ارجنٹینی کائو بوائز کے ہتھیار سے لے کر 1960 میں امریکہ اور اب پاکستان کا مقبول کھلونا بننے تک کلیکر کی دلچسپ کہانی

ویب ڈیسک

بچوں کے لحاظ سے دیکھیں تو اس وقت ہم ‘ٹک ٹاک‘ اور ’ٹک ٹک‘ کے دور میں جی رہے ہیں۔۔ جی ہاں، ان دنوں آپ پاکستان کی کسی بھی گلی میں چلے جائیں، آپ وہاں بچوں کو ایک خاص قسم کے ’ٹک ٹک‘ نامی کھلونے سے ضرور کھیلتے ہوئے دیکھیں گے۔

دھاگوں میں پِرو کر آپس میں باندھے گئے دو پلاسٹک کی گیندیں اچھالے جانے پر ’ٹک ٹک‘ کی آواز کرتی ہیں اور اپنی اس آواز سے اس کھلونے کا نام ٹک ٹک پڑ چکا ہے

سائسی نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ کھلونا بظاہر انرجی، مومنٹم اور فریکشن جیسے بنیادی اصولوں کے تحت ہی تخلیق کیا گیا ہے، جس میں آپس میں جڑی دو گیندوں کو خاص رفتار سے ہاتھ کی انگلی سے اس طرح مسلسل اچھالا جاتا ہے کہ وہ آپس میں ٹکراتی ہیں اور ’سنکرونائزڈ‘ ہو کر ایک ’ردھم‘ بناتی ہیں۔

یقیناً آپ بھی اس کے شور سے تنگ ہونگے لیکن اس کھلونے کا مقصد شور پیدا کرنا نہیں بلکہ کامیابی سے اس طرح اچھالتے رہنا ہے کہ گیندیں ایک مخصوص رفتار کے ساتھ ایک ہی انداز سے آپس میں ٹکراتی رہیں اور ردھم نہ ٹوٹے۔ اس عمل کو زیادہ دیر تک جاری رکھنے والا شخص ہی مقابلے کا فاتح قرار پاتا ہے۔

ان دنوں’ٹک ٹک‘ کا ٹرینڈ پاکستان کے ہر شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکا ہے۔۔ بچے تو اپنی دھن میں اس کھلونے سے کھیلنے میں مگن ہیں لیکن بڑے اس شور کرتے کھلونے سے سخت نالاں ہیں۔ بڑوں کو بچوں کا یہ کھیل اور کھلونا پسند آئے یا نہیں مگر ’ٹک ٹک‘ کا جنون رکنے روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے

آئیے ایک نظر اس کھلونے کی تاریخ پر ڈالتے ہیں، جس میں کئی دلچسپ باتیں بھی موجود ہیں

اس کھلونے کو اصل میں ’کلیکر ٹوائے‘ Clacker Toy کہا جاتا ہے، جبکہ کچھ ملکوں میں اسے ’لاٹو لاٹو‘ بھی کہا جاتا ہے۔

کلیکرز کی ابتدا لاطینی امریکہ میں ہوئی، جہاں یہ کھلونا "Bolabola” کے نام سے جانا جاتا تھا۔ وہاں سے یہ دنیا کے دوسرے حصوں میں متعارف ہوا۔ 1960 کی دہائی میں، اس کھلونے کو امریکہ اور یورپ میں بچوں کے درمیان خاصی مقبولیت ملی۔

امریکی نیوز ویب سائٹ کوارٹز کے مطابق کلیکر (Clacker) کھلونا امریکہ میں 1960 اور 1970 کی دہائی میں خاص طور پر مشہور ہوا۔ اس کھلونے کا بنیادی تصور دو سخت گولے ہیں جو ڈوری کے دونوں سروں پر لگے ہوتے ہیں اور انہیں حرکت دے کر ایک دوسرے سے ٹکرایا جاتا ہے، جس سے ’کلئک‘ کی آواز آتی ہے، اسی وجہ سے اسے ‘کلیکر‘ کہا جاتا ہے۔

کلیکر کھلونا ایک وقت میں بچوں کی روزمرہ کی زندگی کا حصہ تھا اور اس نے مختلف ثقافتوں میں اپنی جگہ بنائی۔ یہ بچوں کی جسمانی سرگرمی کو بڑھاتا تھا اور ان کی ہاتھ کی مہارتوں کو بہتر بناتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ، کلیکرز کو نہ صرف کھلونے کے طور پر بلکہ موسیقی اور ریاضی کی تعلیم میں بھی استعمال کیا جانے لگا۔

سنہ 1970 کی دہائی کے اوائل تک سینکڑوں کھلونے بنانے والوں نے دنیا بھر میں لاکھوں کلیکر فروخت کیے۔

کلیکرز ڈیزائن میں ’بولیڈوراس‘ سے ملتے جلتے تھے۔ بولیڈوراس ایک ہتھیار کا نام ہے، جو گاؤچوس (ارجنٹینی کاؤبوائے) شکار کے لیے استعمال کرتے تھے۔

عام طور پر اس کھلونے کو لکڑی یا دھات سے بنایا جاتا تھا لیکن سخت ایکریلک پلاسٹ زیادہ مقبول ہوا۔ کھلونے کا ڈیزائن سیدھا تھا لیکن استعمال میں مہارت کی ضرورت تھی۔ جب بچے اپنی کلائی کی حرکت سے دونوں گولوں کو ٹکراتے تو یہ مختلف آوازیں پیدا کرتے۔

کلیکر کھلونے کے استعمال کے لیے ہاتھوں کی چستی اور تال کی سمجھ بوجھ ضروری ہوتی تھی۔ کچھ بچے اس کھلونے کو مختلف انداز میں استعمال کرنے کی مہارت حاصل کر لیتے تھے، جیسے کہ ایک ہاتھ سے دونوں گولوں کو ایک ساتھ اوپر نیچے حرکت دینا، یا انہیں مختلف زاویوں پر گھمانا۔

کلیکر کھلونا جہاں تفریح کا ذریعہ تھا، وہیں اس سے چوٹ کا خطرہ بھی موجود تھا۔ دھات کے گولے ٹوٹنے کی صورت میں بچوں کے لیے خطرہ بن سکتے تھے۔ اس کے علاوہ، تیزی سے گھومتے ہوئے یہ گولے جسم کے کسی حصے سے ٹکرا کر نقصان پہنچا سکتے تھے۔

سنہ1960 سے 1970 کے دوران امریکہ میں کھلونوں کی حفاظت کو منظم کرنا اصل میں فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) کا کام تھا۔ واضح طور پر کلیکرز نہ تو کوئی خوراک تھی اور نہ ہی کوئی دوا لیکن ایف ڈی اے کے پاس 1966 کے ایک ایکٹ کے ذریعے لوگوں کو غلط احمقانہ چیزوں کے ساتھ کھیلنے سے بچانے کا اختیار ضرور تھا۔

بعد ازاں ان اختیارات کو ’چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ٹوائے سیفٹی ایکٹ‘ کے تحت وسیع کر دیا گیا اور خطرناک سمجھے جانے والے کھلونوں کی فروخت پر پابندی لگنا شروع ہوئی۔ ان ہی کھلونوں میں کلیکر بھی شامل تھا۔

نیوز ویب سائٹ ’سی این اے لائف اسٹائل‘ کے مطابق سنہ 1974 میں امریکہ کی مارشل سروس نے کلیکرز کی تقریباً پچاس ہزار کی ایک کھیپ ضبط کی تھی۔ اس کے جواب میں ’ایس نوولٹی‘ نامی کمپنی نے عدالت میں ایک شکایت درج کرائی، جس میں کہا گیا تھا کہ فیڈرل ہیزرڈس سبسٹنس ایکٹ (FHSA) کے تحت کلیکرز انسانی جان کے لیے خطرہ نہیں ہیں۔

اس اپیل پر عدالت نے فیصلہ سنایا کہ امریکی ریاست کو FHSA کے تحت کھیپ ضبط کرنے کا حق حاصل ہے کیونکہ کلیکر ایک مکینیکل خطرہ ہے اور بچوں کو زخمی کر سکتا ہے۔

کلیکرز کے ممکنہ خطرات کے پیش نظر کئی ممالک میں ان پر پابندی عائد کر دی گئی یا ان کے ڈیزائن میں تبدیلی کی گئی تاکہ انہیں زیادہ محفوظ بنایا جا سکے۔

اگرچہ کلیکرز کو خطرہ قرار دیے جانے کے بعد یہ کھلونا امریکی مارکیٹ سے وقتی طور پر غائب تو ہو گیا لیکن مکمل طور پر ختم نا ہوسکا جس کا ثبوت ہمیں پاکستان کی گلیوں میں بھی اس سے کھیلتے بچوں کی صورت میں مل سکتا ہے۔

مریم کرینز ہب پیجز میں اپنے ایک آرٹیکل میں لکھتی ہیں، ”بڑے ہونے کے ساتھ کھیلنے کے لیے Clackers میرے پسندیدہ کھلونوں میں سے ایک تھے۔ یہ ایک سادہ کھلونا تھا جو دو سخت ایکریلک گیندوں سے بنا تھا جس میں ہر ایک کا قطر تقریباً 2 انچ تھا، ایک بھاری تار سے بندھا ہوا تھا جو ایک انگوٹھی میں ختم ہوتا تھا۔ ہم اسے اپنی انگلیوں اور انگوٹھے میں ڈالتے اور اپنے بازو کو اوپر نیچے کرکے گیندوں کو ایک دوسرے سے ٹکرانا شروع کردیتے۔ ایک بار جب گیندیں ایک ساتھ "کلئک” ہونے لگتیں، تو ہم انہیں زیادہ سے زیادہ رفتار دینے کی کوشش کرتے۔ ہمارا اپنے پڑوس میں شریر بچوں کا ایک گروپ تھا، جنہوں نے پائن شنک جنگوں کے بارے میں کچھ نہیں سوچا تھا جو صرف اس صورت میں شمار ہوتے ہیں جب آپ خون نکالتے ہیں۔ تصور کریں کہ کیا ہوا ہوگا جب ہمارے والدین نے ہمیں کھلونے دیئے جو شاید ہتھیار بھی ہوتے۔ درحقیقت، وہ ارجنٹائن میں ایک حقیقی ہتھیار سے بہت ملتے جلتے تھے، جسے بولاس کہا جاتا ہے۔ ستر کی دہائی میں، بہت سے والدین حفاظت سے متعلق اتنے حساس نہیں تھے جتنے وہ اب ہیں۔ ہم نے کلیکرز کو ٹوٹنے کے لیے کافی زور سے مارنے میں خوشی محسوس کی اور بہت پہلے یہی اصل مقصد تھا۔ وہ میرے چھوٹے بچگانہ دماغ کو جتنا مزہ دیتے تھے، ایسا کوئی طریقہ نہیں کہ میں اپنے بچوں کو ان کے ساتھ کھیلنے کی اجازت دیتی۔ جب میں کچھ کھیلوں کے بارے میں سوچتی ہوں جو میں نے بچپن میں کھیلے تھے، تو میں اپنا سر ہلاتی ہوں اور مسکراتی ہوں۔ آنکھوں کی بے شمار چوٹوں کے بعد کلاکرز کو بالآخر بند کر دیا گیا۔ کیا حیران کن بات ہے!“

آج کل، کلیکرز کو زیادہ محفوظ بنانے کے لیے ان کے ڈیزائن میں تبدیلی کی گئی ہے۔ جدید کلیکرز عموماً نرم پلاسٹک سے بنے ہوتے ہیں تاکہ چوٹ کے امکانات کو کم کیا جا سکے۔ اگرچہ ان کی مقبولیت میں پہلے جیسی شدت نہیں رہی، لیکن یہ اب بھی کچھ بچوں اور نوستالجیا کے شوقین افراد میں پسند کیے جاتے ہیں۔

کلیکرز نہ صرف کھیل کود کا ذریعہ تھے بلکہ ایک ثقافتی علامت بھی تھے جس نے 1960 اور 1970 کی دہائی میں بچوں کی زندگیوں میں ایک خاص مقام بنایا۔ ان کی سادگی اور استعمال میں چیلنج کی وجہ سے وہ آج بھی کچھ لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close