طبی تشخیص سے پہلے کینسر کا پتہ لگانے کے لیے شہد کی مکھیوں اور کتوں کی حیرت انگیز صلاحیت

ویب ڈیسک

حالیہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ شہد کی مکھیاں اور کتے کینسر کی ابتدائی تشخیص میں معاون ہو سکتے ہیں۔ شہد کی مکھیوں کو غیر معمولی طور پر حساس سونگھنے کی صلاحیت کے سبب مخصوص کیمیائی مادے پہچاننے کے قابل بنایا جا رہا ہے۔ ایک حالیہ تحقیق میں محققین نے شہد کی مکھیوں کو خاص قسم کی کیمیائی مرکبات سے متعارف کرایا جو پھیپھڑوں کے کینسر والے مریضوں کے سانس میں پائے جاتے ہیں۔ مکھیوں کو خاص برقی آلات کے ذریعے ریکارڈ کیا گیا، اور یہ پایا گیا کہ وہ کم مقدار میں بھی کینسر کے کیمیائی نشانات کو محسوس کر سکتی ہیں، جو کہ کینسر کی تشخیص میں نمایاں پیش رفت ثابت ہو سکتی ہے۔

تحقیق سے معلوم ہوا کہ شہد کی مکھیوں کی سونگھنے کی حس بہت تیز ہوتی ہے اور وہ انسان کی سانس سونگھ کر یہ شناخت کر لیتی ہیں کہ آیا کہ اس میں کینسر کے مالیکیول موجود ہیں۔ یہ تحقیق مستقبل میں ایک ایسا آلہ بنانے میں مدد دے سکتی ہے جس میں سانس لینے کے ذریعے کینسر کی موجودگی کا پتہ لگایا جا سکے۔

شہد کی مکھیوں کی طرح کتے کی بھی سونگھے کی حس بہت تیز ہوتی ہے جو انسان کے مقابلے میں دس ہزار سے ایک لاکھ گنا زیادہ ہے۔ کتوں کی سونگھنے کی صلاحیت بھی کئی قسم کے کینسر کی تشخیص میں کارآمد ثابت ہوئی ہے۔ کچھ کتوں کو تربیت دی گئی ہے کہ وہ مریض کے پیشاب اور سانس سے کینسر کی شناخت کر سکیں، خاص طور پر پروسٹیٹ اور پھیپھڑوں کے کینسر کے کیسز میں۔ یہ تحقیقی کام طبی تشخیص کو زیادہ مؤثر اور کم خرچ بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے، جس سے ابتدائی مراحل میں علاج کے بہتر امکانات پیدا ہوں گے۔

تفصیلات کے مطابق مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی کے محققین نے حال ہی میں دریافت کیا ہے کہ شہد کی مکھیاں، اپنی سونگھنے کی طاقت ور حس کی مدد سے کسی شخص کی سانس سونگھ کر یہ پتہ لگا سکتی ہیں کہ آیا اسے پھیپھڑوں کا کینسر ہے یا نہیں۔

مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی میں بائیو میڈیکل انجنیئرنگ کے شعبے کے اسسٹنٹ پروفیسر دیبجیت ساہا کہتے ہیں ”ہماری دنیا بصری ہے۔ جب کہ کیڑے مکوڑوں اور حشرات الارض کی دنیا سونگھنے کی دنیا ہے۔ اس لیے ان کی سونگھنے کی حس بہت ہی تیز ہوتی ہے۔“

وہ کہتے ہیں ”کچھ ریسرچز سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ جب بعض قسم کا کینسر انسان کے جسم کے اندر بڑھتا ہے تو مریض کی سانس میں کچھ تبدیلی آ جاتی ہے۔ ہماری تحقیق سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ شہد کی مکھیاں کینسر کے خلیوں سے خارج ہونے والی بو کے ذریعے پھیپھڑوں کے کینسر اور ممکنہ طور پر کئی دوسری بیماریوں کا پتہ لگا سکتی ہیں۔“

دیبجیت ساہا اس ٹیم کا حصہ رہے ہیں جس کا اس بارے میں ایک تحقیقی مقالہ گزشتہ مہینے شائع ہوا تھا۔ ساہا اور ان کی ٹیم نے اپنی تحقیق کے لیے شہد کی مکھیوں کو استعمال کیا اور الیکٹروڈ ان کے دماغوں سے منسلک کر دیے۔ اس کے بعد ان کا سامنا ایسے مصنوعی مرکبات سے کرایا گیا جن کی بو پھیپھڑوں کے کینسر کے مریضوں کے سانسوں جیسی تھی۔

حیران کن طور پر 93 فی صد واقعات میں شہد کی مکھیاں کینسر سے متاثرہ سانس اور صحت مند شخص کی مصنوعی سانس کے درمیان فرق کرنے میں کامیاب رہیں۔ بات صرف یہیں تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ شہد کی مکھیاں پھیپھڑوں کے کینسر کی مختلف اقسام میں فرق کو بھی شناخت کر سکتی ہیں۔

ماہرین کو امید ہے کہ شہد کی مکھیوں پر کی جانے والی اس تحقیق کے نتائج پھیپھڑوں، چھاتی، سر اور گردن اور بڑی آنت کے کینسر سمیت کئی دیگر اقسام کے کینسروں کا ابتدائی سطح پر ہی پتہ چلانے میں مدد دے سکتے ہیں۔

دیبجیت ساہا کہتے ہیں ”ہم سمجھتے ہیں کہ کینسر سے متعلق سانس پر مبنی تشخیص انقلابی ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کئی بار کینسر کا اس وقت پتہ چلتا ہے جب وہ کافی پھیل چکا ہوتا ہے اور اس کا ٹیومر کافی بڑھ چکا ہوتا ہے۔ لیکن عام طور پر جب انسانی جسم کے اندر کینسر بڑھنا شروع ہوتا ہے تو اس کی علامتیں سب سے پہلے سانس میں ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔“

ساہا نے بتایا کہ انہیں توقع ہے کہ وہ جلد ہی ایک ایسا چھوٹا سا آلہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے، جس میں زیرِ تشخیص مریض سانس لے سکے گا اور اس میں شہد کی ایسی مکھیاں چھوڑی جائیں گی، جن کے دماغ میں الیکٹروڈ نصب ہوں گے۔ یہ سائبرگ سینسر ہے جو فوری طور پر ٹیسٹ کے نتائج فراہم کر دے گا۔

انہوں نے کہا ”توقع ہے کہ اگلے پانچ برسوں میں ہمارے پاس یہ آلہ موجود ہوگا اور ہم دنیا کو یہ دکھا سکیں گے کہ شہد کی مکھیوں کے دماغ میں نصب کیے جانے والے سینسرز کے استعمال سے کینسر کا ابتدائی اسٹیج پر پتہ لگایا جا سکتا ہے۔“

واضح رہے کہ جانوروں کی مدد سے کینسر کا کھوج لگانے کا تصور نیا نہیں ہے۔ پینسلوینیا یونیورسٹی کے پین ویٹ ورکنگ ڈاگ سینٹر میں محقیقین کتوں کو بعض اقسام کے کینسر کی بو شناخت کرنے کی تربیت دے رہے ہیں۔

پین ویٹ ورکنگ ڈاگ سینٹر کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سینڈی اوٹو کہتی ہیں ”کتوں کے علاوہ بھی کئی ایسے جانور ہیں، جن کے سونگھنے کی حس بہت تیز اور اچھی ہوتی ہے۔ لیکن کتوں کو جو چیز دوسرے جانورں سے ممتاز کرتی ہے، وہ ان کا انسان کے ساتھ شاندار تعلق ہے اور وہ حاصل کردہ معلومات کو بہتر طور پر انسان کو منتقل کر سکتے ہیں۔“

یونیورسٹی کے اس سینٹر میں کتوں کو مختلف خاندانوں کے ساتھ رکھا جاتا ہے اور وہ روزانہ کی بنیاد پر کام کرتے ہیں۔ اس سینٹر میں تحقیق سے وابستہ ایک پی ایچ ڈی محقق کلارا ولسن کہتی ہیں کہ ہر کتا اس کام کے لیے موزوں نہیں ہوتا۔

کلارا نے بتایا ”اگر ایک کتا اس قسم کے کام میں دلچسپی ظاہر نہ کر رہا ہو تو ہمیں جلد ہی کوئی دوسرا کتا ڈھونڈنا چاہیے۔ آپ ہر کتے سے یہ کام نہیں لے سکتے، کیونکہ جو کتا زیادہ دلچسپی نہیں لے رہا ہوتا، وہ آپ کو اچھے معیار کے نتائج بھی نہیں دے سکتا۔“

کلارا کے مطابق، اچھے نتائج کے لیے ضروری ہے کہ کتا یہ کام دلچسپی سے کرے اور اسے اپنے لیے ایک تفریحی کھیل سمجھ کر کرے۔

سونگھ کر کینسر کی بو کا کھوج لگانا جانوروں کے لیے تو ایک کھیل ہو سکتا ہے لیکن محقیقین کو ان تجربات سے یہ معلوم ہوا ہے کہ جانور طبی سائنس کی مشینوں کے مقابلے میں کینسر کا بہتر طور پر پتہ چلا لیتے ہیں۔ ایک کتے کی سونگھے کی حس انسانوں کے مقابلے میں دس ہزار سے ایک لاکھ گنا تک بہتر ہوتی ہے۔

سینٹر میں تحقیق کرنے والی ایک اور پی ایچ ڈی محقیق امریتا مالیکرجن کا کہنا ہے ”ہمیں اپنی تحقیق سے یہ پتہ چلا ہے کہ اس معاملے میں کتے کمپیوٹروں سے زیادہ بہتر نتائج دیتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں دستیاب تمام چیزوں کے مقابلے میں بُو کے مالیکیولز شناخت کرنے میں ان کی صلاحیت کہیں زیادہ ہے۔“

ان نتائج کی روشنی میں ماہرین ایسی ٹیکنالوجی تیار کرنے میں کامیابی کے لیے پُرامید ہیں، جو کینسر کی بُو کو دوسری چیزوں سے الگ کر کے شناخت کر سکے گی اور اس طرح وہ ایک ’الیکٹرانک ناک‘ بنا سکیں، جو کینسر کو شناخت کرنے سے متعلق کتے کی سونگھنے کی صلاحیت کا متبادل ہوگی یوں وہ ابتدائی سطح پر ہی کینسر کا پتہ لگانے کے قابل ہو جائیں گے۔

اوٹو کا کہنا ہے ”یہ ہماری تحقیق کی آخری حد نہیں ہے ۔ میرا خیال ہے کہ اس تحقیق سے صرف کینسر کی تشخیص کے عمل میں ہی مجموعی طور بہتری نہیں آئے گی، بلکہ بہت سی دوسری بیماریوں کا کھوج لگانے کی راہ بھی ہموار ہو گی۔“

انہوں نے مزید کہا ”اگر آپ قدیم تاریخ میں جھانک کر دیکھیں تو یونانی اور رومن ادوار میں طبیب بُو کو تشخیص کے ایک پہلو کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ اور میرا خیال ہے کہ جدید دور کے ایک انسان کے طور پر ہمیں بھی اس طرف جانا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ ہم واقعتاً اس کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اس سے نہ صرف انسانوں بلکہ کتوں اور دیگر اقسام کے جانوروں کی صحت کے معیار کو بھی بہتر بنا سکتے ہیں۔“

اس تحقیق کی تفصیلات مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی، بایوسینسر اینڈ بایو الیکٹرونکس اور دیگر موقر سائنسی جریدوں میں شائع کی گئی ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close