’انٹرجنریشنل ٹراما‘ یا نسلی صدمہ کیا ہے اور اس سے کیسے نمٹا جائے؟

ویب ڈیسک

’انٹرجنریشنل ٹراما‘ یا نسلی صدمے کی جڑیں ماضی کے واقعات میں پیوست ہوتی ہیں، مگر اس کے اثرات موجودہ نسل کو براہ راست متاثر کر سکتے ہیں۔ یہ اثرات کسی ایک بڑے تکلیف دہ واقعے یا مسلسل صدماتی تجربات کا نتیجہ ہو سکتے ہیں۔ یہ صدمہ ذہنی، جسمانی اور سماجی فلاح و بہبود کو متاثر کر سکتا ہے، اور بعض اوقات پورے معاشرے کی صحت کو نقصان پہنچاتا ہے۔ تاہم، صحیح مدد اور مناسب علاج سے صدمے کے سلسلے کو توڑا جا سکتا ہے اور شفایابی کا عمل شروع کیا جا سکتا ہے۔

آئیے جانتے ہیں کہ نسلی صدمہ کیا ہے؟

امریکن سائیکالوجیکل ایسوسی ایشن کے مطابق بچپن میں چوٹ، جنسی ہراسانی یا ذاتی حملے، حادثے، غربت اور دیگر بیرونی عوامل کی وجہ سے دماغ کو پہنچنے والے کسی نقصان کے اثرات اگلی نسل میں صدمے کی صورت میں منتقل ہوتے ہیں جسے ’انٹر جنریشنل ٹراما‘ یا نسلی صدمہ کہا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں نسلی صدمہ ایسے حل نہ ہونے والے صدمات کو کہتے ہیں، جو بغیر جانے بوجھے ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ یہ صدمہ سب سے پہلے ان افراد پر گہرے اثرات چھوڑتا ہے جو براہ راست ان تکلیف دہ تجربات کا شکار ہوتے ہیں، لیکن اگر ان تجربات کا مناسب علاج نہ کیا جائے تو یہ اگلی نسلوں کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔ یہ اثرات ایپی جینیٹک (موروثی) ہوتے ہیں یعنی صدمہ اگلی نسل میں جین کے بجائے جین مارکرز کو متاثر کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صدمہ ذہنی اور جسمانی صحت کو اس طرح متاثر کرتا ہے کہ حیاتیاتی نظام اور رویوں میں تبدیلیاں واقع ہو جاتی ہیں، جو نسلوں تک منتقل ہوتی رہتی ہیں۔

اگر کسی نسل کو شدید صدمات کا سامنا کرنا پڑے تو ان کا نفسیاتی بوجھ اگلی نسل کے رویوں اور جذباتی کیفیات میں ظاہر ہو سکتا ہے۔ صدمے کا رد عمل حالات کے مطابق مختلف ہوتا ہے مگر ایسے افراد اکثر شرم، جھجک، ڈپریشن، انگزائٹی، خود اعتمادی کی کمی، بے بسی، خودکشی کے خیالات، منشیات کے استعمال اور رشتوں میں کشیدگی جیسے مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔ صدمے کا رد عمل افراد اور حالات کے مطابق مختلف ہو سکتا ہے، مگر اس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ذہنی صحت کی دیکھ بھال اور فیملی تھراپی جیسے علاج نہایت مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں۔

فیملی تھراپی کے کیسز کو ڈیل کرنے والی کلینیکل سائیکالوجسٹ ڈاکٹر عائشہ عمران کا کہنا ہے کہ نسلی صدمہ کسی بڑے مسئلے کا باعث اس وقت بنتا ہے، جب بچپن یا عمر کے کسی حصےمیں پیش آنے والے تکلیف دہ تجربات کو حل کرنے کے بجائے چھپانے اور دبانے کے نامناسب طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ ”نسلی صدمہ دماغ کو پہنچنے والے ایک زخم کی طرح ہے۔ اگر آپ کا پاؤں زخمی ہوا ہے تو لازمی آپ کو اس کی مرہم پٹی اور مناسب علاج کرانا ہے۔ لیکن اگر آپ زخم کو چھپائیں گے تو وہ بگڑ کر خطرناک ہو جائے گا۔‘‘

ڈاکٹر عائشہ کہتی ہیں کہ بچہ جب گھر میں ماں باپ کے جھگڑے، مار پیٹ وغیرہ دیکھتا ہے تو یہ تکلیف دہ واقعات اس کے دماغ میں نقش ہو جاتے ہیں، ”چونکہ بچے عموما والدین سے سیکھتے ہیں لہذا ایسے بچے بڑے ہو کر شادی کے بعد بیوی اور بچوں کے ساتھ تعلقات میں مسائل کا شکار رہتے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر عائشہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مشترکہ خاندانی نظام والے گھروں میں روایات و آدرش کئی نسلوں سے چل رہے ہیں۔ ایسے گھروں میں نسلی صدمے کا ایک اور تصور بھی عام ہے۔ یعنی اگر ساس اپنی جوانی میں مشکل اور تکلیف دہ حالات سے گزری ہو تو وہ اپنی بہو کے ساتھ بھی اسی طرح پیش آتی ہے۔

اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”مسئلے کو جڑ سے سمجھے بغیر کئی نسلوں سے خاندانی تعلقات اسی طرز پر چل رہے ہیں، جس کے باعث خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ سسرال میں پر تشدد رویوں کے باعث طلاق اور زہرہ قدیر(سیالکوٹ قتل کیس) جیسے ہولناک واقعات کی شرح بڑھ رہی ہے۔‘‘

نسلی صدمے کی وجوہات صرف گھریلو زندگی تک محدود نہیں بلکہ یہ خاندانی ماحول کے باہر سماجی حالات کی وجہ سے بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ عموماً یہ صدمات ان افراد یا برادریوں میں دیکھے جاتے ہیں جن کے آباؤ اجداد کی زندگی درج ذیل تکلیف دہ حالات سے متاثر ہوئی ہو:
جنگ، قحط، نسل کشی، نوآبادیاتی نظام، تشدد، غربت، جبر، امتیازی سلوک، نسل پرستی، قدرتی آفات، غیر متوقع نقصان، خودکشی، بدسلوکی، لاپروائی، گھریلو تشدد، جنسی یا جسمانی حملے، نشے کی لت، علاج نہ ہونے والی ذہنی بیماریاں

یہ تمام صدماتی عوامل نہ صرف متاثرہ افراد کی زندگیوں پر اثرانداز ہوتے ہیں بلکہ نسلوں تک ان کے اثرات کو برقرار رکھتے ہیں، جس سے خاندانی تعلقات، سماجی رویے اور ذاتی زندگی میں پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔

 اثرات

اگر نسلی صدمے کے سلسلے کو توڑا نہ جائے، تو یہ خاندانوں کو مختلف طریقوں سے متاثر کر سکتا ہے۔ یہ جذباتی اظہار کے انداز سے لے کر جسمانی صحت تک متعدد پہلوؤں کو متاثر کر سکتا ہے۔

مثال کے طور پر، اگر آپ کے دادا نے ایک جذباتی طور پر بدسلوکی والے ماحول میں پرورش پائی، تو بچپن میں احساسات دبانا ان کے لیے بچاؤ کا طریقہ بن گیا ہوگا۔ نتیجتاً، وہ اپنے بیٹے یعنی آپ کے والد کی پرورش کے دوران جذباتی طور پر غیر حاضر ہو سکتے ہیں۔ یہی رویہ ممکنہ طور پر آپ کی پرورش پر بھی اثر انداز ہوا ہوگا، اور یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا رہتا ہے۔

یہ مثال ظاہر کرتی ہے کہ صدمہ جذباتی تعلقات اور والدین کے کردار کو کس طرح متاثر کرتا ہے۔ یہ بچوں کی نشوونما میں فطرت بمقابلہ پرورش کے نظریے کے ’پرورش‘ والے پہلو کی وضاحت کرتا ہے۔

صدمے کے حیاتیاتی اثرات بھی ہیں۔ یہ ہماری حیاتیاتی نشوونما یا ’فطرت‘ کے پہلو کی بھی تشکیل کرتا ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ صدمہ دماغ کی ساخت کو بدل سکتا ہے اور ایسے تغیرات پیدا کر سکتا ہے جو درج ذیل امراض کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں:
شدید ڈپریشن اور دیگر مزاجی عوارض، خودکار قوتِ مدافعت کی بیماریاں، پھیپھڑوں کی بیماریاں، دل کی بیماریاں، وائرس سے ہونے والی ہیپاٹائٹس، نیند کے مسائل، نشے کی لت اور جنسی طور پر منتقل ہونے والے انفیکشنز (STIs)

یہ تمام اثرات ظاہر کرتے ہیں کہ نسلی صدمہ صرف جذباتی اور ذہنی ہی نہیں بلکہ جسمانی صحت کو بھی شدید متاثر کر سکتا ہے، اور اس کا علاج ضروری ہے تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے بہتر زندگی کا راستہ ہموار کیا جا سکے۔

 علامات

ہر شخص صدمے کو اپنے انداز سے محسوس کرتا ہے، لیکن کچھ عام علامات ایسی ہیں جو نسلی صدمے سے وابستہ ہو سکتی ہیں۔ اگر آپ یا آپ کا کوئی عزیز ان میں سے کسی علامت کا شکار ہو تو ماہرِ نفسیات سے رابطہ کرنا مفید ہو سکتا ہے۔

1. انکار: صدمے کو تسلیم یا بیان کرنے سے گریز کرنا۔
2. خود سے بیگانگی (Depersonalization): خود سے لاتعلقی یا اپنے وجود سے الگ محسوس کرنا، جسے کبھی کبھار ’جسم سے باہر تجربہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔
3. تنہائی: اکیلا وقت گزارنے کو ترجیح دینا۔
4. یادداشت کا کھو جانا: صدمے کے واقعے اور/یا اس سے پہلے یا بعد کے حالات کو یاد نہ کر پانا۔
5. ڈراؤنے خواب: صدمے سے وابستہ نیند میں خلل یا ڈراؤنے خواب آنا۔
6. جذباتی بے حسی: احساسات خصوصاً دوسروں کے لیے ہمدردی محسوس کرنے میں ناکامی۔
7. غیرمعمولی چوکنا پن (Hypervigilance): مسلسل ہوشیار اور چوکنا رہنا، جیسے کہ صدمے کا یادگار واقعہ پھر سے پیش آنے والا ہو (چاہے حقیقی ہو یا خیالی)۔
8. نشہ آور اشیا کا استعمال: ناخوشگوار جذبات یا صدمے سے جڑی یادوں کو دبانے کی کوشش۔
9. موت کا خیال: ناپسندیدہ اور بار بار موت، مرنے اور/یا خودکشی کے خیالات کا شکار ہونا۔
10. غیر حل شدہ غم: غم کے مراحل سے گزرنے میں مشکل یا جذباتی طور پر جمود کا شکار ہونا۔

یہ علامات ظاہر کرتی ہیں کہ نسلی صدمہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کو متاثر کر سکتا ہے، لیکن پیشہ ورانہ مدد کے ذریعے صحت یابی ممکن ہے۔

انٹرجنریشنل ٹراما اور پاکستان

ماہرین کے مطابق پاکستان میں تیزی سے بڑھتے ذہنی عوارض کی ایک بڑی وجہ ’انٹر جنریشنل ٹراما‘ یا نسلوں میں منتقل ہونے والے صدمات ہیں۔ ماہرین کے مطابق ان صدمات سے خاندانی تعلقات میں پیدا ہونے والے بگاڑ کا بہترین علاج فیملی تھراپی ہے۔

پاکستان سمیت بہت سے مشرقی معاشروں میں مشترکہ خاندانی نظام کو نہ صرف روایات کا حصہ سمجھا جاتا ہے بلکہ اس پر فخر بھی کیا جاتا ہے، تاہم اس نظام کی خوبیوں اور خامیوں سے قطع نظر اس کا ایک نمایاں نفسیاتی پہلو بھی ہے اور وہ کسی بھی طرح کے صدمے کے اثرات کا اگلی نسلوں کو منتقل ہونا ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں اس طرح کے صدمات پہلی نسل سے دوسری، تیسری بلکہ چوتھی نسل تک کو بھی منتقل ہو رہے ہیں، جس کے سبب خاندانوں میں اندرونی تعلقات شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔

وفاقی وزارت صحت کی جانب سے ستمبر 2024 میں قومی اسمبلی میں پیش کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں آٹھ کروڑ افراد نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔ عین ممکن ہے کہ یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو کیونکہ پاکستانی معاشرے میں عام طور پر نفسیاتی مسائل کو پاگل پن سمجھ کر چھپایا جاتا ہے۔ خاص طور پر خواتین کو اپنے مسائل پر بولنے اور ماہرین نفسیات سے رجوع کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

شائستہ علی (فرضی نام) پنجاب کے ایک شہر میں میڈیکل فائنل ایئر کی طالبہ ہیں اور بیس افراد پر مشتمل مشترکہ خاندان میں رہتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں ”گھر کے مسائل کے باعث میں گذشتہ دو سال سے شدید ڈپریشن اور انگزائٹی کا شکار ہوں اور گھر والوں کو بتائے بغیر ماہر نفسیات سے کنسلٹ کر رہی ہوں۔ ہمارے گھر کا ماحول قدامت پسندانہ ہے اگر میں اپنی والدہ یا بڑی بہن کو اپنے مسائل کے متعلق بتانا چاہوں تو مجھے یہ کہہ کر چپ کروا دیا جاتا ہے، کہ ’تم انوکھی نہیں ہو، سب کو سہنا پڑتا ہے۔‘ یعنی اگر میری والدہ یا بڑی بہن تکلیف دہ حالات سے گزری تھیں، کسی قسم کا جبر یا ہراسانی کا سامنا کیا تھا تو مجھے بھی خاموشی کے ساتھ سب برداشت کرنا ہوگا۔ میں خود میڈیکل کی طالبہ ہوں اور نسلی صدمے کی ایک سے دوسرے نسل میں منتقلی کی باریکیوں سے واقف ہوں مگر اپنی والدہ، بہن یا گھر کی دوسری خواتین کو سمجھانا بہت مشکل ہے۔“ شائستہ علی اس نسلی بوجھ کو اپنا مقدر سمجھ کر سمجھوتہ کر چکی ہیں۔

ڈاکٹر عائشہ عمران کہتی ہیں کہ جس گھر کے بڑوں میں نسلی صدمے کے اثرات ہوں وہاں گھر کے تمام افراد اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ گھر کے ماحول میں تناؤ کی بڑی وجہ والدین کا الجھا ہوا رویہ ہوتا ہے۔ ان کی بچوں سے جذباتی وابستگی محدود ہوتی ہے، یوں باہمی فاصلے گھر کے افراد کو گھلنے ملنے نہیں دیتے۔

ان کے مطابق ”کچھ والدین بچوں کے معاملے میں حد سے زیادہ حساس ہوتے ہیں، جو بچپن میں ان کے اپنے تکلیف دہ تجربات کا عکس ہوتا ہے۔ لیکن بلاوجہ کی روک ٹوک سے بچوں کی نفسیات پر بہت منفی اثر پڑتا ہے۔ وہ بڑے ہو کر نشے کی لت اور نفسیاتی عوارض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے نوجوان شادی اور گھر بار کی طرف رغبت نہیں رکھتے جس سے معاشرتی بے راہ روی بڑھ رہی ہے۔‘‘

ڈاکٹر عائشہ بتاتی ہیں کہ ہمارے ہاں فیملی ڈائنامکس اس طرح کے ہیں کہ اگر آپ کسی وجہ سے جذباتی تناؤ، ڈپریشن یا دیگر نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں تو اس کو چھپانا ہے۔ جبکہ نارسسزم یا نرگسیت کا شکار افراد سرے سے یہ تسلیم ہی نہیں کرتے کہ ان کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے، جسے حل کرنے کی ضرورت ہے۔

اس حوالے سے معروف نیورو سائنٹسٹ ڈاکٹر علی جاوید کہتے ہیں کہ آج کل نوجوانوں میں منشیات کا استعمال اسی لیے بڑھ گیا ہے کیونکہ فرسودہ گھریلو ماحول میں ذہنی امراض کا علاج کرانے کے بجائے انھیں جرم کی طرح چھپایا جاتا ہےحالانکہ زیادہ تر نفسیاتی مسائل ایپی جینیٹک یا موروثی ہوتے ہیں۔

ان کے مطابق، ”عوام خصوصاً ’جنریشن زی‘ میں اس حوالے سے شعور و آگاہی پھیلانے کی اشد ضرورت ہے، جس میں میڈیا اور تعلیمی ادارے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں کئی نسلوں سے ایک جیسے منفی رویے چل رہے ہیں، جو خاندانوں کو بکھیر رہے ہیں تو لوگوں کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ ان کا سوچنے کا طریقہ غلط ہے۔ انہیں اگر فیملی تھراپی یا ماہرین نفسیات سے رجوع کرنے پر قائل کر لیا جائے تو نسلی صدمے کے اثرات کو کم کر کے اگلی نسل میں رابطوں اور تعلقات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔‘‘

 نسلی صدمے سے نمٹنا

ڈاکٹر عائشہ کے مطابق، ”نسلی صدمے سے خاندانی تعلقات میں بگاڑ کا بہترین علاج فیملی تھراپی ہے۔ اس میں سائیکاٹرسٹ دونوں اطراف کو سن کر ان کے باہمی فاصلے یا بدگمانی کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن بہت سے افراد سائیکاٹرسٹ پر بھی بھروسہ نہیں کرتے یا شاید ان میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ سالوں سے اپنے اندر پلتے ایک ناسور کو چھیڑیں۔ اپنے رستے زخموں کو کریدنا یقیناً آسان نہیں ہوتا مگر اس کے علاوہ کوئی اور حل بھی نہیں ہے۔“

صدمے کی بنیاد میں تحفظ کے احساس کا کھونا شامل ہوتا ہے۔ نسلی صدمہ اس لیے زیادہ پیچیدہ ہے کیونکہ یہ اکثر ایسے ماحول میں ہوتا ہے جہاں ہمیں محفوظ محسوس کرنا چاہیے، یعنی خاندان کے ساتھ۔ یہ ایک الجھن پیدا کرتا ہے، جہاں والدین یا نگران ایک طرف عدم تحفظ اور دوسری طرف تحفظ کا ذریعہ بھی ہو سکتے ہیں۔ یہی وہ وجہ ہے کہ نسلی صدمہ اکثر نسل در نسل دہرایا جاتا ہے۔ صدمے سے نمٹنے کے لیے درج ذیل اقدامات ضروری ہیں:

1. آگاہی حاصل کرنا: سب سے پہلا اور اہم قدم یہ ہے کہ خود کو تعلیم دیں۔ یہ سمجھنا شروع کریں کہ نسلی صدمہ لوگوں کو کیسے متاثر کرتا ہے۔ اپنی تاریخ کے بارے میں شعور حاصل کریں تاکہ آپ اپنے صدمے سے الگ شناخت بنا سکیں۔

2. خود کا جائزہ لینا: جب آپ اپنی زندگی میں صدمے کے کردار کا مشاہدہ کریں گے تو کچھ تلخ حقیقتیں سامنے آ سکتی ہیں، جن کا سامنا کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ یہ جذباتی طور پر چیلنجنگ کام ہے اور غصہ، مایوسی، اور اداسی جیسے احساسات عام ہیں۔

3. پیشہ ورانہ مدد لینا: آپ کو یہ کام تنہا کرنے کی ضرورت نہیں۔ صدمے سے آگاہ تھراپسٹ آپ کی رہنمائی کر سکتا ہے اور نئے طریقوں سے مشکلات کا مقابلہ کرنے میں مددگار ہو سکتا ہے۔ صحیح مدد سے آپ پرانی عادتوں کو توڑ کر نسلی صدمے سے شفا پا سکتے ہیں۔

یاد رکھیں: صدمے کا دائرہ توڑنا ایک عملی سفر ہے، لیکن شعور، قبولیت، اور پیشہ ورانہ مدد کے ساتھ بہتری ممکن ہے۔ اگرچہ آپ ماضی کو بدل نہیں سکتے یا اس طریقے کو مٹا نہیں سکتے جس سے صدمہ نے آپ کی تاریخ کو تشکیل دیا ہے، لیکن شفا یابی کی امید موجود ہے۔ آپ نسلی صدمے کے اثرات کو اپنی اور اپنی کمیونٹی پر سمجھ کر راحت حاصل کرنا شروع کر سکتے ہیں۔

(اس فیچر کی تیاری میں گوڈآرایکس اور ڈی ڈبلیو میں شائع آرٹیکل اور رپورٹ سے مدد لی گئی۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close