بیسویں صدی کے پہلے نصف دو عالمی جنگوں کا دور رہا۔ یہ تاریخ کا ایک ایسا دور ہے، جس میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کو جنگ کے لیے استعمال کیا گیا، لیکن یہی وہ دور ہے، جس میں سَمِیرا موسیٰ نامی ایک نسبتاً نامعلوم نوجوان مصری جوہری سائنس دان اپنی زندگی کے مشن پر نکلیں، اور وہ مشن تھا جوہری توانائی کا پرامن استعمال!
مگر پھر سمیرا موسیٰ بین الاقوامی طاقتوں کے لیے اس وقت ایک خطرہ بن گئیں، جب انہوں نے ایک انقلابی مساوات وضع کی۔ اس کے بعد ان کے ساتھ کیا ہوا؟ یہ جاننے سے پہلے ان کی مختصر سی زندگی کے بارے میں جانتے ہیں
سَمِیرا موسیٰ 3 مارچ 1917 کو مصر کے شمالی علاقے غربیا میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد علاقے کے مشہور سیاسی کارکن تھے، جب کہ والدہ اپنی بیٹی کے عملی زندگی میں قدم رکھنے سے پہلے ہی کینسر کے باعث دنیا چھوڑ گئیں۔ سمیرا کمسن ہی تھیں کہ ان کے والد انہیں لے کر مصر کے دارالحکومت قاہرہ منتقل ہو گئے، جہاں انہوں نے اپنی جمع پونجی ایک چھوٹے سے ہوٹل میں لگا کر کاروبار شروع کیا۔
سمیرا ایک ذہین لڑکی تھی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے سیکنڈری ایجوکیشن میں اعلیٰ ترین نمبر حاصل کر کے خود کو انجنیئرنگ کی تعلیم کا حق دار بنا لیا تھا، لیکن آگے پڑھنے کے لیے انہوں نے قاہرہ یونی ورسٹی کے شعبۂ سائنس کا انتخاب کیا۔
سمیرا موسیٰ کی ذہانت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے سیکنڈری اسکول کے پہلے سال میں الجبرا کی سرکاری کتاب میں غلطیاں نکال کر ان کی درستگی کی، اسے اپنے والد کے خرچے پر چھاپا، اور 1933 میں اسے اپنے ساتھیوں میں مفت تقسیم کیا۔
1939 میں، اس نے مختلف مواد پر ایکس رے تابکاری کے اثرات پر تحقیق کرنے کے بعد فرسٹ کلاس آنرز کے ساتھ ریڈیولاجی میں بی ایس سی کے ساتھ گریجویشن کیا۔ ڈاکٹر مصطفٰی مشرف، فیکلٹی کے پہلے ڈین نے سمیرا میں زبردست مہارت دیکھی اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری مکمل کرنے سے پہلے ہی اس کی فیکلٹی میں لیکچرر بننے میں مدد کی۔ وہ نہ صرف قاہرہ یونیورسٹی میں کام کرنے اور اس عہدے پر فائز ہونے والی پہلی خاتون بن گئی، بلکہ جوہری تابکاری میں پی ایچ ڈی حاصل کرنے والی پہلی خاتون بھی بنی۔ اولیت کا یہ سلسلہ اس وقت معراج کو پہنچ گیا جب وہ جوہری تاب کاری کے مضمون میں برطانیہ سے پی ایچ ڈی کی تعلیم مکمل کرکے اس شعبے میں پہلی خاتون سائنس داں قرار پائیں۔
1940 کی دہائی کے وسط کے دوران، سمیرا موسٰی کو پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے لیے برطانیہ بھیجا گیا، جہاں اس نے دو شراکتیں کیں جو آج تک ہماری زندگیوں پر تو اثر انداز ہو رہی ہیں، لیکن ان کی وجہ سے وہ جواں سالی میں مار دی گئی
سب سے پہلے، اس نے ایک ایسی تاریخی مساوات وضع کی، جو سستی دھاتوں جیسے تانبے کے ایٹموں کو توڑتی ہے – ایک ایسی دریافت جو جوہری ٹیکنالوجی کی طبی ایپلی کیشنز، جیسے ایکس رے کو سستا بنانے میں مدد کرتی ہے۔ اس کا ایک مقصد کینسر کے جوہری علاج کو قابل رسائی اور سستا بنانا تھا۔
کینسر کی بیماری کے باعث اپنی ماں کو کھونے والی سمیرا کہتی تھی، ”میری خواہش ہے کہ کینسر کا جوہری علاج اتنا ہی دستیاب اور اتنا ہی سستا ہو جتنا اسپرین۔“
ان کے یہ الفاظ لوگوں کے دل کی آواز تھے، یہی وجہ ہے ان کی اس بات نے بڑی شہرت حاصل کی، اور شاید یہ سوچ بھی ان کی موت کا سبب بنی۔ نیوکلیئر انرجی پر اس کی زیادہ تر تحقیق طبی ایپلی کیشنز پر مرکوز تھی، جس میں مریض کے ایکس رے کی نمائش کے اوقات کو کم کرنا اور ایکس رے کے طریقہ کار کو زیادہ موبائل اور لچکدار بنانا شامل تھا۔ اپنے اس تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انہوں نے سخت محنت کی اور ان کی تحقیقی سرگرمیوں کا محور یہی سوچ بنی رہی۔
ان کی یہ سوچ ہی کم قیامت خیز نہ تھی، لیکن سمیرا موسیٰ کی اس مساوات نے تو طاقتور ملکوں میں مزید قیامت برپا کر دی، جس کی مدد سے سستی دھاتوں کے جوہر توڑ کر ایک سستا جوہری بم بنانا ممکن ہو جاتا۔ یہ نہ صرف کمزور اور استحصال زدہ تیسری دنیا کی اقوام خاص طور پر مسلم ممالک کو ایٹمی حملے کے خوف سے نجات دلانے کا تیر بہ ہدف نسخہ تھا، بلکہ ایٹم بم اور دیگر بڑے پیمانے پر ہلاکت پھیلانے والے ہتھیاروں کے بل پر دنیا میں من مانی کرنے والے ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی بھی تھی
کینسر کے مرض سے جنگ سمیرا کی سرگرمیوں میں اہم ترین رہی، جس کا سبب ان کی والدہ کا اس موذی مرض کا شکار ہوکر دنیا سے چلے جانا تھا۔ اپنی پوری زندگی میں، سمیرا موسٰی نے کینسر کے مریضوں کے علاج میں مدد کے لیے بہت سے ہسپتالوں میں رضاکارانہ خدمات انجام دیں
اگرچہ وہ جوہری توانائی کی پیش کردہ طبی پیشرفت کو فروغ دینے میں دلچسپی رکھتی تھی، لیکن وہ جنگ میں اس کے استعمال کے خطرات سے خبردار کرنے کی بھی بہت خواہش مند تھی
اور اس طرح دوسری اہم چیز۔۔ جب وہ برطانیہ میں ’اٹامک انرجی فار پیس کانفرنس‘ کا اہتمام کر رہی تھی۔ اس کانفرنس کو جوہری ہتھیاروں میں ہونے والی پیشرفت کے حوالے سے ان کی گہری تشویش نے جنم دیا گیا اور اس لیے اس نے ’ایٹمز فار پیس‘ (جوہری طاقت برائے امن) کے نعرہ دیا، ’’جوہر برائے امن‘‘ کے موضوع پر بین الاقوامی کانفرنس بلانے کی تجویز پیش کی۔ سمیرہ موسیٰ کی کوششوں سے منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں جوہری توانائی کے خطرات سے بچاؤ کے لیے بہت سی سفارشات مرتب کی گئیں اور کمیٹی تشکیل دی گئی، جس کے لیے سمیرہ موسیٰ پیش پیش رہیں۔
ان کے ’جوہری طاقت برائے امن‘ کے نعرے کو بعد میں صدر ڈوائٹ آئزن ہاور نے 1953 کی تقریر میں اپنایا۔ یہ تقریر بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی اور جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے جیسی تنظیموں کے لیے نظریاتی بنیاد بنی، جس کا مقصد جوہری توانائی کے پرامن استعمال کو فروغ دینا اور پوری دنیا میں جوہری تخفیف اسلحہ حاصل کرنا ہے۔
اس وقت منعقد ہونے والی کانفرنس میں سمیرا موسٰی کی سفارشات میں سے ایک یہ تھی کہ صنعت کی نگرانی کے لیے کمیٹیاں اور مشاورتی کونسلیں بنائیں اور جوہری حفاظتی خطرات جیسے جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے تحفظ فراہم کیا جائے۔
1950 کی دہائی میں، موسیٰ کو جوہری تحقیق کے میدان میں ایک علمبردار ہونے کے اعتراف میں فل برائٹ اسکالرشپ پر امریکہ مدعو کیا گیا۔ اس کی میزبانی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے نے کی۔ اسے وہاں کام کرنے اور رہنے کے کئی مواقع کے ساتھ ساتھ امریکی شہریت کی پیشکش کی گئی تھی، لیکن اس نے ان سب کو ٹھکرا دیا۔ انہوں نے یہ پیشکش رد کرتے ہوئے کہا، ’’میرا مُلک میرا انتظار کر رہا ہے۔‘‘
امریکا میں قیام کے بعد وہ وطن واپسی کی تیاری کر رہی تھیں کہ انہیں امریکہ کی خفیہ جوہری تنصیبات کا دورہ کرنے کی دعوت دی گئی۔ اس دعوت پر مخالفت کا ایک طوفان کھڑا ہو گیا اور اس نے امریکہ میں سائنسی اور سیکورٹی حلقوں میں ہلچل مچا دی تھی کیونکہ سمیرا موسیٰ پہلی غیر ملکی شخصیت تھیں، جنہیں یہ دعوت دی گئی تھی۔ اگر وہ یہ دورہ کر لیتیں تو وہ پہلی امریکا کے ان حساس مقامات تک براہ راست رسائی حاصل کرنے والی پہلی غیرملکی ہوتیں
افسوس کی بات یہ ہے کہ سمیرا موسیٰ کبھی بھی اپنے گھر واپس مصر نہیں پہنچیں اور پینتیس سال کی جواں سالی میں وہ اس دورے کے لیے ملنے والی دعوت پر جوہری تنصیب پر جاتے ہوئے ایک پراسرار کار حادثے کا شکار ہو گئیں
5 اگست 1952 کو وہ کیلیفورنیا کے لیے روانہ ہوئیں۔ راستے میں ایک وادی سے کچھ پہلے ان کی کار کسی پُراسرار حادثے کا شکار ہو کر چالیس فٹ گہرائی میں جا گِری اور فوری طور پر ان کی موت واقع ہو گئی، جبکہ کار کے ڈرائیور کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ کار کے گرنے سے عین پہلے چھلانگ لگا کر بچ گیا۔۔۔۔ لیکن کچھ پتا نہیں چلا کہ وہ کہاں گیا!
سمیرا کو مدعو کرنے والی فیکلٹی کا کہنا تھا کہ انہیں لانے کے لیے کوئی کار نہیں بھیجی گئی تھی، جب کہ ڈرائیور کی شناخت بھی جعلی تھی۔
اس سانحے پر شکوک وشبہات کا اظہار کیا گیا۔ ڈرائیور کا لاپتا ہونا صاف بتا رہا تھا کہ سمیرہ حادثے کا شکار نہیں ہوئیں انھیں باقاعدہ سازش کے تحت قتل کیا گیا ہے، مگر جس سائنس داں کی امریکا میں اتنی آؤ بھگت کی گئی اور جسے امریکی اپنی شہریت دینے کے لیے بے تاب تھے اس کی پُراسرار موت کا معاملہ دبا دیا گیا۔ اس شک کا اظہار کیا جاتا ہے کہ سمیرہ موسیٰ کو قتل کیا گیا اور یہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کی کارستانی تھی۔ ایک ممتاز عرب اور مسلم سائنس داں ہونے کی حیثیت سے اور سستے جوہری بم کے تصور کے باعث سمیرہ اسرائیل کا ہدف تھیں۔
مصر کے آن لائن اخبار ’’ایجپٹ انڈیپنڈینٹ‘‘ پر دستیاب عرب امارات کی ویب سائٹ البیان سے لے کر شایع کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق سمیرا کے قتل کی سازش میں نمایاں ترین کردار مصری اداکارہ راقیہ ابراہیم لیوی کا تھا۔
اس حوالے سے عثمان جامعی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ مصر سے تعلق رکھنے والی یہودی اداکارہ راقیہ کا مصری ہونا اسے اسرائیل کے ساتھ وفاداری سے باز نہ رکھ سکا، یعنی وطن پر مذہب، نسل اور نظریہ بازی لے گیا۔ یہ وہی مصری اداکارہ ہیں، جو اسرائیل کے قیام کے بعد مصر کے یہودیوں کو اکساتی تھی کہ ترکِ وطن کرکے صہیونی ریاست میں جا بسیں۔ اگرچہ اس نے شادی ایک مصری مسلمان انجنیئر مصطفیٰ والی سے کی، مگر یہ رشتہ عربوں اور مصریوں سے محبت اور وفا کا تعلق نہ بن سکا۔ اسرائیل اور صہیونیت سے وابستگی میں وہ اتنی کٹر اور بے باک تھی کہ اس نے ایک فلم میں ایک ایسی بَدّو عورت کا کردار ادا کرنے سے انکار کردیا تھا، جسے فلسطین کی جنگ میں مصری فوج کے لیے لڑتے دکھایا گیا تھا۔ راقیہ ابراہیم کے تعصب اور انتہاپسندی کا یہ عالم تھا کہ اس نے مشہورِ زمانہ کینز فیسٹیول میں مصری وفد کی قیادت کرنے سے اس بنا پر انکار کر دیا تھا کہ وہ یہودی ہے۔
شوہر سے علیحدگی کے بعد 1954 میں راقیہ مصر چھوڑ کر امریکا جا بسی۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ سمیرا موسٰی کو موت کے منہ میں دھکیلنے والی راقیہ ابراہیم تھی، جو موساد کی آلۂ کار کے طور پر اس سازش کا حصہ بنی۔ اس ضمن میں سب سے اہم شہادت راقیہ کی پوتی ریٹا ڈیوڈ ٹامز کی ہے، جو راقیہ کے امریکی شہریت کے حامل یہودی شوہر کے تعلق سے راقیہ کی پوتی ہیں، جنہوں نے 2012 میں پہلی بار اس موضوع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سمیرا موسیٰ کو قتل کیے جانے کا مزید ثبوت فراہم کر دیا۔ راقیہ کی پوتی کا کہنا تھا کہ اس کی دادی کی ڈائریوں میں (جو کیلیفورنیا میں واقع راقیہ کی رہائش گاہ کی لائبریری میں چھپائی گئی تھیں) سمیرا موسیٰ کے قاہرہ میں واقع گھر کی مختلف مواقع کی تصاویر ملی ہیں۔
اس نے یہ انکشاف بھی کیا کہ راقیہ نے سمیرا کے گھر کی چابی کا نقش صابن کی بَٹی پر اُتار لیا تھا، جو اس نے مصر میں موجود موساد کے ایک ایجنٹ کے حوالے کیا تھا۔ اس کارروائی کے کچھ عرصے بعد راقیہ، سمیرا کو اپنے ساتھ قاہرہ میں ایک اوپیرا دکھانے کے بہانے لے گئی۔
دوسری طرف اسی دوران سمیرا کی غیرموجودگی میں موساد کے ایجنٹ اس کے گھر میں داخل ہوئے اور ان کے تحقیقی مواد کی تصاویر اُتار کر لے گئے۔ یہ بات واضح طور پر اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ راقیہ نے موساد کے دیے گئے مشن ہی کے تحت سمیرا سے دوستی کی تھی۔ یہ دوستی اس وقت اختتام پذیر ہو گئی، جب راقیہ نے امریکی حکام کی جانب سے مذاکرات کار کا کردار ادا کرتے ہوئے سمیرا کو امریکی شہریت اور امریکا میں رہ کر کام کرنے کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ سمیرا کے انکار پر اس نے دھمکی دی کہ ’’اس کا نتیجہ قبر ہوگی۔‘‘ یہ ایک ایسی بات ہے، جس کے بعد راقیہ کے سمیرا کے قتل میں ملوث ہونے میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا۔
دراصل جب سمیرا امریکا کے دورے پر پہنچی تھیں تو راقیہ ایک مشترکہ دوست کے ذریعے ان کا تعاقب اور ان کی تمام سرگرمیوں کی بابت معلومات حاصل کر رہی تھی۔ ان ہی معلومات کی مدد سے موساد سمیرا کو اپنے جال میں پھنسانے اور انھیں قتل کرنے میں کامیاب ہوئی۔
یہاں یہ بتانا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ راقیہ ابراہیم کے بطن سے مصر کے معروف سیاست داں، سابق وزیرخارجہ اور عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل کے منصب پر فائز رہنے والے امر موسیٰ (عمرو موسیٰ) نے جنم لیا! جو اس رشتے سے انکار کرتے رہے ہیں، مگر یہ حقیقت ایک اسرائیلی اخبار Haaretz بھی سامنے لا چکا ہے۔
اسرائیل کو سمیرا سے کیا دشمنی تھی؟ یہ سامنے کی بات ہے۔ اماراتی ویب سائٹ البیان کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کو خدشہ تھا کہ سمیرا کی اہلیت کے باعث مصر جوہری بم بنانے کے قابل ہوجائے گا۔ چناں چہ پہلے راقیہ کے ذریعے سمیرا کو امریکا منتقل ہونے اور امریکا کے لیے کام کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی، تاکہ وہ مصر یا مسلم دنیا کے کام نہ آ سکیں، جب اس مقصد میں کامیابی نہیں ملی تو ان کی جان لینے سے بھی دریغ نہ کیا گیا۔
سمیرا موسیٰ جیسی باصلاحیت اور نابغہ روزگار مسلم سائنس داں کی شہادت ایک بہت بڑا سانحہ تو ہے ہی، لیکن مزید المیہ یہ کہ اس عظیم نقصان کا تذکرہ بھی نہیں ہوتا۔ یہی نہیں، ان کا تحقیقی کام بھی اس بہانے کے ساتھ دبا لیا گیا ہے کہ وہ تمام عربی میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان کا تحقیقی کام سامنے کیوں نہیں لایا جاتا؟ دوسرا سوال یہ کہ مصر کی سلامتی کے ادارے اتنے بے خبر کیوں تھے کہ ایک انتہائی حساس شعبے سے وابستہ ان کی ایک عظیم سائنس داں تک ایک ایسی خاتون کی رسائی ہو گئی، جس کی اسرائیل دوستی بالکل واضح تھی اور سمیرا موسیٰ کی حفاظت کے لیے اقدامات کیوں نہ کیے گئے؟ اپنی اس غفلت کے ہاتھوں مصر نے نہ صرف اپنا جوہرِ نایاب کھو دیا بلکہ مسلم دنیا کو بھی ایک قابل فخر سائنس داں کی صلاحیتوں کو صحیح معنی میں بروئے کار آنے سے پہلے ہی محروم کر دیا۔
مصریوں نے اپنی جس محبوب اداکارہ راقیہ ابراہیم کی سرگرمیوں سے آنکھیں بند کر رکھی تھیں اور جسے کینز فیسٹیول میں مصری وفد کی قیادت کا اعزاز دلانے کی بھی کوشش کی تھی، امریکا منتقل ہونے کے بعد اسے امریکا کے لیے اسرائیل کی خیرسگالی کی سفیر مقرر کیا گیا۔ یہ سمیرا موسیٰ کے قتل میں معاونت کا صلہ تھا۔
اپنی بہت ہی مختصر زندگی میں، سمیرا موسیٰ نے ہیلتھ ٹیکنالوجی تک رسائی کے لیے ہمارے حقوق کی وکالت کی اور جوہری توانائی کے پرامن استعمال کے بارے میں بیداری پیدا کی۔ اس نے ہماری دنیا کو ہمیشہ کے لیے بدلنے اور اپنی زندگی کے لیے شکر گزار ہونے جیسے عظیم کارنامے سر انجام دیے۔