پاکستان میں ’کوانٹم کمپیوٹنگ‘ کے نام پر فراڈ کیسے ہو رہا ہے؟

ویب ڈیسک

کمپیوٹر کی ایجاد بیسویں صدی کی سب سے اہم پیش رفتوں میں شامل ہے۔ بنیادی طور پر تو کمپیوٹر کا مقصد ریاضی کے پیچیدہ مسائل کو حل کرنا تھا، لیکن وقت کے ساتھ کمپیوٹر ہماری زندگیوں کے مختلف پہلوؤں پر اثر انداز ہو گیا ہے اور آج یہ ہر شخص کی ضرورت بن چکا ہے۔ جس طرح عام کمپیوٹر نے بیسویں صدی پر گہرے نقوش چھوڑے، اسی طرح توقع کی جاتی ہے کہ کوانٹم کمپیوٹر اکیسویں صدی کو اثر انداز کرے گا۔ تاہم ابھی تک کوانٹم کمپیوٹر ریسرچ کے مراحل میں ہے اور ایک کارآمد کوانٹم کمپیوٹر کے حصول کی منزل ابھی دور ہے۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ اس شعبے میں بے تحاشا ریسرچ جاری ہے

2023 میں دنیا بھر سے نجی سرمایہ داروں نے کوانٹم ٹیکنالوجی اسٹارٹ اپس پر ایک اعشاریہ پانچ بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اس بڑھتی ہوئی مارکیٹ ویلیو کے باوجود بہت سے ممالک کوانٹم ٹیکنالوجی کے لیے نئے ناگزیر اقدامات میں ابھی بہت پیچھے ہیں، جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ فی الوقت ایک مضبوط کوانٹم ٹیکنالوجی فریم ورک وقت کی ضرورت ہے ورنہ اس میں پیچھے رہ جانے والے ممالک کو سائبر سیکیورٹی کے خطرات اور عالمی معیشت میں شدید مقابلوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

کوانٹم کمپیوٹر ایک جدید قسم کا کمپیوٹر ہے جو روایتی کمپیوٹروں کی نسبت بہت زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ روایتی کمپیوٹرز بائنری سسٹم پر کام کرتے ہیں، یعنی یہ معلومات کو ’0‘ اور ’1‘ کے ذریعے پروسیس کرتے ہیں، جسے بٹس کہا جاتا ہے۔

کوانٹم کمپیوٹرز میں، معلومات کو "کوبٹس” (qubits) کے ذریعے پروسیس کیا جاتا ہے۔ کوبٹس کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ یہ ’0‘ اور ’1‘ دونوں حالتوں میں بیک وقت ہوسکتے ہیں، جسے سپرپوزیشن (superposition) کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، کوبٹس کے درمیان ایک اور خاصیت ہوتی ہے جسے اینٹینگلمنٹ (entanglement) کہا جاتا ہے، جس کی وجہ سے دو یا زیادہ کوبٹس آپس میں اس طرح جڑے ہوتے ہیں کہ ایک کی حالت دوسرے کو متاثر کر سکتی ہے، چاہے وہ ایک دوسرے سے کتنے ہی فاصلے پر کیوں نہ ہوں۔

فرض کریں کہ آپ کو ایک خاص ’لاک‘ کھولنے کے لیے ایک کوڈ تلاش کرنا ہے۔ روایتی کمپیوٹر ایک وقت میں ایک کوڈ ٹرائی کرے گا، اور اگر کوڈ دس لاکھ ممکنہ کومبینیشنز پر مشتمل ہو، تو اسے تمام کومبینیشنز کو چیک کرنے میں کافی وقت لگے گا۔

کوانٹم کمپیوٹر کی صورت میں، یہ ایک ہی وقت میں تمام ممکنہ کومبینیشنز کو چیک کر سکتا ہے، کیونکہ اس کے کوبٹس سپرپوزیشن کی حالت میں ہو سکتے ہیں۔ اس طرح، کوانٹم کمپیوٹر بہت تیزی سے صحیح کوڈ تلاش کر سکتا ہے۔

یہی وہ صلاحیت ہے جو کوانٹم کمپیوٹرز کو بہت پیچیدہ مسائل حل کرنے کے قابل بناتی ہے جو روایتی کمپیوٹرز کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔

اسی لیے کہا جاتا ہے کہ کوانٹم کمپیوٹرز کے آنے کے بعد سائبر کرائم میں نئی جہتیں آ سکتی ہیں، اور کریڈٹ کارڈ استعمال کرنا بھی غیر محفوظ ہو سکتا ہے۔

کوانٹم کمپیوٹرز روایتی کمپیوٹرز سے بہت زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔ یہ موجودہ کمپیوٹرز کے مقابلے میں بہت تیزی سے بڑے اور پیچیدہ مسائل حل کر سکتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ موجودہ دور کے کمپیوٹر سیکورٹی سسٹمز جو روایتی انکرپشن (encryption) کے ذریعے محفوظ ہیں، کوانٹم کمپیوٹرز کے ذریعے آسانی سے توڑے جا سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر، آج کل کی کریڈٹ کارڈ سیکورٹی کا انحصار انکرپشن پر ہوتا ہے، جو کہ ایک خاص قسم کی خفیہ کاری ہے جو ڈیٹا کو محفوظ رکھتی ہے۔ روایتی کمپیوٹرز کے لیے اس انکرپشن کو توڑنا ممکن نہیں ہوتا یا بہت مشکل اور وقت طلب ہوتا ہے، لیکن کوانٹم کمپیوٹرز کے آنے سے یہ انکرپشن بہت تیزی سے توڑی جا سکتی ہے۔

فرض کریں کہ آپ کا کریڈٹ کارڈ ڈیٹا انکرپشن کے ذریعے محفوظ ہے۔ اگر کوئی ہیکر ایک کوانٹم کمپیوٹر کا استعمال کرے، تو وہ اس انکرپشن کو بہت کم وقت میں توڑ سکتا ہے اور آپ کی ذاتی معلومات حاصل کر سکتا ہے۔ اس کے بعد وہ آپ کے کریڈٹ کارڈ کا غلط استعمال کر سکتا ہے، جس سے آپ کو مالی نقصان ہو سکتا ہے۔

اسی لیے سائبر سکیورٹی میں نئے طریقے اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ کوانٹم کمپیوٹرز کے خطرات سے محفوظ رہا جا سکے۔ نئے انکرپشن سسٹمز اور پروٹوکولز جو کوانٹم ریزسٹنٹ (quantum-resistant) ہیں، ان پر کام ہو رہا ہے تاکہ کوانٹم کمپیوٹرز کے خطرے سے نمٹا جا سکے۔

عالمی سطح پر کوانٹم کمپیوٹنگ کی ترقی کو دیکھا جائے تو امریکہ میں گوگل، IBM، اور مائیکروسافٹ جیسے بڑے ٹیکنالوجی کمپنیز کوانٹم کمپیوٹنگ کے شعبے میں سبقت لے رہی ہیں۔ گوگل نے 2019 میں ’کوانٹم سپرمیسی‘ کا دعویٰ کیا، جب ان کے کوانٹم کمپیوٹر نے ایک مسئلہ حل کیا، جو روایتی کمپیوٹرز سے ممکن نہیں تھا۔

یورپ کی بات کی جائے تو یورپی یونین نے ’کوانٹم فلگ شپ‘ پروگرام کے تحت کوانٹم ٹیکنالوجی میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ جرمنی، نیدرلینڈز، اور برطانیہ جیسے ممالک اس تحقیق میں پیش پیش ہیں۔

چین بھی کوانٹم کمپیوٹنگ میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ حال ہی میں، چین نے کوانٹم کمیونیکیشن سیٹلائٹ "مائوس” لانچ کیا جو کہ دنیا میں پہلا کوانٹم کمیونیکیشن سیٹلائٹ ہے۔

جبکہ پاکستان میں کوانٹم کمپیوٹنگ کے حوالے سے تحقیق اور ترقی ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ چند یونیورسٹیاں اور تحقیقی ادارے اس شعبے میں دلچسپی لے رہے ہیں، لیکن ملک میں اس شعبے میں سرمایہ کاری اور وسائل کی کمی ہے۔ اس کے باوجود کچھ پاکستانی سائنسدان اور محققین بیرون ملک کام کر رہے ہیں اور اس شعبے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

کل ملا کر، پاکستان کوانٹم کمپیوٹنگ میں عالمی معیار تک پہنچنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ اس شعبے میں آگے بڑھنے کے لیے ایک جامع اور طویل المدتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

اس ضمن میں جولائی 2024 میں ڈائریکٹر آف یوتھ افیئرز خیبر پختونخواہ حکومت کی جانب سے اپنے ویریفائیڈ سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ’کوانٹم پاکستان‘ کے نام سے ایک ڈپلوما پروگرام کے آغاز کے اشتہارات جاری کیے گئے تھے۔ اس پروگرام کے تحت صوبے بھر سے نوجوانوں کو کوانٹم کمپیوٹنگ کی تربیت دی جانا تھی۔

ان اشتہارات میں ‘’سینٹر فار ایکسی لینس فار ٹیکنالوجی کوانٹم اینڈ آرٹیفیشل انٹیلیجینس پاکستان‘ کو ڈپلوما پروگرام کا آفیشل پارٹنر اور اس ادارے کے سربراہ ڈاکٹر زوہیر احمد کو ہیڈ آف پروجیکٹ قرار دیا گیا تھا۔

ان اشتہارات میں ڈاکٹر زوہیر کے تعارف کے ساتھ پاکستان کے پہلے کوانٹم کمپیوٹر ‘’قائد کوانٹم ون‘ کے خالق اور ورلڈ 47 کوانٹم گریویٹی ریسرچر جیسے اعزازات نے عوام و خواص کی توجہ مبذول کی۔ بہت سے حلقوں کی جانب سے ڈاکٹر زوہیر کے ان اعزازات اور اس ادارے کی کریڈیبلیٹی پر سوالات اٹھائے گئے کیونکہ آن لائن ذرائع اور حقیقت میں اس حوالے سے کوئی ثبوت موجود نہیں تھے۔

خیبر پختونخوا حکومت کے کوانٹم پاکستان ڈپلوما پروگرام میں نیا موڑ 25 جولائی 2024 کو آیا۔ جب نوجوان سائنسدان اور فوربس انڈر 30 کے اعزاز کے حامل محمد شہیر نیازی نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے ڈاکٹر زوہیراحمد کے نام نہاد اعزازت کو چیلنج کیا۔

فیسبک، انسٹاگرام، ایکس اور لینکڈ ان پر سائنسی، سماجی اور صحافتی حلقوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر آواز اٹھائے جانے کے بعد خیبر پختونخواہ حکومت نے چوبیس گھنٹے سے بھی کم وقت میں آفیشل بیان جاری کیا کہ ڈاکٹر زوہیر یا ان کے ادارے کے ساتھ صوبائی حکومت کا کوئی ایم او یو سائن نہیں ہوا۔

اس حوالے سے شہیر نیازی کا کہنا ہے کہ کوانٹم ڈپلوما پروگرام بلاشبہ ایک احسن اقدام ہے۔ دنیا بھر میں کوانٹم کمپیوٹرز کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے سیکیورٹی چیلنجز بھی بڑھ گئے ہیں۔ پاکستان میں اداروں اور عام افراد کو اس حوالے سے زیادہ معلومات نہیں ہیں۔

شہیر بتاتے ہیں کہ کے پی کے ڈائریکٹر یوتھ افیئرز کے جانب سے جاری کردہ اشتہارات جب ان کی نظر سے گزرے تو خوشی کے ساتھ انہیں تشویش بھی ہوئی کیونکہ ڈاکٹر زوہیر اور ان کے ادارے سی ای ٹی کیو اے پی کے بارے میں انہوں نے پہلی دفعہ سنا تھا

شہیر کے مطابق آن لائن اور آف لائن کسی بھی ذریعے سے یہ تصدیق نہیں ہوتی کہ ڈاکٹر زوہیر پاکستان کے پہلے کوانٹم کمپیوٹر ’قائد کوانٹم ون‘ کے خالق ہیں۔ نہ ہی کسی بھی جگہ ’ورلڈ 47 رینکڈ کوانٹم گریویٹی ریسرچر‘ کی تصدیق ہوتی ہے۔ حتٰی کے دنیا بھر میں کہیں بھی ایسی کوئی رینکنگ جاری ہی نہیں کی گئی۔

شہیر نیازی کہتے ہیں کہ مختلف ذرائع سے جعلی شناخت کی تصدیق کے بعد انہوں نے سوشل میڈیا پر اس حوالے سے آواز اٹھائی۔ وہ اس سے پہلے شہاب ثاقب اور نوادرات کی غیر قانونی اسمگلنگ اور کئی دوسرے سماجی مسائل بھی سوشل میڈیا کے ذریعے بے نقاب کر چکے ہیں۔

شہیر بتاتے ہیں کہ بڑی تعداد میں شیئرنگ اور ری پوسٹ کے چند ہی گھنٹے بعد ڈاکٹر زوہیر کے وکیل نے نام بتائے بغیر ان کو کال کر کے قانونی چارہ جوئی کا کہا اور ڈاکٹر زوہیر نے ایک نوٹس ان کی ایک پوسٹس پر کمنٹ کی صورت میں شیئر بھی کیا، تاہم ابھی تک انہیں ایسا کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا۔

شہیر نیازی کے مطابق اسی شام ڈائریکٹر یوتھ افیئرز خیبر پختونخواہ ڈاکٹر نعمان مجاہد نے ان سے رابطہ کر کے اس جعل سازی کو بے نقاب کرنے پر شکریہ ادا کیا۔

ڈاکٹر نعمان مجاہد نے ایک آفیشل بیان میں کہا کہ یوتھ افیئرز کے پی کے کا ڈاکٹر زوہیر یا ان کے ادارے کے ساتھ ’کوانٹم پاکستان ڈپلومہ پروگرام‘ سے متعلق کوئی ایم او یو سائن نہیں کیا گیا۔

ڈاکٹر زوہیر کو ’ہنر مند خواتین پروگرام کے پی کے‘ نے ایک ورک شاپ کے لیے مدعو کیا تھا تاکہ صوبے میں جدید ٹیکنالوجی کو فروغ دیا جا سکے۔

اس آفیشل بیان میں مزید کہا گیا کہ پاکستان ہنرمند خواتین پروگرام کے کہنے پر ہی صوبے کے نوجوانوں کو اس نئی فیلڈ کی طرف راغب کرنے کے لیے ایک گوگل لنک جاری کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ جو کچھ مواد آن لائن موجود ہے وہ ڈاکٹر زوہیر کے ادارے سی ای ٹی کیو اے پی نے جعلی طور پر تیار کیا ہے اور یوتھ افیئرز ڈیپارٹمنٹ کااس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

تو یوں پاکستان میں حسبِ معمول ’کوانٹم کمپیوٹنگ‘ کے نام پر بھی نوجوانوں کو جھانسا ہی دیا جا رہا ہے

ڈی ڈبلیو میں شائع صادقہ خان کی رپورٹ کے مطابق ایک نعیم خان (تبدیل شدہ نام) اسلام آباد کی یونیورسٹی میں شعبۂ طبیعیات کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر زوہیر کے ادارے ’سینٹر آف ایکسیلینس فار ٹیکنالوجی کوانٹم اینڈ آرٹیفیشل انٹیلیجینس پاکستان‘ کا دعویٰ ہے کہ وہ اسی نام کی ایک کینیڈین یونیورسٹی سے الحاق شدہ ہے، لہٰذا اسے ہائر ایجوکیشن کمیشن سے الحاق کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ادارہ ملکی سطح پر کوانٹم کمپیوٹنگ پر ڈپلوما پروگرام، شارٹ کورسز اور ورکشاپس بھی منعقد کروا رہا ہے۔

نعیم خان بتاتے ہیں کہ جون 2024 میں انہوں نے اس ادارے کی جانب سے مری میں کوانٹم اور اے آئی سمر سمٹ کے لیے اپلائی کیا تھا۔ انٹرویو کے لیے گوگل میٹ پر پچاس سے ساٹھ طلبہ جمع تھے مگر کوئی انٹرویو نہیں کیا گیا بلکہ ڈاکٹر زوہیر، مری میں ہونے والی ایک ویبینار کے ٹکٹ دو ہزار میں فروخت کر رہے تھے۔

نعیم کے مطابق اس سے انہیں تھوڑا شک ہوا اور انہوں نے آن لائن اور آف لائف ڈاکٹر زوہیر اور ادارے کے متعلق معلومات جمع کیں تو وہ حیران رہ گئے کہ ڈاکٹر زوہیر کے اعزازات اور ادارے کے الحاق کی تمام معلومات مشکوک ہیں۔

پاکستان میں سائنس کی فیلڈ میں فراڈ کے بارے میں شہیر نیازی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا۔ یہاں کبھی کوئی پانی سے چلنے والی کار کے دعوے کرنے لگتا ہے تو کوئی کسی ادارے سے اشتراک کے بغیر پہلا کوانٹم کمپیوٹر بنا لیتا ہے۔

شہیر کہتے ہیں کہ بنیادی طور پر عوام میں سائنسی معلومات کا فقدان ہے اور انہیں بین الاقوامی یونیورسٹیوں کے سرٹیفیکیٹس کا جھانسا دے کر با آسانی دھوکا دیا جا سکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر بات یہیں تک ہوتی تو قابل ہضم تھی لیکن اگر نسٹ، حبیب یونیورسٹی کراچی، قائد اعظم یونیورسٹی، اسلامک یونیورسٹی اور شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی اسلام آباد جیسے مایہ ناز تعلیمی ادارے کسی چھان پھٹک کے بغیر جعلی سائنسدانوں کو سیمینارز، ورک شاپس یا لیکچرز کے لیے مدعو کریں گے تو یہ یقینا لمحۂ فکریہ ہے۔

یونیورسٹی آف لندن سے فزکس میں گریجویشن کرنے والی اسنا مسعود کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر ایک بیسک کوانٹم کمپیوٹر کی قیمت کئی ملین ڈالر ہے۔ کیونکہ ایک کوانٹم کمپیوٹر کے کولنگ سسٹم کو منظم رکھنے کے لیے زیرو کیلون درجۂ حرارت درکار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کوانٹم کمپیوٹر سے سائیبر سکیورٹی کو نئے چیلنجز کا سامنا ہے کیونکہ یہ آن لائن مواصلات کو محفوظ بنانے کے لیے استعمال کئے جانے والے بہت سے انکرپشن الگورتھم کو توڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اسنا مزید کہتی ہیں پاکستان میں فنڈز کی کمی کے باعث اس فیلڈ میں تحقیق ابھی محدود ہے، لہٰذا عوام و خواص، جامعات، اور دیگر تعلیمی اداروں کو ’ڈبل چیک‘ رکھنا ہوگا تاکہ اس فیلڈ میں بڑھتی جعل سازی کو لگام ڈالی جا سکے۔

اس حوالے سے نعیم خان کہتے ہیں کہ نوجوانوں کو کسی بھی کورس میں داخلے سے پہلے ادارے اور انسٹرکٹر کے متعلق پوری معلومات لینی چاہیے خصوصاََ اگر وہ آن لائن پروگراموں کے لیے بھاری فیس چارج کر رہے ہوں۔ اس کے ساتھ ہی اگر کوئی جعل سازی سامنے آتی ہے تو سوشل میڈیا کے ذریعے اسے بے نقاب کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close