اسرائیل کی سفاکی کا ایک سال اور سویا ہوا عالمی ضمیر۔۔

ویب ڈیسک

دیر یاسین نامی فلسطینی گاؤں، جو یروشلم سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور جس کی تاریخ سولہویں صدی سے ملتی ہے، اب موجود نہیں ہے۔

یقینی طور پر اس کا نام نقشے سے مٹا دیا گیا ہے، اور عرب اور ان کے آباؤ اجداد جو کبھی یہاں رہتے تھے، اب یہاں ان کا نشان نہیں رہا۔ جبکہ گاؤں کے ویران قبرستان کی باقیات کو 80 کی دہائی میں ایک نئی شاہراہ بنانے کے لیے اسرائیل نے بلڈوز کر دیا تھا۔

لیکن دیر یاسین کی ایک سو چوالیس پتھر کی بنی عمارتوں میں سے کچھ اب بھی نظر آتی ہیں، جن میں دو اسکول بھی شامل ہیں۔ یہ عمارتیں ایک حفاظتی باڑ کے پیچھے سے جھلکتی ہیں اور اب ذہنی بیماروں کے لیے ایک اسرائیلی ہسپتال میں تبدیل ہوئی ہیں۔ اسرائیل نے ’کفیر شال نفسیاتی ہسپتال‘ 1951 میں گاؤں کی جگہ تعمیر کیا تھا۔

9 اپریل 1948 کو صیہونی دہشت گردوں نے دیر یاسین پر حملہ کیا تھا اور فلسطینی مؤرخ ولید خالدی نے اسے ’شاید سب سے زیادہ معلوم اور سب سے زیادہ خونریز ظلم‘ قرار دیا تھا۔

یہودی پیراملٹری تنظیموں اِرگن اور لیہائی کے ارکان کے ہاتھوں دیر یاسین کے قتلِ عام کے صرف ایک ماہ بعد ڈیوڈ بین گوریون نے 14 مئی 1948 کو ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا۔

1948 میں دیر یاسین میں جو کچھ ہوا، وہ ظلم اور سفاکی کی ایک بدترین مثال تھا۔ دیر یاسین کی ہولناکی کی خبر تیزی سے پھیل گئی، جو 1948 میں فلسطینیوں کی نسل کشی کی ایک علامت بن گئی اور جو ’نکبہ‘ یا ’تباہی‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔

نکبہ وہ آفت و مصیبت کا دن تھا، جب فلسطین کی مقدس سرزمین پر صہیونیوں نے دہشت گردی کے ذریعے ناجائز قبضہ جما کر ایک ریاست قائم کی تھی۔ مئی 1948 میں یہ سانحہ رونما ہوا۔ لاکھوں فلسطینیوں کو یا قتل کر دیا گیا یا اپنے آبائی وطن کو بے سروسامانی کی حالت میں چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ ٹھیک 19 سال بعد 1967 میں جون کے مہینے میں نسل پرست ریاست نے فلسطینیوں پر ہی نہیں بلکہ دیگر تین مسلمان عرب ممالک پر بھی یکطرفہ جنگ مسلط کر دی۔

چھ روزہ جنگ جو 5 جون کو شروع ہوئی، 10جون کو اس وقت ختم ہوئی جب اسرائیل نے بیت المقدس سمیت کئی فلسطینی علاقوں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا اور شام، مصر اور اردن کے سرحدی علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا۔ اسی جنگ میں صہیونی ریاست اسرائیل نے غزہ، بیت اللحم، الخلیل، جنین اور نابلس پر بھی قبضہ کیا تھا۔7 جون کو اسرائیل نے سیز فائر قبول کرنے کا اعلان کیا لیکن اس کے باوجود 9 جون کو شام کے علاقے جولان کے محاذ پر جنگ چھیڑی اور اگلے دن یعنی 10 جون کو جولان کے پہاڑی علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد سیز فائز قبول کر لی۔ یہ سب کچھ اقوام متحدہ کی ناک کے نیچے ہو رہا تھا لیکن سلامتی کونسل اسرائیل سے اپنی ہی قرارداد پر عمل نہ کروا سکی۔ امریکا کا کردار ہمیشہ کی طرح منافقانہ تھا۔ صہیونی ریاست نے امریکی حکومت کو پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ وہ جنگ لڑے گا۔

اسرائیل نے اسی جنگ میں بیت المقدس، جو مشرقی یروشلم میں واقع ہے، پر ناجائز قبضہ کر لیا۔ مغربی یروشلم پر اس نے 1948کی جنگ میں ہی قبضہ کر لیا تھا۔ ناجائز صہیونی ریاست اس پورے یروشلم شہر کو کہ جس میں القدس اور مسجد اقصیٰ بھی واقع ہیں، اپنا دارالحکومت قرار دیتا ہے۔ اس کی نسل پرست کنیسیٹ نامی پارلیمنٹ بھی یروشلم میں ہی ہے۔ اس کے دہشت گرد صدر اور وزیر اعظم کے مکانات و دفاتر بھی اسی شہر میں ہیں ۔ کہنے کو یہ شہر انٹرنیشنل کنٹرول میں ہونا چاہیے لیکن انٹر نیشنل کمیونٹی کے نمایندہ ادارے اقوام متحدہ کا سیکریٹری جنرل ہو یا امریکا یا برطانیہ کے حکمران، یہ سب صہیونی صدر اور وزیر اعظم سے اس شہر میں ملاقات کرتے ہیں، یہ عمل بذات خود اس قانون کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے کہ جس قانون کو یہ دنیا پر نافذ کرنا چاہتے ہیں لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتے۔

1967 کی 6 روزہ جنگ میں صہیونیوں نے پورے کے پورے فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ فلسطینیوں کو ایک اور نکبہ کا سامنا تھا لیکن آفت و مصیبت کے اس نئے مرحلے کا نام انھوں نے یوم نکسہ رکھا۔ نکسہ یعنی سیٹ بیک۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کی عرب تاریخ کا یہ بہت بڑا سیٹ بیک یعنی دھچکا تھا۔

جمال عبد الناصر کی مصری عرب افواج پر شب خون مارنے کے بعد شام اور اردن کے فضائی اڈے چند گھنٹوں میں تباہ کر دیے گئے تھے۔ لیکن ایک عجیب اتفاق تھا کہ اس کے بعد اسرائیل کے پاس ان ممالک میں قبضے کے لیے کچھ رہ نہیں گیا تھا، بعد ازاں اس نے لبنان کا رخ کیا۔ وہاں بھی ناجائز تسلط جما لیا۔

فلسطینیوں نے تحریک انتفاضہ کا آغاز کیا اور اسی کے بطن سے حماس نے جنم لیا۔ فلسطین کے غیرت مند مسلمان عربوں نے حزب جہاد اسلامی بھی قائم کی اور فتحی شقاقی جیسے عظیم مجاہد پیدا ہوئے جنہوں نے جام شہادت نوش کرنا ذلت کی زندگی سے بہتر سمجھا۔ شیخ احمد یاسین اور عبدالعزیز رانتیسی جیسے قائدین حماس نے پیش کیے۔ احمد جبریل کی پاپولر فرنٹ نے بھی اپنے شہداء پیش کیے اور یہ سلسلہ اسماعیل ہنیہ سے لے کر حسن نصر اللہ تک ہنوز جاری ہے۔

غزہ پر اسرائیل کی حالیہ جارحیت اور مظالم کے گزشتہ بارہ مہینوں میں دیر یاسین کی گونج اور نکبہ کے صدمے کی یادیں، اور 1967 میں اسرائیل کا باقی ماندہ فلسطینی علاقوں پر قبضہ اور ’نکسہ‘ کی یادیں عرب دنیا کی اجتماعی شعور میں ایک مرتبہ پھر تازہ ہو گئی ہیں۔

غزہ میں گزشتہ ایک سال کے دوران اسرائیلی افواج کے ہاتھوں چالیس ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید ہوئے، جن میں دس ہزار سے زیادہ معصوم بچے شامل ہیں۔

ایک مرتبہ پھر غزہ کے شہری اپنی اور اپنے بچوں کی زندگیوں کے خدشے کی وجہ سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں جو کہ نکبہ اور نکسہ کی دردناک یادوں کو تازہ کر رہا ہے۔

فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے الاونروا نے کہا ہے کہ اسرائیل کے فضائی حملوں میں لاکھوں شہری بے گھر ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر شمال میں پناہ کی تلاش میں ہیں۔

حد تو یہ ہے کہ اسرائیل کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور لٹے پٹے مظلوم فلسطینیوں کو بھی فضائی حملوں کا نشانہ بنا رہا ہے۔

اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان کشیدگی میں اضافے کے بعد پناہ گزینوں کے اقوام متحدہ کے ادارے الاونروا نے صیدہ میں تین ایمرجنسی پناہ گاہیں قائم کر دی ہیں۔
الاونروا نے 1948 اور 1967 کے مناظر کی تصویر کشی کی ہے۔

اس کی رپورٹ کے مطابق ’فضائی حملوں نے لاکھوں شہریوں کو بے گھر کر دیا ہے جن میں بہت سے شمال میں پناہ کے متلاشی ہیں۔ صیدہ میں ایک بڑی تعداد میں پناہ گزین پہنچے جس کی وجہ سے روٹی اور پینے کے پانی جیسے بنیادی اشیا کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔‘

24 ستمبر تک لبنان میں تقریباً دو لاکھ افراد بے گھر ہوئے اور 17 ستمبر کو پیجر حملوں کے بعد سے تقریباً نصف نقل مکانی کر رہے ہیں۔

صورتحال اب تک یقینی طور پر اس سے بھی بدتر ہو چکی ہے۔ آج، جیسا کہ دنیا دیکھ رہی ہے جو بظاہر بے بس یا مداخلت کے لیے تیار نہیں، تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔

غزہ میں جاری حالیہ اسرائیلی جارحیت اور زمینی و فضائی حملوں کو ایک سال کا عرصہ مکمل ہو گیا ہے، جہاں ایک سال کے دوران تقریباً 42 ہزار فلسطینی شہید اور ایک لاکھ سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں اور اس تمام عرصے میں اقوام متحدہ اور امریکا سمیت عالمی برادری کے دعوے کھوکھلے ثابت ہوئے جو خاموش تماشائی بنی رہی اور اسرائیلی حملوں کو روکنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔

7 اکتوبر کو حماس نے اسرائیل میں کارروائی کی تھی جس میں 350 سے زائد اسرائیلی فوجیوں سمیت 1200 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم نے اس کارروائی کے دوران 250 افراد کو یرغمال بھی بنا لیا تھا۔

اس کارروائی کے بعد اسرائیل نے غزہ پر فضائی حملوں کا سلسلہ شروع کیا تھا اور بعد میں اس کو وسعت دیتے ہوئے زمینی کارروائی کا بھی آغاز کر دیا، جہاں ایک سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود اسرائیلی سفاکیت کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔

اسرائیلی بمباری اور زمینی کارروائی میں اب تک 41 ہزار 840 افراد شہید اور ایک لاکھ سے زائد زخمی ہو چکے ہیں، شہید ہونے والوں میں بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد شامل ہے جبکہ ماہرین کا ماننا ہے کہ شہدا کی تعداد اس سے بہت زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ ملبے تلے بھی ہزاروں افراد دبے ہوئے ہیں جن کو کئی ٹن ملبے کے نیچے سے نکالنا بعید از قیاس ہے۔

اس حوالے سے رواں سال جولائی میں غزہ میں اسرائیلی بمباری اور زمینی کارروائی کے بعد سے رضاکارانہ بنیادوں پر کام کرنے والے امریکی ڈاکٹرز اور نرسوں کے گروپ نے امریکی صدر جو بائیڈن کو خط لکھ کر انکشاف کیا تھا کہ غزہ میں جاری جنگ میں شہید ہونے والوں کی تعداد 92 ہزار سے زائد ہو سکتی ہے۔

اس تمام عرصے میں غزہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے اور ہزاروں افراد مصر اور شام کو ہجرت کر چکے ہیں جبکہ ہسپتالوں پر مسلسل بمباری کی وجہ سے نظام صحت مکمل طور پر مفلوج ہو چکا ہے اور خواتین اور بچوں کو بنیادی طبی امداد کی فراہمی میں بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close