مائگرین کے بارے میں نئی تحقیق کیا بتاتی ہے؟

ویب ڈیسک

اگرچہ ماہرین صحت پہلے بھی بتا چکے ہیں کہ نیند کی کمی جہاں دیگر کئی جان لیوا امراض کا سبب بن سکتی ہے، وہیں سر درد اور مائگرین کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

تاہم اب ہونے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ نیند کی کمی کا مائگرین سے گہرا تعلق ہے اور مکمل نیند نہ کرنے والے افراد تین یا اس سے زائد دن تک مائگرین میں مبتلا رہ سکتے ہیں۔

ایک اور تحقیق کے مطابق جن افراد کو سال میں کم از کم ایک بار مائگرین کا اٹیک ہوتا ہے، ان میں آنتوں اور معدے سمیت نظام ہاضمہ کی دیگر بیماریوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

مائگرین اور نیند کے تعلق کے حوالے سے طبی جریدے نیورولاجی میں شائع پہلی تحقیق کے مطابق امریکی ماہرین نے پانچ ہزار کے قریب افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لیا۔

ماہرین نے تمام افراد کی نیند کے دورانیے، سونے کی عادت سمیت ان کی عمر اور انہیں ہونے والے مائگرین کی نوعیت کا جائزہ لیا اور تمام رضاکاروں کی الیکٹرانک ڈیوائسز سے مانیٹرنگ بھی کی۔

رضاکاروں میں شامل سب سے کم عمر افراد سات سال کی عمر کے تھے، جب کہ سے زیادہ چوراسی برس کی عمر کے تھے اور نصف تعداد خواتین کی تھیں۔

ماہرین نے نوٹ کیا کہ جو افراد رات ختم ہونے سے دو گھنٹے قبل نیند سے جاگ جاتے ہیں، ان میں مائگرین کے مبتلا ہونے کے امکانات 22 فیصد تک بڑھ جاتے ہیں۔

تحقیق سے معلوم ہوا کہ مکمل اور پر سکون نیند نہ کرنے سے نہ صرف مائگرین ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں بلکہ ایسے افراد میں شدید مائگرین ہو سکتا ہے، جو تین دن سے زائد دن تک چل سکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق ایسے افراد میں مائگرین کے علاوہ شدید تھکاوٹ، چڑچڑاپن، کھانے پینے کا احساس ختم ہونے سمیت دیگر پیچیدگیاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔

دوسری طویل مگر منفرد تحقیق سےمعلوم ہوا ہے کہ جن افراد کو سال میں کم از کم ایک بار مائگرین کا اٹیک ہوتا ہے، ان میں آنتوں اور معدے سمیت نظام ہاضمہ کی دیگر بیماریوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

واضح رہے کہ ماضی میں کی جانے والی متعدد تحقیقات میں یہ بتایا جا چکا ہے کہ مائگرین سے فالج، بیلز پالسی، مرگی، سلیپ پیرالائز، امراض قلب اور ڈپریشن جیسی بیماریاں بھی ہو سکتی ہیں۔

اب نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ مائگرین کے درد میں مبتلا افراد میں آنتوں، معدے، جگر اور پیٹ کی دیگر بیماریاں بڑھ سکتی ہیں۔

طبی جریدے نیچر میں شائع تحقیق کے مطابق جنوبی کوریائی ماہرین نے ایک کروڑ افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لیا، جن میں سے انہوں نے مائگرین کے شکار افراد کے ڈیٹا کو ان میں ہونے والی دیگر بیماریوں سے جوڑ کر، اس کا جائزہ لیا۔

ماہرین نے پایا کہ جن افراد کو مائگرین تھا، ان میں سے 3 فی صد افراد ایسے تھے، جنہیں آنتوں اور معدے کی بیماریوں سمیت نظام ہاضمہ کی دیگر طبی پیچیدگیاں تھیں۔

ماہرین نے دیکھا کہ جن افراد کو مائگرین کی شکایت نہیں تھی، ان میں نظام ہاضمہ کی کوئی پیچیدگی نہیں تھیں، ان میں السر، آنتوں، معدے اور جگر کی کوئی خرابی نوٹ نہیں کی گئی۔

مائگرین، جس کو عام الفاظ میں آدھے سر کا درد بھی کہا جاتا ہے (ضروری نہیں کہ یہ درد فقط آدھے سر میں ہی ہو) عام طور پر وقفے وقفے سے ہونے والے سر درد کو بھی مائگرین کہتے ہیں۔ مائگرین میں سر کے درد کے ساتھ ساتھ دوسری علامات مثلاً متلی، قے اور وقتی طور پر بینائی کا متاثر ہونا یا تیز دھوپ، تیز روشنی، تیز آواز، کسی خاص خوشبو یا بدبو وغیرہ سے الجھن شامل ہے، جو کہ آپ کی معمول کی زندگی کو متاثر اور دوبھر کر سکتی ہیں۔

دردِ شقیقہ عام طور پر خاندانی (جینیاتی) ہوتا ہے۔ یعنی ایک ہی خاندان کے مختلف افراد اس مرض میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ اس بنا پر یہ موروثی بیماری بھی ہے۔ اگر والدین میں سے کسی ایک کو بھی مائگرین ہے، تو بچے میں بھی مائگرین ہونے کا امکان 50 فی صد ہوتا ہے اور والدین میں دونوں کو مائگرین ہو تو بچے کے مائیگرین کا شکار ہونے کا امکان کم و بیش 75 فی صد ہوتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close