ایک دور ایسا بھی تھا، جب انسان یادداشت کو صفر اور ایک کے طور پر محفوظ کرنے سے پہلے، علم کو انگلیوں اور ہتھیلیوں پر محفوظ کرتا تھا اور ہاتھوں کو ایک قسم کی ’ڈیجیٹل ڈیوائس‘ کی طرح استعمال کرتا تھا۔ آج ہم آپ کو ایک ہزار سال کے سفر پر لے جاتے ہیں، جس میں ’ہینڈ مینومونکس‘ (ہاتھ کی یادداشت کی تکنیک) جس میں وہ مختلف طریقے شامل ہیں جو بدھ مت کے راہبوں، لاطینی زبان کے ماہرین، اور نشاۃ ثانیہ کے موسیقاروں نے ذہن میں محفوظ رکھنے کے لئے استعمال کئے تاکہ وہ چیزوں کو یاد رکھ سکیں اور بھول نہ جائیں۔
ہینڈ مینومونکس یا ’دستی یادداشتیں‘ ایک قدیم تکنیک ہے، جس میں یادداشت کو بہتر بنانے کے لئے انسان اپنے ہاتھوں کا استعمال کرتے آئے ہیں۔ اس نظام میں ہاتھوں کو مختلف معلومات یاد رکھنے کے لئے "یادداشتی ڈھانچے” کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ مختلف تہذیبوں اور ادوار میں اس طریقہ نے مختلف شکلیں اختیار کیں، جن میں ہاتھ کی مخصوص ساخت اور حرکات کو علامتی معانی دیے گئے، تاکہ معلومات کو منظم اور آسانی سے یاد کریا جا سکے۔
ابتدائی دور میں، ہاتھوں نے ذہن کو چیزیں یاد رکھنے کے لیے سہارا دینے میں اہم کردار ادا کیا اور یوں ہاتھ روزمرہ کے کاموں کے علاوہ ذہنی مشقت کا ذریعہ بھی بن گئے۔ ہاتھ کی ساخت میں ایسی پیچیدگیاں پیدا ہوئیں کہ اسے علم محفوظ کرنے کے لئے استعمال کیا جانے لگا۔ اس سے مختلف اصول، نام، اور تاریخیں ہتھیلی اور انگلیوں پر محفوظ ہو سکیں، اور ہاتھ ایک چلتی پھرتی یادداشت کی مشین بن گیا۔
کسی کو معلوم نہیں کہ یہ خاکہ کس نے بنایا۔ یہ غالباً آٹھویں صدی کے ایک راہب کا کام تھا، جو شاید سلک روڈ پر سفر کرنے والے کسی پوشیدہ بدھ مت فرقے کا رکن تھا، اور چین کے موگاو غاروں کی ایک دیوار میں بند لائبریری میں طویل عرصے تک بھولا ہوا پڑا رہا۔ جب یہ لائبریری 1900 میں دریافت ہوئی، تو یہ خاکہ، جو مذہبی مسودات کے ذخیرے سے نکالا گیا تھا، وقت کے ساتھ اچھی حالت میں تھا۔ اس کا موضوع لازوال ہے: انسانی ہاتھوں کا ایک جوڑا، جو ہاتھوں کو یادداشت کے نظام کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ان پر چینی حروف درج ہیں۔ اس میں انگلیوں کو مخصوص نام، عناصر اور فضائل کے ساتھ نشان زد کیا گیا ہے، جس سے علم کو ہاتھ پر محفوظ کرنا اور یاد رکھنا آسان ہوتا ہے۔
ہاتھ کٹے ہوئے ہیں، کنول کے پھولوں پر رکھے ہیں، اور ہتھیلیاں دیکھنے والے کی طرف رخ کیے ہیں۔ ان کی انگلیاں — مضبوط اور نفیس — پر چینی حروف لکھے ہیں: سب سے نیچے کی صف، انگلیوں کی نوکوں پر، ہر انگلی کو نام دیتی ہے؛ اس کے اوپر ایک دوسری صف پانچ بدھ مت عناصر کو پیش کرتی ہے: خلا، ہوا، آگ، پانی، اور زمین؛ اور آخری صف، پتنگ کی ڈوروں کی طرح اوپر کی طرف تیرتی ہوئی، دس فضائل کی فہرست دیتی ہے — جن میں مراقبہ، محنت، خیرات، حکمت، اور صبر شامل ہیں۔ یہ خاکہ ایک یادداشت کا نظام دکھاتا ہے، علم کو ہاتھوں پر پیش کرنے کا ایک طریقہ تاکہ اسے سمجھا اور یاد کیا جا سکے، اور پھر جیب میں محفوظ کیا جا سکے۔
اسی زمانے میں جب یہ یادداشت کا نظام تیار کیا گیا تھا، ایک اور راہب — دنیا کے دوسرے کنارے، شمالی برطانیہ کے ایک خانقاہ میں — علم کے مختلف نظام کو تیار کر رہا تھا۔ اس کا نام ہمیں معلوم ہے: بیڈ۔ 725ء میں، اس نے ایک مقالہ شائع کیا، ’وقت کا حساب‘ ، انہوں نے اپنی انگلیوں کے جوڑوں کو استعمال کرتے ہوئے چاند اور سورج کے ادوار کو یاد رکھنے کا طریقہ وضع کیا۔ بیڈ نے اپنی انگلیوں کے چودہ جوڑوں اور پانچ ناخنوں کو شمسی اور قمری دورانیے سے منسلک کر کے ’کمپیوٹس ڈیجیٹورم‘ نامی ایک نظام تخلیق کیا۔ اس نے ایک طریقہ وضع کیا کہ کسی بھی سال میں ایسٹر کب آئے گا۔ یہ ایک معمولی مشق معلوم ہو سکتی ہے، لیکن اس وقت کے عیسائیوں کے لئے یہ ایک انتہائی اہم اور پیچیدہ مسئلہ تھا۔
ایسٹر کی تاریخ معلوم کرنے کے لئے — جو شمالی نصف کرہ کے بہاری انقلاب کے بعد، پہلے مکمل چاند کے فوراً بعد اتوار کو آتا ہے — آپ کو سیاروں کی گردش کے ساتھ مطابقت قائم کرنا ہوگی، جسے بیڈ نے اپنے ہاتھوں پر نقش کیا۔ انہوں نے مشاہدہ کیا کہ پانچ انگلیوں میں چودہ جوڑ ہوتے ہیں، اور پانچ ناخن — مجموعی طور پر انیس مقامات۔ یہ عدد ’میٹونک سائیکل‘ کو ظاہر کرتا ہے: چاند کو ایک ہی قمری حالت میں اسی تقویمی دن پر واپس آنے میں جتنے سال لگتے ہیں۔ دونوں ہاتھوں کے جوڑوں کو ناخن کے بغیر شمار کریں، تو آپ کو اٹھائیس مقامات ملتے ہیں: شمسی دورانیے کی مکمل گردش کی تخمینی مدت۔ اس طرح، بیڈ نے مشاہدہ کیا کہ ”ہاتھ آسانی سے دونوں سیاروں کے ادوار کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔“
اس بنیادی ترتیب کے علاوہ، انہوں نے تفصیلات کو مبہم چھوڑ دیا اور تصویر شامل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ (بیڈ نے لکھا کہ یہ ”کسی زندہ آواز کی گفتگو سے بہتر طور پر بیان کیا جا سکتا ہے بجائے قلم کے محنت طلب خط کی مدد سے۔“) تاہم، ان کا یہ نظام — جسے ’کمپیوٹس ڈیجیٹورم‘ یا صرف ’کمپیوٹس‘ کہا جاتا ہے — قبولیت کی بلندیوں تک پہنچا۔ یہ وسیع پیمانے پر پھیلا اور اپنایا گیا، اور صدیوں تک عیسائی علم کا بنیادی حصہ رہا۔
یہ یادداشتی نظام دونوں ثقافتوں میں علم کے ایک اہم حصے کے طور پر موجود رہا اور صدیوں تک ان کا استعمال ہوتا رہا۔
یہ دونوں نظام — شاید یادداشت کی قدیم ترین مثالیں — ہمیں صرف خاکے کی صورت میں منتقل ہوئے ہیں۔ اور پھر بھی ہمیں ان کی اہمیت کو سمجھنے میں زیادہ دشواری نہیں ہوتی۔
شروع میں، ہاتھ بس ایک ہاتھ ہی تھا — یا کم از کم ہم یہی تصور کر سکتے ہیں۔ یہ روزمرہ کا عضو تھا، حالانکہ یہ کثیرالجہت تھا: پکڑنے، تھامنے، پھینکنے، اور وزن اٹھانے کا ایک آلہ۔ پھر، کسی وقت، لاکھوں سالوں کے بعد، اس نے دیگر فرائض اختیار کیے۔ یہ ذہن کو یاد رکھنے میں مدد دینے والا آلہ بن گیا۔
انسان اس کے علاوہ دیگر طریقے بھی استعمال کرتا رہا تھا۔ ہڈیوں پر نشان لگا کر گنتی کرنے، رسیوں میں گرہ لگا کر، غاروں کی دیواروں پر رنگ بکھیر کر، اور پتھروں کو آسمانی اجسام کے ساتھ ملا کر۔ پھر تقریباً بارہ سو سال پہلے سے، انسان نے خود ہاتھ کو علم کے ایک چلتے پھرتے ذخیرے کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا، ایسی جگہ جہاں وہ سب کچھ محفوظ رکھا جا سکے جو ہمارے ذہن کی گرفت سے پھسلنے لگے۔ ہتھیلی اور انگلیوں کی بناوٹ معلومات کی تمام اقسام سے نادیدہ طور پر بھری جانے لگی — اصول اور تاریخیں، نام اور آوازیں۔ یوں ہاتھ ایک نئے انداز میں کارآمد ثابت ہوا، جیسے کہ ایک ہمہ جہت یادداشت کی مشین!
مغرب میں یادداشت کے فنون کے حوالے سے ایک اور نظام ’یادداشت کا محل‘ مشہور ہے، جس میں افراد مانوس جگہوں یا راستوں کا تصور کر کے معلومات کو یاد رکھتے تھے۔ قدیم یونان اور روم میں لوگ یادداشت کے فروغ کے لئے ’یادداشت کا محل‘ تخیل کرتے تھے، جہاں مخصوص مقامات پر معلومات رکھی جاتی تھیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ یادداشت کے اس طریقے میں ہاتھ کی یادداشت کو شاذ و نادر ہی شامل کیا گیا ہے، حالانکہ دونوں نظاموں میں معلومات کو جگہوں سے منسلک کرنے کا عمل مشترک ہے۔ فرق یہ ہے کہ یادداشت کے محلات انفرادی اور ذاتی ہوتے ہیں، جبکہ ہاتھ کی یادداشت کو اجتماعی اور معاشرتی علم کی منتقلی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ہاتھ کی یادداشت کی کمیونٹی میں شیئر کی جانے والی خصوصیت ہے جو اسے تعلیم، رسم و رواج، اور ابلاغ میں زیادہ قابلِ عمل بناتی ہے۔
یورپ میں قرون وسطیٰ کے دور میں عیسائیوں نے ہاتھ کی یادداشت کو مختلف دینی تعلیمات کے لئے استعمال کیا، جیسے کہ جرمنی میں 1466ء میں ایک لکڑی کے کندہ کیے ہوئے خاکے میں انگلیوں کو مختلف روحانی مقامات سے جوڑا گیا۔ اسی طرح، 1491ء میں ایک مذہبی کتاب نے سو مراقبوں کی ایک ’ڈیجیٹل‘ فہرست دی جس میں انگلیوں کے چار حصوں میں عیسائی شخصیات کی تصاویر شامل کی گئیں۔ یوں ہاتھ کی یادداشت نہ صرف ذاتی بلکہ اجتماعی مقاصد میں بھی طاقتور ثابت ہوئی۔
مختلف ادوار میں، ہاتھ نے آواز کی یادداشت کا بھی ذریعہ فراہم کیا۔ گیارہویں صدی کے اطالوی استاد گوئیدو ڈی آریزو نے مختلف موسیقی کے سروں کو ہاتھ کے جوڑوں پر ترتیب دے کر ایک تکنیک متعارف کروائی تاکہ طلباء کو موسیقی کے سر یاد رہ سکیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ گوئیدو کی اپنی تحریروں میں ہاتھ کو واضح طور پر نہیں دکھایا گیا، لیکن تاریخ نے پھر بھی اس کا سہرا اس کے سر باندھا، اور اس کی موت کے بعد کئی صدیوں تک گیڈونین ہاتھ موسیقی کی تعلیم کا ایک لازمی جزو بنا رہا۔
یورپ کے دوسرے مفکرین — شاید گوئیدو سے متاثر ہو کر — زبان کی آوازوں کو سیکھنے کے لئے ہاتھ کی تکنیکیں ایجاد کرنے لگے۔ 1400 کی دہائی میں، مصنف جان ہولٹ نے لاطینی زبان کے قواعد کو یاد رکھنے کے لئے ایک ہاتھ پر مبنی تکنیک وضع کی، اور 1511 میں، جرمن عالم تھامس مورنے نے جرمن بولی کے قواعد کو سمجھنے کے لئے ہاتھ کی ایک یادداشت تجویز کی۔ تاہم، یہ مصنفین چین میں اپنے ہم عصروں سے چند صدیاں پیچھے تھے، جہاں ہاتھ نے طویل عرصے سے صوتیات میں اپنا مقام بنا رکھا تھا۔ تیرہویں صدی کے آغاز میں، چینی علماء نے ہتھیلی اور انگلیوں پر حرفوں کے چارٹ — جنہیں اکثر ’قافیہ جدول‘ کہا جاتا ہے — ترتیب دینا شروع کر دیے تھے۔ 1600 کی دہائی کے ایک ورژن میں بتیس اہم آوازوں کو انگلیوں پر نقش کیا گیا تھا، ہر ہاتھ پر سولہ آوازیں۔
یورپ میں، بیڈ کے نظام سے متاثر کئی یادداشتی طریقے وقت کا حساب رکھنے کے لئے ہاتھ کو استعمال کرتے تھے۔ مثال کے طور پر، 1582ء میں فرانسیسی مصنفہ تھوانو آر بہاؤ نے ایک کیلنڈر یادداشت تیار کی، جس میں ہاتھ کی انگلیوں کو طویل اور مختصر مہینوں کی ترتیب یاد رکھنے کے لئے استعمال کیا گیا۔ اس میں انگوٹھے اور انگلیوں کی مختلف حالتوں کو دنوں کے حساب سے ترتیب دیا گیا، جس میں مارچ سے جنوری تک مہینوں کے دنوں کو منظم کیا گیا تھا۔
1602 میں جیورلامو مارافیوتی نے ایک جامع دستی یادداشتی نظام پیش کیا، جس میں ہاتھ کے سامنے اور پیچھے 92 مخصوص مقامات پر علامتیں تھیں۔ اس نظام میں ہر مقام پر مخصوص علامتیں یاد رکھنے کے لئے ترتیب دی گئیں، اور اسے لوگوں کو درجہ، عمر یا دیگر خصوصیات کے لحاظ سے یاد رکھنے میں استعمال کیا جا سکتا تھا۔ یہ نظام ایک چھوٹے دستی آلے میں معلومات کو منظم رکھنے کی ایک جامع شکل فراہم کرتا تھا۔
دستی یادداشتوں میں مختلف روایات شامل تھیں، جیسے بیڈ کے نظام پر مبنی یہودی کیلنڈر، چینی طب کی یادداشتیں، اور یورپ میں اہم لمحات یاد رکھنے کے نظام۔ بعض اوقات ہاتھ کو معلومات سے بھرا جاتا تھا مگر اس کا مقصد یادداشت نہیں ہوتا تھا، جیسے بہروں کے لئے اشاروں کی زبان اور پیشن گوئی کے لئے مخصوص ہاتھ کے نشانات۔
دستی یادداشتیں پورٹیبل اور آسان رسائی کی وجہ سے مقبول تھیں اور بصری اور حرکی یادداشت کی سہولت فراہم کرتی تھیں۔ یہ خواندہ اور زبانی ثقافتوں کے درمیان ایک پل تھیں اور اس دور میں عروج پر آئیں جب علمی اور عوامی طبقات پیچیدہ معلومات کے نظام کو روزمرہ میں لانے کی کوشش کر رہے تھے۔
ہینڈ مینومونکس کی ساخت اور تکنیکیں
● یادداشتی ڈھانچے کی تخلیق: ہینڈ مینومونکس میں انگلیوں، ہتھیلی، اور ہاتھ کے دیگر حصوں کو مخصوص مقامات پر معلومات رکھنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً انگلیوں کو مختلف ادوار، اصول، یا معلومات سے منسلک کیا جاتا ہے، تاکہ یادداشت کی پائیداری بڑھے۔
● علامات اور تصاویر: اس طریقے میں یاد رکھنے والی چیزوں کو نمایاں بنانے کے لئے علامتیں استعمال کی جاتی ہیں۔ جیورلامو مارافیوتی کے نظام میں ہر مقام پر علامتیں ترتیب دی گئی تھیں جیسے ہلال، دائرہ، اور دیگر علامتیں۔ اس طرح ہر مقام پر مخصوص چیزیں یاد رکھی جاتی تھیں۔
● حرکی اور بصری یادداشت: اس تکنیک میں ہاتھ کی حرکت اور ساخت کا استعمال کرکے بصری یادداشت میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ یہ تکنیک خاص طور پر اساتذہ اور طلباء کے لئے مفید ہے، کیونکہ ہاتھوں کو مختلف حرکات کے ذریعے معلومات یاد رکھنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
ہینڈ مینومونکس کا استعمال
● تعلیمی مقاصد: ہینڈ مینومونکس مختلف تعلیمی شعبوں میں یادداشت بڑھانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ حساب کتاب میں طویل اور مختصر مہینوں کو انگلیوں کی ترتیب سے یاد رکھنا، یا کیلنڈر سیکھنے کے لئے انگلیوں پر دنوں کی گنتی کرنا اس کی مثالیں ہیں۔
● طب: طب میں ہاتھ کی بنیاد پر مختلف تکنیکیں اور نظام تیار کئے گئے ہیں۔ ڈاکٹروں نے بائیولوجی، خاص کر شریانوں کی ترتیب اور جسمانی ڈھانچے کی یادداشت کے لئے ہینڈ مینومونکس کو استعمال کیا ہے۔
● فزکس: فزکس میں ’دائیں ہاتھ کا اصول‘ ایک مشہور مثال ہے۔ اس اصول میں دائیں ہاتھ کی انگلیاں مخصوص حرکات سے مختلف فزکس کے تصورات کو سمجھانے میں مدد دیتی ہیں، جیسے کہ مقناطیسی میدان، طاقت، اور سمت کا تعین۔
موجودہ دور میں ہینڈ مینومونکس
جدید دنیا میں بھی ہینڈ مینومونکس کے مختلف استعمالات جاری ہیں۔ آج کل بھی کئی افراد طویل اور مختصر مہینوں کو انگلیوں کے سارھ نتھی کرکے یاد رکھتے ہیں۔ طب، موسیقی، اور فزکس کے تعلیمی شعبے اب بھی اس تکنیک کا استعمال کرتے ہیں۔ ہاتھ کی بنیاد پر علامات یا نقشے بنانے کا رجحان بھی جاری ہے، جیسے امریکہ میں مختلف ریاستوں کے لوگ اپنے ہاتھ کی ساخت کو ریاست کے نقشے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہ تکنیک آج بھی ثابت کرتی ہے کہ ہاتھ، جدید ڈیجیٹل دور میں بھی ایک طاقتور اور آسان یادداشتی آلہ ہے۔
ہینڈ مینومونکس ایک قدیم اور دلچسپ تکنیک ہے جو کہ ہماری یادداشت کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس تکنیک نے مختلف تہذیبوں میں مختلف شکلوں میں ترقی کی۔ یہ طے کرنا مشکل ہے کہ یہ نظام کب شروع ہوا یا کب ختم ہوا، لیکن اس کے اثرات آج بھی موجود ہیں۔ جدید دور میں بھی لوگ کچھ کیلنڈر یادداشتیں اور طب و فزکس میں ہاتھ کی تکنیکیں استعمال کرتے ہیں۔ ہم ورچوئل دنیا پر انحصار کرتے ہیں مگر کبھی کبھار اب بھی اس قدیم دستی یادداشت کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
نوٹ: اس فیچر کی تیاری میں پبلک ڈومین ری ویو میں شائع کینسی کوپر رائڈر کے مضمون سے مدد لی گئی ہے۔ ترجمہ، ترتیب، تلخیص و اضافہ: امر گل