”ریاست چھینی ہوئی زندگیاں لوٹا دے۔“ سمی بلوچ کا انصاف کے حصول تک مزاحمت جاری رکھنے کا عزم

ویب ڈیسک

سمی دین بلوچ کے بچپن اور نوجوانی کے خوبصورت سال جبری طور پر لاپتہ کیے گئے والد کی تلاش میں کہیں کھو گئے۔ وہ اس وقت صرف دس برس کی تھیں، جب انہیں 2009ء میں پہلی مرتبہ اپنے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بازیابی کے لیے ایک احتجاج کا حصہ بننے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس کے بعد آنے والے پندرہ سالوں کے دوران بلوچستان سے اپنے والد اور دیگر لاپتا افراد کے مقدمات کو اجاگر کرنے کے لیے ان کی زندگی کا بیشتر حصہ اسی جدوجہد میں گزرا۔

حال ہی میں جب اکتیس مئی کو سمی دین بلوچ کو آئرلینڈ میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ’فرنٹ لائن ڈیفنڈرز‘ کی طرف سے انسانی حقوق کے لیے پرامن جدوجہد کرنے کے سلسلے میں ’ہیومن رائٹس ڈیفنڈر‘ کے ایوارڈ سے نوازا گیا تو ان کے ذہن میں ایک ہی سوال تھا کہ کیا ان کی یہ جدوجہد کبھی رنگ لائے گی؟

ایوارڈ ملنے کے بارے میں سمی بلوچ کا کہنا ہے ”یقیناً اس ایوارڈ کا ملنا نا صرف میری بلکہ لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے میرے ساتھ جدوجہد کرنے والے سینکڑوں دیگر افراد کی بھی حوصلہ افزائی تھی۔ تاہم یہ ایوارڈ حاصل کرتے ہوئے یہی سوچ میرے ذہن پر غالب تھی کہ کیا میری اور میرے ساتھیوں کی جدوجہد کے نتیجے میں میرے والد اور دوسرے لاپتا افراد کی اپنے گھروں کو صحیح سلامت واپسی ممکن ہو پائے گی؟‘‘

سمی بلوچ انسانی حقوق کی کارکن اور بلوچستان سے جبری طور پر لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے وقفے وقفے سے منعقد کیے جانے والے بلوچ لانگ مارچ کے مرکزی منتظمین میں سے بھی ایک ہیں۔ وہ اس وقت وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز (VBMP) نامی تنظیم کی جنرل سیکرٹری بھی ہیں۔

سمی بلوچ کہتی ہیں کہ ہیومن رائٹس ڈیفنڈر کا ایوارڈ ان تمام لوگوں کا ہے، جنہوں نے چلچلاتی دھوپ، جھلسا کر رکھ دینے والی گرمی، اور رگوں میں خون منجمد کر دینے والی سردی کی پرواہ کیے بغیر لاپتا بلوچوں کے لیے آواز اٹھائی اور سڑکوں پر نکلے۔

سمی بلوچ 2014ء میں اپنے والد ڈاکٹر دین محمد اور دیگر لاپتہ افراد کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کوئٹہ سے اسلام آباد تک پیدل لانگ مارچ میں حصہ لے چکی ہیں۔

سمی بلوچ اپنے لاپتا والد کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں، ”ایک صاحبِ کردار، شفیق اور بہادر والد کی کمی نے مجھ سمیت میرے پورے خاندان کو ایک مسلسل اذیت سے دوچار کر رکھا ہے۔ میں جب اپنے نامکمل خاندان کو دیکھتی ہوں تو دل غم سے بھر جاتا ہے، اپنی ماں کو دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ ان کا اسٹیٹس کیا ہے؟ کیا وہ اب بھی سہاگن ہیں یا بیوہ ہیں؟ کیونکہ خاوند اگر نہ ہو تو پھر ہمارے معاشرے میں ایسے سوالات بھی اٹھائے جاتے ہیں۔‘‘

سمی کا کہنا ہے ”میرا اپنا اسٹیٹس بھی نامعلوم ہے، مجھے نہیں معلوم میرے والد کہاں ہیں تو ایسے میں کیا سمجھا جائے کہ میرے سر پر والد کا سایہ برقرار ہے یا کہ میں یتیم ہوں؟‘‘

انہوں نے کا مزید کہا ”یہ صورتحال صرف مجھے یا میرے اہلِ خانہ کو ہی نہیں درپیش، بلکہ وہ تمام بلوچ گھرانے اسی اذیت سے گزر رہے ہیں، جن کے پیاروں کو اغوا کر لیا گیا ہے اور وہ سالوں سے واپس نہیں لوٹ سکے۔“

والد سے متعلق کسی اطلاع کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے سمی بلوچ کا کہنا تھا ”میرے والد کے بارے میں ہمارے پاس کوئی مصدقہ یا براہِ راست اطلاع تو نہیں لیکن ذرائع اور کچھ ایسے لوگ، جنہیں اغوا کے بعد رہائی نصیب ہو پائی، وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے میرے والد کو دیکھا ہے، اس لیے ہمیں اب تک یہ امید ہے کہ شاید وہ کبھی ہمارے پاس لوٹ پائیں۔“

سمی بلوچ جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں جیسے مسائل کے حل پر زور دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی کو بھی اور خاص طور پر ریاستی اہلکاروں کو یہ حق حاصل نہیں ہونا چاہیے کہ وہ بندوق کے زور پر لوگوں کو اٹھا لے جائیں اور پھر ان کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہو سکے۔

سمی بلوچ کے مطابق، انہیں اپنے کام کی وجہ سے اکثر دھمکیوں اور ہراسانی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ”ہمیں اکثر لاپتا افراد کی گلی سڑی لاشوں کی شناخت بھی کرنی پڑتی ہے اور جب بھی ایسا کوئی موقع آتا ہے تو ہر لمحہ یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کیا یہ مسخ شدہ لاش ہمارے کسی قریبی یا عزیز کی تو نہیں۔‘‘

ان کے بقول دراصل یہ لاشیں بھی ایک طرح کا پیغام ہوتی ہیں کہ کوئی پوچھنے والا نہیں اور جب چاہے جیسے چاہے انسانی جان کو ختم کیا جا سکتا ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کے لواحقین کا غم اور کرب اتنا زیادہ ہے کہ اس کے سامنے یہ ہراسانی اور دھمکیاں کم لگتی ہیں۔ سمی بلوچ کے مطابق انصاف کے حصول تک ان کی مزاحمتی جدوجہد جاری رہے گی۔

سمی دین بلوچ کو فی الحال اپنی جدوجہد کا خاتمہ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ وہ کہتی ہیں ”تصور کریں کہ ایک بچی جب صرف دس سال کی تھی تو وہ اپنے والد کی بازیابی کے لیے باہر نکلی اور پھر پہلے اس کا بچپن اور اب جوانی سڑکوں اور احتجاجوں کی نظر ہو رہی ہے اور نا جانے ایسے کتنے بچے اور بچیاں صرف بلوچستان میں ہیں، جن سے ان کا بچپن اور جوانیاں چھین لی گئیں۔‘‘

سمی بلوچ کہتی ہیں ”ہماری جدوجہد اگر کبھی کامیابی سے ہمکنار ہو بھی گئی اور لاپتا افراد واپس لوٹ بھی آئے تو کیا ریاست مجھے اور مجھ جیسے سیکڑوں دیگر افراد کو ان کی زندگیوں کے چھینے گئے لمحات واپس لوٹا سکے گی؟“

انہوں نے کہا کہ لاپتا افراد کا معاملہ ایک ایسا سنگین مسئلہ ہے، جو سالہاسال سے موجود ہے لیکن اس کے تدارک کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا بلکہ ابھی تک لوگوں کو لاپتہ کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔

سمی دین بلوچ کا کہنا ہے ”ناصرف لاپتا افراد بلکہ پاکستانی معاشرے میں پائے جانے والی دیگر بہت سی محرومیوں اور مسائل کا حل ملک میں قانون کی حکمرانی اور احتساب کے ایک مضبوط عمل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ جب سب کو معلوم ہوگا کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں اور اگر کسی نے کوئی نا انصافی کی ہے، تو وہ قانون کی پکڑ سے نہیں بچ سکے گا، تو پھر آپ دیکھیں گے کہ حالات کیسے بدلتے ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ موجودہ لاقانونیت اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون کبھی بھی ملک سے بد امنی اور عدم استحکام کے خاتمے کا باعث نہیں بن سکتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close