
مارک ہمیشہ ایک منظم زندگی گزارنے والا شخص تھا۔ ہر صبح سورج طلوع ہونے سے پہلے نیند سے بیدار ہوتا، ایک کافی کا کپ تیار کرتا، اور دن کے آغاز سے پہلے اپنی ای میلز چیک کرنے کے لیے اپنی میز پر بیٹھ جاتا۔۔ لیکن حالیہ دنوں میں، یہ معمول ایک میدانِ جنگ بن گیا تھا، اور کافی کا کپ اس کی تازہ ترین قربانی بن گیا۔
جب اُس نے اپنے مگ کی طرف ہاتھ بڑھایا، اُس کے ہاتھ میں معمولی سی لرزش نے کافی کے چند قطرے اس کی سفید قمیض پر گرا دیے۔ اُس کے منہ سے ایک ہلکی سی جھنجھلاہٹ نکلی، اور وہ زیر لب بڑبڑایا، ”کیا مصیبت ہے!“ اس کی بیوی، سارہ، جو پہلے ہی نیچے موجود تھی، اس کی ناراض آواز سن کر اپنی نوعمر بیٹی ایمیلی کے ساتھ فکرمند نظروں کا تبادلہ کرتی ہے۔
مارک کی چڑچڑاہٹ مہینوں سے بڑھ رہی تھی۔ کبھی انتہائی خوش مزاج سمجھا جانے والا مارک اب چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھڑک اٹھنے لگا تھا۔ ریموٹ کنٹرول اپنی جگہ پر نہ ہونا، ٹریفک معمول سے زیادہ ہونا، حتیٰ کہ ریفریجریٹر کی ہلکی سی آواز۔۔ سب کچھ اُسے غصے میں لا سکتا تھا۔
دفتر میں اُس کے ساتھی اُس کے مزاج سے بچنے کے لیے محتاط رہنے لگے تھے۔ کبھی خوشگوار ٹیم میٹنگز اب خاموشیوں سے بھرپور ہوتی تھیں، جیسے سب اُس لمحے کے انتظار میں ہوں جب مارک کسی بات پر غصہ ہو جائے۔ یہاں تک کہ اُس کا باس، جو عام طور پر ایک صابر آدمی تھا، اُسے الگ لے جا کر اُس کے رویے پر تشویش ظاہر کر چکا تھا۔
سارہ، جو یہ سب سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی، نے انٹرنیٹ پر تحقیق شروع کر دی۔ اُسے ایک اصطلاح ملی جو مارک کی علامات سے مکمل طور پر میل کھاتی تھی: ’ایریٹیبل میل سنڈروم‘ Irritable Male Syndrome
تو آخر یہ ’ایریٹیبل میل سنڈروم‘ (IMS) ہے کیا۔۔ اور کیا یہ واقعی ایک حقیقت ہے یا محض افسانہ؟ آج ہم انہی سوالات کے جوابات جاننے کی کوشش کریں گے۔
آپ نے سنِ یاس کی عمر کو پہنچنے یا مینو پاز کے بارے میں تو سنا ہی ہوگا۔ اس حوالے سے عام طور پر دنیا بھر میں گفتگو ہمیشہ خواتین کے مخصوص مسائل پر مرکوز رہی ہے، لیکن کیا کبھی ہم نے غور کیا ہے کہ مردوں کے جسمانی نظام میں بھی کچھ ایسی ہی تبدیلیاں آ سکتی ہیں جو اُن کی روزمرہ زندگی اور مزاج پر اثر انداز ہوتی ہیں؟
حالیہ تحقیقاتی رجحانات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ مردوں میں بھی ہارمونل تبدیلیاں ایک حقیقت ہیں۔ برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کے مطابق، مردوں میں موجود بنیادی ہارمون ’ٹیسٹوسٹیرون‘ جسمانی نشوونما، جنسی خواہش، اور جذباتی توازن میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ہارمون روزانہ کی بنیاد پر تبدیلی کا شکار ہوتا ہے، صبح کے وقت اس کی مقدار زیادہ جبکہ شام کو کم ہو جاتی ہے۔
تحقیق کے مطابق عمر بڑھنے کے ساتھ مردوں کے ٹیسٹوسٹیرون کی سطح میں کمی اُنہیں چڑچڑاپن، موڈ میں تبدیلیوں، اور عدم اطمینان کا شکار کر سکتی ہے۔
ماہرین نفسیات اور طبی محققین کے مطابق، مردوں میں ہارمونل تبدیلیوں کے باعث موڈ میں اتار چڑھاؤ ایک حقیقی مسئلہ ہے، جسے ’اریٹیبل مین سنڈروم‘ کہا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح پہلی بار محقق جیڈ ڈائمنڈ نے متعارف کروائی، جنہوں نے 10 ہزار مردوں سے گفتگو کے بعد اس حالت کو تفصیل سے بیان کیا۔ اُن کے مطابق، ہارمونل تبدیلیوں کے نتیجے میں مردوں کو ڈپریشن، ذہنی دباؤ، اور سماجی مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔
لیکن ٹھہریے، حالیہ تحقیق کے نتائج اگرچہ اس کے حقیقت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور کچھ ماہرین کم ٹیسٹوسٹیرون لیول (یا ’لو ٹی‘) اور عمر رسیدہ مردوں میں موڈ کی تبدیلیوں کے درمیان تعلق دیکھتے ہیں لیکن سائنس اس بارے میں ایک حتمی جواب پیش نہیں کرتی اور کئی طبی ماہرین اس بات سے اختلاف بھی رکھتے ہیں۔
یہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ جیسے جیسے مردوں کی عمر بڑھتی ہے، وہ زیادہ چڑچڑے، غصے والے اور جلد جھنجھلانے لگتے ہیں – بالکل ایسے جیسے ’مردانہ مینو پاز‘ ہو رہا ہو۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ ان کے ٹیسٹوسٹیرون کی سطح کم ہونے لگتی ہے۔ لیکن کیا واقعی ایک ہارمون کی کمی اتنے سارے بدمزاج بزرگ مردوں کو جنم دے سکتی ہے؟
”یہ بالکل بے بنیاد بات ہے،“ یونیورسٹی آف واشنگٹن کے چیف آف میڈیسن، ڈاکٹر بریڈلی اناوالٹ کہتے ہیں، ”عمر رسیدہ مرد چڑچڑے ہو سکتے ہیں، لیکن یہ شاذ و نادر ہی ٹیسٹوسٹیرون کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔“
خواتین میں ماہواری کا سائیکل ہر 28 دن کے بعد تولیدی صحت پر اثر انداز ہوتا ہے، لیکن مردوں کی ہارمونل تبدیلیاں روزانہ اور کبھی کبھار ماہانہ بنیادوں پر ظاہر ہوتی ہیں۔ خواتین کے برعکس، مردوں کے ہارمونل نظام میں تبدیلیاں تولیدی صلاحیت پر براہ راست اثر نہیں ڈالتی بلکہ یہ ان کے مزاج، توانائی، اور جذباتی استحکام پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
اگرچہ مردوں کے ہارمونل اتار چڑھاؤ کو تسلیم کیا جاتا ہے، ’اریٹیبل مین سنڈروم‘ کی اصطلاح پر سائنسی برادری میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ ماہرین اسے ذہنی دباؤ، ماحولیاتی عوامل، یا غیر صحت مند طرز زندگی سے منسلک کرتے ہیں، جبکہ دیگر ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ ہارمونل تبدیلیوں کا براہ راست نتیجہ ہے۔
ڈاکٹر یمن الطال کے مطابق، آج کل کے غیر صحت مند طرز زندگی جیسے کہ فاسٹ فوڈ، تمباکو نوشی، اور نیند کی کمی مردوں کی ہارمونل صحت پر تباہ کن اثرات مرتب کر رہی ہے۔ اُن کے بقول، ”چالیس سال کی عمر میں جن مسائل کا سامنا پہلے کیا جاتا تھا، وہ اب نوجوانوں میں عام ہو چکے ہیں۔“
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر مرد اپنی ہارمونل تبدیلیوں کو سمجھ کر اُن کے مطابق اپنی زندگی گزاریں تو وہ اپنی جسمانی اور جذباتی صحت بہتر بنا سکتے ہیں۔ صبح کے وقت توانائی کی بلند سطح کو فائدہ مند سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، جبکہ دباؤ کم کرنے کے لیے ورزش اور متوازن غذا اختیار کرنا ضروری ہے۔
کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں ’ماہواری‘ کا مفہوم بدل رہا ہے ، لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مردوں کی ’ماہواری‘ یعنی ہارمونل تبدیلیوں کا وجود کسی سائنسی حقیقت سے کم نہیں۔ لیکن اس کا مقصد صنفی مساوات یا مقابلے کا تاثر دینا نہیں بلکہ یہ ثابت کرنا ہے کہ مردوں کی جسمانی اور جذباتی صحت پر بھی توجہ دی جائے۔
عمومی طور پر، عمر بڑھنے کے ساتھ مردوں میں ٹیسٹوسٹیرون کی پیداوار کم ہو جاتی ہے۔ 45 سال سے زیادہ عمر کے 40 فیصد مردوں کے ٹیسٹوسٹیرون کی سطح 300 ng/dL سے کم ہو جاتی ہے، جسے ڈاکٹر نارمل سے نیچے سمجھتے ہیں۔ ٹیسٹس یا پٹیوٹری غدود کے مسائل اس کی وجہ ہو سکتے ہیں۔ یہ ہائی بلڈ پریشر یا ذیابیطس جیسے کئی امراض سے بھی منسلک ہو سکتا ہے۔ اکثر اوقات، ڈاکٹر اس کی وجہ کی واضح نشاندہی نہیں کر پاتے۔
کچھ علامات جیسے کم جنسی خواہش، ہڈیوں کی کثافت میں کمی، اور پٹھوں کی کمزوری کم ٹیسٹوسٹیرون سے منسلک ہیں۔ لیکن ڈاکٹر ابراہم مورگنٹیلر، جو "مینز ہیلتھ بوسٹن” کلینک کے بانی ہیں، کہتے ہیں کہ وہ اپنے مریضوں میں اکثر دیگر اثرات بھی دیکھتے ہیں۔ "کم ٹیسٹوسٹیرون والے مردوں کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کے جذباتی ذخائر کم ہو رہے ہیں،” وہ کہتے ہیں۔ "ان کے صبر کا پیمانہ جلد بھر جاتا ہے۔ عام طور پر لوگ مردوں کے غصے کو زیادہ ٹیسٹوسٹیرون سے جوڑتے ہیں، لیکن حقیقت میں ہم زیادہ تر ایسے مردوں میں دیکھتے ہیں جن کے ٹیسٹوسٹیرون کی سطح گر رہی ہوتی ہے۔”
کچھ تحقیق یہ بھی دکھاتی ہے کہ کم ٹیسٹوسٹیرون والے مردوں کو بھی خواتین کی طرح گرم لہر (ہاٹ فلیشز) کا سامنا ہو سکتا ہے۔
لیکن دیگر مطالعات ظاہر کرتے ہیں کہ درمیانی عمر کے بعد مردوں کے جسم میں جو کچھ ہوتا ہے، وہ خواتین کے جسم میں ہونے والی تبدیلیوں سے بالکل مختلف ہے۔ مینوپاز کے دوران، ایسٹروجن کی پیداوار اچانک کم ہو جاتی ہے، جبکہ مردوں میں ٹیسٹوسٹیرون کی کمی تدریجی ہوتی ہے، تقریباً 0.5 فیصد سالانہ۔
کچھ ڈاکٹروں کے لیے، ’مردانہ مینوپاز‘ کا تصور، جو آہستہ آہستہ کم ہوتے ٹیسٹوسٹیرون کی وجہ سے ہوتا ہے، زیادہ مبالغہ آمیز ہے۔ ڈاکٹر ایلون ماتسوموٹو، یونیورسٹی آف واشنگٹن کے پروفیسر، کہتے ہیں کہ جنسی علامات جیسے کم جنسی خواہش، خراب کارکردگی، اور عضو تناسل کی خرابی کا تعلق کم ٹیسٹوسٹیرون سے ہے۔ لیکن وہ مطالعات جو وہ دیکھ چکے ہیں، یہ ظاہر کرتے ہیں کہ دیگر علامات جیسے تھکن، ڈپریشن، اور موڈ کے مسائل لازمی طور پر کم ٹیسٹوسٹیرون سے جڑے نہیں ہیں۔
ڈاکٹر ماتسوموٹو کہتے ہیں، ”یہ سوچنا کہ یہ سب ٹیسٹوسٹیرون سے جڑا ہے، ذرا بچکانہ بات ہے۔“ وہ مزید بتاتے ہیں کہ زیادہ تر عمر رسیدہ مردوں میں کم ٹیسٹوسٹیرون موٹاپے اور ہائی کولیسٹرول جیسے دائمی مسائل کا ضمنی اثر ہوتا ہے۔ اگر آپ کا پیٹ زیادہ وزن کی وجہ سے آپ کی کمر کو تکلیف دے رہا ہو اور آپ کو سست کر رہا ہو، تو آپ کے چڑچڑے ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔
تو اگر آپ کی عمر بڑھ رہی ہو، آپ کے ٹیسٹوسٹیرون کی سطح کم ہو رہی ہو، اور آپ غیر معمولی طور پر موڈی یا چڑچڑے محسوس کر رہے ہوں تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟
اگر آپ کی ٹیسٹوسٹیرون کی سطح مستقل طور پر کم ہو اور آپ کئی علامات جیسے تھکن یا بے سکونی کا سامنا کر رہے ہوں، تو کچھ ڈاکٹر ہارمون تھراپی تجویز کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر مورگنٹیلر کہتے ہیں، ”کم ٹیسٹوسٹیرون ہماری زندگی کے معیار کو متاثر کرتا ہے۔“ وہ مزید کہتے ہیں، ”کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ یہ عمر بڑھنے کا ایک عام حصہ ہے۔ لیکن نظر کی کمزوری بھی عمر بڑھنے کا حصہ ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اسے ٹھیک نہ کریں۔“
رونالڈ سویردلوف، ایم ڈی، نیشنل انسٹیٹیوٹ آن ایجنگ کے ترجمان، اس بات سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ”مجھے معلوم نہیں کہ کم ٹیسٹوسٹیرون چڑچڑے بزرگ مردوں کا سبب بنتا ہے۔ لیکن کم ٹیسٹوسٹیرون والے افراد میں موڈ کی کمی دیکھی گئی ہے، اور کچھ شواہد موجود ہیں کہ علاج اس میں بہتری لا سکتا ہے۔“
لیکن ڈاکٹر اناوالٹ اور ماتسوموٹو کہتے ہیں کہ چاہے آپ اس بات پر یقین رکھتے ہوں کہ کم ٹیسٹوسٹیرون کی وجہ سے ’ایریٹیبل میل سنڈروم‘ ہوتا ہے یا نہیں، بہتر محسوس کرنے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ اپنی مجموعی صحت کو بہتر بنائیں۔
ڈاکٹر ماتسوموٹو کا کہنا ہے، ”میں نہیں سمجھتا کہ آپ کو ٹیسٹوسٹیرون کی سطح پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ بلکہ توجہ اس پر دیں کہ آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں۔ ان چیزوں پر توجہ دیں جن کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ آپ کے لیے اچھی ہیں، جیسے متوازن خوراک، ورزش، وزن کو قابو میں رکھنا، تمباکو نوشی سے پرہیز، اور زیادہ شراب نوشی نہ کرنا۔ اگرچہ ٹیسٹوسٹیرون میرا شعبہ ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ چیزیں لوگوں کو بہتر محسوس کرنے اور شاید کم چڑچڑا ہونے میں زیادہ موثر ہیں۔“