طلبہ احتجاجی تحریک کا نرم گفتار نوجوان ناہید اسلام اور بنگلہ دیش کی آئرن لیڈی حسینہ واجد

ویب ڈیسک

کچھ دن قبل تک بنگلہ دیش کی وزیراعظم اور اب سابق وزیراعظم شیخ حسینہ ملک میں ہونے والے طلبہ کی احتجاجی تحریک کے باعث فوجی ہیلی کاپٹر پر ملک سے فرار کے بعد اب سیاسی پناہ کی درخواست پر برطانیہ کے جواب کی منتظر ہیں۔

چھہتر سالہ شیخ حسینہ پیر (پانچ اگست) کو اس وقت پڑوسی ملک انڈیا پہنچیں، جب ان کی روانگی سے کچھ دیر قبل ہی برہم مظاہرین نے ان کی سرکاری رہائش گاہ پر دھاوا بولا، جو دو دہائیوں سے زائد عرصے تک سیاست میں سرگرم رہنے والی شیخ حسینہ سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے تھے۔

واضح رہے کہ بنگلہ دیش کے آرمی چیف وقار الزمان حسینہ واجد کے رشتہ دار ہیں، ان کی اہلیہ معزول و مفرور وزیراعظم کی رشتے میں کزن لگتی ہیں۔ جنرل وقار کے سسر جنرل مستفیض بنگلہ بندھو یعنی شیخ مجیب کے عزیز تھے۔

شیخ حسینہ واجد نے وقار الزمان کو خود رواں برس جون میں ملٹری چیف تعینات کیا۔ آس پاس اہم عہدوں پر بھی عزیز و اقارب کی فوج ظفر موج تھی۔ مسلسل تیسری بار وزیراعظم منتخب ہوئیں، پہلے بھی یہ 1996 سے 2001 تک ملک پر راج کر چکی تھیں، یوں یہ تقریباً بیس برس بطور وزیراعظم بنگلہ دیش کی طویل ترین دورانئے کے لیے راج کرنے والی واحد شخصیت ہیں۔

بنگلہ دیش میں اپوزیشن نام کی گنجائش صرف کاغذوں تک محدود کر دی گئی تھی۔ ملک عملی طور پر سنگل پارٹی اسٹیٹ بنتا جا رہا تھا، ان کے دور حکومت میں اقتصادی اشاریے بہتر ضرور ہوئے، فوجی اور عدالتی حمایت ہم قدم رہی، انڈیا کا دستِ شفقت بھی راس رہا، لیکن پھر ایسا کیا ہوا کہ’ آئرن لیڈی‘ کو چند ایک رنگین سوٹ کیسز کے ساتھ فرار ہونا پڑا؟

اس سوال کا جواب اب کئی ایک زاویوں سے تلاش کیا جا رہا ہے۔ دنیا بھر میں ریاستی توازن از سرِ نو تشکیل کا متقاضی ہوتا جا رہا ہے۔ اقربا پروری، گنے چنے خاندانوں کی حکمرانی، شاہی طرزِ سیاست، مفادات کی سرکار اور ایلیٹ کیپچر جیسے عوث اب گلے کی ہڈی بنتے جا رہے ہیں۔ اپوزیشن نامی شے جب عملی طور پر ختم کر کے سنگل پارٹی سسٹم زور زبردستی متعارف کروایا جائے تو پھر اپوزیشن حلق سے پیدا ہو کر خلق میں سمو جا تی ہے۔

سوشل میڈیا کے اس دور میں نوجوانوں کی اہمیت اور ان کی سمجھ بوجھ ماضی کی نسبت کئی گنا بڑھ چکی ہے

بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں میں بھرتی کے لیے مخصوص کوٹہ نظام کی منسوخی کے لیے احتجاج کا آغاز دو جولائی 2024 کو ہوا، جس کی باگ ڈور بھی نوجوان طلبہ کے ہاتھ میں تھی۔

اس تحریک کے ایک مرکزی کردار چھبیس سالہ ناہید اسلام ہیں۔ آصف محمود، ناہید اسلام، اور ابوبکر مجمدار، طالب علم رہنما جنہوں نے نوکریوں کے کوٹے کے خلاف اس تحریک کی قیادت کی جو وزیر اعظم شیخ حسینہ کے استعفے پر منتج ہوئی۔

سوشیالوجی کے طالب علم ناہید کے بارے میں بنگلہ دیش کے میڈیا میں کہا جا رہا ہے کہ اس نرم گفتار نوجوان نے ملک کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے سولہ سالہ دور اقتدار کے خاتمے کی تحریک میں اہم کردار ادا کیا۔

ناہید اسلام، جو طلباء کے امتیازی سلوک کے خلاف تحریک کے قومی کوآرڈینیٹر تھے، نے ان کوٹہ نظام کی اصلاحات کا مطالبہ کیا، جو آزادی کے جنگجوؤں کی نسلوں کو فائدہ پہنچاتے تھے۔

ناہید اسلام ڈھاکہ میں 1998 میں پیدا ہوئے۔ وہ شادی شدہ ہیں اور ان کے چھوٹے بھائی کا نام نقیب ہے۔ ان کے والد ایک استاد اور والدہ گھریلو خاتون ہیں۔

جب حکومت نے 2018 میں کوٹہ ختم کر دیا تھا تو جون میں ہائی کورٹ کے کوٹے کو بحال کرنے کے بعد یہ تحریک زور پکڑ گئی، اور ناہید کو اس تحریک میں ان کے کردار کے لئے اگلے ماہ گرفتار کر لیا گیا۔ مبینہ طور پر انہیں عام کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے آنکھوں پر پٹی باندھ کر اور ہتھکڑی لگا کر پوچھ گچھ کے دوران تشدد کا نشانہ بنایا۔

انہیں ایک گاڑی میں لے جائے جانے کی وڈیوز انٹرنیٹ پر وائرل ہوئیں اور وہ اگلے دن ایک پل کے نیچے پائے گئے۔ 26 جولائی کو انہیں دوبارہ ایک ہسپتال سے انٹیلیجنس ایجنسیوں اہلکار اٹھا کر لے گئے

اسلام کی پرجوش تقریریں اور سوشل میڈیا کی سرگرمیاں انہیں شہرت کی بلندیوں پر لے آئیں۔ شاہباغ میں ایک ریلی کے دوران انہوں نے انٹرنیٹ بندش کی مذمت کرتے ہوئے کہا، ”طلباء کسی بھی نتیجے کے لئے تیار ہیں۔ آج ہم نے لاٹھیاں اٹھائیں۔ اگر لاٹھیاں کام نہ آئیں تو ہم ہتھیار اٹھانے کے لئے تیار ہیں۔“

انہوں نے وزیر اعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا، ”فتح ہی ہمارا مقصد ہے، ہم اس حکومت کو قبول نہیں کرتے۔ اب سے طلباء ملک کی قیادت کریں گے۔ طلباء کا اعلان حتمی ہے۔“

انہوں نے فیس بک پر لکھا، ”ہر شہری کو طلباء کی سول نافرمانی تحریک کے ذریعے اجتماعی بغاوت کے نفاذ کی ذمہ داری لینی ہوگی۔“ ان کے صفحے پر اس تحریک کے لئے قواعد بھی درج ہیں – بجلی کے بل کی عدم ادائیگی سے لے کر گارمنٹ ورکرز کی ہڑتال، اور تعلیمی اداروں اور تعیشاتی اسٹورز کی بندش۔

ناہید اسلام کی قیادت میں طلباء اب ملک کی سیاست میں زیادہ سرگرم ہونے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ اسلام نے کہا، ”ہم نے ابھی تک اپنے تمام مقاصد حاصل نہیں کیے۔ حسینہ کے استعفیٰ کے بعد ہمارا مقصد فسطائی نظاموں کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنا ہے،“ انہوں نے مزید کہا: ”طلباء نے نوبل انعام یافتہ محمد یونس سے درخواست کی ہے کہ وہ عبوری حکومت کی قیادت کریں۔“

ناہید اسلام نے واضح کیا ہے کہ طلباء کسی بھی حکومت کو قبول نہیں کریں گے, جو فوج کی قیادت یا حمایت میں ہو۔

انہوں نے پیر کو صحافیوں سے کہا: ”ہم زندگی کی سلامتی، سماجی انصاف، اور ایک نئے سیاسی منظرنامے کے عہد کے ذریعے ایک نیا جمہوری بنگلہ دیش بنائیں گے۔“ اسلام نے طلباء سے ملک میں اقلیتوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے بھی کہا ہے۔

پیر کے روز، دوسرے طلباء رہنماؤں کے ساتھ، ناہید اسلام نے صحافیوں کو بتایا: ”ہم اپنے مقصد کے لیے شہیدوں کے بہائے گئے خون سے غداری نہیں کریں گے۔ ہم زندگی کی حفاظت، سماجی انصاف اور ایک نئے سیاسی منظر نامے کے اپنے وعدے کے ذریعے ایک نیا جمہوری بنگلہ دیش بنائیں گے۔“

انہوں نے اس بات کو یقینی بنانے کا عزم کیا کہ 170 ملین کا ملک کبھی بھی "فاشسٹ راج” کی طرف واپس نہ آئے اور ساتھی طلباء سے کہا کہ وہ اپنی ہندو اقلیت اور ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کریں۔

ناہید اسلام کے بھائی نقیب اسلام، جو جغرافیہ کے طالب علم ہیں، نے رائٹرز کو بتایا، ”اس کے پاس ناقابلِ یقین صلاحیت ہے اور اس نے ہمیشہ کہا کہ ملک کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اسے پولیس اٹھا کر لے گئی، بے ہوش ہونے تک اس پر تشدد کیا گیا، اور پھر سڑک پر پھینک دیا گیا۔ اس سب کے باوجود وہ لڑتا رہتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ ہار نہیں مانے گا۔ ہمیں اس پر فخر ہے۔“

کارنیل یونیورسٹی میں حکومت کی ایسوسی ایٹ پروفیسر سبرینا کریم جو سیاسی تشدد کے مطالعہ میں مہارت رکھتی ہیں، نے پیر کو بنگلہ دیش کے لیے ایک تاریخی دن قرار دیا۔ ”یہ بہت اچھی طرح سے جنریشن زیڈ کی قیادت میں پہلا کامیاب انقلاب ہو سکتا ہے، جمہوری منتقلی کے لیے شاید کچھ امیدیں ہیں، چاہے فوج اس عمل میں شامل ہو۔“

اگرچہ ناہید ڈھاکہ یونیورسٹی کے سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے طالب علم ہیں لیکن وہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ایک کارکن کے طور پر بھی شہرت رکھتے ہیں۔

ناہید اسلام اور دیگر طلبہ رہنماؤں کے اس موقف کو اس وقت تقویت ملی، جب انہوں نے ملک میں رائج کوٹہ نظام کے خلاف اپنے پرزور دلائل میں کہا کہ اس امتیازی نظام سے اہل نوجوان ملازمتوں سے محروم ہیں۔

بنگلہ دیش کے طلبہ کی تحریک کا آغاز تو مخصوص کوٹہ سسٹم کی منسوخی کے لیے ہوا تھا، لیکن جب احتجاجی ریلیوں کے دوران حکومت پر تنقید میں اضافہ ہوا تو شیخ حسینہ نے بھی طلبہ کے لیے سخت الفاظ کا استعمال کیا اور انہیں ملک دشمن اور غدار تک قرار دیا

ناہید اسلام کو جولائی کے وسط میں پہلے ملکی اور پھر بین الاقوامی میڈیا میں اس وقت شہرت ملی، جب پولیس نے انہیں اور ڈھاکہ یونیورسٹی کے کچھ دیگر طالب علموں کو گرفتار کیا۔

بعد میں ناہید اسلام نے اپنے ویڈیو انٹرویو میں بتایا تھا کہ انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا اور وہ اپنی اور اپنے ساتھیوں کی زندگیوں سے متعلق فکرمند ہیں۔

اس کے بعد بنگلہ دیش میں سوشل میڈیا کے ذریعے ناہید اسلام سے یکجہتی کا اظہار بھی کیا گیا۔

بنگلہ دیش میں 18 جولائی تک طلبہ احتجاج اتنی شدت اختیار کر چکا تھا کہ حکومت نے اسے مزید بڑھنے سے روکنے کے لیے انٹرنیٹ سروس بھی معطل کر دی لیکن ناہید اسلام اور ان کے ساتھیوں نے اپنی احتجاجی تحریک کو متحرک رکھا۔

احتجاج کے دوران اموات پر بنگلہ دیش کی حکومت نے 31 جولائی کو ’یوم سوگ‘ منانے کا اعلان بھی کیا لیکن ناہید اسلام اور ان کے ساتھیوں نے اسے مسترد کرتے ہوئے اپنے مطالبات میں یہ بھی شامل کر لیا کہ جو ان اموات کے ذمہ دار ہیں، ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔

چار جولائی کا دن بنگلہ دیش میں سب سے پرتشدد رہا، جب ایک ہی دن میں جھڑپوں کے دوران سو سے زائد افراد کی جان گئی، جس کے بعد طلبہ نے وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے استعفے کے لیے دباؤ بڑھا دیا۔

ڈھاکہ ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق پیر کو بنگلہ دیش بھر میں پولیس کی فائرنگ، جھڑپوں اور آتش زنی کے واقعات میں مزید 135 افراد مارے گئے، جب کہ احتجاجی رہنماؤں کی طرف سے ڈھاکہ کی جانب مارچ میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔

جب پانچ اگست کو شیخ حسینہ واجد مستعفی ہو کر ملک چھوڑ کر چلی گئیں تو بنگلہ دیش کے ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر ناہید اسلام کے نام کے ساتھ یہ تبصرے آنا شروع ہو گئے کہ یہ وہ نرم گو نوجوان ہیں، جنہوں نے شیخ حسینہ کے پندرہ سالہ دور اقتدار کے خاتمے کی طلبہ تحریک میں اہم کردار ادا کیا۔

شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد ناہید اسلام اور ان کے ساتھ طالب علم پس منظر میں نہیں گئے، بلکہ وہ اب بھی ملک میں جلد عبوری حکومت کے قیام کے لیے متحرک ہیں اور منگل کو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ نیوز کانفرنس میں انہوں نے عبوری حکومت کے لیے نام بھی تجویز کیا۔

دوسری جانب شیخ حسینہ کے بیٹے سجیب واجد اور ان کے اتحادیوں نے کہا ہے کہ وہ سیاست میں واپس نہیں آئیں گی۔

شیخ حسینہ کو ان کے حامی بنگلہ دیش کی ’آئرن لیڈی‘ قرار دیتے ہیں، جنہوں نے 1996 میں پہلی بار اقتدار میں آنے کے بعد بیس سال اقتدار میں گزارے۔

بنگلہ دیش میں پیر سے قبل بہت سے لوگ شاید سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ساڑھے پندرہ سال برسرِاقتدار رہنے والی وزیراعظم اس طرح ملک سے چلی جائیں گی

پیر کو بنگلہ دیش کے وزیراعظم ہاؤس سے شیخ حسینہ اور ان کی بہن شیخ ریحانہ کی فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے انڈیا روانگی سے قبل اتوار کی رات اور پیر کی صبح بھی صورتحال تیزی سے تبدیل ہوتی رہی۔

اتوار کو ملک بھر میں کوٹہ مخالف تحریک کے مظاہرین اور عوامی لیگ کے رہنماؤں اور کارکنوں کے درمیان جھڑپوں میں سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے

اس دوپہر عوامی لیگ کے کچھ سینیئر رہنماؤں اور مشیروں نے شیخ حسینہ کو بتایا کہ حالات قابو سے باہر ہو چکے ہیں، لیکن وزیراعظم یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ حالات کو طاقت کے ذریعے قابو میں لایا جا سکتا ہے لیکن پھر سکیورٹی فورسز کے اعلیٰ حکام نے انھیں یہ تاثر دیا کہ اب صورتحال کو سنبھالا نہیں جا سکتا۔

یہ وہ وقت تھا جب وہ ذہنی طور پر مستعفی ہونے کے لیے تیار ہوئیں۔

بنگلہ دیشی حکام کے مطابق شیخ حسینہ ’دونوں آپشن‘ کھلے رکھنا چاہتی تھیں اور ان کا خیال تھا کہ اگر ’لانگ مارچ ٹو ڈھاکہ‘ پروگرام کو طاقت سے روکا جا سکتا ہے تو وہ استعفیٰ نہیں دیں گی، تاہم اس کوشش کے ناکام ہونے کی صورت میں ملک چھوڑنے کی بھی تیاری کی گئی تھی

طاقت کے ذریعے آخری دم تک اقتدار میں رہنے کی کوشش بھی جاری رہی لیکن فوج مزید جانی نقصان نہیں چاہتی تھی۔ اتوار کو ملک کے مختلف حصوں میں عام لوگ اور مظاہرین فوج کے سپاہیوں اور افسران کے ساتھ گھلتے ملتے دکھائی دیے اور بظاہر اسی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد فوج کے اعلیٰ افسران نے محسوس کیا کہ حالات حکمرانوں کے قابو سے باہر ہو چکے ہیں۔

مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق شیخ حسینہ نے پیر کی صبح پولیس اور تینوں افواج کے سربراہان کے ساتھ ملاقات بھی کی تھی۔ روزنامہ پرتھم الو نے ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ شیخ حسینہ نے اس بات پر اپنا غصہ ظاہر کیا کہ سکیورٹی فورسز صورتحال کو سنبھالنے میں کامیاب کیوں نہیں ہیں۔

اخبار کا کہنا ہے کہ اس ملاقات میں پولیس کے سربراہ نے وزیراعظم کو بتایا کہ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ پولیس کے لیے زیادہ دیر تک اتنی سخت پوزیشن برقرار رکھنا ممکن نہیں ہے۔

یہ وہ وقت تھا جب تک لاکھوں مظاہرین ڈھاکہ اور دیگر علاقوں میں سڑکوں پر جمع ہو چکے تھے۔ ایک سینیئر فوجی اہلکار کے مطابق شیخ حسینہ کو مطلع کیا گیا تھا کہ لوگوں کو زیادہ دیر تک نہیں روکا جا سکتا اور وہ وزیراعظم ہاؤس کا رخ کریں گے اور اس صورت میں شیخ حسینہ کی جان کو خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔

روزنامہ پرتھم الو نے لکھا کہ پیر کی صبح پولیس اور فوج کے سربراہان نے شیخ حسینہ کی بہن شیخ ریحانہ سے بھی بات چیت کی، تاکہ وہ اپنی بہن کو عہدہ چھوڑنے پر آمادہ کر سکیں۔

ادھر پیر کی صبح سے ہی گنوبھن کی طرف جانے والی تمام سڑکوں کو پولیس اور فوج نے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ اعلیٰ فوجی حکام کے مطابق یہ انتظام اس لیے کیا گیا تھا تاکہ شیخ حسینہ تیجگاؤں کے ہوائی اڈے تک بحفاظت پہنچ سکیں۔

دوسری جانب صبح نو بجے کے قریب ملک میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک انٹرنیٹ بند رہا۔ یہ انتظام بھی بظاہر اس لیے کیا گیا تھا کہ شیخ حسینہ کی حرکات سے متعلق کوئی خبر سوشل میڈیا پر نہ پھیلے۔ شیخ حسینہ کے ہیلی کاپٹر میں سوار ہونے کے بعد انٹرنیٹ کنکشن فعال کر دیا گیا تھا۔

بنگلہ دیشی حکام کا کہنا تھا کہ انڈیا سے پہلے ہی شیخ حسینہ کے ملک چھوڑنے کے بارے میں رابطہ کر لیا گیا تھا اور انڈیا کی طرف سے بتایا گیا کہ اگر وہ بنگلہ دیش سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے اگرتلہ پہنچ سکتی ہیں تو وہاں سے انہیں دہلی لے جایا جائے گا۔

انڈیا کے شمال مشرقی شہر اگرتلہ میں لینڈنگ کے بعد شیخ حسینہ اپنی بہن کے ساتھ نئی دہلی پہنچیں اور برطانوی حکومت سے سیاسی پناہ کی درخواست کی۔

رپورٹ کے مطابق شیخ حسینہ کو نئی دہلی میں اپنا قیام بڑھانا پڑ رہا ہے، کیونکہ انہیں ابھی تک برطانیہ کی جانب سے سیاسی پناہ پر کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

واضح رہے کہ شیخ حسینہ اپنی چھوٹی بہن شیخ ریحانہ کے ساتھ ہیں جو برطانوی شہریت رکھتی ہیں۔ شیخ ریحانہ کی بیٹی ٹیولپ صدیق لیبر پارٹی کی جانب سے برطانوی پارلیمنٹ کی رکن منتخب ہوئی ہیں۔

واضح رہے کہ انڈیا شیخ حسینہ کا سب سے قریبی اتحادی ہے اور 1971 میں بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد سے ہی عوامی لیگ پارٹی کو انڈیا کی مکمل حمایت حاصل رہی ہے۔

1975 میں جب حسینہ واجد کے والد شیخ مجیب الرحمن اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کو قتل کر دیا گیا تھا، اس وقت شیخ حسینہ یورپ میں تھیں۔ وہاں سے وہ دلی آئیں اور یہاں کئی برس مقیم رہیں۔

اس وقت حسینہ کے شوہر، جو ایک سائنسدان تھے، انھیں ایک سرکاری ادارے میں ملازمت بھی دی گئی تھی۔ شیخ حسینہ کے شوہر ڈاکٹر واجد میاں ایک سائنسدان تھے جو پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا حصہ رہ چکے تھے اور سقوط ڈھاکہ سے قبل کراچی نیوکلیئر پلانٹ کے چیف سائنسدان بھی تھے لیکن پھر حالات خراب ہونے کے بعد ان کی سکیورٹی کلیئرنس ختم کر دی گئی تھی۔

بنگلہ دیش کے ماہر اقتصادیات محمد یونس نے نے دو روز قبل انڈین میڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بنگلہ دیش میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں پر انڈیا کی خاموشی پر دبے لفظوں میں تنقید کرتے ہوئے کہا تھا ”بنگلہ دیش کی دو تہائی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ملک میں جمہوری آزادی کے خاتمے کے سبب یہ دو تہائی نوجوان کبھی ووٹ نہیں ڈال سکے، بنگلہ دیش میں جو بے چینی پھیل رہی ہے، اس کا اثر انڈیا پر بھی پڑے گا۔“

کولکتہ میں مقیم سیاسی تجزیہ کار سوبجیت باگچی کہتے ہیں ”انڈیا کی خارجہ پالیسی کی سب سے بڑی غلطی یہ رہی کہ اس نے بنگلہ دیش میں اپنا سارا داؤ شیخ حسینہ اور ان کی پارٹی عوامی لیگ پر لگا دیا اور شیخ حسینہ کی شدید مخالفت کے سبب انڈین اسٹیبلشمنٹ نے اپوزیشن بی این پی اور جماعت اسلامی سے اپنا رابطہ توڑ لیا۔“

باگچی کہتے ہیں ”حسینہ کی پارٹی تیزی سے عوام میں غیر مقبول ہوتی جا رہی تھی، جمہوری ادارے ختم ہوتے جا رہے تھے اور حکومت سے عوام کی نفرت بڑھتی جا رہی تھی۔ چونکہ انڈیا شیخ حسینہ کا سب سے بڑا حمایتی تھا، اسی لیے وہاں کی عوام انڈیا سے بھی اتنی ہی نفرت کرنے لگی۔“

وہ کہتے ہیں ”انڈیا کو یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ شیخ حسینہ کی آمرانہ حکومت سے عوامی نفرت اس حد تک پہنچ جائے گی کہ انہیں اقتدار چھوڑ کر ملک سے فرار ہونا پڑ سکتا ہے۔ یہ انڈیا کے لیے ویسا ہی بڑا دھچکا ہے، جیسا امریکیوں کے لیے افغانستان ثابت ہوا۔“

یہاں یہ یاد رہے کہ رواں برس جولائی میں شیخ حسینہ چین کا دورہ ادھورا چھوڑ آئی تھیں اور واپس آ کر انھوں نےچین کے بجائے انڈیا کو ایک انتہائی اہم ترقیاتی منصوبے تیستا ماسٹر پلان کی تکمیل کی ذمہ داری سونپ دی تھی۔

شیخ حسینہ نے چین کے دورے سے واپسی پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ انڈیا اور چین دونوں تیستا منصوبے میں دلچسپی رکھتے تھے لیکن وہ چاہتی ہیں کہ انڈیا اس منصوبے کو مکمل کرے۔

بظاہر انڈیا اس وقت بہت سنبھل کر چل رہا ہے۔ ڈھاکہ میں کئی دن سے جاری مظاہروں اور ہلاکتوں کے واقعات سے لے کر شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے اور ان کے انڈیا پہنچنے کے بعد بھی حکومت کی طرف سے ابھی تک ایک بھی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔

سول سروس کی ملازمتوں کا ایک تہائی حصہ 1971 کی ’جنگ آزادی‘ کے سابق فوجیوں کی نسلوں کے لیے مخصوص کوٹے کی صورت میں برقرار رکھنا شیخ حسینہ کے پندرہ سالہ اقتدار کے لیے سب سے سخت چیلنج تھا۔

معروف پاکستانی کالم نگار اجمل جامی کا کہنا ہے کہ کوٹہ سسٹم بنگلہ دیش کا اہم ایک مدعا رہا ہے، رواں برس جولائی میں طالب علموں کی جانب سے سرکاری ملازمتوں کے لیے کوٹہ سسٹم کے خاتمے کی مانگ کی جا رہی تھی۔ 1971 میں فوجیوں کے لیے ان کی قربانیوں کے اعتراف میں ملازمتوں میں کوٹہ رکھا گیا تھا، اس مدعے پر کئی بار ترمیم بھی کی گئی۔ سول سروز کی 30 فیصد ملازمتیں ان فوجیوں کے اہل خانہ اور اب ان کے پوتے پوتیوں اور نواسا نواسیوں کے لیے مختص تھیں۔ مزید 26 فیصد خواتین، پسماندہ اضلاع، کمیونیٹیز اور کسی حد تک معذور افراد کے لئے مختص تھیں، یعنی صرف 44 فیصد سرکاری ملازمتیں اوپن میرٹ پر تھیں۔

یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل طالب علم مایوسی کے عالم میں ان 44 فیصد سیٹوں پر قسمت آزمائی کیا کرتے تھے، طالب علموں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا تھا اور سرکاری نوکری کی گنجائش اسی حساب سے سکڑ رہی تھی۔

ایک اندازے کے مطابق 30 لاکھ سے زائد پڑھے لکھے نوجوان اسی وجہ سے بے روزگاری کا شکار ہیں۔ اسی مطالبے کی مانگ میں پہلے بھی 2013 سے 2018 تک مظاہرے ہوتے رہے، شیخ حسینہ نے یہ کوٹہ ایک وقت میں ختم بھی کیا لیکن پھر بنگلہ ہائیکورٹ نے جب اسے حالیہ بحران سے پہلے بحال کیا تو انہی طلبہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔

گو کہ سپریم کورٹ نے اس کیس میں خاصا ریلیف دیتے ہوئے کوٹہ سات فیصد تک مختص کر دیا، لیکن اس بیچ طالبعلم بحیثت مجموعی حسینہ سرکار کے جبری ہتھکنڈوں کے خلاف صف آرا ہو چکے تھے۔ انہی مظاہرین کو دہشت گرد اور رضا کار کا نام دیا گیا۔ رضا کار 1971 میں ان افراد کو کہا جاتا تھا جو پاکستان کے حامی تھے۔ نوجوانوں کا غم و غصہ تھا کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔

کیا وہ محض کوٹہ سسٹم کے خاتمے کے لیے ہی اس قدر مشتعل تھے؟ رضا کار یا دہشت گرد کہلوائے جانے پر بپھر رہے تھے؟ یا بنیادی مطالبے کی مانگ کے پیچھے سالہا سال کی محرومی، گھٹن اور ایلیٹ کیپچر کی چھاپ انہیں اس قدر دیوانہ وار مر جانے تک تیار کر رہی تھی؟

جی ہاں! کبھی طالب علم محض پمفلٹس کے ذریعے کتابوں کے ذریعے، رسالوں کے ذریعے، اساتذہ کے ذریعے، اسٹوڈنٹس لیڈرز کے ذریعے، اکا دکا سرکاری و غیر سرکاری ٹی وی چینلز کے ذریعے یا دستیاب اخبارات کے ذریعے معلومات حاصل کیا کرتے تھے۔ سیاسی و مذہبی رہنماؤں کی پر جوش تقاریر کے قائل ہوا کرتے تھے، انہی کے ارشادات پر بحث کیا کرتے تھے۔

اب مگر زمانہ بدل چکا، معلومات کی ترسیل اور دنیا بھر کی جانکاری فنگر ٹپس پر ہے۔ کیا صحیح ہے کیا غلط؟ سیاسی و مذہبی رہنما نہیں، اساتذہ نہیں، پرانے ابلاغ کے ذرائع نہیں، جدید نسل خود طے کرنے کو پر تول رہی ہے۔ ایلیٹ کیپچر کی چھاپ اس نئی نسل کے لیے طعنہ بنتی جا رہی ہے۔ اس چھاپ سے یہ نسل نفرت کرتی ہے۔ اب یہ نسل ریاستی بندوبست میں از سر نو توازن چاہتی ہے۔ ان کی نمائندگی اب ایلیٹ خاندانوں کے ذریعے ناممکن ہوتی جا رہی ہے۔

انہی کو روکنے کے لیے انٹرنیٹ بند کیا گیا، ایمرجنسی لگی، کرفیوکا نفاذ کیا گیا اور پھر کیا ہوا؟ پابندیاں عائد کر کے، ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کر کے، حسینہ سرکار باقی رہ سکی؟ جواب ہے نہیں! دیر سویر وقار الزمان کو معاملات سیاستدانوں کے حوالے کرنا ہوں گے کیونکہ بپھرنا تو بند ہوا ہے، مگر بہنا نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close