دنیا کے سب سے کم عمر ’سیریل کِلر‘ امرجیت ساڈا کی کہانی

ویب ڈیسک

ستمبر 2017ع کو جنوبی ہند کے سپر اسٹار مہیش بابو کی ایک فلم ’اسپائڈر‘ تیلگو، تمل، عربی اور ملیالم زبان میں ریلیز ہوئی تھی، جس میں ایک بچے کی کہانی پیش کی گئی تھی۔ یہ بچہ ایک قبرستان میں پیدا ہوتا ہے اور لوگوں کے رونے کی آواز اسے تسکین پہنچاتی ہے، یہاں تک کہ بڑا ہو کر وہ انتہائی خطرناک اور سفاک سیریل کلر بنتا ہے

دنیا میں کئی سیریل کلرز ہیں جن کے اقدامات کے پیچھے ہمیشہ نفسیاتی وجوہات سامنے آتی ہیں، سیریل کلرز پر کئی فلمیں بھی بن چکی ہیں لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں ایک ایسا سیریل کلر بھی ہے، جس کو دنیا کا سب سے کم عمر سیریل کلر سمجھا جاتا ہے۔

جنوبی ہند سے ہزاروں میل دور شمالی ہندوستان کی ریاست بہار میں ایسی ہی حقیقی کہانی ایک بچے کی بھی ہے، جسے انڈین میڈیا نے دنیا کا سب سے کمسن سیریل کلر قرار دیا

امرجیت ساڈا نامی یہ بچہ سنہ 1998 اور 99 میں بہار کے ضلع بیگو سرائے کے مسہاہر گاؤں کے ایک غریب خاندان میں پیدا ہوا

رپورٹ کے مطابق امر جیت ساڈا کے والدین انتہائی غریب تھے اور دو وقت کی روٹی کے لیے بھی انہیں کافی تگ ودو کرنا پڑتی تھی۔ غربت کے باعث امر بچپن سے ہی گھر سے باہر زیادہ وقت گزارتا تھا۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق امرجیت ساڈا نے آٹھ سال کی عمر میں ہی تین قتل کیے تھے۔ اے بی پی ہندی نیوز چینل کے مطابق ”صرف آٹھ سال کی عمر میں تین تین بچوں کا قتل کرنے کی وجہ سے ماہرِ نفسیات نے امر جیت ساڈا کو ’سیڈسٹ‘ قرار دے دیا تھا۔ جس کا مطلب ایسا شخص ہوتا ہے، جسے دوسرے لوگوں کو پریشانی کے عالم میں دیکھ کر خوشی اور مسرت حاصل ہوتی ہو“

انگریزی اخبار ڈی این اے میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2006 میں امرجیت نے پہلا قتل کیا تھا، لیکن اسے چھپا لیا گیا

گاؤں والوں کے مطابق، وہ دوسرے بچوں سے دور رہتا تھا اور درختوں پر چڑھنا اور جنگل جھاڑیوں میں گھومنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا، لیکن اس کی ایذا رسانی اور اذیت پسندی کی فطرت سے لوگ واقف نہیں تھے

اس کی زندگی میں بچپن کو سلسلہ وار قاتل کے روپ میں بدلنے کا واقعہ اس وقت رونما ہوا جب 2007 اس کی خالہ ملازمت کے لیے ان کے گھر رہنے آئی، جو ملازمت پر جاتے وقت اپنی بیٹی کو بہن کے گھر چھوڑ جاتی تھی۔

امرجیت نے 2006 میں اپنی زندگی کا جو پہلا قتل کیا، وہ ان کی اپنی اسی چھ سالہ خالہ زاد بہن کا تھا

یہ ایک ایسا وحشیانہ قتل تھا، جس کی کسی بچے سے توقع نہیں کی جا سکتی۔ اے بی پی نیوز کے مطابق ”جب امرجیت اور اس کی کزن گھر میں اکیلے تھے تو امرجیت نے اپنی کزن کو نوچنا شروع کر دیا اور جب اس نے مزاحمت کی تو امرجیت نے اسے زور زور سے تھپڑ مارنا شروع کر دیے۔ جب بچی روئی تو اس کو یہ کھیل اچھا لگا اور اس نے یہ کھیل جاری رکھا اور اسی دوران بچی کا گلا دبا کر اس کی سانسیں روک کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس سے بھی اسے سکون حاصل نہ ہوا تو وہ اسے گھسیٹتا ہوا قریبی جنگل میں لے گیا اور اس کے سر پر پتھر مارتا رہا اور پھر اسے وہیں دفن کر کے گھر واپس آگیا“

واپسی پر جب لڑکی کے بارے میں پوچھا گیا کہ وہ کہاں ہے تو امرجیت نے بتایا کہ اس نے اسے مار دیا ہے۔

امرجیت کے والد نے اپنے بیٹے کو جسمانی طور پر سزا تو دی لیکن پولیس کو اس کی اطلاع نہیں دی، جب کہ مقتول بچی کی ماں کو بھی جھوٹی کہانی گھڑ کر سنا دی اور اسے گھر روانہ کر دیا

یوں امرجیت کے والدین نے اس کے جرم کے اعتراف کے باوجود بھی اسے بچا لیا اور گھر کا معاملہ بتا کر اس کی پردہ پوشی کرتے رہے۔

لیکن یہ پردہ پوشی ایک اور قتل کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ اگلا شکار اس کی اپنی بہن ہی بنی۔ سردی کا موسم تھا، امرجیت کے والدین بے خبر سو رہے تھے۔ اس کی نظر ساتھ لیٹی اپنی آٹھ ماہ کی بہن پر گئی۔

بتایا جاتا ہے کہ وہ مسکراتے ہوئے اپنی بہن کے پاس پہنچا اور اس وقت تک اس کا گلا دباتا رہا، جب تک اس کی جان نہ نکل گئی۔ ماں نے بچی کو جب دودھ پلانے کے لیے گود میں لیا تو معلوم ہوا کہ اس کی بیٹی بے حس و حرکت ہے۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ وہ اس دنیا میں نہیں رہی تو پاس موجود امرجیت سے پوچھا کہ تم نے یہ کیا کیا؟ تو اس نے مسکراتے ہوئے اپنا جرم قبول کر لیا!

ماں نے اسے پیٹتے ہوئے کہا کہ تونے یہ کیوں کیا تو امرجیت نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ’بس ایسے ہی۔‘

امرجیت پر نہ تو اپنی ماں کے دُکھ کا کوئی اثر تھا اور نہ ہی اسے اپنی بہن کی موت کا کوئی ملال۔۔

اس معاملے کو بھی گھر کا معاملہ سمجھ کر دبا دیا گيا اور اس بار بھی اس کے والدین نے پولیس کو کچھ نہیں بتایا

لڑکے کے چچا کے مطابق خاندان کے کچھ افراد کو امرجیت کے ان جرائم کا پتہ تھا لیکن خاندانی معاملہ سمجھ کر کوئی بولتا نہیں تھا۔

امر کے جرائم پر پردہ ڈالنے سے سیریل کلنگ کی نفسیاتی خواہش بڑھ گئی

لیکن گاؤں میں اس لڑکے کے بارے میں چہ مہ گوئیاں ہونے لگیں۔۔ وہ اب بھی دوسرے بچوں سے دور ہی رہتا تھا لیکن اس کی حرکتوں پر لوگوں کی نظریں رہنے لگیں۔

2007 میں مسہاہر گاؤں میں اس وقت ہنگامہ برپا ہو گيا، جب ایک چھ ماہ کی بچی خوشبو غائب ہو گئی۔ یہ بچی امرجیت کے پڑوس میں رہتی تھی۔

خوشبو کی والدہ گاؤں میں ایک فوتگی پر گئی تھیں اور جب وہ آخری رسومات کے بعد واپس آئیں تو ان کی بچی غائب تھی۔ لوگوں کا شک امرجیت کی طرف گیا اور جب خوشبو کے بارے میں امرجیت سے پوچھا گیا تو اس نے اس کا گلا دبانے اور اس کی جان لینے کا اعتراف کر لیا

اس بار بالآخر قتل کی رپورٹ پولیس کو کر دی گئی۔ امرجیت نے پوچھ گچھ کے دوران پولیس کو اس قتل کی تفصیل بتائی۔ اس نے بتایا ”سب سے پہلے میں نے اس کا گلا دبا کر اس کو مارا ڈالا، پھر اینٹوں سے مار مار کر اس کے چہرے کو مسخ کیا۔۔ اور پھر اسے مٹی میں دفن کر دیا“

تفتیش کے دوران لوگوں کے سوالوں سے تنگ آ کر وہ گاؤں والوں کو سیدھا اس مقام پر لے گیا، جہاں اس نے چھ ماہ کی خوشبو کو گڑھا کھود کر دفن کر دیا تھا۔

لاش کی برآمدگی اور امرجیت کے اعترافی بیان کے بعد جب پولیس نے اس کم عمر قاتل کو اپنی حراست میں لیا تو اس کی عمر محض آٹھ سال تھی!

بتایا جاتا ہے کہ حراست میں لیے جانے کے وقت وہ پُرسکون تھا اور اس نے جو کچھ بھی کیا تھا، اس کی وجہ سے نہ اس کے چہرے پر کوئی تاسف اور بچھتاوا تھا اور نہ ہی کوئی خوف نظر آ رہا تھا۔ اس کی اس بے حسی پر گاؤں والوں کے ساتھ ساتھ پولیس اہلکار بھی دنگ رہ گئے

انسپکٹر شترو دھن کمار کے مطابق ”تینوں بچوں کا قتل ایک ہی طریقے سے کیا گیا، جب کہ گرفتاری کے وقت سیریل کلر امر جیت خوفزدہ نہیں تھا بلکہ مسکرا رہا تھا۔“

جب پولیس امرجیت سے قتل کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہی تھی، تو وہ اس دوران وہ بسکٹ دیے جانے کی شرط پر مزید گفتگو کرنے کے لیے تیار ہوا

اے بی پی نیوز کے مطابق اس نے کہا ”بسکٹ کھلاؤ پھر بتاتا ہوں“ اور بسکٹ دیے جانے پر امرجیت انہیں وہاں لے گیا، جہاں اس نے چھ ماہ کی خوشبو کو دفن کیا تھا

چونکہ قتل کے وقت وہ نابالغ تھا، اس لیے انڈیا کے قانون کے تحت وہ سزا سے بچ گیا، لیکن اسے بچوں کے اصلاحی گھر ’جوینائل ہوم‘ بھیج دیا گیا، جہاں اسے دوسرے بچوں سے دور تنہائی میں رکھا گیا

امرجیت کو جس وقت گرفتار کیا گیا تو وہ آٹھ سال کا تھا اور بھارتی قانون کے مطابق بچے کو جیل نہیں بھیجا جا سکتا، جس کے باعث اسے مونگیر قصبے میں ایک گھر میں رکھا گیا تھا جب کہ اس دوران اس کے نفسیاتی ٹیسٹ بھی کرائے گئے جس کے بعد یہ خیال کیا گیا کہ وہ ’کنڈکٹ ڈس آرڈر‘ کا شکار ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اس کا ذہنی علاج کرنے والے ماہر نفسیات نے کہا کہ امرجیت دوسروں کو نقصان پہنچا کر خوشی حاصل کرتا ہے۔

ڈی این اے کے مطابق حکام کی تحویل میں امرجیت کے چہرے پر ایک خوفناک مسکراہٹ رہتی تھی، جو اس کے پریشان دماغ کی گہرائیوں اور تاریکیوں کو چھپاتی تھی۔ وہ کچھ بولنے سے گریز کرتا رہا، جبکہ تفتیش کاروں کو اس نے اپنے بارے میں ایک الجھن میں ڈال رکھا تھا۔

ایک ماہر نفسیات نے اس کے مسکراتے چہرے کے پیچھے چھپی سفاکی کو بیان کرتے ہوئے کہا ”امرجیت ایک ’سیڈسٹ‘ (ایذا رسانی کو پسند کرنے والا) ہے، جو دوسروں کو چوٹ پہنچانے سے خوشی حاصل کرتا ہے“

میڈیا رپورٹس کے مطابق اسے سنہ 2016 میں اٹھارہ سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل سولہ سال کی عمر میں ہی رہا کر دیا گیا۔ اسے ایک نیا نام اور ایک نئی شناخت دی گئی

اب اس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں ہے، کیسا نظر آتا ہے اور اس کا نام کیا ہے۔۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ اس وقت وہ چوبیس یا پچیس سال کا جوان ہے اور آزاد گھوم رہا ہے۔۔ لیکن اس کے گرد اب بھی بہت سے سوال ہیں کہ کیا اس کی کوئی اصلاح ہوئی یا پھر وہ اپنی اسی جبلت پر قائم ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close