امریکی طلبہ کا فلسطین کے حق میں زور پکڑتا احتجاج، اسرائیل پر معاشی دباؤ کا مطالبہ

ویب ڈیسک

امریکہ کی بیشتر بڑی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں فلسطین کے حق میں ہونے والے مظاہرے دن بدن زور پکڑ رہے ہیں، جہاں طلبہ کا اہم مطالبہ ہے کہ یونیورسٹیاں فلسطینیوں کی نسل کشی میں اسرائیلی جارحیت کے لیے فنڈنگ فراہم کرنے والی کمپنیوں میں سے اپنے شیئرز ختم کریں۔

گزشتہ دنوں ان مظاہروں میں اب امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کے اہم تعلیمی ادارے بھی شامل ہو گئے۔ امریکہ کی دیگر مشہور بڑی یونیورسٹیاں، جو آئی وی لیگ بھی کہلاتی ہیں، اپنے اعلیٰ تعلیمی معیار کے لیے دنیا بھر میں جانی جاتی ہیں، لیکن اس وقت ان کی وجہ شہرت ان اداروں کے احتجاج کرتے طلبہ سے بھرے میدان، فلسطینی پرچم اور پولیس کی پکڑ دھکڑ ہے، جس کے دوران اب تک نہ صرف سینکڑوں طلبہ بلکہ اساتذہ کو بھی جیل بھیج دیا گیا ہے۔

دوسری جانب اسرائیل کی حمایت کرنے والے گروپ ان احتجاجوں کو یہود مخالف قرار دے کر ان یونیورسٹیوں کی انتظامیہ پر شدید دباؤ ڈال رہے ہیں۔

اسرائیل کی جانب سے غزہ میں بہیمانہ مظالم کے باعث عام شہریوں کی اموات کی مذمت نے نومبر 2023 میں ہی احتجاج کی شکل اختیار کرلی تھی۔ اس وقت بھی امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں تاریخی احتجاج ہوا تھا، جس میں پانچ لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی تھی لیکن یونیورسٹیوں میں ہونے والے احتجاج قدرے نئے ہیں۔

نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں سینکڑوں طلبہ کی گرفتاریوں کے بعد کیمپس میں پورے سیمسٹر کے لیے کلاسیں بند کر دی گئی ہیں، جب کہ ملک کی کئی اہم اسرائیل نواز سیاسی شخصیات یونیورسٹی کا دورہ کرنے کے علاوہ احتجاج کی کھل کر مخالفت بھی کر چکی ہیں۔

دوسری جانب کولمبیا یونیورسٹی کے طلبہ سے یکجہتی کے لیے ییل، ایم آئی ٹی، ہارورڈ، کیلی فورنیا کی ہمبالٹ، یو ٹی آسٹن، برکلے اور شکاگو یونیورسٹی پہلے ہی اپنے اپنے مظاہروں اور احتجاجی کیمپوں کے ساتھ اس تحریک میں شامل ہو چکی ہیں، جس کے بعد بالآخر ڈی سی، میری لینڈ اور ورجینیا کی ریاستوں کے آٹھ ادارے بھی احتجاج کے لیے سامنے آئے ہیں۔

جن یونیورسٹیوں میں احتجاج کیا جارہا ہے ان میں کولمبیا یونیورسٹی، یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا، آسٹن میں یونیورسٹی آف ٹیکساس، جارج واشنگٹن یونیورسٹی، ہارورڈ یونیورسٹی، کیلیفورنیا اسٹیٹ پولی ٹیکنک یونیورسٹی شامل ہیں۔

اس کےعلاوہ ایمرسن کالج، نیویارک یونیورسٹی، ایموری یونیورسٹی، نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی، ییل یونیورسٹی، فیشن انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، سٹی کالج آف نیویارک، انڈیانا یونیورسٹی بلومنگٹن، مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی ایسٹ لانسنگ کیمپس میں بھی مظاہرے کیے گئے۔

جارج واشنگٹن یونیورسٹی کا ایک گراؤنڈ جو یو یارڈ کہلاتا ہے، جمعرات (25 اپریل) سے احتجاج اور جلسہ گاہ کی شکل اختیار کر چکا ہے، جہاں پہنچنے سے بہت پہلے ہی فلسطین کی آزادی اور فائر بندی کے لیے لگائے جانے والے نعرے سنے جا سکتے ہیں ۔

کولمبیا اور دیگر یونیورسٹیوں کی طرح یہاں بھی خیمے لگے ہوئے ہیں، جن کی تعداد بیس کے لگ بھگ ہے۔

ایک طالبہ نے بتایا کہ ان کا تعلق یونیورسٹی آف میری لینڈ سے ہے اور وہ صبح سے ایک خمیہ لگائے بیٹھی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے مطالبات وہی ہیں، جو کولمبیا اور دیگر اداروں میں کیے جا رہے ہیں۔ اس میں سرفہرست مطالبہ یہی ہے کہ یونیورسٹیاں تمام ایسے اداروں سے اپنے شیئرز نکالیں اور فنڈنگ بند کریں، جو کسی نہ کسی صورت میں اسرائیل کو اسلحہ فراہم کر رہے ہیں۔

یہ مطالبہ ایک ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے، جب امریکی حکومت نے حال ہی میں اسرائیل کو 26 ارب ڈالر کی فوری امداد دینے کا بل پاس کیا ہے۔

جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی طالبہ مشیل نے بتایا کہ انہیں انتظامیہ کی جانب سے خبردار کیا جا چکا ہے کہ اگر شام تک یہ کیمپ نہ ہٹائے گئے تو ان کے خلاف بھی کولمبیا کی طرز کی کارروائی ہو سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کے ساتھی اس سے نہیں ڈرتے، کیونکہ ان کے بقول یہ ایسا ہی وقت ہے، جو 1960 میں تھا، جب ہر بڑا امریکی تعلیمی ادارہ ویتنام کی جنگ کے خلاف سڑکوں پر تھا۔

بقول مشیل کولمبیا میں ہونے والا پولیس کریک ڈاؤن اس ادارے کے لیے کوئی نئی بات نہیں۔

کولمبیا ماضی میں بھی احتجاج کرنے والے طلبہ کے ساتھ کافی سخت سلوک کر چکا ہے۔ 1968 میں ویتنام جنگ کے خلاف مظاہرہ کرنے والے ہزار طلبہ میں سے 700 کو کیمپس سے حراست میں لے لیا گیا تھا، جب کہ 100 طلبہ زخمی بھی ہوئے تھے۔

اس سے قبل 60 کی دہائی کے آغاز میں نارتھ کیرولائنا کی ریاست میں نسلی تعصب کی وجہ سے گریزبرو نامی جگہ پر شروع ہونے والے احتجاجی مظاہروں نے بھی امریکی کیمپسوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔

ادہر امریکہ بھر میں غزہ سے یکجہتی کرنے والے افراد کی گرفتاریوں کے بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک پریس ریلیز شائع کی، جس میں یونیورسٹیوں پر زور دیا گیا کہ تمام طلبہ کے اپنے کیمپس میں پرامن اور محفوظ طریقے سے احتجاج کی سہولت فراہم کی جانی چاہیے۔

دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ کی عربی زبان کی ترجمان نے غزہ میں جنگ سے متعلق واشنگٹن کی پالیسی کی مخالفت کا حوالہ دیتے ہوئے استعفیٰ دے دیا ہے، غزہ پر بمباری پر اسرائیل کی غیرمشروط حمایت کے خلاف کئی امریکی سفارت کار اپنے عہدے سے استعفے دے چکے ہیں۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ہالا ہریت دبئی ریجنل میڈیا ہب کی ڈپٹی ڈائریکٹر بھی تھیں اور تقریباً دو دہائیاں قبل امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں سیاسی اور انسانی حقوق کے افسر کے طور پر ذمہ داریاں سنبھال رہی تھیں۔

انہوں نے سوشل میڈیا ویب سائٹ لنکڈاِن پر لکھا کہ انہوں نے 18 سال تک ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد اپریل 2024 میں استعفیٰ دے دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ امریکا کی غزہ میں اسرائیلی جنگ سے متعلق پالیسی کے خلاف ہیں اور احتجاجاً استعفیٰ دے رہی ہیں۔

واضح رہے کہ غزہ پر بمباری پر اسرائیل کی غیرمشروط حمایت کے خلاف کئی امریکی سفارت کار اپنے عہدے سے استعفے دے چکے ہیں۔

قبل ازیں تقریباً ایک ماہ قبل محکمہ خارجہ کے انسانی حقوق کے بیورو کی اینیل شیلین نے بھی اپنے استعفیٰ کا اعلان کیا تھا، اور محکمہ خارجہ کے عہدیدار جوش پال نے بھی اکتوبر 2023 میں استعفیٰ دے دیا تھا۔

امریکی محکمہ تعلیم میں ایک سینئر اہلکار طارق حبش جو کہ فلسطینی نژاد امریکی ہیں، نے جنوری میں استعفیٰ دے دیا تھا۔

امریکہ بین الاقوامی سطح پر اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے اسرائیل کی حمایت پر غزہ میں اسرائیل کے جاری حملے کے دوران شدید تنقید کا نشانہ بنا ہے۔

اسرائیلی جارحیت سے غزہ میں جس طرح اموات کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ میں اختلاف کھل کر سامنے آرہے ہیں۔

نومبر میں ایک ہزار سے زائد عہدیداروں نے امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی نے ایک کھلے خط پر دستخط کیے تھے، جس میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close