ہی جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں پہلے ہی سے موجود جرائم پیشہ عناصر کا ایک اور گروہ بھولو منظر گینگ کے سامنے آ کھڑا ہوا اور یہ گروہ دراصل داؤد ابراہیم کے سابق دست راست اور بعد میں سب سے بڑے دشمن بن جانے والے چھوٹا راجن کا نیٹ ورک تھا۔
بھولو اور منظر کو ان کے خلاف لڑائی میں داؤد ابراہیم کی بھی بھرپور مدد حاصل رہی کیونکہ راجن نے داؤد ابراہیم سے کنارہ کشی کر کے مبینہ طور پر انڈین خفیہ اداروں سے ہاتھ ملا لیا تھا۔
داؤد ابراہیم، اُن کے پاکستانی دوستوں اور بھولو منظر گینگ، سب نے مل کر چھوٹا راجن نیٹ ورک سمیت سب کو ٹھکانے لگانا شروع کیا۔
کراچی پولیس کے سابق افسر ایس ایس پی راؤ انوار نے بھی مجھے بتایا کہ جلد ہی جنوبی افریقہ میں بھولو کے پاس بہت پیسے آ گئے۔
پی ایس ایف کے کم از کم دو سابق عہدیداروں نے مجھ سے گفتگو میں تصدیق کی کہ ایک ایسا وقت آیا جب بھولو اور منظر گینگ موزمبیق کے صدارتی انتخابات کے امیدواروں کی ’فنڈنگ‘ کرنے لگا۔
یعنی پٹنی محلے کا انگوٹھا چھاپ بھولو یہ فیصلے کرنے لگا کہ موزمبیق جیسے ملک میں صدر کون ہوگا؟
کراچی جیل میں میرے ذریعے کے مطابق بھولو نے موزمبیق میں اپنے ’گاڈ فادر‘ میمن سیٹھ کی صاحبزادی سے شادی بھی کرلی۔ بھولو کے دو بچّے بھی تھے۔‘
بھولو کی شعیب خان سے ملاقات
اسی بیچ، ادھر پاکستان میں ایک نیا کھیل شروع ہوا۔
نواز شریف کی حکومت نے فوج اور ریاستی اداروں کی مدد سے سندھ میں کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کے خلاف 1992 کا ’آپریشن کلین اَپ‘ شروع کیا مگر 19 جون 1992 کو اچانک ہی اس آپریشن کا رُخ الطاف حسین کی ایم کیو ایم کی جانب مُڑ گیا۔
1994 میں جب آپریشن اپنے عروج پر تھا اور انتہائی متنازعہ پولیس مقابلوں اور حراست کے دوران ایم کیو ایم کے اراکین کی ماورائے عدالت ہلاکتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو ایم کیو ایم کے عسکری بازو کے اراکین نے بھی ملک سے نکل جانے میں ہی عافیت جانی اور ایم کیو ایم کے بھی بہت سے لوگ اُسی جنوبی افریقہ پہنچے جہاں بھولو اور منظر گینگ پہلے ہی ایک مضبوط نیٹ ورک چلا رہے تھے۔
اب ایک نئے سلسلے کا آغاز ہوا۔ اب فراوانی سے طاقت اور پیسہ رکھنے والے بھولو اور منظر کو اپنے نوجوانی کے زمانے کی دوستیاں اور دشمنیاں دونوں یاد آئیں۔
بھولو منظر گینگ نے جنوبی افریقہ پہنچنے والے اپنے دیرینہ مخالفین یعنی ایم کیو ایم اراکین کو جنوبی افریقی شہروں میں آڑے ہاتھوں لیا۔ جن کو نشانہ بنا سکتے تھے، بنایا اور جن کو نہیں بنا سکے ان کے بارے میں اطلاعات پاکستانی حکام کو فراہم کیں۔
کراچی جیل میں ایک ذریعے نے بتایا کہ ’نتیجہ یہ ہوا کہ جعلی ناموں یا فرضی پاسپورٹ پر بھی وطن واپس پہنچنے والے ایم کیو ایم اراکین کو سرکاری ادارے بھولو اور منظر کی مصدقہ اطلاع پر ایئرپورٹ پر ہی دھر لیتے۔‘
پاکستان سے باہر مقیم پی ایس ایف کے تین سابق عہدیداروں اور بھولو کے قریبی دوستوں نے دعویٰ کیا کہ اُس زمانے میں ’یہ حال تھا کہ کوئی بھی پاکستانی شہری اگر موزمبیق کے ہوائی اڈوں پر اترتا تھا تو اُس کے پاسپورٹ کی کاپی بھولو اور منظر کو بھی فیکس کی جاتی تھی تاکہ انھیں پتا چل جائے کہ کون یہاں آیا ہے۔‘
کراچی پولیس کے سابق افسر راؤ انوار نے مجھے بتایا کہ ’بھولو نے ایسے کئی مواقعوں پر ہماری بہت مدد کی۔ یہ میری کوئی ذاتی مدد نہیں تھی۔ وہ وطن کی محبت میں ایسا کر رہا تھا۔ اُس میں حب الوطنی بہت تھی اور اس نے ملک کے لیے یہ سب کیا۔‘
جنید مسعود بھی کہتے ہیں کہ بھولو کے دوست کبھی کبھار باتوں میں اُس کا ذکر آ جانے پر یہ کہتے رہے کہ پیسے اور طاقت کے حصول کے بعد اُس نے سوچا کہ ملک کے لیے بھی کچھ کرنا چاہیے۔
یعنی اُس وقت ایک جانب بھولو منظر گینگ ایم کیو ایم سے اپنا حساب چکا رہا تھا اور دوسری طرف جنوبی افریقہ میں اپنا غیر قانونی دھندا وسیع کرتا جا رہا تھا اور ماپوتو سے جوہانسبرگ تک عالیشان جُوا خانوں، مہنگے ہوٹلز اور پُر تعیش قحبہ خانوں میں بھولو منظر گینگ کا سکّہ چل رہا تھا۔
جلد ہی اس گروہ کی شہرت ماپوتو اور جوہانسبرگ سے نکل کر کراچی اور دبئی پہنچنے لگی۔
پاکستانی جریدے ’نیوز لائن‘ کی ستمبر 2001 کی اشاعت کے مطابق داؤد ابراہیم بھی جنوبی افریقہ میں منشیات کا دھندا چلا رہے تھے۔ جلد ہی بھولو منظر گینگ نے جنوبی افریقہ میں داؤد ابراہیم کا مقامی کام بھی سنبھال لیا۔
کراچی اور ممبئی انڈر ورلڈ کے اس ملاپ کی وجہ سے افریقی ممالک میں تشدد کی ایک اور لہر ابھری اور جنوبی افریقہ میں گینگ وار کے بہت سے واقعات ہوئے جنھوں نے کئی زندگیاں نگل لیں۔
اب بھولو داؤد ابراہیم کے بھی اُتنے ہی قریب ہو گئے جتنے وہ کسی وقت پی ایس ایف کے صدر نجیب احمد کے قریب رہے تھے۔ فرق بس یہ پڑا کہ اب بھولو کی فرمائش پر انھیں ’حاجی ابرہیم بھولو‘ اور ’حاجی صاحب‘ پکارا جانے لگا۔
یہ سب چل ہی رہا تھا کہ بھولو کی قسمت دغا دے گئی اور دبئی میں داؤد ابراہیم کے ذریعے ہی بھولو کی ملاقات کراچی انڈر ورلڈ کے ایک اور کردار شعیب خان سے ہوئی۔
شعیب خان بھی انڈر ورلڈ کنگ بننے کا خواب آنکھوں میں سجائے ’داؤد بھائی‘ کی کشش میں دبئی پہنچے تھے۔
شعیب کا قصہ پوری تفصیل سے اس سیرز کی پہلی قسط میں میں آپ تک پہنچ چکا ہے۔
جلد ہی شعیب خان اور بھولو یک جان دو قالب ہوگئے۔ اب کراچی ہو یا دبئی، جوہانسبرگ ہو یا ماپوتو، بھولو کے لیے سب ایک جیسا ہو گیا۔ جب جی چاہا کراچی اور جب دل چاہا جوہانسبرگ۔
بھولو کا زوال تب شروع ہوا، جب داؤد ابراہیم نے دھندے میں اپنے سب سے بڑے مخالف اور کسی وقت میں اپنے سب سے قریبی ساتھی چھوٹا راجن کو راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا اور اس کام کی فرمائش داؤد ابراہیم نے شعیب خان سے کی جو کراچی انڈر ورلڈ معاملات میں داؤد ابرہیم کے پارٹنر بن چکے تھے۔
چھوٹا راجن مبینہ طور پر انڈین خفیہ اداروں سے ہاتھ ملا کر داؤد ابراہیم کے خلاف اپنا گروہ تشکیل دے چکے تھے اور بینکاک میں اپنے ایک با اعتماد ساتھی اور ٹاپ شوٹر روہت ورما کے اپارٹمنٹ میں مقیم تھے۔
شعیب خان نے چھوٹا راجن کو راستے سے ہٹانے کا یہ کام بھولو کے سپرد کیا۔
انڈین ذریعے کے مطابق کراچی سے بھولو کے ساتھیوں کا پہلا دستہ 31 اگست 2000 کو ان واضح ہدایات کے ساتھ بینکاک پہنچا کہ ’یا تو راجن کو کراچی لے آؤ ورنہ ختم کر ڈالو۔‘
نیوز لائن کے مطابق بھولو نے راجن کے قتل کے لیے جن لوگوں کا انتخاب کیا، اُن میں سے تین کا تعلق ماضی میں ’الذوالفقار‘ سے رہ چُکا تھا اور انھیں کام کردینے کے عوض بڑی رقم کی پیشکش کی گئی تھی۔
14 ستمبر 2000 کی رات 9:30 بجے کا وقت تھا جب مہنگے سیاہ جیکٹ سوٹ اور چمڑے کے قیمتی جوتوں میں ملبوس بھولو اپنے دیگر سات ساتھیوں سمیت روہت ورما کے اس اپارٹمنٹ کی بلڈنگ کے مرکزی دروازے پر پہنچے۔
بھولو کے ساتھیوں میں تھائی لینڈ کے دو شہری بھی شامل تھے جو ایک بڑا سا کیک اٹھائے ہوئے تھے تاکہ دروازے پر تعینات گارڈز کو دھوکہ دے سکیں اور یہی ہوا۔
اس شان و شوکت سے مرعوب گارڈ نے یہ سن کر کہ وہ اس عمارت میں مقیم اپنے دوست کی سالگرہ پر سرپرائز دینے آئے ہیں ان تمام افراد کو عمارت میں جانے دیا۔
سیڑھیوں سے اوپر پہنچ کر اب بھولو اور اُن کے ساتھی اُس اپارٹمنٹ کے داخلی دروازے پر پہنچے جس کے لاؤنج میں روہت ورما، اُن کی اہلیہ سنگیتا اور ایک بچہ ٹی وی دیکھ رہے تھے۔
دروازے پر گھنٹی کی آواز سن کر پیپ آئی سے کسی نے اندر سے جھانک کر دیکھا تو سامنے دو مسکراتے ہوئے تھائی باشندے بڑا سے کیک اُٹھائے تو دکھائی دیے مگر دیوار سے چپکے کھڑے ہوئے بھولو اور اُن کے ساتھی نظر نہیں آ سکے اور یہی دھوکہ بہت مہنگا پڑا۔
دروازہ کھلتے ہی 9 ایم ایم کی پستولوں سے لیس بھولو اور اُن کے ساتھی اندر داخل ہوئے اور گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ گولیاں لگنے سے سب سے پہلے تو روہت ورما گرے، پھر ایک گولی انھیں بچانے کے لیے دوڑتی ہوئی اُن کی اہلیہ سنگیتا کو لگی۔
یہ سب دیکھ کر حواس باختہ ہوجانے والی روہت کی گھریلو ملازمہ کمیلا باورچی خانے کے دروازے کی جانب بھاگیں مگر بھولو اور اُن کے ساتھیوں کو جس شکار یعنی چھوٹا راجن کی تلاش تھی، وہ کہیں دکھائی نہیں دیا۔
پھر اچانک کسی سائے نے بیڈروم کی بالکونی سے نیچے گارڈن میں چھلانگ لگائی۔ یہی چھوٹا راجن تھے۔
بھولو اور اُن کے ساتھیوں نے فرار ہوتے ہوئے راجن پر اندھا دھند گولیاں چلائیں مگر ایک گولی پیٹ اور دوسری دائیں ران میں لگنے کے باوجود راجن کُود کر جان بچانے میں کامیاب رہے۔
فلیٹ میں واپس پہنچ کر چھوٹا راجن نے روہت ورما کو ٹی وی لاؤنج میں مردہ اور سنگیتا کو شدید زخمی پایا۔ بیڈروم میں جانے والے راجن نے پہلا فون اپنے سب سے قریبی ساتھی گروستم کو کیا اور چوتھا مگر آخری فون تھائی پولیس کو۔
راجن تو بچ گئے مگر کراچی میں شعیب خان اور بھولو کی دوستی نہ بچ سکی۔ اس واردات کی ناکامی پر شدید مشتعل داؤد ابراہیم کی پہلے شعیب خان سے تلخ کلامی ہوئی اور پھر شعیب خان اور بھولو میں اختلاف ہوا۔
نیوز لائن کے مطابق شعیب نے بھولو کے تین ساتھیوں کو وعدہ شدہ رقم دینے سے انکار کردیا جس پر بھولو نے ان افراد کو ادائیگی تو اپنی جیب سے کر دی مگر وہ شعیب خان کے شدید مخالف ہو گئے۔
شعیب خان کے ہاتھوں بھولو کا قتل
بھولو کی جانب سے سپاری کی رقم کا تقاضا اور شعیب کی طرف سے اس پر انکار سے تعلقات اس ڈگر پر پہنچے کہ شعیب نے بھولو سے ہمیشہ کے لیے جان چھڑانے کا فیصلہ کیا۔
پاکستان کے انگریزی اخبار ڈان نے 13 جنوری 2005 کو بتایا کہ کراچی کے گزری تھانے میں درج ایف آئی آر کے مطابق خیابانِ غازی کے رہائشی حاجی ابراہیم بھولو اِسی علاقے کے خیابانِ سحر سے لاپتہ ہو گئے۔
جہاں سے بھولو لاپتہ ہوئے وہ شعیب خان کا گھر تھا۔ کراچی پولیس کے سابق افسر ایس پی فیاض خان نے مجھے بتایا کہ اس روز دراصل بھولو، شعیب خان سے ملنے اُن کے گھر گئے تھے۔
بھولو کی گمشدگی کے بعد چوہدری اسلم اور راؤ انوار جیسے کراچی پولس کے افسران کا اندازہ تھا کہ شاید بھولو قتل کر دیے گئے ہیں۔ اِن پولیس افسران کو شبہ تھا کہ بھولو کے قتل میں شعیب خان کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔
پھر ڈان میں شائع ہونے والی کئی خبروں کے مطابق بھولو کی گاڑی کراچی ایئر پورٹ کی پارکنگ میں کھڑی ہوئی ملی۔
اگر پولیس تفتیش، عدالتی ریکارڈ، ذرائع ابلاغ کی رپورٹس، کئی مشترکہ دوستوں، سرکاری حکام، پولیس افسران اور فوجی و غیر فوجی خفیہ اداروں کے موجودہ و سابق عہدیداروں کی تمام گفتگو کو جوڑ لیا جائے تو بڑی بھیانک تفصیلات سامنے آتی ہیں۔
ان مختلف ذرائع نے قریباً ایک ہی کہانی سنائی جس کے مطابق شعیب خان کو نہیں معلوم تھا کہ بھولو کی گاڑی میں ٹریکر لگا ہوا تھا اور شعیب خان مسلسل انکار کرتے رہے کہ بھولو کی گمشدگی میں اُن کا کوئی ہاتھ ہے۔
گاڑی ملتے ہی تفتیش کاروں کو پتا چل گیا کہ ایئرپورٹ لائے جانے سے قبل بھولو کی گاڑی دراصل کئی گھنٹوں تک شعیب خان کے گھر پر کھڑی رہی تھی۔
آخر کار بھولو شعیب خان کے خلاف بھولو کی پُر اَسرار گمشدگی کا مقدمہ بھولو کے بھائی محمد یوسف پٹنی کی مدعیت میں تھانہ گزری میں درج کر لیا گیا۔
شعیب خان کو بھولو کی گمشدگی کے مقدمے میں نامزد تو کر دیا گیا تھا مگر وہ ضمانت کے ذریعے گرفتاری سے بچنے کی کوشش بھی کررہے تھے اور بھولو کو تو جیسے زمین نگل گئی تھی یا آسمان۔
بھولو کی پُراسرار گمشدگی‘ کا معاملہ حل نہیں ہوا تو جنوبی افریقہ میں بھولو گینگ نے معاملہ اپنے طور پر انجام تک پہنچانے کا فیصلہ کیا۔
اس فیصلے پر عمل درآمد ہوا اور 21 فروری 2001 کو جب شعیب خان بھولو کے قتل کے مقدمے میں ضمانت کے لیے عدالت لائے گئے تو یہاں بھولو کے حامیوں اور شعیب کے ساتھیوں میں تصادم ہو گیا۔
یہ سب ہوا تو شعیب خان کو بھی احساس ہو گیا کہ باہر کی دنیا میں چاروں طرف اتنے مخالفین اور دشمنوں کی موجودگی خطرناک ہو سکتی ہے اور جیل کو محفوظ سمجھتے ہوئے شعیب خان نے 14 جون 2001 کو خود کو حکام کے حوالے کردیا مگر چند ہی ماہ میں بھولو کے دوستوں نے شعیب خان پر دوسرا وار کیا۔
میری تحقیق کے مطابق 25 اگست 2001 کو سٹی کورٹ میں شعیب خان کو ایک پیشی کے بعد واپس جیل منتقل کیا جا رہا تھا۔ یہاں ہی شعیب خان پر دوسرا حملہ ہوا۔
پولیس افسر فیاض خان کا کہنا ہے کہ اُن کی تفتیش کے مطابق منظر بھولو گینگ کے سربراہ منظر عباس نے شعیب کو قتل کروانے کے لیے لیاری گینگ وار کے سرغنہ رحمٰن ڈکیت کو دو کروڑ روپے کی سپاری دی تھی۔
حملے میں شعیب خان اور وین میں سوار کئی پولیس اہلکار شدید زخمی ہوئے۔ فیاض خان نے بتایا کہ شعیب خان کو حملے میں زخمی ہونے کا فائدہ یہ ہوا کہ انھیں طبی بنیادوں پر عدالت سے ضمانت مل گئی مگر بھولو کا سراغ کئی برس تک نہ مل سکا۔
صدر جنرل مشرف کی اہم اتحادی ایم کیو ایم اور اس وقت کے گورنر سندھ کی مداخلت پر آخر کار صدر مشرف کی ہدایات کے تحت شعیب خان کی گرفتاری کا اصولی فیصلہ ہوا اور 29 دسمبر 2004 کو پنجاب کے شہر لاہور کینٹ سے شعیب خان کو گرفتار کر کے کراچی لایا گیا۔
تب شعیب خان نے اعلیٰ سطحی افسران پر مشتمل جوائنٹ انٹیروگیشن ٹیم کے سامنے اپنے کئی جرائم کا اعتراف کیا اور یہ بھی تسلیم کر لیا کہ انھوں نے بھولو کو قتل کر دیا تھا۔
پولیس افسر فیاض خان نے مجھے بتایا کہ شعیب نے اپنی گرفتاری کے بعد دوران تفتیش انکشاف کیا کہ اس نے بھولو کو 8 جنوری 2001 کے دن ہی قتل کر دیا تھا۔
تمام ذرائع کی مشترکہ کہانی کے مطابق شعیب خان نے بھولو کو پہلے شراب پلائی اور پھر اس بہانے سے کہ داؤد ابراہیم بھولو سے ناراض ہیں اور بھولو کو اُن سے ملنا چاہیے انھیں کسی اور گاڑی میں ڈال کر کراچی ضلع وسطی کے علاقے گلبرگ (سمن آباد) میں واقع ایک مکان پر لے گئے، جو شعیب کے دوست اور انڈر ورلڈ کے ایک اور کھلاڑی خالد شہنشاہ کے قبضے میں تھا۔
بھولو کو لے جاتے وقت شعیب کے دو آدمیوں نے بھولو کے سر پر کالا کپڑا چڑھایا اور ہاتھ پیچھے باندھ دیے۔ جواز یہ دیا گیا کہ انھیں داؤد ابراہیم کے پاس لے جایا جا رہا ہے۔ اس لیے کراچی میں داؤد ابراہیم کے نئے ٹھکانے کا راستہ نہ دیکھ سکیں یا داؤد ابراہیم کے سامنے مزاحمت نہ کر سکیں، اس وجہ سے یہ سب کیا جا رہا ہے۔
بھولو کافی ناراض تو ہوئے مگر بالآخر شعیب انھیں اسی حالت میں لے کر گھر سے نکلے۔
گلبرگ پہنچ کر جب بھولو کو یہ احساس ہوا کہ وہ ٹریپ ہو گئے ہیں تو بھولو نے مزاحمت کی کوشش کی مگر ہاتھ بندھے ہونے کی وجہ سے مزاحمت نہ کر سکے اور یہی وہ موقع تھا جب شعیب اور ان کے ساتھیوں نے بھولو کو گلے میں پھندا ڈال کر قتل کر دیا اور لاش کمرے کی چھت میں لگے پنکھے سے لٹکا دی۔
انسانی جان کو کھیل سمجھنے والا، خوف و دہشت کی علامت اور کراچی سے موزمبیق تک جرائم کی سلطنت پر راج کرنے والا بھولو کراچی میں فیڈرل بی ایریا کے ایک اوسط درجے کے مکان میں بے بسی سے دم توڑ گیا۔
پھر مکان کے عقبی حصّے میں تارکول کا ایک بڑا سا خالی ڈرم لاش چھپانے کا ذریعہ بنا۔ دس پندرہ کلو چونا لایا گیا۔ جسے اس خالی ڈرم میں ڈالا گیا اور اس میں بھولو کی لاش ڈالی اور اُسے پانی سے بھر دیا۔
ایک ذریعے نے بتایا کہ ’چونا پانی سے مل جائے تو جل جاتا ہے۔ بھولو کی لاش بھی جل گئی۔ آٹھ دس دن تو یہ ڈرم بند رہا جس میں بچی کھچی لاش ڈی کمپوز ہوتی رہی۔‘
پھر کئی برس بعد شعیب خان نے بھولو کی بچی کھچی باقیات تو ڈرم سے نکلوا کر نیو کراچی یا خواجہ اجمیر نگری کے کسی دور دراز قبرستان کے قریب پھینکوا دیں اور باقی جو کچھ بچا اسے وہیں گلبرگ کے مکان کے عقبی باغیچے میں دفن کروا دیا۔
29 دسمبر 2004 کو شعیب خان نے اپنی گرفتاری کے بعد پولیس حکام کو دوران تفتیش یہ سب تفصیلات بتائیں تو 13 جنوری 2005 کو ڈان اخبار کے مطابق شعیب خان کی نشاندہی پر بھولو کی لاش کی باقیات 12 جنوری 2005 کو برآمد کر لی گئیں۔
بھولو کی لاش کی ان باقیات کا ڈی این اے خاندان کے اراکین سے میچ کیا گیا۔ بھولو کی لاش کی بچی کچھی گلی سڑی باقیات اُسی سول ہسپتال لائی گئی تھیں، جس کے عقب میں واقع اردو آرٹس کالج سے محض 16 سال پہلے بھولو نے اپنے جرائم کے ’کیریئر‘ کا آغاز کیا تھا۔
35 سال پہلے جب بھولو نے مجھ پر بندوق تان رکھی تھی تو اس لمحے مجھے نہیں پتا تھا کہ بھولو کی یہ کہانی آپ تک پہنچانے کے لیے میں تو زندہ رہوں گا مگر بندوق کی نال میری طرف کر دینے والا بھولو خود قتل ہو جائے گا۔
اس سیریز کی اگلی قسط میں شعیب کے ایک اور ’شکار‘ کی تفصیل کے ساتھ آپ سے پھر ملاقات ہو گی۔
بشکریہ بی بی سی اردو