غزہ میں تاریخ کی بدترین اسرائیلی جارحیت نے بے شمار امریکی ووٹروں کو متاثر کیا ہے، جس کے اثرات صدر بائیڈن، جنہوں نے خود کو اسرائیل کی حمایت کے لیے وقف کر رکھا ہے، کی اپنے عہدے کی دوسری مدت کے لیے انتخابی مہم پر بھی مرتب ہو رہے ہیں
امریکی مظاہرین نے اسرائیل کی بدترین جارحیت میں بائیڈن کی حمایت کے خلاف اپنی برہمی کا اظہار، ایسے حالیہ انتخابی اجتماعات میں خلل ڈال کر کیا، جن میں بائیڈن شریک تھے
رواں ہفتے مظاہرین نے مزدور یونین کے ایک پروگرام کو، جہاں بائیڈن تقریر کر رہے تھے، مختصر وقت کے لیے روک دیا۔ اسی طرح ورجینیا کے شہر مناسس میں منگل کو ایک ریلی کے دوران 14 مظاہرین نے بائیڈن کی تقریر کے دوران مخالفانہ نعرے لگائے
اگرچہ بائیڈن نے یہ کہہ کر خود کو اور سامعین کو تسلی دینے کی کوشش کی کہ، ”یہ کچھ دیر تک جاری رہے گا۔ انہوں نے یہ منصوبہ بندی کی ہے۔“ لیکن ان واقعات نے صدر کو واضح طور پر مایوس کیا ہے۔
اس احتجاج کا اہتمام ’ڈائی ان فار ہیومینٹی‘ نے کیا تھا جو ایک سات سو رکنی مستحکم احتجاجی گروپ ہے، جو بائیڈن کی تقریبات میں، یو ایس کیپیٹل میں، انتظامیہ کے اراکین کے گھروں کے باہر ،اسرائیلی سفارت خانے کے باہر اور واشنگٹن میں تقریباً ایک سو مظاہرے کر چکا ہے
گروپ کی مرکزی منتظم ہزمائی برمیڈا کہتی ہیں ”لوگوں کی اکثریت کے نزدیک یہ درست نہیں ہے کہ امریکیوں کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والے ڈالر بیرون ملک سفاکی اور ظلم کے لیے استعمال کیے جائیں۔“
وہ ان مظاہرین میں شامل تھیں، جنہیں منگل کے روز ہونے والی تقریب سے باہر نکالا گیا تھا۔
برمیڈا کا کہنا ہے ”ہم امریکہ میں بائیڈن کو مکمل طور پر مسترد کرنے والی تبدیلی کی لہر دیکھ رہے ہیں ۔ جو ہم کہہ رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ جب آپ عرب امریکی کمیونٹی کی آوازوں کو مسلسل نظر انداز کرتے رہیں گے جو غزہ میں مظالم اور ناانصافی بند کرنے کے لیے کہہ رہی ہے تو آپ کو امریکی کمیونٹی کا ووٹ نہیں ملے گا“
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خارجہ پالیسی شاذ و نادر ہی انتخابات پر اثر انداز ہوتی ہے، لیکن جب مقابلہ سخت ہو تو اس سے فرق پڑ سکتا ہے۔ جیسا کہ نیو ہیمپشائر کے ایک ووٹر آئزک گیئر کے لیے، جس نے ابھی تک یہ تعین نہیں کیا کہ وہ کس پارٹی کو ووٹ دے گا اور جس نے منگل کے پرائمری کی ووٹنگ میں حصہ لیا تھا۔ یہ پرائمری جو بائیڈن اور ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی اپنی پارٹیوں میں جیت لیا تھا۔
آئزک گیئر کہتے ”اس انتخابی موسم میں ووٹ دینے کے لیے میرے نزدیک سب سے اہم چیز خارجہ پالیسی ہے۔ میرے لیے یہ واقعی اہم ہے کہ ہم کسی بھی غیر ملکی جنگ سے دور رہیں اور اپنے فوجی اخراجات کو کم رکھیں، اور اپنے فوجیوں کو ملک میں واپس لائیں یا انہیں گھر میں رکھیں۔“
حسن عبدالسلام ایک پروفیسر ہیں اور میری لینڈ کے ایک شہر منیاپلس میں رہتے ہیں۔ انہوں نے مسلمان ووٹروں کی ’بائیڈن چھوڑو تحریک‘ کی بنیاد رکھی ہے۔ اس تحریک کی توجہ ان ریاستوں پر مرکوز ہے، جنہیں ’سوئنگ اسٹیٹس‘ کہا جاتا ہے یعنی ایسی ریاستیں، جن کا جھکاؤ کسی بھی پارٹی کی جانب جا سکتا ہے۔ وہ خود کینیڈا کے شہری ہیں
ان کا کہنا ہے ”ٹرمپ نے ہمارے دوستوں اور ساتھیوں اور خاندان کو امریکہ میں داخل ہونے سے روک دیا تھا، لیکن بائیڈن نے انہیں مار ڈالا ہے۔۔ اور یہ کہ کسی بھی ریپبلکن حکومت کے تحت چار سال کا غزہ کے ایک دن سے موازنہ نہیں ہو سکتا۔ جس کی وجہ سے ہماری برادریوں کے اندر یہ سوچ ابھری ہے کہ ہمیں قربانی دینی ہوگی۔“
موجودہ صورتحال کو دیکھ کر سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ بائیڈن ایک مشکل پوزیشن میں ہیں۔
امریکن انٹرپرائز انسٹیٹیوٹ کے ایک سینئر فیلو ایمریٹس نارم اورنسٹین کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ غزہ کی صورت حال بائیڈن کے لیے ایک سیاسی مسئلہ ہے۔
اگر آپ پیچھے ہٹتے ہیں اور معروضی طور پر دیکھتے ہیں تو بائیڈن نے اس مسئلے کو بخوبی سنبھالا ہے جیسا کہ کوئی بھی صدر کر سکتا ہے۔ وہ جلد ہی سمجھ گئے تھے کہ نیتن یاہو کو گلے لگا کر وہ غزہ میں کچھ بدترین ہونے سے روک سکتے ہیں۔
تاہم اس اقدام نے انہیں بہت سے ووٹروں سے دور کر دیا، نہ صرف عرب امریکی ووٹرز سے بلکہ نوجوان ترقی پسندوں سےبھی۔ یہ ان کے لیے بدتر ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر وہ نیتن یاہو سے دور ہوتے ہیں تو ان کے کچھ مضبوط حامی اور اسرائیل کے حامی ناخوش ہو سکتے ہیں۔
دوسری جانب دسمبر میں امریکی ٹی وی ’این بی سی‘ کے ایک پول کے مطابق صدر جو بائیڈن کی مقبولیت انتہائی سکڑ کر چالیس فیصد رہ گئی ہے۔ بائیڈن کی مقبولیت کی حالت اس قدر پتلی حالت ہو جانے کی اہم وجہ اسرائیلی جارحیت کے حوالے سے جو ان کا اسرائیل نواز موقف اور پالیسی ہے۔ امریکی ووٹرز کی 56 فیصد تعداد اور ڈیمو کریٹس کی 41 فیصد تعداد اسرائیل حماس ’جنگ‘ کو ڈیل کرنے کے بائیڈن انداز کو پسند نہیں کر رہی ہے۔
ڈیموکریٹ ووٹر کی نصف تعداد کہہ رہی ہے کہ غزہ پر اسرائیلی فوجی حملہ بلا جواز ہے، اس لیے امریکہ کو اسرائیل کی حمایت سے رجوع کر لینا چاہیے۔ ڈیموکریٹس کے 70 فیصد نوجوان ووٹرز نہ صرف اسرائیل کی امریکی حمایت کے خلاف ہیں، بلکہ مستقل جنگ بندی کی امریکی مخالفت کو بھی سخت ناپسند کرتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق نوجوان ڈیموکریٹس یہ تو نہیں کریں گے کہ اپنے ووٹ ٹرمپ کے حق میں استعمال کر دیں، لیکن ان کا ووٹنگ کے روز گھروں میں بیٹھے رہنا بائیڈن کا دوسری مدت کے لیے صدر بننا مشکل بنا سکتا ہے۔ دوسری جانب ٹرمپ اپنے مخالف امیدوار جوبائیڈن پر جاری اس تنقید کو استعمال کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہے۔ جو بائیڈن انتظامیہ اس میں بھی ناکام رہی ہے کہ حماس سے رہائی پانے والے یرغمالیوں میں شامل امریکی پہلے گروپ میں رہائی پا لیں گے۔
ڈیموکریٹس کے اندر جوبائیڈن کی پیدا ہونے والی مخالفت اب امریکی کانگریس میں بھی ظاہر ہو رہی ہے۔ جہاں ایوان نمائندگان کے 24 ڈیموکریٹ ارکان نے دسمبر میں جو بائیڈن سے مطالبہ کیا کہ غزہ میں فوری اور مکمل جنگ بندی کے لیے زور لگائیں۔
دوسری جانب صدر جو بائیڈن نے خود کو حماس کے خاتمے کے لیے اسرائیلی حمایت کا پابند بنا رکھا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ حماس کا یہ خاتمہ تیزی سے ہو، فیصلہ کن ہو اور زبردست ہو۔ اسرائیل نے فوجی ایکشن جس طرح سے شروع کیا ہے وہ شکوک و شبہات کی زد میں آ چکا ہے۔ جب کہ حالت یہ ہے کہ خود اسرائیل میں بھی اب موجودہ نیتن یاہو کی حکومت کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ اس صورت حال میں بائیڈن کے لیے مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔