’وہ لانچ ہوا، پاکستان میں مقبول ہوا اور ممنوع قرار دیا گیا!‘ جی ہاں۔۔ یہ مختصر کہانی ہے نئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’بلیو اسکائی‘ کی، جو پاکستان میں مقبول ہوتے ہی بین کر دیا گیا ہے۔
پاکستان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی کوئی نئی بات نہیں رہی۔ ایکس (سابق ٹوئٹر) کو پہلے ہی بند کر دیا گیا ہے اور اب اس کے متبادل سمجھے جانے والے ’بلیو سکائی‘ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو بھی پاکستانی حکومت نے اس ’اعزاز‘ سے نواز دیا ہے۔ گزشتہ روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر متعدد پاکستانی صارفین نے پوسٹ کیا کہ ’بلیو اسکائی سوشل‘ ملک میں بغیر وی پی این کے نہیں چل رہا۔
واضح رہے کہ حکومتی ادارے ’اسلامی نظریاتی کونسل‘ نے حال ہی میں وی پی این کو ‘غیر شرعی‘ قرار دیا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ جیسے حکومت نے سوشل میڈیا کو اپنی سیاسی اور اخلاقی کمزوریوں کا پردہ چاک کرنے والا دشمن سمجھ لیا ہو۔ بلیو اسکائی پر پابندی کی وجہ شاید یہ ہو کہ یہاں آزادی سے بات کرنے والے صارفین کے خیالات حکومت کی نازک جمہوری صحت پر بھاری پڑنے لگے تھے۔۔ لیکن ایسی بھی کیا جلدی، کہ ابھی تو یہ نیا پلیٹ فارم پاؤں پاؤں ہی چلنے لگا تھا۔
فلمی ڈائلاگ ’تاریخ پر تاریخ‘ تو آپ نے سنا ہی ہوگا، لیکن یہاں ’پابندی پہ پابندی‘ کی پوری فلم چل رہی ہے۔ لگتا ہے کہ حکومت کی ’ڈیجیٹل پاکستان‘ کی کوششیں اب ’ڈیجیٹل پابندیستان‘ کا موڑ مڑ گئی ہیں۔ یہ ایسے ہے جیسے کوئی پرانے ریڈیو پر ‘راگ درباری‘ سننے کی خواہش میں ٹیوننگ کر رہا ہو اور ہر بار ’ناپسندیدہ‘ آواز آتے ہی چینل بند کر دیتا ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ پابندیاں پاکستان کے مسائل حل کریں گی یا صرف یہ ظاہر کریں گی کہ ہم تنقید برداشت کرنے میں کس قدر ناکام ہیں؟
پاکستان میں ’بلیو اسکائی‘ کی مقبولیت میں اضافے کے چند دن بعد ہی 18 نومبر کو محدود صارفین کی جانب سے ’بلیو اسکائی‘ کی سروسز میں خلل کی شکایات سامنے آئی ہیں۔ زیادہ تر صارفین نے فیس بک اور تھریڈز سمیت دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ’بلیو اسکائی‘ کی سروس ڈاؤن ہونے یا پلیٹ فارم تک رسائی حاصل نہ کرپانے کی شکایات کیں۔
نئے پلیٹ فارم ‘بلیو اسکائی‘ پر پابندی کے حوالے سے سوشل میڈیا صارف سید زاہد عباس نے ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ”مبارک ہو پاکستانیو۔۔ وطنِ عزیر میں بلیو اسکائی بھی فتح کر لیا گیا۔ وی پی این کے بغیر اڑان نہیں بھری جا رہی، اب کوئی رہ تو نہیں گیا فتح کرنے کے لیے؟“
ایک اور صارف نے لکھا ”لوگو، انہوں نے بلیو اسکائی پر بھی پابندی لگا دی ہے، پاکستان میں سکیورٹی کے اتنے مسائل ہیں لیکن یہ صرف سوشل میڈیا ایپس ہی بند کرنا چاہتے ہیں۔“
متعدد صارفین بلیو اسکائی پر تبصرے کرتے ہوئے ایک ہی بات کہتے نظر آئے کہ یہ پلیٹ فارم اب بغیر وی پی این کے نہیں چل رہا۔
واضح رہے پاکستان میں ایکس سروسز کئی ماہ سے معطل ہیں اور صارفین بغیر وی پی این کے ایکس استعمال کرنے سے قاصر ہیں۔ گذشتہ عرصے سے پاکستان حکومت کی جانب سے متعدد بیان بھی سامنے آئے جن میں ایکس کو ’ملکی سلامتی کے لیے خطرہ‘ قرار دیا گیا۔ پاکستان میں ایکس کی بندش کے خلاف عدالتی کیسز بھی چلے مگر حکومت نے سروسز بحال نہیں کیں۔ وزارت داخلہ نے عدالت میں جمع کرائے گئے اپنے ایک جواب میں کہا تھا کہ ”ایکس پر ملکی اداروں کے خلاف نفرت انگیز مواد اپ لوڈ کیا جاتا ہے۔ ایکس پر پابندی کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ ملکی سکیورٹی اور وقار کے لیے پابندی لگائی ہے۔“
جہاں پاکستان میں ایکس معطل کیا گیا وہیں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن (پی ٹی اے) کی جانب سے غیر رجسٹرڈ وی پی اینز کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا ہے۔ گزشتہ روز پی ٹی اے کے چیئرمین میجر جنرل ریٹائڑد حفیظ الرحمان پاشا کا کہنا تھا کہ پی ٹی اے نے 30 نومبر تک وی پی این کی رجسٹریشن کی مہلت دی ہے، جس کے بعد تمام غیر رجسٹرڈ وی پی این بند کر دیے جائیں گے۔
اس تمام صورتحال کے پیشِ نظر حال ہی میں پاکستان میں ’بلیو اسکائی‘ نامی پلیٹ فارم کافی مقبول ہوا، جسے لوگ ٹوئٹر کا متبادل قرار دیتے ہوئے استعمال کر رہے تھے۔ کیونکہ بظاہر بلیو اسکائی دِکھنے میں ہو بہو سابق ٹوئٹر جیسا معلوم ہوتا ہے، اس کی بائیں جانب ہوم بار ہے جس میں نوٹیفکیشن، سرچ، چیٹس، فیڈز، لسٹس، پروفائل اور سیٹنگز کے آپشنز موجود ہیں۔ بلیو اسکائی پر بھی صارف ایکس کی طرح پوسٹ کر سکتے ہیں جن پر فالوورز لائیک، کمنٹس اور شیئرز دے سکتے ہیں۔
بلیو اسکائی اور ایکس میں مماثلت کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اسے بھی سابق ٹوئٹر کے بانی جیک ڈارسی نے 2019 میں بنایا تھا۔ جیک ڈارسی نے اس سوشل ایپلی کیشن کو ایک ’ڈی سینٹرلائزڈ‘ ایپ کے تحت بنایا تھا، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس پلیٹ فارم پر صارفین اپنا ڈیٹا بلیو اسکائی کی ملکیت والے سرورز کے علاوہ اپنے سرورز پر بھی محفوظ کر سکتے ہیں۔
صارفین بلیو سکائی استعمال کرتے ہوئے اپنا ڈیٹا اپنے ہی سرورز پر اسٹور کر سکتے ہیں اور اس پر اپنے قوانین لاگو کر سکتے ہیں جو اس پلیٹ فارم کو ایکس اور ٹوئٹر سے منفرد بناتا ہے۔
’بلیو اسکائی‘ میں زیادہ تر وہی فیچرز ہیں جو کہ ٹوئٹر میں ہوتے تھے، تاہم فوری طور پر بلیو اسکائی میں ہیش ٹیگز جیسے مقبول فیچرز اچھی طرح کام نہیں کر رہے۔
جیک ڈورسی نے 2019 میں جب یہ پلیٹ فارم بنایا تھا، اس وقت اسے اتنی مقبولیت حاصل نہ تھی، اور 2021 میں جے گریبر اس کے سی ای او منتخب ہوئے تھے، جس کے بعد اس کمپنی کو خود مختار کر دیا گیا تھا۔ تاہم 2022 میں جب ایلون مسک نے ٹوئٹر خریدا تو کمپنی نے بلیو اسکائی سے بھی راہیں جدا کر لیں تھیں، اور جیک ڈارسی بھی اس وقت تک بلیو اسکائی چھوڑ چکے تھے۔
بلیو سکائی کو آغاز میں ’انوائٹ اونلی‘ پلیٹ فارم کے تحت رکھا گیا تھا یعنی ابتدا میں صرف محدود صارفین کو اس تک رسائی حاصل تھی۔ فروری 2024 میں اسے عام صارفین کے لیے کھولا گیا۔
اب یہ پلیٹ فارم مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق بلیو سکائی کا کہنا ہے کہ نومبر کے وسط تک اس کے صارفین کی تعداد بڑھ کر ڈیڑھ کروڑ تک پہنچ گئی ہے جو اکتوبر کے آخر تک ایک کروڑ 30 لاکھ تھی۔
برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق صرف گزشتہ ہفتے کے ایک ہی دن میں ’بلیو اسکائی‘ پر 10 لاکھ نئے صارفین نے اکاؤنٹس بنائے اور مذکورہ اکاؤنٹس کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ اتنے اکاؤنٹ گزشتہ ایک سال میں بھی پلیٹ فارم پر نہیں بنائے گئے تھے۔
امریکی نشریاتی ادارے ’سی بی ایس نیوز‘ کے مطابق ’بلیو اسکائی‘ کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) نے دعویٰ کیا ہے کہ ہر 15 منٹ میں پلیٹ فارم پر تقریباً 10 ہزار نئے اکاؤنٹس بنائے جا رہے ہیں۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں بلیو سکائی کے اچانک مقبول ہونے کی وجہ کے بارے میں بات کی جائے تو رواں سال اگست میں جب ایکس کے استعمال پر برازیل میں پابندی عائد کی گئی، تب بھی جیک ڈارسی کے پلیٹ فارم پر 26 لاکھ صارفین کا اضافہ ہوا جن میں سے 85 فیصد کا تعلق برازیل سے تھا۔ اس سے قبل اکتوبر میں ایکس نے عندیہ دیا تھا کہ بلاکڈ اکاؤنٹس صارف کی پبلک پوسٹس دیکھ سکیں گے، اس وقت بھی ایک دن کے اندر 5 لاکھ نئے صارفین نے بلیو اسکائی کو جوائن کیا۔
امریکی صدارتی انتخابات کے بعد بھی بلیو اسکائی کے صارفین میں اضافہ ہوا اور یہ پہلی دفعہ نہیں کہ ایکس سے مایوس صارفین کی وجہ سے بلیو اسکائی کو فائدہ پہنچا ہو۔ دراصل ڈونلڈ ٹرمپ اور اور ایکس کے سی ای او ایلون مسک کے درمیان گہرے تعلقات نے مخالفین سمیت ہالی ووڈ کی کچھ معروف شخصیات کو ایکس چھوڑنے پر مجبور کیا، جس کا فائدہ بلیو اسکائی کو ہوا۔
اب تک متعدد برطانوی، امریکی اور یورپی ممالک کے مختلف میڈیا ہاؤسز ایکس یعنی ٹوئٹر کو چھوڑنے کا اعلان کر چکے ہیں جب کہ امریکا کے متعدد سیاست دان، سماجی رہنما اور صحافیوں نے بھی ایکس کے اکاؤنٹس کو غیر فعال کرنے کا اعلان کیا ہے۔ میڈیا کے اداروں اور شخصیات کی جانب سے مذکورہ اعلانات ایسے وقت میں سامنے آئے جب کہ امریکا میں ایکس کے مالک ایلون مسک کو نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اہم حکومتی عہدہ دینے کا اعلان کیا۔
ایلون مسک نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی ساتھی مانے جاتے ہیں اور ان پر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایجنڈا کو آگے بڑھانے پر بھی تنقید کا سامنا رہتا ہے، اسی وجہ سے بھی لوگوں اور اداروں نے ان کے پلیٹ فارم ایکس کو چھوڑنے کا اعلان کیا، جس کے بعد ’بلیو اسکائی‘ کی مقبولیت میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے منتخب ہونے کے بعد بلیو اسکائی کے نئے صارفین، بشمول صحافی، بائیں بازو کے سیاستدان اور مشہور شخصیات پلیٹ فارم پر میمز پوسٹ کر رہے ہیں اور اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں کہ اشتہارات اور ’نفرت انگیز تقاریر سے پاک‘ ڈیجیٹل اسپیس چاہتے ہیں۔ کچھ صارفین نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دس سال بعد ٹوئٹر کے ابتدائی دنوں کی یاد تازہ ہو گئی ہے۔
اسی طرح کی صورتحال پاکستان میں بھی دیکھنے کو ملی، جب صارفین بلیو سکائی پر منتقل ہوتے نظر آئے۔ صارفین کے لیے جلد پاکستان میں غیر رجسٹرڈ وی پی این بھی بند ہوجائیں گے، جس کے بعد ’ایکس‘ (ٹوئٹر) استعمال کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے پاکستانی صارفین نے بڑی تعداد میں بلیو اسکائی کا رخ کیا، مگر اب تک کی اطلاعات کے مطابق بلیو سکائی پاکستان میں بغیر وی پی این کے نہیں چل رہا۔
تاحال اس حوالے سے پاکستان حکومت یا پی ٹی اے کی جانب سے کوئی وضاحت بھی سامنے نہیں آئی کہ بلیو اسکائی کو واقعی باضابطہ طور پر بند کر دیا گیا ہے یا نہیں۔
یاد رہے کچھ روز قبل پاکستان میں وی پی اینز بھی چلنا بند ہو گئے تھے جس کے بعد پی ٹی اے نے وضاحت کی تھی یہ ٹیکنیکل مسائل کی وجہ سے ہوا۔ دوسری جانب پی ٹی اے نے 30 نومبر تک کاروباری افراد اور فری لانسرز کو مہلت دے رکھی ہے کہ وہ اپنے وی پی اینز رجسٹر کروا سکتے ہیں۔
بہرحال سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بند کرنے سے نہ خیالات بند ہوتے ہیں اور نہ ہی عوام کی آواز دبائی جا سکتی ہے۔ بلیو اسکائی تو محض ایک اور آسمان تھا، جسے بند کر دیا گیا، لیکن عوام کی سوچ کو پرواز سے روکنا شاید ان پابندیوں سے ممکن نہ ہو۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بلیو اسکائی کے بعد کس ’آزاد‘ آسمان کو پابندی کے زور سے عوام کے سروں پر گرانے کی کوشش کی جائے گی۔