قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کے فیصلے کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو بَلّے کے نشان سے محروم ہونا پڑا ہے، جس کی وجہ سے اس کے امیدوار اب آزاد حیثیت میں انتخابات لڑنے پر مجبور ہیں۔ ان امیدواروں کو الیکشن کمیشن کی جانب سے مختلف انتخابی نشانات الاٹ کیے گئے ہیں۔
پارٹی نشان سے محروم ہونا اور انتخابی عمل سے باہر ہونا پی ٹی آئی کے لیے ایک دھچکا ضرور ہے، لیکن پی ٹی آئی کے حامیوں نے اس فیصلے کا سوگ منانے کی بجائے نشانات کی دلچسپ تشہیر شروع کر دی ہے
پارٹی نے اپنے حامیوں کو مختلف طریقوں سے تحریک دی ہے کہ وہ اپنے حلقوں میں پارٹی کے نامزد امیدواروں کے انتخابی نشانات کی تشہیر جاری رکھیں۔ اسی طرح پارٹی کے لیے اپنے ووٹرز کو مختلف انتخابی نشانات کے باوجود ایک ’نظریے‘ پر اکھٹا کرنا ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے لیکن سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے حامی اپنی تشہیری مہم کو دلچسپ طریقوں سے چلا رہے ہیں
دوسری طرف پی ٹی آئی کے بعض سابق وزرا اور ارکان اسمبلی نے ان نشانات کے خلاف پشاور ہائی کورٹ سے بھی رجوع کیا ہے
سابق صوبائی وزرا کامران بنگش، آصف خان، آفتاب عالم اور شفیع اللہ نے بھی انتخابی نشانات کے خلاف درخواستیں دائر کی ہیں جن میں الیکشن کمیشن، ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر (ڈی آر او) اور ریٹرننگ افسروں کو فریق بناتے ہوئے مؤقف اختیار کیا گیا کہ ’کامران بنگش کو وائلن کا انتخابی نشان دیا گیا جب کہ ان کے مخالف امیدوار کو باجا دیا گیا ہے، دونوں نشان ایک جیسے نظر آ رہے ہیں، ووٹرز کو فرق کرنے میں دشواری ہوگی۔ کامران بنگش کے مخالف امیدوار کا نام بھی کامران ہی ہے۔‘
تاہم الیکشن کمیشن کے ترجمان نے منگل کے روز نوٹیفیکیشن جاری کرتے ہوئے متعلقہ ڈی آر اوز اور آر اوز کو اس حوالے سے ہدایات جاری کرتے ہوئے متعلقہ آر اوز اور ڈی ار اوز کو انتخابی نشانات کی تبدیلی سے منع کیا ہے
تاہم دوسری طرف پی ٹی آئی سوشل میڈیا ٹیم کے رہنما جبران الیاس نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر لکھا، ”آج کے دن (سپریم کورٹ کے فیصلے کا دن) سوگ منایا جانا تھا لیکن یہ کوئی اور ہی جنریشن ہے۔ انصافینز نے اس دن کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی بدولت سب سے زیادہ تفریحی دن میں تبدیل کر دیا ہے“
پی ٹی آئی کی جانب سے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد ایکس پر ’انتخابی نشان عمران خان‘ کا ٹرینڈ ٹاپ ٹرینڈز میں سرفہرست رہا۔ اسی حوالے سے ایک صارف نے لوک گلوکار ملکو کا ایک گانا شیئر کیا، جس میں وہ ’ٹوٹا ساڈی جان دا اے۔ نشان پاویں کوئی بھی ہووے، ووٹ ساڈا خان دا اے‘ گا رہے ہیں۔
سابق اسپیکر قومی اسمبلی و رہنما پی ٹی آئی اسد قیصر نے ایک پرانی وڈیو پوسٹ کرتے ہوئے لکھا، ’انتخابی نشان وہیل چیئر‘۔ اس وڈیو میں وہ مستحقین میں وہیل چیئر تقسیم کرتے ہوئے اور وہیل چیئر پر بیٹھے افراد سے ملتے ہوئے نظر آ رہے ہیں
ایک صارف نے اپنے حلقے این اے 46 سے پارٹی کے نامزد آزاد امیدوار عامر مسعود مغل کے انتخابی نشان ’بینگن‘ کی تشہیر کرتے ہوئے ایک گانا شیئر کیا، جس کے بول کچھ یوں ہیں، ’میں ہوں بینگن تازہ، میں ہوں صدیوں کا راجہ، چاہے بنا لو بُھرتا میرا چاہے بنا لو بینگن باجا‘ ہیں
ایک طرف اگر پی ٹی آئی کے نامزد آزاد امیدوار اپنے انتخابی نشانات کے حوالے سے دلچسپ تشہیری مہم چلا رہے ہیں تو دوسری طرف عوام بھی انتخابی نشانات کا حوالہ دیتے ہوئے مختلف مطالبات کر رہے ہیں
سوشل میڈیا پر صارف نے لکھا ”اب بینگن کی خریداری میں اضافہ ہوگا۔ ہر شخص ایک بینگن خریدے اور اپنے گھر کے باہر لٹکائے اور بینگن کو ووٹ دیں“
کئی امیدواروں کو چارپائی بھی بطور انتخابی نشان الاٹ کی گئی ہے۔ اس حوالے سے کئی وڈیوز اور دلچسپ نعرے بھی زیر گردش ہیں۔ ایک صارف نے ایسی ہی ایک وڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا، انتخابی نشان چارپائی والے اپنی انتخابی مہم یوں چلائیں۔ ایک صارف نے چارپائی پر پی ٹی آئی کا رنگ چڑھانے کی وڈیو بھی شیئر کی
صارف احمد حسن بوبک نے دلچسپ نعرے پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ’این اے 109 جھنگ سے صاحبزادہ محبوب سلطان کا انتخابی نشان چارپائی، وڈیو میں عوام ’آئی آئی چارپائی‘ کے نعرے لگا رہے ہیں۔
ظفر اللہ وزیر نے عمران خان کی مختلف تصاویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ”جن کا انتخابی نشان، پیالہ، چارپائی، بوتل یا ٹینس ریکٹ ہے، ان کے لیے پیار سے“ اس پوسٹ میں عمران خان کو چارپائی پر لیٹے، پیالہ ہاتھ میں پکڑے، ریکٹس سے کھیلتے اور بوتل پکڑے دکھایا گیا ہے
فرح درانی نامی صارف سرگودھا کی وڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ سرگودھا میں پی ٹی آئی امیدواروں کو پیالہ بطور انتخابی نشان دیا گیا ہے۔ اب لوگوں نے کپ میں چائے پینا ترک کر کے پیالے میں چائے پینا شروع کر دی ہے۔ وڈیو میں کئی افراد پیالے میں چائے پیتے ہوئے کہہ رہے ہیں ’عمران خان سے بلّے کا نشان لے لیا گیا۔ اب ہم سب کپ کی بجائے پیالے میں چائے پی رہے ہیں۔‘ وڈیو میں تمام افراد نے چائے سے بھرے پیالے تھامے ہوتے ہیں
ضیا نامی صارف نے مختلف حلقوں میں پی ٹی آئی امیدواروں کے لیے انتخابی نشان کی ممکنہ تشہیر پر مبنی ایک تھریڈ پوسٹ کیا، جس میں انہوں نے کئی انتخابی نشانات کو پی ٹی آئی کے جھنڈوں، عمران خان اور دو رنگوں سے مزین کیا ہوا ہے
اپنے تھریڈ میں انہوں نے بوتل، چینک، چمٹہ، بکری، باؤل، گھڑیال، وکٹس، جہاز، سائیکل، درانتی، فاختہ، انار، کمپیوٹر اور بطخ سمیت کئی دیگر نشانات پر پی ٹی آئی کا جھنڈا اور رنگ لگا کر تشہیر کی ہے۔
انتخابی نشانات کی تشہیر کے لیے انہوں نے عمران خان کی ملکہ الزبتھ دوم سے ملاقات کی تصویر استعمال کی۔ اسی طرح سرخ اور سبز رنگ کے بنچ پر عمران خان کو بیٹھا ہوا دکھا کر انہوں نے بنچ کے نشان کی تشہیر کی
مبصرین کے مطابق یہ پہلا موقع ہے، جب پاکستان میں عام انتخابات کے دوران پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ’آزاد امیدوار‘ اپنے انتخابی نشانات کی اس قدر دلچسپ انداز میں تشہیر کر رہے ہیں۔ اس سے قبل آزاد امیدوار اپنے متعلقہ حلقے میں روایتی انداز میں تشہیر کرتے رہے ہیں تاہم اس بار ایک بڑی سیاسی جماعت کے انتخابی عمل سے باہر ہونے کے بعد ملک گیر تشہیر جاری ہے۔
اس حوالے سے معروف تجزیہ کار اجمل جامی کا کہنا ہے کہ ”اب ہر حلقے میں بلے کے بجائے آزاد امیدوار کے پوسٹر پر عمران خان کی تصویر ہوگی۔ موبائل فون کے دور میں بارہ کروڑ سے زائد رجسٹرڈ ووٹرز میں سے 18 سے 45 سال کے آٹھ کروڑ نسبتاً نوجوان ووٹرز کے لیے کیا اپنی پسند کے آزاد امیدوار کے انتخابی نشان کو ڈھونڈنا مشکل ہوگا؟ جواب ہے نہیں۔ ہاں البتہ اگر ایک حلقے سے ایک سے زائد آزاد امیدواروں نے عمران خان کی تصویر کے ساتھ انتخابی مہم رچا لی تو صورتحال دیہات میں بالخصوص مشکل ہو سکتی ہے۔“
دوسری جانب خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے امیدواروں نے مختلف انتخابی نشان الاٹ ہونے کے بعد آزاد حیثیت سے انتخابی مہم شروع کر دی ہے، مگر ووٹرز کے تحفظات اور سوالات سے بچنے کے لیے کمپین کے دوران امیدواروں نے عمران خان سے اپنی وفاداری ظاہر کرنے کے لیے انوکھا طریقہ اختیار کیا ہے۔ امیدوار اپنے حلقوں میں جاکر انتخابی مہم کے دوران کارکنوں کے سامنے قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر پارٹی سے وفاداری کا حلف اٹھا رہے ہیں۔
حلف اٹھانے والوں میں این اے فور سوات سے سہیل سلطان، پی کے نائن سے سلطان روم ، پی کے 12 سے یامین خان اور پی کے 73 سے امیدوار علی زمان شامل ہیں، جبکہ دیر این اے سکس کے امیدوار اور سابق ایم این اے بشیر خان نے بھی قرآن پاک پر حلف دے کر آخری دم تک عمران خان کا ساتھ دینے کا عہد کیا۔ بیشتر اراکین نے حلف لیتے وقت وڈیو بھی ریکارڈ کر کے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ بھی کی تاہم کچھ رہنماؤں نے کارنر میٹنگز میں اپنے عہدیداروں کے سامنے حلف اٹھایا
پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار بشیر خان نے اپنے بیان میں کہا کہ ’میرا نظریہ عمران خان ہیں اور الیکشن میں کامیابی کے بعد بھی یہی نظریہ رہے گا۔‘
اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی ترجمان معظم بٹ کا کہنا ہے کہ پارٹی کی جانب سے ایسی کوئی ہدایت جاری نہیں کی گئی اور نہ ہی ہماری ایسی کوئی پالیسی ہے کسی امیدوار نے ذاتی حیثیت میں ایسا اقدام کیا ہوگا، جس کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں۔‘
تو آخر یہ حلف اٹھانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس حوالے سے سینیئر صحافی صفی اللہ گل کہتے ہیں ”پی ٹی آئی کے امیدوار اپنے ووٹرز میں اعتماد بڑھانے کے لیے حلف اٹھا رہے ہیں کیونکہ یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ الیکشن میں کامیابی کے بعد کہیں یہ آزاد امیدوار کسی اور پارٹی کے ساتھ شامل نہ ہو جائیں“
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد امیدواروں پر اسمبلی میں فلور کراسنگ کا قانون لاگو نہیں ہوگا، یہ امیدوار کسی جماعت یا حکومت میں شامل ہو سکتے ہیں
صفی اللہ کے مطابق ’ پرویز خٹک اگر کامیاب ہوتے ہیں تو پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کو ساتھ ملانے کی کوشش کریں گے یا پھر کوئی بھی جماعت اگر اقتدار میں آجاتی ہے اس کے لیے بھی ان ازاد امیدواروں کی بڑی اہمیت ہو گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’امیدواروں سے حلف اسی لیے جا رہے ہیں کہ کہیں وہ الیکشن جیتنے کے بعد کسی اور کے ساتھ نہ مل جائیں۔‘
واضح رہے کہ سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اپنے حلقے میں انتخابی مہم کے دوران بتایا کہ عمران خان کو چھوڑنے کے لیے ان کو بڑی بڑی پیشکشیں کی گئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’مجھ پر شدید دباؤ ہے مگر اس کے باجود پارٹی کو نہیں چھوڑا اور نہ ہی چھوڑوں گا۔‘