دو فلسطینی امریکی خاندانوں نے بائیڈن حکومت پر دہرا معیار اپنانے پر مقدمہ دائر کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے غزہ میں پھنسے ان کے امریکی رشتے داروں کو جنگ سے متاثرہ علاقے سے نکالنے کے لیے اتنی کوششیں نہیں کیں، جتنی دُہری شہریت کے حامل اسرائیلیوں کے لیے کی گئیں
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق انڈیاناپولس میں امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ میں بدھ کو دائر کیے گئے مقدمے میں امریکی حکومت پر الزام لگایا گیا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ جنگی علاقے میں امریکی شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے اور امریکی آئین کے تحت فلسطینی امریکیوں کے مساوی تحفظ سے انکار کر رہی ہے
مقدمے میں یہ استدعا کی گئی ہے کہ حکومت کو پابند کیا جائے کہ وہاں سے اپنے شہریوں کا انخلا بحفاظت طریقے سے کیا جائے
جنوبی اسرائیل میں سات اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد امریکی حکومت نے تل ابیب سے یورپ کے لیے چارٹر پروازوں کا اہتمام کیا تھا تاکہ امریکیوں کو اسرائیل سے نکلنے میں مدد مل سکے۔ یہ پروازیں ایسے وقت میں تھیں، جب کئی ایئرلائنز نے اپنی سروسز منسوخ کر دی تھیں
امریکہ کے محکمۂ خارجہ کا دعویٰ ہے کہ اس نے تقریباً تیرہ سو امریکی فلسطینیوں کو غزہ چھوڑنے اور اسرائیل کی جوابی بمباری سے بچنے میں مدد فراہم کی۔ اس سلسلے میں اسرائیل اور مصری حکام کے ساتھ پڑوسی مصر سے ان کے انخلا میں تعاون کیا گیا
لیکن امریکی حکومت پر مقدمہ کرنے والے خاندانوں کا مؤقف ہے کہ امریکہ نے غزہ میں پھنسے ہوئے تقریباً نو سو امریکی شہریوں، رہائشیوں اور خاندان کے افراد کو باہر نکالنے کے لیے پروازیں وقف کرنے یا دوسری صورت میں مدد فراہم کرنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے
ان کا کہنا ہے کہ یہ ان کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
یاسین الآغا نے، جن کا خاندان غزہ میں پھنسا ہوا ہے اور وہ مقدمے کو منظم کرنے میں مدد فراہم کر رہے ہیں، ایک انٹرویو میں کہا کہ امریکہ کی حکومت بہت کچھ کر سکتی ہے اور وہ فلسطینیوں کے لیے ایسا کچھ نہ کرنے کا انتخاب کر رہی ہے
محکمۂ خارجہ نے زیرِ التوا قانونی چارہ جوئی پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے مقدمے سے متعلق فوری طور پر کوئی ردِعمل نہیں آیا
واضح رہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں زمینی حملوں اور فضائی بمباری میں اب تک بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد سمیت انیس ہزار افراد شہید ہو چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے اندازے کے مطابق غزہ کی 85 فی صد آبادی بے گھر ہو چکی ہے
بائیڈن حکومت کے خلاف مقدمے میں دو مدعی ہیں، جس میں الآغا کے کزن براق الآغا اور ہاشم الآغا شامل ہیں۔ یہ دونوں امریکی شہری ہیں اور انہوں نے فلسطینی ساحلی علاقے میں انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہے
الآغا نے کہا کہ تین امریکی، جن کا مقدمے میں حوالہ دیا گیا ہے، انہیں غزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں دی گئی
واضح رہے کہ امریکہ کی طرف سے فہرست میں شامل وہ امریکی جو مصر کے زیرِ کنٹرول رفح کراسنگ سے غزہ سے نکلنے کے خواہش مند ہیں ان کی اسرائیل اور مصر دونوں سے منظوری ہونا ضروری ہے
عرب امریکن سول رائٹس لیگ کی ایک وکیل اور مدعیان کی نمائندگی کرنے والی ماریہ کاری کہتی ہیں کہ ان کی تنظیم نے تنازع کے پہلے مہینے میں دہری شہریت والے فلسطینیوں کی جانب سے تقریباً چالیس مقدمے دائر کیے ہیں
انہوں نے کہا ”ہم صرف بائیڈن انتظامیہ سے کچھ ایسا کرنے کا کہہ رہے ہیں جو انہوں نے پہلے ہی اس جنگ میں شہریوں کے ایک طبقے کے لیے کیا تھا“
دوسری جانب صدر بائیڈن کے اسرائیل کی ’’اندھا دھند بمباری‘‘ کے ریمارکس پر وائٹ ہاؤس کی وضاحتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے
بعض حلقوں میں اس تاثر کا اظہار کیا جارہا ہے کہ وائٹ ہاؤس صدر جو بائیڈن کے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے بارے میں ’سخت بیان‘ سے پیچھے ہٹ رہا ہے، جس نے انہوں نے کہا تھا کہ غزہ میں اسرائیل کی ’’اندھا دھند بمباری‘‘ کے باعث اسرائیل بین الاقوامی سطح پر حمایت کھو رہا ہے
امریکہ کی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اسٹریٹیجک کمیونیکیشن کوآرڈینیٹر جان کربی کا اس بارے میں کہنا ہے ’’صدر اس تشویش کا اظہار کر رہے تھے جو ہمیں اس فوجی آپریشن کے حوالے سے لاحق رہی ہے، جس کا تعلق شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کو کم کرنے اور ممکنہ حد تک درست اور محتاط رہنے کی ضرورت سے ہے۔‘‘
صحافیوں نے کربی سے بائیڈن کے اس بیان کی وضاحت کے لیے بار بار سوال کیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اسرائیل اندھا دھند بمباری کی وجہ سے بین الاقوامی حمایت کھو رہا ہے
بین الاقوامی انسانی قانون ایسے بلا امتیاز حملوں کی ممانعت کرتا ہے، جن میں فوجی مقاصد اور شہریوں یا املاک کے درمیان فرق نہیں کیا جاتا۔
کربی نے اگرچہ اس بات کی تصدیق کی کہ صدر امریکی خارجہ پالیسی کی بات کرتے ہیں تاہم انہوں نے اس سوال کے جواب میں، اس بارے میں کوئی تصدیق نہیں کی کہ آیا بائیڈن کا یہ بیان انتظامیہ کا اس بارے میں باضابطہ اندازہ ہے کہ اسرائیل اپنی فوجی کارروائیاں کس انداز میں کر رہا ہے
کربی کا یوں گریز کرنا انتظامیہ کی طرف سے ملنے والے ملے جلے پیغامات میں اضافہ تھا، جن میں محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے منگل کے روز کہا تھا کہ ’’اندھا دھند’‘ ہمارا اندازہ نہیں ہے
انتظامیہ نے اسرائیل کو فوجی اور سفارتی مدد فراہم کی ہے، جس میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد کے خلاف ویٹو بھی شامل ہے
جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے ایلیٹ اسکول آف انٹرنیشنل افیئرز میں خلیج اور جزیرہ نما عرب امور کے لئے کویت سے پروفیسر گورڈن گرے نے کہا کہ بائیڈن کی سرزنش غزہ میں اموات کی بلند شرح پر بڑھتی ہوئی امریکی تشویش کی واضح علامت ہے۔
امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے وال اسٹریٹ جرنل کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ اسرائیل نے پچھلے کئی ہفتوں کے دوران انتہائی شدید فوجی آپریشنز کیے ہیں تاہم ان کے علاوہ بھی کئی اور طریقے موجود ہیں، جو وہ حماس کو ہدف بنانے کے لئے اختیار کر سکتا ہے
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جنگ بندی کی قرارداد کے حق میں بھاری اکثریت سے منگل کے روز ہونے والے ووٹ کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا کہ ’’انتہائی بین الاقوامی دباؤ کے باوجود‘‘ اسرائیل کو کوئی چیز نہیں روک سکے گی
اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن نے کہا ہے کہ غزہ میں فوجی آپریشن ’’بین الاقوامی حمایت کے ساتھ یا اس کے بغیر‘‘ بھی جاری رہے گا
اس صورتحال میں بائیڈن انتظامیہ کو بھی بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے۔ اس میں بائیڈن کی اپنی ڈیموکریٹک پارٹی بھی شامل ہے، جس میں شہری ہلاکتوں کو محدود کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کے مطالبات سامنے آ رہے ہیں کہ اسرائیل کو بھیجے گئے امریکی ہتھیار روایتی ہتھیاروں کی منتقلی کی پالیسی کے مطابق استعمال کئے جائیں ۔ پالیسی کے تحت یہ ضروری ہے کہ ہتھیاروں کی فروخت میں انسانی حقوق کے تحفظ اور بین الاقوامی انسانی قانون کی پابندی سمیت اقدار کو بھی مدنظر رکھا جائے
بائیڈن انتظامیہ نے کانگریس کی جانب سے فوجی سازو سامان کی غیر ملکی فروخت کے لیے جائزے کی ضرورت کو نظرانداز کیا اور اسرائیل کے لیے ٹینک گولہ بارود کے تقریباً چودہ ہزار راؤنڈ کی فروخت کی منظوری دی
قانون سازوں کی منظوری کے بغیر ہتھیاروں کی ترسیل شاذ ہی کی جاتی ہے لیکن یہ ایسی بات نہیں، جس کی پہلے کوئی مثال نہ ہو۔ جان کربی نے کہا کہ ایسا ’’معمول کے با ضابطہ مشاورتی عمل کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کیا گیا۔‘‘
امریکی صدر جو بائیڈن نے منگل کو ایک آف کیمرہ ایونٹ کے دوران ڈیموکریٹک پارٹی کے عطیہ دہندگان سے خطاب کرتے ہوئے نیتن یاہو کے اتحاد میں سخت گیر مؤقف رکھنے والوں کا ذکر کیا اور کہا ”موجودہ اسرائیلی حکومت ملک کی تاریخ میں سب سے زیادہ قدامت پسند حکومت ہے اوراسے تبدیل ہونا چاہئیے“
وائٹ ہاؤس کی جانب سے اس تقریب کی تفصیلات کے مطابق صدر بائیڈن نے کہا کہ اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گووئیر اور دیگر سخت گیر مؤقف کے حامل صرف ’انتقام‘ چاہتے ہیں اور وہ آزاد فلسطینی ریاست کے لیے، دو ریاستی حل کے لیے کام نہیں کریں گے۔