7 اکتوبر سے شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت نے غزہ میں لاکھوں فلسطینیوں کو متاثر کیا ہے، تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ کشیدہ صورتحال میں بچوں کی بڑی تعداد ناقابلِ برداشت تکالیف سہہ رہی ہے، چاروں طرف تباہی دیکھ کر فلسطینی بچے مختلف انداز میں اپنا تجربہ شئیر کر رہے ہیں، ایسے میں ایک ننھی بچی کی وڈیو سامنے آئی ہے، جو ایک ایسی تصویر کی مانند ہے، جس میں فلسطینی بچوں کا درد سانسیں لیتا ہوا محسوس ہوتا ہے
یہ ویڈیو مختلف خبر رساں اداروں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شئیر کی، جن میں ٹی آر ٹی ورلڈ، الجزیرہ وغیرہ شامل ہیں، بچی کی گفتگو سے ایسا لگتا ہے کہ وہ اس وقت رفع شہر میں ہے، جہاں لاکھوں بے گھر شہری خوف میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔
وڈیو میں ننھی بچی کو کہتے سنا جا سکتا ہے کہ کس طرح غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری نے اسے ’برباد‘ کر دیا اور اس کے پاس واپس جانے کے لیے کچھ نہیں بچا۔
جب کسی نے بچی سے جنگ کے بارے میں پوچھا تو بچی نے کہا ”یہ بہت بری ہے، جنگ کی شروعات سے میرا چہرہ بھی بدصورت ہوگیا ہے۔“
بچی اپنی بات مکمل کرنے کے دوران اپنے ہاتھ کے اشارے سے بھی کہتی ہے ”جنگ سے پہلے میں خوبصورت تھی، میرا چہرہ بھرا بھرا تھا، میری زندگی بہتر تھی لیکن اب تباہی اور مردہ لاشوں کی وجہ سے ہم سب بدصورت ہو گئے ہیں، جنگ نے ہمیں برباد کر دیا ہے، میں اس طرح نہیں دِکھتی تھی، میں خوبصورت تھی، لیکن جنگ نے ہمیں برا بنا دیا ہے۔“
بچی نے کہا ”جب ہم غزہ سے باہر نکل گئے تب بھی حالات بہتر نہیں ہوئے، میں وہاں واپس نہیں جانا چاہتی، وہاں نہ بجلی ہے، نہ خوراک، نہ بنیادی ضروریات۔۔ میں وہاں کیوں جاؤں؟ میرے والد کو بھی اسرائیلی فورسز نے گرفتار کرلیا ہے۔“
دوسری جانب اقوامِ متحدہ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ غزہ میں انسانی صورتِ حال ماؤں اور بچوں کے لیے ایک ’خوفناک خواب‘ ہے، جہاں ڈاکٹر چھوٹے اور بیمار نومولود بچوں، مردہ پیدائش اور خواتین کو مناسب بے ہوشی کے بغیر سی سیکشن کروانے پر مجبور ہونے کی اطلاعات دے رہے ہیں۔
فلسطین کی ریاست کے لیے اقوامِ متحدہ کے آبادی فنڈ (یو این ایف پی اے) کے نمائندہ ڈومینک ایلن نے یروشلم سے ایک وڈیو نیوز کانفرنس میں کہا، ”میں ذاتی طور پر اس ہفتے غزہ کی دس لاکھ خواتین اور لڑکیوں کے لیے خوفزدہ ہو کر غزہ چھوڑ رہا ہوں… اور خاص طور پر ان 180 خواتین کے لیے جو بچوں کو جنم دے رہی ہیں۔“
غزہ کے شمال میں جہاں خاص طور پر بہت زیادہ ضرورت ہے، بدستور زچگی کی خدمات فراہم کرنے والے ہسپتالوں کا دورہ کرنے کے بعد ایلن نے کہا، ”ڈاکٹر رپورٹ کر رہے ہیں کہ وہ اب عام (نارمل) سائز کے بچے نہیں دیکھ رہے۔۔ بلکہ وہ جو کچھ دیکھتے ہیں، افسوس ہے کہ وہ زیادہ مردہ پیدا ہونے والے بچے ہیں۔۔۔ اور زیادہ نوزائیدہ اموات ہیں جن میں غذائی قلت، پانی کی کمی اور پیچیدگیوں کی وجوہات شامل ہیں۔“
پیچیدہ ڈیلیوری کی تعداد اسرائیل کی جارحیت شروع ہونے سے پہلے کی نسبت تقریباً دوگنی ہے — مائیں تناؤ زدہ، خوف زدہ، غذائی قلت کا شکار اور تھکن سے چور ہیں — اور نگہداشت کرنے والوں کے پاس اکثر ضروری سامان کی کمی ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا ”ہمارے پاس سیزرین سیکشنز کے لیے بے ہوشی کی دوا کی ناکافی دستیابی کی اطلاعات ہیں جو پھر سے ناقابلِ تصور ہے۔“
انہوں کا مزید کہنا تھا ”ان ماؤں کو اپنے بچوں کے گرد بازو لپیٹنا چاہیے۔ ان بچوں کو باڈی بیگ میں نہیں لپیٹنا چاہیے۔“
اسرائیلی مظالم واضح کرتے ہیں کہ وہ فلسطینیوں کی نسل کشی کے ہدف پر عمل پیرا ہے۔ اس صورتحال میں ایلن کا کہنا ہے ”اسرائیلی حکام نے یو این ایف پی اے کی کچھ سامان کی ترسیل کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا مثلاً دائیوں کے لیے کٹس یا ٹارچ لائٹس اور سولر پینلز جیسے سامان کو ہٹا دیا تھا۔“
انہوں نے کہا، ”یہ ایک خوفناک خواب ہے جو انسانی بحران سے کہیں بڑھ کر ہے۔ یہ انسانیت کا بحران ہے … جو تباہ کن سے آگے ہے۔“
غزہ سے گذرتے ہوئے انہوں نے جو کچھ دیکھا تو وہ کہنے لگے، ”واقعی میرا دل ٹوٹ گیا۔“
ایلن نے کہا کہ ہر راہ گیر یا بات کرنے والا بے چین، کمزور، بھوکا اور زندہ رہنے کی روزانہ کی جدوجہد سے تھک کر چور تھا۔
انہوں نے کہا کہ ایک فوجی چوکی پر انہوں نے ایک لڑکے کو دیکھا جو تقریباً پانچ سال کا لگ رہا تھا اور اپنے ہاتھ اوپر اٹھائے چل رہا تھا، وہ واضح طور پر خوفزدہ تھا جبکہ اس کی تھوڑی بڑی بہن سفید پرچم پکڑے پیچھے پیچھے چل رہی تھی۔۔
واضح رہے کہ غزہ میں اسرائیل کی غیر انسانی جارحیت سے اب تک مجموعی طور پر کم از کم 31553 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ وزارت صحت کا کہنا ہے ان ہلاک ہونے والوں میں دوتہائی تعداد فلسطینیوں بچوں اور عورتوں کی ہے۔ مزید برآں، کم از کم 7,000 لوگ لاپتہ ہیں، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پوری پٹی میں اپنے گھروں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
وزارت کی طرف سے جاری کردہ تازہ اعداد و شمار میں اب تک کے زخمیوں کی تعداد 73546 بتائی گئی ہے۔ تاہم یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ ان میں سے کتنے زخمی علاج کی سہولت میسر ہو سکی ہے۔ کیونکہ غزہ میں ہسپتال کی بڑی تعداد بمباری اور حملوں سے تباہ کی جا چکی ہے ۔ جبکہ باقی تھوڑے بہت بچ جانے والوں میں علاج کی سہولیات ناکہ بندی کے باعث ختم ہو چکی ہیں اور تقریباً سبھی ہسپتال ناکارہ ہو چکے ہیں۔
گزشتہ کچھ گھنٹوں کے دوران غزہ کی پٹی کے متعدد علاقوں کو نشانہ بنانے والے اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم سو کے لگ بھگ شہری شہید اور متعدد زخمی ہوئے، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں۔
فلسطین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی WAFA نے اطلاع دی ہے کہ اسرائیلی جنگی طیاروں نے غزہ شہر میں الشفاء میڈیکل کمپلیکس کے قریب بے گھر ہونے والی سات منزلہ رہائشی عمارت پر متعدد میزائلوں سے شیلنگ کی، جس کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔
مزید برآں، اسرائیلی قابض توپ خانے نے وسطی غزہ میں نصیرات کیمپ میں دو مکانات کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں طاتبی خاندان سے تعلق رکھنے والے کم از کم 36 افراد شہید ہو گئے۔
اس وقت فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کے لیے عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ چل رہا ہے، اسرائیل 7 اکتوبر سے غزہ پر تباہ کن جنگ چھیڑ رہا ہے۔
اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں غزہ کی پٹی سے تقریباً 20 لاکھ افراد کو زبردستی نقل مکانی کرنا پڑی ہے، جس میں بے گھر ہونے والوں کی اکثریت مصر کی سرحد کے قریب گنجان آباد جنوبی شہر رفح میں جانے پر مجبور ہوئی ہے – جو کہ فلسطین کا سب سے بڑا شہر بن گیا ہے۔ 1948 کے نکبہ کے بعد سے بڑے پیمانے پر خروج!