کیا ہاتھ سے لکھنا واقعی یاد داشت بڑھاتا ہے۔۔ سائنسی تحقیق کیا کہتی ہے؟

ویب ڈیسک

الفاظ میں ایک ناقابلِ یقین طاقت ہوتی ہے۔ وہ ہمیں ہنسنے، رونے، سوچنے، محسوس کرنے اور کوئی عمل کرنے کا محرک بن سکتے ہیں۔ وہ ہمیں ایک دوسرے سے جوڑ یا توڑ سکتے ہیں اور ہمیں دنیا کو سمجھنے میں مدد کر سکتے ہیں۔

کاغذ پر لکھے لفظوں کی اپنی ایک خاص اہمیت ہے۔ وہ وقت کی کسوٹی پر پرکھنے کے قابل ہوتے ہیں اور آنے والی نسلوں تک ہماری بات پہنچانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ وہ ہمیں اپنے ماضی سے جوڑتے ہیں، اور ہمیں مستقبل کے لیے سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔

آج کے جدید دور میں، کمپیوٹر اور فون ہماری زندگیوں کا لازمی حصہ بن چکے ہیں۔ ہم ان آلات کا استعمال تقریباً ہر کام کے لیے کرتے ہیں، بشمول لکھنا۔

الیکٹرانک اور ڈیجیٹل آلات کی ترقی، ارزانی اور باآسانی دستیابی نے بہت کچھ بدل ڈالا ہے۔ ان سے زندگی میں سہولیتں، آسائشیں اور آسانیاں آئیں ہیں، لیکن ماہرین کا کہنا ہے ان سے کچھ ایسے مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں جو ہماری دماغی صلاحیتوں پر منفی اثر ڈال رہے ہیں۔ جس کی ایک مثال ہاتھ سے لکھنے کی بجائے ٹائپنگ کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔

اب دنیا بھر میں زیادہ تر لوگوں کے ہاتھوں میں سمارٹ فون آ چکا ہے۔ ان میں سے اکثر لوگ فون کی چھوٹی سی اسکرین پر دو انگوٹھوں یا انگلی کی مدد سے تیزی سے ٹائپ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جنہیں کچھ زیادہ لکھنا ہوتا ہے، وہ ٹیبلٹ یا لیپ ٹاپ یا پھر کمپیوٹر کے ’کی بورڈ‘ پر اپنی دو انگلیوں سے، یا ٹائپنگ میں مہارت رکھنے والے دونوں ہاتھوں کی آٹھ انگلیوں سے ٹائپ کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں اب یہ منظر کم کم ہی دیکھنے میں آتا ہے کہ کوئی قلم سے کاغذ پر لکھ رہا ہو۔

اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں اور ترقی پذیر ملکوں کے ماڈرن اسکولوں کی ابتدائی کلاسوں میں ہی بچوں کو کمپیوٹر پر ڈال دیا جاتا ہے۔ اسکولوں کے اگلے درجوں میں اب قلم، کاغذ، کاپیاں اور کتابیں دکھائی نہیں دیتیں، اس کی بجائے بچے ٹیبلٹ یا لیپ ٹاپ پر کام کروایا جاتا ہے۔ بچوں کے کندھوں سے بھاری بستوں کا بوجھ تو اتر گیا ہے لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ اس سے بچوں کی ان صلاحیتوں میں بھی کمی آئی ہے، جس کا تعلق یاد داشت اور سیکھنے سے ہے۔

حالیہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ ہاتھ سے لکھنا دماغ کے لیے ٹائپنگ سے زیادہ فائدہ مند ہے۔

ہاتھ سے لکھنے اور ٹائپنگ کا عمل دماغ پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے، یہ جاننے کے لیے ناورے کے شہر ٹران ہیم میں قائم نارویجین یونیورسٹی آف سائنس اینڈٹیکنالوجی (این ٹی این یو) میں ماہرین نے تین درجن طالب علموں کو اپنے اس تجربے میں شامل کیا اور انہیں ہاتھ سے لکھنے اور ٹائپ کرنے کے لیے کہا۔ اس دوران ان کے دماغوں کے الیکٹرانک اسکین لیے گئے۔ انہیں معلوم ہوا کہ ہاتھ سے لکھنے کے دوران دماغ میں برقی لہریں زیادہ متحرک اور روشن تھیں، جب کہ ٹائپنگ کرتے وقت ان میں محدود فعالیت دیکھی گئی۔

نتائج سے پتا چلا کہ ہاتھ سے لکھنے سے دماغ کے زیادہ حصے متحرک ہوتے ہیں، بشمول وہ حصے جو سیکھنے اور یادداشت سے متعلق ہیں۔

تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ ٹائپنگ کی بجائے ہاتھ سے لکھتے وقت دماغ کے زیادہ حصے کام کرتے ہیں، خاص طور پر جن کا تعلق یاد داشت سے ہوتا ہے۔

شعبہ نفسیات کی پروفیسر اور اس مطالعے کی شریک مصنف آڈری وین ڈرمیر کہتی ہیں ”اس تجربے میں ہم نے ٹائپنگ کے دوران دماغ میں پیدا ہونے والی برقی لہروں میں وہ منظم ارتعاش نہیں دیکھا، جس کا مشاہدہ ہمیں ہاتھ سے لکھنے کے تجربے میں ہوا تھا۔“

وہ کہتی ہیں کہ ہاتھ سے لکھنے کا عمل دماغ کے اعصاب کی فعالیت سے بھرپور ہوتا ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ ٹائپنگ ایک مشنی عمل ہے جب کہ ہاتھ سے لکھنا ایک تخلیقی کام جیسا ہے، کیونکہ لکھتے وقت الفاظ کی ساخت، اور ہجوں پر بھی توجہ دینی پڑتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کئی امریکی ریاستوں نے قانون سازی کے ذریعے پرائمری اسکول کے بچوں کے لیے ہاتھ سے لکھنا لازمی کر دیا ہے۔

واضح رہے کہ پچھلی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ ہینڈ رائٹنگ ہجے کو بہتر بناتی ہے اور جو کچھ آپ نے سیکھا ہے اسے یاد رکھنے کی صلاحیت بھی بہتر ہوتی ہے۔ ہینڈ رائٹنگ تصورات کی سمجھ کو بھی مضبوط کرتی ہے ۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ حروف اور الفاظ کا پتہ لگانے کا سست عمل لوگوں کو مواد پر کارروائی کرنے اور اسے سیکھنے کے لیے زیادہ وقت دیتا ہے۔

کراچی میں قائم ڈاؤ یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز کے سائیکالوجی کے پروفیسر بریگیڈیر (ر) ڈاکٹر شعیب احمد (ستارہ امتیاز) کہتے ہیں ”ہمارے دماغ کے دو حصے ہیں جو مختلف امور سرانجام دیتے ہیں۔ بایاں حصہ جسم کے ان افعال کو کنٹرول کرتاہے جن کا تعلق زیادہ تر حرکات و سکنات سے ہے۔ جب کہ دائیں حصے کا تعلق تحلیقی صلاحیتوں سے ہے۔“

وہ بتاتے ہیں ”جب ہم ٹائپ کرتے ہیں تو وہ ایک طرح سے مشینی عمل ہوتا ہے۔ دماغ حرفوں اور لفظوں کی ساخت وغیرہ پر دھیان نہیں دیتا، کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ بٹن کو چھونے سے وہ ظاہر ہو جائیں گے، ان کی ساخت ڈھالنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن جب ہم قلم سے لکھتے ہیں تو ہمارے دماغ کا دایاں حصہ بھی کام کرتا ہے اور ہاتھ سے لکھنے کا عمل دماغ کے دونوں حصے مل کر کرتے ہیں۔“

انہوں نے کہا ”کیوں کہ دماغ کا بایاں حصہ جسم کے دائیں حصے کے افعال کو کنٹرول کرتا ہے، جب کہ جسم کا دائیاں حصہ، دماغ کے بائیں حصے کے تابع ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر لوگ اپنے کام دائیں ہاتھ سے کرتے ہیں۔“

ڈاکٹر شعیب کہتے ہیں کہ جب ہم ہاتھ سے کاغذ پر لکھتے ہیں تو وہ تحریر صرف کاغذ پر ہی نہیں بلکہ ہماری یاد داشت میں بھی نقش ہو رہی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو طالبِ علم ہاتھ سے نوٹس تیار کرتے ہیں، وہ انہیں ان طالب علموں کی نسبت بہتر طور پر یاد رہ جاتے ہیں، جو انہیں ٹائپ کرتے ہیں۔

اس حوالے سے ایم فل کرنے والی ایک طالبہ مریم ادریس اپنا تجربہ یوں بیان کرتی ہیں ”جو چیز میں ہاتھ سے لکھتی ہوں، وہ مجھے زیادہ یاد رہتی ہیں۔ امتحان کی تیاری کے لیے میں چیزوں کو ہاتھ سے لکھ کر یاد کرتی ہوں۔ میں ٹائپنگ زیادہ تر اسائنمٹس کے لیے کرتی ہوں کیونکہ اس سے وقت کی بچت ہوتی ہے۔“

امریکی ریاست ورجینیا کی ریڈفورڈ یونیورسٹی کی ایک ماہر نفسیات کیتھلین آرنلڈ کہتی ہیں کہ ٹائپنگ کے مقابلے میں ہاتھ سے لکھنے کے دوران دماغ میں برقی لہروں کے ارتعاش میں اضافہ تو ہوتا ہے، لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ اس کا یاد داشت سے بھی کوئی تعلق ہے یا نہیں۔ اس پر مزیدتحقیق کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر شعیب احمد اسے ایک اور طرح سے دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب آپ ہاتھ سے لکھتے ہیں تو اس عمل میں دماغ کا وہ حصہ بھی شریک ہوتا ہے، جس کا تعلق تخلیقی صلاحیتوں سے ہے۔ وہ حصہ لفظوں کی ساخت پر بھی دھیان دے رہا ہوتا ہے۔ جب آپ کسی چیز پر توجہ دیتے ہیں تو وہ ہماری یاد داشت میں منتقل ہو جاتی ہے۔

اسی چیز کو وین ڈرمیر اس طرح بیان کرتی ہیں کہ جب آپ کلاس روم میں لیکچر کے دوران لیپ ٹاپ پر نوٹس لے رہے ہوتے ہیں تو صرف آپ کے کان اور آپ کا ہاتھ کام کر رہا ہوتا ہے، لیکن جب آپ اپنے ہاتھ سے کاغذ پر لکھتے ہیں تو اس عمل میں آپ کا دماغ بھی شامل ہو جاتا ہے اور وہ اس انفارمیشن کو پراسس کرنا شروع کر دیتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کو ہاتھ سے لکھنے کی طرف راغب کرنا بہت ضروری ہے۔ ریاست ٹینیسی کی وینڈربلٹ یونیورسٹی کی ایک ماہر نفسیات ونسی بروہر کہتی ہیں ”بچوں کا ابتدائی عمر میں ہاتھ سے لکھنا بہت ضروری ہے۔ اس سے ان میں لفظوں اور ہندسوں کی پہچان مضبوط ہوتی ہے۔ جب بچہ لفظوں کو بار بار مختلف انداز میں لکھتا ہےتو اس کا فہم بڑھتا ہے۔“

امریکہ کی کئی ریاستیں اس کا ادراک کر رہی ہیں اور اس سال سے ریاست کیلی فورنیا نے یہ لازمی قرار دے دیا ہے کہ ایلیمنٹری اسکولوں میں بچوں کو ہاتھ سے لکھنا اور حرفوں کو جوڑنا سکھایا جائے۔ اسی بارے میں انڈیانا، کنٹکی، ساؤتھ کیرولائنا اور وسکانسن کی ریاستوں میں بھی قانون سازی کی جا رہی ہے۔

اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے شعبہ اطلاقی نفسیات کے سربراہ ڈاکٹر محمد سیلم کی سوچ اس سے مختلف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان نے ہاتھ سے لکھنے کا فن تین ہزار سال قبل از مسیح سے پہلے سیکھ لیا تھا، جب کہ ٹائپ رائٹر اٹھارہویں صدی کے وسط میں سامنے آیا، الیکٹرانک کی بورڈ کا ظہور انیسویں صدی کے وسط میں ہوا اور لکھنے کے ڈجیٹل آلات چند عشرے قبل ایجاد ہوئے۔ ان سب کی اپنی اپنی افادیت ہے اور یہ سب مختلف انداز میں ہماری یاد داشت پر اثر ڈالتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں ”ہاتھ سے لکھنا ایک سست عمل ہے جب کہ ’کی بورڈ‘ ایک تیز رفتار آلہ ہے، جس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ان سے یہ اضافی مدد بھی حاصل ہوتی ہے کہ الفاظ کے ہجوں اور گرائمر کی درستگی بھی خود بخود ہوتی چلی جاتی ہے۔

قلم سے ہزاروں سال کا نسل در نسل تعلق ہماری یاد داشت میں حیاتیاتی طور پر ثبت ہو چکا ہے اور اسی لیے جب ہم قلم سے لکھتے ہیں تو ہماری یاد داشت اسے فوراً قبول کر لیتی ہے اور ہمیں وہ چیز دیر تک یاد رہتی ہے۔ جب کہ ٹائپنگ ہماری یاد داشت کے لیے ابھی اجنبی ہے اور اسے یاد رکھنے کے لیے ہمیں توجہ دینی پڑتی ہے۔

ڈاکٹر سیلم کہتے ہیں ”ہمیں ایک ہائبرڈ نظام اپنا کر ان دونوں طریقوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے اور بچوں کو اسکول کے ابتدائی دور سے ہی قلم سے لکھنا اور ٹائپنگ دونوں سکھانا چاہیے۔“

ذیل میں ہم وہ دلچسپ سائنسی حقائق بیان کر رہے ہیں جو بتاتے ہیں کہ ہاتھ کی لکھائی تعلیم میں کیوں اہم ہے۔

عصبی فرق کو سمجھنا:
ناروے کی یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (NTNU) کے محققین کی طرف سے فرنٹیئرز ان سائیکالوجی میں شائع ہونے والی مذکورہ بالا تحقیق میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ دماغ میں کیا ہوتا ہے، جب مضامین ہاتھ سے لکھتے ہیں بمقابلہ ٹائپ کرتے ہیں۔

تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ وہ طلباء جو ہاتھ سے لکھتے تھے ان کے دماغ کے مختلف علاقوں میں زیادہ برقی سرگرمی ظاہر ہوئی۔ یہ حرکت، بصارت، حسی پروسیسنگ، اور یادداشت کی مصروفیت ہاتھ کی لکھائی کی علمی دولت کو ظاہر کرنے میں مدد کرتی ہے۔

لمس کا فائدہ:
ہاتھ سے لکھنے کے اہم فوائد میں سے ایک اس کی لمسی نوعیت ہے۔ جب ہم لکھتے یا ڈرائنگ کرتے ہیں، تو بصری فہم اور حرکی نفاذ کے درمیان براہ راست تعلق ہوتا ہے۔

اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ ہاتھ سے لکھنے کا عمل یادداشت کے راستوں کو مضبوط کرتا ہے اور فہم اور یادداشت کو بڑھاتا ہے۔ یہ ایک مظہر ہے جو علمی نفسیات میں اچھی طرح سے دستاویز ہے۔

سیکھنے اور یادداشت کو بہتر بناتا ہے:
جب ہم روایتی طریقے سے لکھتے ہیں تو ہمیں معلومات کو زیادہ گہرائی سے پروسیس کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، ہاتھ سے لکھنے سے دماغ کے مختلف حصوں کے درمیان رابطہ پیدا ہوتا ہے، جس سے سیکھنے اور یادداشت کو بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔

تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دیتا ہے:
ہاتھ سے لکھنے سے آپ کو اپنے خیالات کو آزادانہ طور پر بہانے میں مدد ملتی ہے، جس سے تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ ملتا ہے۔

مشاہدے اور توجہ کو بہتر بناتا ہے:
ہاتھ سے لکھنے کے لیے آپ کو اپنے ہاتھوں اور انگلیوں کو ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جس سے مشاہدے اور توجہ کو بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔

تنوع اور توجہ کو بڑھاتا ہے:
ہاتھ سے لکھنے سے آپ کو اپنے خیالات کو مختلف طریقوں سے ظاہر کرنے میں مدد ملتی ہے، جس سے تنوع اور توجہ کو بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے۔

معلومات کو زیادہ مؤثر طریقے سے پروسیس کرنے میں مدد کرتا ہے:
تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جب ہم ہاتھ سے لکھتے ہیں تو ہم معلومات کو زیادہ مؤثر طریقے سے پروسیس کرتے ہیں اور یاد رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہاتھ سے لکھنے سے دماغ کے متعدد حصے متحرک ہوتے ہیں، بشمول وہ حصے جو سیکھنے اور یادداشت سے متعلق ہیں۔

ذہنی دباؤ کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے:
ہاتھ سے لکھنے سے ذہنی دباؤ کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہاتھ سے لکھنے سے دماغ کو سکون ملتا ہے اور توجہ مرکوز کرنے میں مدد ملتی ہے۔

تعلیم میں ہاتھ کی لکھائی کی اہمیت:
متعدد مطالعات نے ٹائپنگ کے مقابلے میں ہاتھ سے لکھنے کے فوائد کو اجاگر کیا ہے۔ چھوٹی عمر میں ہاتھ سے لکھنا سیکھنا طلباء کے لیے اہم ہے کیونکہ یہ:
* حرکی مہارتوں کو فروغ دیتا ہے
* مختلف دماغی علاقوں کو متحرک کرتا ہے
* حرف کی پہچان کو آسان بناتا ہے
* خواندگی کے لیے اہم بنیادیں بناتا ہے

روایت اور ٹیکنالوجی میں توازن:
ٹیکنالوجی اور ڈجیٹل ٹولز ناقابل تردید فوائد فراہم کرتے ہیں۔ تاہم، یہ ضروری ہے کہ صرف ٹیکنالوجی کے فوائد پر انحصار نہ کریں، خاص طور پر اگر یہ ہاتھ سے لکھنے کی مہارت کو کھو دینے کی قیمت پر ہو۔

ڈجیٹل ٹیکنالوجی کا استعمال کے ساتھ ساتھ اسکول میں یا ہوم ورک کرتے وقت ہاتھ سے ضرور لکھنا چاہیے، اسے تبدیل نہیں کرنا چاہیے۔ ٹیکنالوجی اور بنیادی مہارتوں کے درمیان توازن برقرار رکھنا ضروری ہے۔ ان دونوں مہارتوں کو تبادلہ کرکے استعمال کرنا موجودہ رہنے اور اہم مہارتوں کو برقرار رکھنے کے لیے کلید ہے۔

تعلیم میں ہاتھ کی لکھائی کو محفوظ رکھنا:
تعلیمی نظام اب بھی ٹیکنالوجی کی منتقلی کو نیویگیٹ کر رہے ہیں۔ ابتدائی بچپن کی تعلیم میں دستی لکھنے کی سرگرمیوں کو نظرانداز کرنا علمی ترقی پر گہرے اثرات ڈال سکتا ہے۔

باریک حرکی مشغولیت اور حرکی مہارتوں کو فروغ دینے والی سرگرمیاں اب بھی اہم ہیں۔ طلباء کو اپنی زندگی میں ہاتھ کی لکھائی کی مہارتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

وان ڈیر میر کا کہنا ہے ”لکھاوٹ کو مستعمل ہی رہنا چاہیے: ہاتھ سے لکھی گئی تحریر نوجوان دماغوں کے لیے بہت اچھی ہے۔ ہاتھ کی لکھائی کے بغیر ایک نسل تقریباً گنی پگز ( لیبارٹری کے تجربوں میں استعمال ہونے والے چوہوں) کی طرح ہوگی، یہ دیکھنے کے لیے کہ ان کے دماغوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ، وہ انسان ہونے کے تجربے کا کچھ حصہ کھو دیں گے“

وہ مزید کہتی ہیں، ”ان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ کم از کم گروسری لسٹ یا محبت کا خط لکھ سکیں۔ میں واقعی سوچتی ہوں کہ یہ ہمارے لیے اہم ہے۔“

بہرحال ہاتھ سے لکھنا نوستالجک مشق نہیں بلکہ ایک سائنسی طور پر ثابت شدہ طریقہ ہے۔ ہاتھ سے لکھنے کو یادداشت اور سیکھنے کو بہتر بنانا ثابت ہوا ہے۔ ہاتھ کی لکھائی کے منفرد علمی فوائد کو تسلیم کرنا طلباء کو بڑھتی ہوئی ڈجیٹل دنیا میں پھلنے پھولنے کی طاقت دیتا ہے جبکہ لکھائی کے لازوال فن کو عزت بخشتا ہے۔

ہاتھ کی لکھائی کے فوائد کو اپنانا طلباء کی مکمل صلاحیتوں کو پروان چڑھا سکتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ لکھائی کی لازوال روایت آئندہ نسلوں کے لیے تعلیمی تجربات کو مالا مال کرتی رہے۔

حتمی بات یہ ہے کہ اگرچہ کمپیوٹر اور فون لکھنے کے لیے تیز اور آسان طریقے ہیں، لیکن ہاتھ سے لکھنے کے بہت سے فوائد ہیں۔ ہاتھ سے لکھنا دماغ کے لیے ایک بہترین ورزش ہے اور یہ سیکھنے، یادداشت، تخلیقی صلاحیتوں اور مشاہدے کو بہتر بنانے میں مدد کر سکتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close