سندھ کے خانہ بدوش قبائل میں سے ایک جوگی بھی ہے۔ یہ قبیلہ سانپ پکڑنے اور انہیں پٹاریوں میں لے کر نگر نگر گھومنے والوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ سانپ کے ڈسنے کا علاج کرنے، گیدڑ سنگھی فروخت کرنے اور مرلی یا بین بجانے میں کمال رکھتے ہیں
سپيروں کے اس جوگی قبیلے کو يقين ہے کہ سانپ اُس کے دوست ہیں اور وہ سانپوں کو پکڑنے کے فن کو نسل در نسل منتقل کرتے ہیں
یہ جوگی قبیلہ جوگی زبان بولتا ہے، جو ایک ہند آریائی زبان ہے جسے پاکستان اور بھارت میں جوگی قبیلے میں بولا جاتا ہے
اگرچہ تاریخی طور پر جوگی قبیلے کا طرزِ زندگی خانہ بدوشی کا رہا ہے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کے اس طریقہ زیست میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ ان میں سے اکثر اب خانہ بدوشی کی بجائے جھگیاں بنا کر کہیں ٹک کر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں
سید نزاکت شاھ کی ایک رپورٹ کے مطابق سندھ کے تاریخی شہر ٹھٹہ سے ملحق ضلع سجاول میں بھی جوگیوں کے بڑے بڑے گوٹھ اور قصبے ہیں، جہاں ہزاروں جوگی رہتے ہیں لیکن انہوں نے آج تک ووٹ کاسٹ نہیں کیا اور نہ ہی انہیں انتخابی عمل کے بارے میں کوئی خاص معلومات رکھتے ہیں
اگرچہ جوگیوں میں تعلیم کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے لیکن سجاول کے جانی جوگی نے میٹرک تک تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔ تعلیم سے ملے شعور اور آگہی کہ وجہ سے وہ اپنے لوگوں کے بنیادی مسائل کے حل کے لے نہ صرف فکرمند بلکہ کوشاں بھی رہتے ہیں
جانی جوگی کہتے ہیں ”جوگی برادری کے زیادہ تر لوگ غیر تعلیم یافتہ ہیں، انہیں اپنے بنیادی حقوق سے متعلق ہی کوئی علم نہیں تو انہیں ووٹ کی اہمیت اور انتخابات کا اندازہ کس طرح ہوگا؟“
جانی جوگی نے اقلیتوں کے انتخابی عمل میں حصہ لینے کے حوالے سے کہتے ہیں ”اقلیتی برادری میں جوگی برادری کے لوگ نہایت غریب اور کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں، اس برادری سے جڑے افراد میں اکثریت ان پڑھ ہیں اور ان کو اپنے ووٹ کی اہمیت ہی معلوم نہیں۔“
عام طور پر جوگی قبیلے کا گزر سفر سانپ پکڑنے، بانسری بجا کر سانپ کے مختلف کرتب دکھانے اور گھروں سے بھیک مانگ کر گزارا کرنے سے ہوتا ہے، ان کے بیشتر افراد ان پڑھ اور بنیادی حقوق کی تعلیم سے بھی ناواقف ہوتے ہیں
جانی جوگی کا کہنا ہے ” تعلیم یافتہ نہ ہونے کی وجہ سے جوگی برادری کے تقریباً تمام لوگ اپنے ووٹ کا حق استعمال نہیں کرتے کیوں کہ ہمیشہ اقلیتی ارکان اسمبلی نے ان کو نظر انداز کیا ہے، ہر انتخاب کے بعد ان کی نمائندگی نہ ہونے کے باعث ان کے مسائل جوں کہ توں رہتے ہیں۔ اور مخصوص اقلیتی نشست پر منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی کا ان کے لوگوں سے میل جول نہیں ہوتا جب کہ وہ انہیں کم تر بھی سمجھتے ہیں۔“
جانی جوگی کہتے ہیں ”بنیادی مسائل حل نہ ہونے کی وجہ سے اب یہ لوگ ووٹ دینے یا انتخابی عمل کا حصہ بننے سے دل برداشتہ ہو گئے ہے، اب تو لوگوں کی انتخابات میں دلچسپی ہی نہیں رہی۔“
جانی جوگی خود ایک سماجی کارکن ہونے کے ناطے علاقے باسیوں کے چھوٹے موٹے مسائل سوشل میڈیا کے سہارے حل کروانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں ”سیاسی جماعتوں کو چھوٹی ذات کی اقلیتی برادری کو مخصوص نشست کے ساتھ ساتھ کم از کم پورے سندھ میں سے ایک جنرل نشست پر بھی ٹکٹ دینا چاہیے تاکہ ان کے بنیادی مسائل حل ہو سکیں کیونکہ غریب کو پتا ہوتا ہے کے غریبوں کے کون سے اہم اور ضروری مسائل ہیں، جسے وہ حل کرنے کو ترجیح دیں۔“
ضلع سجاول اور اس کے پڑوسی شہروں اور اضلاع میں ٹھٹہ، بدین اور ٹنڈو محمد خان اضلاع میں آج تک جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں ان میں کسی بھی ضلع سے تعلق رکھنے والے اقلیتی برادری کے افراد کو نا اقلیتی مخصوص نشست کے لیے منتخب کیا گیا ہے اور نہ ہی عام انتخابات میں کسی بھی سیاسی جماعت نے انہیں ٹکٹ دیا ہے
یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ آئین پاکستان میں آرٹیکل 20 سے لے کر 27 تک اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے، پاکستان کا آئین اقلیتوں کے حقوق کا ضامن ہے، ملک کے تمام طرز کے انتخابات میں اقلیتوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں لیکن اس باوجود ملک کے دیگر علاقوں کی طرح سندھ میں بھی اقلیتی افراد انتخابی عمل اور طریقہ کار سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔
ضلع سجاول میں کثیر تعداد میں اقلیتی افراد رہائش پذیر ہیں، جن میں ہندو، مسیحی ، جوگی، مارواڑی میگھواڑ، احمدی، کولہی اور دیگر شامل ہیں۔
ان میں سے ہندو، میگھواڑ، مارواڑی اور مسیحی ووٹرز کی تعداد انتہائی کم ہے، لیکن ان میں سے بھی بہت ہی کم لوگ ووٹ کاسٹ کرنے کو رضامند ہوتے ہیں
اس حوالے سے سجاول کی سیاسی شخصیت ڈاکٹر ھریش کمار کا کہنا ہے ”ضلع سجاول میں چھتیس ھزار سے زائد ووٹ اقلیتیوں کے ہیں جب کے سجاول کے پڑوسی اضلاع ٹنڈو محمد خان، بدین اور ٹھٹہ میں اقلیتوں کے دس لاکھ ووٹ ہیں مگر چھپن سالوں میں سندھ کی کسی جماعت نے کبھی بھی عام انتخابات میں اقلیتی برادری کے لوگوں کو کوئی جنرل سیٹ نہیں دی“
ہریش کمار کو شکوہ ہے کہ ہمیشہ سیاسی جماعتیں کسی دولتمند شخص کو اقلیتی مخصوص سیٹوں کو پیسوں کے عوض ٹکٹ دیتی ہیں اور جب وہ کامیاب ہوکر اسمبلی جاتے ہیں تو عام اقلیتوں کی نمائندگی نہیں کرتے، پانچ سالوں تک عوام کو بھول جاتے ہیں۔ وہ غریب اقلیتوں کے مسائل سے بھی وہ ناواقف ہوتے ہیں، اس لیے سیاسی جماعتوں کو اقلیتی برادری سے وابستہ عام ورکروں اور مخصوص سیٹس کے ساتھ کسی ایک ایک ضلع سے جنرل نشست کا ٹکٹ بھی دینا چاہیے تاکہ وہ اپنے لوگوں کی درست نمائندگی کر سکیں
ہریش کمار کہتے ہیں ”اگر ان کی جماعت انہیں سجاول ضلع کی جنرل نشست پر ٹکٹ دے تو سجاول ضلع کے چھتیس ھزار سے زائد اقلیتی ووٹروں کی حمایت سے کامیاب ہو کر یہاں کی اقلیتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے ان کے بنیادی مسائل حل کرا سکتے ہیں مگر جماعت کم ووٹ ہونے کا کہہ کر ٹکٹ نہیں دیتی، اس لیے ہم پارٹی ٹکٹ کے لئے اپلائی نہیں کرتے۔“
سید نزاکت شاھ کی رپورٹ کے مطابق سجاول کے قریب نودو بھارن کے علاقے میں جوگی قبیلے کا ایک بڑا گوٹھ جمن جوگی ہے، جہاں کے اکثر نوجوان جوگیوں کا کہنا ہے کہ انتخابات کے دوران با اثر افراد آتے ہیں، ووٹ لینے کے لئے ہم سے وعدے کرتے ہیں اور ہم ان پر اعتبار کر کے انہیں ووٹ دیتے ہیں، کامیابی کے بعد وہ لوگ پانچ سال تک غائب ہو جاتے ہیں اور ایک بھی وعدہ پورا نہیں کرتے۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ ہمارے مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھتے جاتے ہیں۔
ان نوجوانوں نے کہا ”اب اگر ہمارے علاقے سے اقلیتی برادری سے کوئی انتخابات میں حصہ لے گا یا کوئی سیاسی جماعت ٹکٹ دی گی تو ہم بڑھ چڑھ کر انتخابی عمل میں دلچسپی لیں گے ورنہ انتخابات کا بائیکاٹ کریں گے اور ہمارے قبیلے سے کوئی بھی ووٹ دینے نہیں جائے گا۔“