ہیک اسپرٹ کے بانی اور ذہن سازی کے پریکٹیشنر لیکلان براؤن اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ بہت زیادہ فکر مند ہونے اور بالکل بھی فکر نہ کرنے کے درمیان ایک باریک سی لکیر ہوتی ہے۔ میں نے دریافت کیا ہے کہ درست توازن برقرار رکھنا خوشگوار زندگی گزارنے کا راز ہے۔
یاد رکھیں بے فکری کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ دوسروں سے لاتعلق ہو جائیں یا ان کی جانب بے توجہی برتیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے وقت اور توانائی کو صرف ان چیزوں پر صرف کریں، جو واقعی اہمیت رکھتی ہیں۔
اس تناظر میں، بے فکری کے فن کو سیکھنا دراصل غیر ضروری فکروں کے بوجھ سے خود کو آزاد کرنے اور ان چیزوں پر توجہ مرکوز کرنے کے بارے میں ہے، جو واقعی اہم ہیں۔
اس سے پہلے کہ ہم ان آٹھ سادہ حکمت عملیوں کے بارے میں بتائیں، آئیے وہ کہانی پڑھتے ہیں، جسے پڑھ کر آپ کو یہ نکات سمجھنے میں آسانی ہوگی:
کہتے ہیں کہ کسی گاؤں سے باپ بیٹا سفر کے لئے ایک گدھے پر سوار روانہ ہوئے تو رستے میں اُنہیں دیکھ کر لوگوں نے لعن طعن شروع کر دیا، ”ان ظالموں کو دیکھو! ہٹے کٹے ہو کر ایک بے زبان اور کمزور گدھے پر اپنا بوجھ ڈالتے انہیں ذرا شرم نہیں آتی۔۔“ یہ سن کر بیٹا شرمندہ ہو کر فوراً گدھے سے اُتر گیا اور گدھے پر سوار باپ کے ساتھ پیدل چلنے لگا
کچھ ہی دور جا کر انہیں کچھ اور لوگ ملے جو حقارت سے کہہ رہے تھے ”اس خودغرض بڈھے کو دیکھو، خود تو خوب مزے سے سواری کرتا جاتا ہے، یہ پروا نہیں کہ بیچارہ بیٹا کب سے پیدل چل رہا ہے، ذرا بھی انسانیت ہوتی تو بیٹے کو بھی ساتھ ہی بٹھا لیتا“ شرمندہ باپ فوراً چھلانگ لگا کر گدھے سے اُترا اور تھکے ہارے بیٹے کو گدھے پر سوار کروا دیا۔
لیکن ابھی تھوڑا ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ چند لوگ گالیاں دیتے ہوئے یہ کہتے سنائی دیے، ”دیکھو! بوڑھے باپ کو پیدل چلاتی گستاخ اولاد!“ اب بیٹا بھی اُتر کر سر جھکائے باپ کے ساتھ چلنے لگا!
دونوں کو یقین تھا کہ اب اُنہیں سکون سے اپنا سفر مکمل کرنے کا موقع ملے گا، لیکن اب اُن کے کانوں تک قثہقے پہنچنے لگے! ”دیکھو بے وقوفوں کا خاندان!! سواری ساتھ ہے اور خود بھی گدھے کی طرح پیدل چلے جا رہے ہیں!۔“
باپ بیٹا رُک گئے! دوسروں کی تسلی کے سارے حربے آزمائے جا چکے، ہر کوشش کر کے دیکھ لی لیکن طعنے ہیں کہ رُکنے میں نہیں آتے۔۔ لیکن نہیں! ایک رستہ شاید باقی رہ گیا تھا۔ دونوں باپ بیٹے نے گدھا اپنے سر پر اُٹھا لیا اور پھر اک بڑا ہجوم جمع ہوکر تالیاں بجاتا اُن کے آگے پیچھے رقص کرتا جمع ہونے لگا کہ پہلی بار ایک گدھا انسانوں پر سواری کرتا نظر آیا تھا۔۔
کہانی پڑھ لی ہے تو اسے ذہن میں رکھ کر آئیے اب ہم ان آٹھ سادہ حکمت عملیوں کے بارے میں جانیں، جو بے فکری کے فن میں مہارت حاصل کرنے اور زیادہ خوشحال اور بھرپور زندگی گزارنے میں مدد دیتی ہیں
یہ بے دل ہونے کے بارے میں نہیں ہے؛ بلکہ ذہنی طور پر باشعور ہونے کے بارے میں ہے۔
1) قبولیت کلید ہے!
بے فکری کے لیے ایک بنیادی شرط اور گہری حقیقت ہے: قبولیت۔
ہماری بہت سی پریشانیاں اور اضطراب ہماری ہر چیز کو کنٹرول کرنے کی بے سود کوششوں سے پیدا ہوتے ہے۔ ہم دوسروں کے خیالات کی فکر کرتے ہیں، ہم اپنی ماضی کی غلطیوں پر پچھتاتے ہیں، اور ہم مستقبل کے ممکنہ مسائل کے بارے میں پریشان رہتے ہیں۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر چیزیں ہمارے کنٹرول سے باہر ہیں، اس لیے مسلسل ان کے بارے میں سوچ کر اپنے ذہن پر دباؤ ڈالنا صرف ہماری توانائی کو ختم کرتا ہے اور ہماری خوشی اور سکون کا ستیاناس کرتا ہے۔
تو، حل کیا ہے؟ قبولیت۔
یہ تسلیم کریں کہ آپ سب کچھ کنٹرول نہیں کر سکتے۔ سمجھیں کہ لوگ آپ کے کرنے کے باوجود جو چاہیں سوچیں گے۔ باپ بیٹے کی گدھے کے ساتھ سفر کی کہانی تو آپ نے پڑھی یا سنی ہی ہوگی۔۔
تسلیم کریں کہ غلطیاں زندگی کا حصہ ہیں، اور مستقبل کی فکر کرنے سے کچھ نہیں بدلے گا۔
جب آپ ان حقائق کو قبول کرنا شروع کر دیتے ہیں، تو آپ غیر ضروری فکروں کا بوجھ اپنے ذہن سے اتارنا شروع کر دیتے ہیں۔ آپ اپنے دماغ کو دباؤ اور اضطراب کی زنجیروں سے آزاد کرنا شروع کر دیتے ہیں، اور اس سے آپ زیادہ بہتر طور پر حالات سے نمٹنے کی صلاحیت بھی حاصل کر لیتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کو بے حس یا لاتعلق ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ آپ کو اپنی توانائی پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جو آپ کنٹرول کر سکتے ہیں، اور وہ ہیں: آپ کے اعمال، آپ کے ردعمل، اور آپ کا رویہ۔
2) دانشمندی سے اپنی لڑائیوں کا انتخاب کریں
لیکلان براؤن لکھتے ہیں کہ ایک ذاتی دانش، جس کا مجھے برسوں میں احساس ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ ’ہر چیز آپ کی جذباتی سرمایہ کاری کے لائق نہیں ہے!‘
یہ بات مشہور ذن ماسٹر Zen Master شونریو سوزوکی کے اس خیال سے مطابقت رکھتی ہے کہ "سب سے اہم چیز یہ ہے کہ فائدے اور حصول کے تمام خیالات اور تمام دوہرے نظریات کو بھول جائیں۔ دوسرے الفاظ میں، بس ایک خاص پوزیشن میں ’زازن‘ کی مشق کریں۔“
واضح رہے کہ ’زازن‘ مراقبے کی ایک قسم ہے، جس میں آپ بس بیٹھ کر بغیر کسی فیصلے کے مشاہدہ کرتے ہیں۔ آپ کچھ تبدیل کرنے یا کچھ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ آپ بس بیٹھتے ہیں اور چیزوں کو رہنے دیتے ہیں۔
زندگی میں، اس کا مطلب ہے کہ دانشمندی سے اپنی لڑائیوں کا انتخاب کریں۔ اگرچہ ہر غلطی کو درست کرنے یا ہر ناانصافی کے خلاف لڑنے کی خواہش فطری ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ ہمیشہ فائدہ مند یا ممکن نہیں ہے۔
کبھی کبھی، بہتر ہے کہ چیزوں کو جانے دینا چاہیے، لوگوں کو ان کی اپنی غلطیوں سے سیکھنے دیں، بجائے اس کے کہ ان کے لیے سب کچھ ٹھیک کرنے کی کوشش کریں۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ’ہر اختلاف کو لڑائی کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘
اس اصول کا مقصد دانشمندی سے اپنی لڑائیوں کے انتخاب کرنا اور ان چیزوں کے لیے اپنی جذباتی توانائی کو محفوظ رکھنا ہے، جو واقعی آپ کے لیے اہم ہیں۔ یہ اس بارے میں ہے کہ کیا اہم ہے، اس کی فکر کرنے کے قابل کیا ہے اور باقی کو جانے دیں۔
یہ کرنا آسان نہیں ہے، لیکن مشق کے ساتھ، یہ آسان ہو جاتا ہے۔ اور یہ امن اور سکون کا بڑا احساس لاتا ہے۔
3) ناپائیداری میں امن تلاش کریں
ایک بنیادی اصول ’ناپائیداری کا تصور‘ ہے: زندگی میں ہر چیز عارضی اور مستقل طور پر بدلتی رہتی ہے – ہمارے خیالات، ہمارے احساسات، یہاں تک کہ ہمارا اپنا آپ یا ذاتی نفس۔
یہ ایک کڑوی حقیقت ہو سکتی ہے۔ ہم اکثر اپنی خوشیوں سے چمٹے رہتے ہیں، امید کرتے ہیں کہ وہ ہمیشہ کے لیے رہیں گی، اور اپنی تکلیفوں کی مزاحمت کرتے ہیں، یہ خواہش کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر غائب ہو جائیں، لیکن ایسا ممکن نہیں ہے۔ زندگی تجربات کے مستقل مد و جزر کا نام ہے۔
جب ہم اس سچائی کو جھٹلاتے ہیں، تو ہم تکلیف میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ہم بعض نتائج، کچھ لوگوں، اور کچھ احساسات سے جڑ جاتے ہیں۔ اور جب چیزیں لازمی طور پر بدل جاتی ہیں، جیسا کہ ہمیشہ ہوتا ہے، تو ہمیں تکلیف اور مایوسی محسوس ہوتی ہے۔
لیکن جب ہم زندگی کی ناپائیداری کو گلے لگاتے ہیں، تو کچھ جادوئی ہوتا ہے۔ ہم چیزوں چھوڑنا سیکھ لیتے ہیں۔ ہم چیزوں کو پکڑنے کے بارے میں زیادہ فکر کرنا بند کر دیتے ہیں، جن کا بدلنا مقدر ہے!
ہم موجودہ لمحے میں سکون تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ یہی سب کچھ ہمارے پاس ہے۔ ہم تبدیلی سے خوفزدہ ہونا چھوڑ دیتے ہیں اور اسے زندگی کے قدرتی حصے کے طور پر اپنانا شروع کر دیتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم سرد مہر یا لاتعلق ہو جاتے ہیں۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ہم زندگی کے قدرتی بہاؤ کی مزاحمت کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور اس کے ساتھ چلنا شروع کر دیتے ہیں۔
4) روزانہ ذہن سازی کی مشق کریں
یہ سننے میں بہت آسان لگ سکتا ہے، لیکن حیرت کی بات ہے کہ ہم میں سے کئی لوگ اس سادہ لیکن طاقتور مشق کو نظر انداز کرتے ہیں۔
ذہن سازی وہ فن ہے، جس میں ہم جس لمحے میں ہیں، پوری طرح موجود اور مشغول ہیں۔ یہ خلفشار، پریشانیوں اور پچھتاوے کو چھوڑنے اور ’یہاں اور ابھی‘ پر توجہ مرکوز کرنے کے بارے میں ہے۔
لیکن یاد رہے کہ اگرچہ یہ سننے میں آسان لگتا ہے، لیکن ذہن سازی کی مشق کرنا اس قدر بھی آسان نہیں ہے۔ اس کے لیے صبر، نظم و ضبط اور کرنے اور حاصل کرنے کی ہماری مستقل ضرورت کو چھوڑنے کی خواہش کی ضرورت ہے۔
جب ہم ذہنی طور پر باشعور ہوتے ہیں، تو ہم ماضی کی غلطیوں یا مستقبل کی غیر یقینی صورتحال کی فکر کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم موجودہ لمحے میں جینا شروع کر دیتے ہیں،جو کچھ بھی ہے – اسے ایک قیمتی تحفہ کے طور پر سراہتے ہیں۔
ذہن سازی ہمیں یہ احساس دلانے میں مدد کرتی ہے کہ ہماری زیادہ تر فکریں اور پریشانیاں محض ہمارے ذہن کی تخلیقات ہیں، جن کی حقیقت میں کوئی بنیاد نہیں ہے۔
اور جیسے جیسے ہم ان بے بنیاد خدشات کو چھوڑنا سیکھتے ہیں، ہم ہلکا، خوش اور اپنے آپ اور اپنے ارد گرد کی دنیا کے ساتھ زیادہ سکون محسوس کرنے لگتے ہیں۔
5) اپنے حقیقی نفس کو گلے لگائیں
لیکلان براؤن لکھتے ہیں ”ذہن سازی کا طالب علم ہونے کے ناطے، اور ایک ایسے شخص کے طور پر، جو ذاتی طور پر بے فکری کے فن سے نبرد آزما ہوا ہے، میں آپ کو یہ بتا سکتا ہوں: جو سب سے آزاد کرنے والی چیزیں آپ کر سکتے ہیں وہ ہے اپنے حقیقی نفس کو گلے لگانا۔“
آج کی دنیا میں، دوسروں کی توقعات پر پورا اترنے کی کوششوں میں پھنسنا بہت آسان ہے۔ ہم خود کو بعض سانچوں میں فٹ کرنے یا بعض معیاروں پر پورا اترنے کی کوشش میں بہت زیادہ وقت اور توانائی خرچ کرتے ہیں، اور ایسا اکثر ہم اپنی خوشی کی قیمت ادا کر کے کرتے ہیں۔
لیکن یہاں ایک حقیقت ہے: آپ جیسے ہیں، ویسے ہی ٹھیک اور کافی ہیں۔
آسان الفاظ میں بات کی جائے تو مسلسل اپنے آپ کو ثابت کرنے کی کوشش چھوڑ دیں۔۔ دوسروں سے منظوری کی تلاش کو چھوڑ دیں!
جب ہم اپنے حقیقی نفس کو گلے لگاتے ہیں، تو ہم اس بات کی پرواہ کرنا چھوڑ دیتے ہیں کہ دوسرے ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ ہم مستند طریقے سے جینا شروع کرتے ہیں اور بجائے معاشرتی دباؤ کے، ہم اپنی اقدار اور خیالات سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم خود غرض یا دوسروں کے لیے لاپرواہ ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس، اس سے ہمیں زیادہ حقیقی اور ہمدرد ہونے کی اجازت ملتی ہے کیونکہ ہم اب خوف یا عدم تحفظ کی وجہ سے کام نہیں کر رہے ہیں۔
6) ہمدردی اور مہربانی کو فروغ دینا
”اگر آپ دوسروں کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمدردی کا مظاہرہ کریں۔ اگر آپ خود خوش ہونا چاہتے ہیں تو ہمدردی کا مظاہرہ کریں۔“
ہم اکثر اپنی زندگیوں اور مشکلات میں اتنے مگن ہو جاتے ہیں کہ اپنے آس پاس کے لوگوں کو بھول جاتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی لڑائیاں لڑ رہا ہے، اپنے خوف کا سامنا کر رہا ہے، اور اپنے بوجھ اٹھا رہا ہے۔
جب ہم ہمدردی اور مہربانی کو فروغ دیتے ہیں، تو ہم اپنی ضروریات اور خواہشات سے آگے دیکھنے لگتے ہیں۔ ہم سمجھنا شروع کرتے ہیں کہ ہر کوئی اس دنیا میں اپنے راستے کی تلاش میں ہے جو اکثر الجھی ہوئے ہوتے ہیں۔
یہ سمجھ بوجھ ہمیں اپنے فیصلوں اور توقعات سے پیچھا چھڑانے میں مدد دیتی ہے۔ ہم اس بات کی پرواہ کرنا چھوڑ دیتے ہیں کہ لوگوں کو کیسا ہونا چاہیے اور انہیں ویسا قبول کرنا شروع کر دیتے ہیں، جیسے وہ ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ہم دوسروں کے لیے زیادہ ہمدرد ہو جاتے ہیں تو ہم اپنے ساتھ بھی زیادہ مہربان ہو جاتے ہیں۔ ہم اپنی غلطیوں کو معاف کرنا اور اپنی خامیوں کو قبول کرنا سیکھتے ہیں، جس کے نتیجے میں اندرونی سکون اور خوشی کا گہرا احساس پیدا ہوتا ہے۔
7) کمال کی خواہش چھوڑ دیں
کمال Perfection ایک وہم ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جو کمال کی تعریف کرتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک ناقابلِ حصول معیار ہے، جو صرف تناؤ اور عدم اطمینان کا باعث بنتا ہے۔
جیسا کہ معروف مائنڈ فلنس ماہر، جان کبات زن نے کہا، ”مائنڈ فلنس موجودہ تجربے کی شعوری، متوازن قبولیت ہے۔ یہ اس سے زیادہ پیچیدہ نہیں ہے۔ یہ موجودہ لمحے کو ’جیسا ہے ویسا ہی قبول کرنا‘ ہے، خواہ وہ خوشگوار ہو یا ناخوشگوار، بغیر اس سے چمٹنے یا اسے مسترد کرنے کے۔“
دوسرے الفاظ میں، زندگی الجھی ہوئی اور غیر متوقع ہوتی ہے۔ چیزیں ہمیشہ منصوبے کے مطابق نہیں چلتی ہیں۔ غلطیاں ہوں گی۔ سچ یہی ہے، اور یہی ٹھیک ہے۔
جب ہم کمال کی خواہش چھوڑ دیتے ہیں، تو ہم خود کو مستقل دباؤ اور مایوسی سے آزاد کر لیتے ہیں۔ ہم اپنی کوششوں اور کامیابیوں کی تعریف کرنا شروع کرتے ہیں جیسی وہ ہیں، نہ کہ جیسی وہ ہو سکتی تھیں۔
ہم کامل Perfect بننے کی پرواہ کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور اپنے ’خوبصورت عیب دار خود‘ کو گلے لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ ہم اپنی منزل سے زیادہ اپنے سفر میں خوشی تلاش کرنے لگتے ہیں۔
8) پروا نہ کرنے کا خیال رکھیں
یہ شاید الٹا لگے، لیکن جیسا کہ بتایا جا چکا کہ پروا نہ کرنے کا مطلب بے حس بن جانا نہیں ہے۔ یہ اس بات کے بارے میں ہے کہ ہم کس چیز کی واقعی پرواہ کریں اور اس پر توجہ دیں۔
مائنڈ فلنس ہمیں ہر لمحے میں موجود رہنے اور پوری طرح مشغول ہونے کی تعلیم دیتی ہے۔ یہ ہمیں اپنے تجربات کی تعریف کرنے کی ترغیب دیتی ہے بغیر اس کے کہ ان سے زیادہ منسلک ہو جائیں۔
جب ہم اس اصول کو پروا نہ کرنے کے تصور پر لاگو کرتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے خیالات اور احساسات کو پہچانتے ہیں بغیر اس کے کہ وہ ہمیں مغلوب کر دیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی پریشانیوں اور خوفوں کو تسلیم کرتے ہیں بغیر اس کے کہ وہ ہمیں قابو میں کر لیں۔
مختصر یہ کہ ہمیں اپنے فلاح و بہبود کی اتنی پرواہ کرنی چاہیے کہ ہم جان بوجھ کر ان چیزوں کی پرواہ نہ کریں جو ہماری توانائی اور ذہنی سکون کو ختم کرتی ہیں۔
یہ نازک توازن حاصل کرنا آسان نہیں ہے، لیکن مشق کے ساتھ، یہ زیادہ قدرتی ہو جاتا ہے۔
نتیجہ
مست میں رہنے کا۔۔ یہ پروا نہ کرنے کا فن ہے۔۔ یہ بے حس یا سنگ دل ہونے کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ اس بارے میں ہے کہ ہم اپنی توانائی اور توجہ کہاں مرکوز کریں۔ یہ اس بات کا انتخاب کرنے کے بارے میں ہے کہ ہم کس چیز کی واقعی پرواہ کریں اور کیا چھوڑ دیں۔
یاد رکھیں، یہ ایک مشق ہے، نہ کہ ایک منزل۔ کچھ دن آسان ہوں گے، اور کچھ دن مشکل۔ لیکن ہر قدم، چاہے کتنا ہی چھوٹا ہو، ہمیں خوشحال اور پر سکون زندگی کے قریب لے جاتا ہے۔
یاد رکھیں، آپ کا ذہنی سکون کوئی عیش و عشرت نہیں ہے؛ یہ ایک ضرورت ہے۔ تو دوستو: ”خود کی اتنی پرواہ کریں کہ غیر ضروری چیزوں کی پرواہ نہ کریں۔ آپ کی خوشی اس کی مستحق ہے۔“