دنیائے کرکٹ کے عظیم ترین کھلاڑی گیری سوبرز کی کہانی

ویب ڈیسک

کرکٹ کی دنیا میں ایسی کم ہی ہستیاں موجود ہوں گی، جنہوں نے کم وقفے میں عالمی سطح پر اپنی منفرد شناخت بنائی ہو۔ انہی میں سے ایک کھلاڑی سرگیری سوبرز کا نام بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ گیری سوبرز ویسٹ انڈیز ٹیم کے ایک عظیم آل راؤنڈر رہے۔ دنیا کے سب سے معروف اور اعلیٰ کھلاڑیوں میں ان کا شمار کیا جاتا ہے۔ اب تک کے سب سے زیادہ گُنوں والے باصلاحیت آل راؤنڈر سر گیری سوبرز کو ماہرین نے ہر وقت کا سب سے زیادہ ہونہار کھلاڑی قرار دیا۔

وہ نہ صرف اصطلاح کے عام معنوں میں ایک آل راؤنڈر تھے، بلکہ ایک شاندار بلے باز ہونے کے علاوہ، وہ ایک غیر معمولی باؤلر تھے جو درمیانی رفتار سے لے کر لیفٹ آرم اسپن تک ہر قابل فہم انداز میں باؤلنگ کر سکتے تھے۔ سوبرز بحیثیت باؤلر اتنے ہمہ گیر تھے کہ وہ تین مختلف انداز کی گیند کر سکتے تھے۔ -آرم سیون اور سوئنگ، آہستہ بائیں بازو آرتھوڈوکس، اور بائیں ہاتھ کی کلائی گھماؤ۔ وہ کسی بھی پوزیشن پر ایک شاندار فیلڈر تھے لیکن خاص طور پر وکٹ کے قریب فیلڈنگ میں ماہر تھے۔ ان کی مقبولیت ایسی تھی کہ بریڈمین نے خود سوبرز کو ’فائیو ان ون کرکٹر‘ کہا۔

ان کا پورا نام گارفیلڈ سینٹ اوبورن سوبرز ہے، لیکن وہ گیری سوبرز کے نام سے ہی مشہور ہوئے۔ ان کی پیدائش 28 جولائی 1936 کو بارباڈوز کے شہربرج ٹاؤن میں ہوئی۔ وہ اپنے والدین کے چھ بچوں میں پانچویں نمبر پر تھے۔

پیدائش کے وقت ان کے ہاتھوں میں دو اضافی انگلیاں تھیں، ہر ایک ہاتھ پر ایک۔۔ انہوں نے جب ہوش سنبھالا تو اپنے دونوں ہاتھوں میں پانچ، پانچ انگلیاں اور ایک ایک انگوٹھا دیکھ کر وہ قطعاً پریشان نہیں ہوئے۔

سوبرز نے اپنی سوانح حیات کے پہلے باب میں اس کا ذکر تفصیل سے کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ”یقیناً بہت سے لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ میرا مقدر اس لیے بہت اچھا تھا کیونکہ میں دو اضافی انگلیوں کےساتھ دنیا میں آیا تھا۔۔ یہ ان کی اپنی سوچ تو ہو سکتی ہے لیکن میں نے اس بارے میں کبھی بھی زیادہ نہیں سوچا تھا۔ دونوں ہاتھوں میں چھ، چھ انگلیوں کی وجہ سے مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوئی اور نہ ہی میرا کوئی کام رُکا۔۔“

گیری سوبرز نے یہ دو اضافی انگلیاں ہمیشہ اپنے ساتھ نہیں رہنے دی تھیں۔ جب وہ نو یا دس برس کے تھے تو انہوں نے خود ہی ایک ہاتھ کی ایک اضافی انگلی کو کسی تیز دھار آلے پر رکھ کر الگ کر دیا تھا۔ جبکہ دوسرے ہاتھ کی اضافی انگلی انہوں نے تیز دھار چاقو سے الگ کر دی تھی، اس وقت ان کی عمر پندرہ سال تھی!

گیری کے والد شمونٹ سوبرز کینیڈین مرچنٹ نیوی میں ملازم تھے۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران ان کے جہاز پر جرمن فوجیوں نے حملہ کیا تھا، جس میں ان کی موت ہو گئی تھی اور اس طرح ان کے پورے خاندان کی ذمہ داری سوبرز ان کے بھائیوں پر آ گئی، تب گیری محض پانچ برس کے تھے ۔ اسی وجہ سے ان کا بچپن بہت مشکلات سے دوچار رہا۔

سوبرز نے اپنی ابتدائی تعلیم بیس سینٹ اسکول سے حاصل کی۔ بچپن سے باسکٹ بال، فٹ بال اور کرکٹ کھیلنا پسند تھا۔ کرکٹ سے زیادہ دلچسپی رہی۔

تاہم کرکٹ سوبرز کا پہلا شوق تھا، جو جنون بن گیا۔ وہ آٹھ سال کے تھے جب بارباڈوس کے وانڈررز گراؤنڈ کے اسکور بورڈ پر اسکورنگ کیا کرتے تھے۔ اسکورنگ کا فائدہ یہ ہوا کہ وہ اس دور کے تمام ہی بڑے کرکٹرز کو اپنے سامنے کھیلتا دیکھتے تھے، جن میں فرینک وارل، کلائیڈ والکوٹ اور ایورٹن ویکس قابل ذکر تھے۔

ان کے کریئر پر وانڈررز کے دو گراؤنڈز میں فرینک گرانٹ اور برگس گرینڈیسن کا بہت زیادہ اثر رہا۔ وہ پچ کی تیاری میں ان دونوں کی مدد کیا کرتے تھے، جس کے عوض انہیں گراؤنڈ میں کھیلنے کی اجازت مل جاتی تھی۔ برگس نے ہی گیری سوبرز کی صلاحیتوں کو بھانپتے ہوئے ویسٹ انڈین کپتان ڈینس ایٹکنسن سے ذکر کیا تھا، جنہوں نے سوبرز کو اپنے ساتھ پریکٹس کا موقع دیا۔

گیری سوبرز اور ان کے اسی طرح کے باصلاحیت بھائی جیرالڈ نے اپنی بے اسٹریٹ بوائز اسکول کی ٹیم کو مسلسل تین سال تک پرائمری اسکول انٹر اسکول کرکٹ چیمپئن شپ جیتنے میں مدد کی۔ اپنی متاثر کن مہارت کی وجہ سے، سوبرز کی اتنی مانگ ہو گئی کہ 13 سال کی عمر میں انہیں دو کرکٹ ٹیموں میں کھیلنے کے لیے منتخب کر لیا گیا۔ یہ بارباڈوس کرکٹ لیگ (بی سی ایل) میں کینٹ سینٹ فلپ کلب اور وانڈررز کلب تھے۔

کرکٹ کا یہ ہنر بالآخر انہیں بین الاقوامی شہرت تک لے گیا۔ گیری سوبرز نے اپنا پہلا فرسٹ کلاس کرکٹ 16 برس کی عمر میں کھیلا۔ سال 1954 میں صرف 17 برس کی عمر میں انگلینڈ کے خلاف انٹرنیشنل ٹسٹ کا پہلا کرکٹ میچ کھیلا۔

انہوں نے اپنے کیرئیر میں کچھ ناقابل فراموش اننگز کھیل کر اپنی غیر معمولی مہارت سے سب کو حیران کر دیا۔ ان کا ٹیسٹ کیریئر تقریباً 20 سال تک جاری رہا، اور انہوں نے اپنے ملک کے لیے 39 بار کپتانی کی۔ کھیل میں ان کی بے شمار مہارتوں اور ریکارڈز کے نتیجے میں، وہ طویل عرصے سے ایک کرکٹ کے ذہین کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔ وہ اب بھی کرکٹ کی تاریخ کے عظیم ترین آل راؤنڈر کے طور پر شمار کیے جاتے ہیں۔

جب ملک کی نسل پرستی کی پالیسی کی وجہ سے جنوبی افریقہ پر بین الاقوامی کرکٹ سے پابندی عائد کر دی گئی تو ٹیم کے 1970 میں انگلینڈ اور 1971-72 میں آسٹریلیا کے دو منافع بخش دورے منسوخ کر دیے گئے۔ کرکٹ حکام نے اس کے بدلے میں غیر سرکاری ٹیسٹ سیریز کھیلنے کے لیے باقی دنیا کی ٹیمیں تشکیل دے کر جواب دیا اور ان ٹیموں میں جنوبی افریقہ کے کچھ سرکردہ کھلاڑی شامل تھے۔ سوبرز کو دونوں سیریز میں باقی دنیا کی کپتانی کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔

بلے بازی کی سب سے بڑی نمائش ایم سی جی میں 1972 میں ہوئی، جب ورلڈ الیون کے لیے کھیلتے ہوئے سوبرز نے آسٹریلوی اٹیک کو تباہ کر دیا، جس میں 254 کے راستے پر ڈینس للی بھی شامل تھے۔ جب سوبرز نے ایک اوور میں چھ چھکے مارے تو یہ کرکٹ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تھا

گیری سوبرز سے جب انگلش کاؤنٹی ناٹنگھم شائر نے معاہدہ کیا تو وہ اس پر بہت خوش تھے۔ ان کے خیال میں ایک سیزن کے پانچ ہزار پاؤنڈ، رہائش، گاڑی اور بارباڈوس جانے کا ٹکٹ اگر مل جائے تو اس سے زیادہ اچھی بات اور کیا ہو سکتی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ سنہ 1968 سے پہلے ہی کاؤنٹی کرکٹ کھیل سکتے تھے لیکن کاؤنٹی کھیلنے کا اہل ہونے کے لیے دو سال انگلینڈ میں قیام اور اپنے ملک کی نمائندگی نہ کرنا انہیں ہرگز قبول نہ تھا۔

کاؤنٹی کرکٹ میں سر گیری سوبرز نے یوں تو کئی شاندار اننگز کھیلیں لیکن اپنے پہلے ہی سیزن میں گلیمورگن کے خلاف سوانزی میں ان کی 76 رنز ناٹ آؤٹ کی اننگز ایک خاص وجہ سے ہمیشہ یاد رکھی جاتی ہے۔

یہ وہی اننگز ہے، جس میں سوبرز نے ایک ہی اوور میں چھ چھکے لگائے تھے۔ فرسٹ کلاس کرکٹ میں اس سے قبل کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ کسی بیٹسمین نے ایک اوور کی تمام گیندوں پر چھکے لگائے ہوں۔

سوبرز کی جانب سے اس سلوک کا شکار ہونے والے بدقسمت بولر میلکم ناش تھے۔ سوبرز کا پہلا چھکا ڈیپ مڈوکٹ باؤنڈری کی طرف گیا۔ دوسرے چھکے نے ڈیپ سکوائر لیگ کی راہ لی۔ تیسری گیند پر سوبرز نے بالکل سامنے چھکا مارا۔ چوتھی گیند پر چھکے کا رُخ ڈیپ فائن لیگ کی طرف تھا۔ پانچویں گیند پر لانگ آف باؤنڈری پر راجر ڈیوس نے کیچ تو کر لیا لیکن توازن برقرار نہ رکھ سکے اور باؤنڈری کے باہر گر گئے۔ اس کے بعد آخری گیند کو سوبرز نے ڈیپ سکوائر لیگ کے باہر پہنچا کر تاریخ رقم کی۔

آخری چھکے پر گیند میدان سے باہر چلی گئی تھی۔ گیارہ سالہ رچرڈ لوئس کو یہ گیند قریبی باغ میں ملی جو انہوں نے کرکٹ کمنٹیٹر ولف وولر کے حوالے کر دی، جنہوں نے اسے ناٹنگھم شائر کاؤنٹی تک پہنچا دیا اور یوں یہ گیند ناٹنگھم شائر کاؤنٹی کے میوزیم کی زینت بن گئی۔

سر گیری سوبرز کہتے ہیں ”میرے چھ چھکوں کی وڈیو ریکارڈنگ محفوظ ہونے کا پس منظر بھی دلچسپ ہے۔ ولف وولر کمنٹری کر رہے تھے۔ جب میں نے پہلا چھکا مارا تو انہیں پروڈیوسر کی جانب سے کہا گیا کہ میچ کی مزید ریکارڈنگ کے بجائے آپ کو اسٹوڈیو واپسی کی اناؤنسمنٹ کرنی ہے لیکن انہوں نے اپنے پروڈیوسر سے مزید وقت مانگ لیا اور جب میں نے لگاتار تیسرا چھکا مارا تو وولر نے اپنے پروڈیوسر کو کہہ دیا کہ اب کچھ بھی ہو جائے یہ میچ ہی ریکارڈ ہوگا، اسٹوڈیو واپسی نہیں ہو سکتی۔“

سوبرز کہتے ہیں ”اگر یہ اننگز ریکارڈ نہ ہوتی تو اس کا بھرپور تاثر، جو دنیا پر قائم ہوا، وہ نہ ہوتا۔۔ خاص کر وہ کیچ، جس میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ فیلڈر راجر ڈیوس باؤنڈری لائن کے باہر گر گئے تھے۔“

سوبرز نے 1966-67 کے ہندوستان کے دورے پر اداکارہ انجو مہندرو سے ملنے کے بعد ان سے مختصر طور پر منگنی کی تھی۔

1966میں ویسٹ انڈین ٹیم کے دورۂ انڈیا میں گیری سوبرز کی اداکارہ انجو مہندرو سے ملاقات ہوئی اور وہ انہیں دل دے بیٹھے۔ یہاں تک کہ بات منگنی تک جا پہنچی۔ منگنی کی تقریب میں پانچ سو سے زیادہ لوگ مدعو کیے گئے۔ سوبرز اس وقت اپنے کریئر کے عروج پر تھے۔ تاہم یہ شادی نہ ہو سکی

پھر گیری سوبرز نے ستمبر 1969 میں ایک آسٹریلوی پرو کربی سے شادی کی۔ ان کے دو بیٹے میتھیو اور ڈینیئل اور ایک گود لی ہوئی بیٹی جنیویو تھے۔ 1984 میں جوڑے کے ٹوٹنے کے بعد یہ شادی 1990 میں طلاق پر ختم ہوئی تاہم سوبرز نے اس شادی کے ذریعے آسٹریلیا کی دوہری شہریت حاصل کی۔

انڈین اداکارہ سے منگنی اور پھر آسٹریلوی پرو سے شادی کے حوالے سے گیری سوبرز لکھتے ہیں ”میں انجو کو شادی کی تقریب کے لیے لندن لے جانا چاہتا تھا لیکن کچھ مسائل آڑے آ گئے۔ ہم دونوں کے درمیان فاصلے سب سے بڑی رکاوٹ بن گئے۔ وہ میرے ساتھ انگلینڈ نہ جا سکیں اور پھر مجھے اندازہ ہوا کہ یہ شادی نہیں ہو پائے گی اور جب چند برس بعد میری آسٹریلین لڑکی پرو کربی سے منگنی ہوئی تو مجھے انجو مہندرو کو فون کر کے اجازت لینا پڑی تھی۔ انھوں نے اگرچہ اس کی اجازت دے دی تھی لیکن مجھے پتا چلا تھا کہ انہیں اس بات کا بہت دُکھ تھا کہ میں ان کی فیملی کا حصہ نہ بن سکا۔“

گیری سوبرز 1974 میں ریٹائر ہوئے اور 1975 میں نائٹ ہوئے۔ انہیں 2000 میں وزڈن کے پانچ صدی کے بہترین کرکٹرز میں سے ایک قرار دیا گیا۔ سوبرز نے کرکٹ پر کئی کتابیں لکھیں، جن میں ایک ناول، بوناونچر اینڈ دی فلیشنگ بلیڈ (1967) اور جے ایس بارکر کے ساتھ، ویسٹ انڈیز میں کرکٹ کی تاریخ (1967) شامل ہیں۔)

2004 میں، انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے سر گارفیلڈ سوبرز ٹرافی کا افتتاح کیا جو آئی سی سی کی جانب سے سال کے بہترین کھلاڑی کے طور پر منتخب ہونے والے کھلاڑی کو ہر سال دی جاتی ہے۔

سر گیری سوبرز اعداد وشمار کے لحاظ سے بھی کسی سے پیچھے نہیں، لیکن اس جنجھٹ میں پڑے بغیر ہم ان کی عظمت دوسرے پیمانوں سے جانچتے ہیں۔ کرکٹ کے عظیم کھلاڑیوں کی طرف سے کم ہی کسی اور کرکٹر کو سوبرز کے برابر سراہا گیا ہوگا۔ ویسٹ انڈین کرکٹ کی عظمت اگر کسی ایک شخص میں مجسم دیکھنی ہو تو وہ گیری سوبرز کی شخصیت ہی ہو سکتی ہے۔

آسٹریلیا کے سابق کپتان اور نامور کرکٹ مبصر آئن چیپل نے اپنی دلچسپ کتاب Chappelli: Life, Larrikins & Cricket میں عظیم آسٹریلین آل راؤنڈر کیتھ ملر کے اپنے بیٹے کے ساتھ کرکٹ میچ دیکھنے کا ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ میچ کے دوران، ٹی وی اسکرین پر بیٹنگ کے بارے میں اعداد و شمار ابھرے۔ ظاہری بات ہے اس گورکھ دھندے میں بریڈمین کو کون پچھاڑ سکا ہے، سو کمنٹیٹر نے انہیں کرکٹ کی تاریخ کا عظیم ترین کھلاڑی قرار دیا۔ لیکن کیتھ ملر نے بیٹے کے سامنے اس بیان کی تصحیح یوں کی:
’آل ٹائم عظیم ترین بلے باز: سر ڈان بریڈمین
آل ٹائم عظیم ترین کرکٹر: سر گیری سوبرز‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ بریڈمین خود بھی سوبرز کی عظمت کے بڑے قائل تھے۔ ان کی متنوع خوبیوں کی بنیاد پر انہیں فائیو ان ون کہا کرتے تھے۔

سنہ 1972 میں ورلڈ الیون کے کپتان کی حیثیت سے سوبرز نے آسٹریلیا کی مضبوط بولنگ کے خلاف 254 رنز کی شاندار اننگز کھیلی، یہ ڈینس للی کے عروج کا زمانہ تھا، جبکہ سوبرز کا کیریئر اختتام کی طرف گامزن تھا۔ للی گذشتہ میچ کی ایک اننگز میں آٹھ تو دوسری میں چار وکٹیں لے چکے تھے۔ میلبورن ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں انہوں نے سوبرز کو صفر پر پویلین کی راہ دکھائی۔ اس ناکامی کی کسر سوبرز نے دوسری اننگز میں 254 رنز (ناٹ آؤٹ) بنا کر نکالی۔ اس اننگز کو بریڈمین نے آسٹریلین سرزمین پر بلے بازی کا بہترین مظاہرہ قرار دیا

سائمن لسٹر نے Fire in Babylon میں گیری سوبرز کے حوالے سے ایک دلچسپ واقے کا ذکر کیا ہے کہ سنہ 1963 کے دورۂ انگلینڈ میں، ویسٹ انڈین کپتان فرینک وورل نے کھلاڑیوں پر رات 10 بجے کے بعد کمرے سے نکلنے پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔ اس ’کرفیو‘ سے سوبرز کو استثنا حاصل تھا، جس پر دوسرے کھلاڑی ناخوش تھے۔

اس بات سے نالاں دیگر کھلاڑی ایک دن کپتان کے پاس گئے اور کہا کہ یہ غلط بات ہے کہ سوبرز جس وقت تک مرضی باہر رہے اور ہمیں 10 بجے سونے کا پابند کیا جائے۔ اس پر کپتان نے ان کھلاڑیوں میں شامل باسل بوچر سے کہا ”اچھا ٹھیک ہے۔۔ تم اور دوسرے کھلاڑی پانچ وکٹیں، شارٹ لیگ پر دو عمدہ کیچ اور سینچری بنا کر دکھاؤ تو پھر تمہیں بھی میری طرف سے یہ اجازت ہوگی کہ جب تک چاہو باہر گھومو پھرو۔“ اس بات کا شکایت کرنے والے کھلاڑیوں کے پاس کوئی جواب نہیں تھا اس لیے وہ خاموشی سے واپس لوٹ آئے۔

گیری سوبرز کے کرکٹ میں بہت سے کارنامے ہیں۔ ان کا پہلا کارنامہ ہی بڑا عظیم اور تاریخی تھا۔ سنہ 1958 میں پاکستان کے خلاف ٹیسٹ میچ میں انہوں نے لین ہٹن کے سب سے زیادہ انفرادی اسکور 364 کا ریکارڈ، ناقابل شکست 365 رنز بنا کر توڑ دیا۔ یہ ٹیسٹ میں ان کی پہلی سینچری تھی۔ اس وقت ان کی عمر 23 برس تھی۔

سوبرز اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ”اس اننگز کے دوران میں رات کو بہت کم نیند لے پایا تھا۔ مجھے یاد ہے جب میری ٹرپل سنچری مکمل ہوئی تو کلائیڈ والکوٹ نے مجھ سے کہا تھا کہ مجھے مزید 65 رنز بنانے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ورلڈ ریکارڈ قائم ہو سکے۔ والکوٹ کا یہ بھی کہنا تھا کہ میرے کریئر میں تین سو رنز شاید دوبارہ نہ بن سکیں لہٰذا مجھے ہر صورت میں ورلڈ ریکارڈ کی طرف جانا چاہیے۔“

ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے بڑی انفرادی اننگز کا سوبرز کا یہ ریکارڈ 36 سال تک قائم رہا، جسے ان ہی کے ہم وطن برائن لارا نے 375 رنز بنا کر توڑا۔ پھر آسٹریلیا کے میتھیو ہیڈن نے 380 رنز کی اننگز کھیلی لیکن برائن لارا 400 رنز بنا کر دوبارہ اس عالمی ریکارڈ کے مالک بن گئے اور آج تک ہیں۔

سوبرز نے جس سیریز میں ریکارڈ قائم کیا، اسی سیریز میں حنیف محمد نے 337 رنز کی عظیم اننگز کھیلی۔ حنیف محمد نے اپنی کتاب ’پلینگ فار پاکستان ‘میں سوبرز کو شاندار لفظوں میں خراج تحسین پیش کیا ہے اور انہیں ’فور ان ون‘ قرار دیا ہے۔

دیگر لوگ ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں، آئیے دیکھتے ہیں:

”گیری سوبرز ایک آل راؤنڈر کے طور پر بے مثال تھے، انہوں نے ہمیشہ اس طرح کرکٹ کھیلی جس طرح خدا کا ارادہ تھا – بالکل سیدھا، بالکل سخت، لیکن کبھی بھی بدتمیزی کے ساتھ نہیں۔“ ٹریور بیلی

”وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ وہ سب سے مکمل آل راؤنڈ کرکٹر ہے جسے میں نے دیکھا ہے۔“ براڈکاسٹر اور آسٹریلیا کرکٹ کے سابق کپتان رچی بیناؤڈ

”ابھی تک کے عظیم ترین کرکٹرز میں سے ایک جنہوں نے اس کھیل کو شاندار بنایا، یقیناً عظیم ترین آل راؤنڈر“ انگلینڈ کے سابق فاسٹ باؤلر فریڈ ٹرومین

”کھیل میں صرف 360 ڈگری والا کھلاڑی، کمپاس پر ہر ڈگری کے ذریعے!“ سابق جنوبی افریقہ کرکٹر بیری رچرڈز

”وہ جس نے کرکٹ کے میدان پر ہر کام آسانی سے کیا، لیکن جسے اس مشکل کا سامنا کرنا پڑا کہ تمام مردوں کے لیے سب کچھ ہونا چاہیے۔“ کرکٹ مصنف گیڈون ہائی

”کرکٹ کی تاریخ کا بہترین آل راؤنڈ کھلاڑی۔۔ اس نے جو کچھ بھی کیا، وہ قدرتی فضل سے نشان زد تھا، جو پہلی نظر میں ظاہر ہوتا تھا۔“ 38 سال کی عمر میں سوبرز کی کل وقتی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے موقع پر وزڈن کرکٹ مصنف جان آرلوٹ

”سوبرز کا عروج غیر معمولی رہا ہے۔ دس سال قبل جب اس نے اپنے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کیا تو اس نے اپنی جگہ صرف اور صرف اپنی قابلیت کی بنیاد پر بائیں ہاتھ کے سست بولر کے طور پر حاصل کی۔ اس کے بعد اس نے اپنی بیٹنگ کو ترقی دی اور جلد ہی آسٹریلیا کے خلاف اننگز کا آغاز کیا۔ تیز گیند پر اس کا ہاتھ اور نئی گیند سے جان لیوا ہو گیا۔“ وزڈن کرکٹر آف دی ایئر کا حوالہ، 1964

”سوبرز کی طرف سے سزا ملنے پر خوشی ہوئی۔ میں ان کے دور میں کھیلنے کے لیے شکر گزار ہوں، جس طرح میں نے بریڈمین اور ٹنڈولکر کو باؤلنگ کرنے کی خواہش کی تھی۔“ سابق ہندوستانی اسپن بولر بشن بیدی

”میں صرف تاریخ کا حصہ تھا اور میں کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ یہ میری زندگی کا صرف ایک اوور تھا۔ کیا میں اسے واپس لوں گا؟ کبھی نہیں۔ میری خواہش ہے کہ مجھے اس کی قیمت مل جاتی۔ یہ مجھے امیر بنا دیتا۔“ میلکم نیش، جنہیں سوبرز نے ایک اوور میں چھ چھکے لگائے

”سوبرز کے پاس وہ مخصوص ایکس فیکٹر تھا، وہ کرشمہ جس نے عمران خان، ویون رچرڈز، ایان بوتھم، کپل دیو، برائن لارا اور شین وارن جیسے کھلاڑیوں کو باقیوں سے الگ کیا۔“ -ویسٹ انڈیز کرکٹ صحافی ٹونی کوزیئر

سوبرز عظیم بلے باز تھے۔ 93 ٹیسٹ میچوں میں 57.78 کی اوسط سے 8032 رنز بنائے اور 235 وکٹیں حاصل کیں۔ لیفٹ آرم اسپن بولنگ کے ساتھ ساتھ میڈیم پیسر کی حیثیت سے بھی کارگر تھے۔ ساتھ ہی باکمال فیلڈر بھی تھے۔ 39 ٹیسٹ میچوں میں قیادت کی۔ کپتان کی حیثیت سے 58.80 کی اوسط سے رنز بنائے، اس معاملے میں ڈان بریڈمین ہی ان سے آگے ہیں۔ سنہ 1975 میں انہیں سر کا خطاب ملا۔

گیری سوبرز کی ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کو 50 برس ہونے کو ہیں لیکن ان کا نام ذہنوں سے محو نہیں ہوا۔ مختلف حوالوں سے ان کا تذکرہ ہوتا رہتا ہے۔ آج ٹی20 کا دور دورہ ہے۔ ماضی کے کھلاڑیوں پر مبنی ٹی20 کی ایک تصوراتی ورلڈ الیون بنائی جائے تو اس میں سوبرز ضرور شامل ہوں گے۔ بہترین اور جارح بلے باز، عمدہ بولر، باکمال فیلڈر، بے مثال فٹنس، قائدانہ صلاحتییں الگ ۔ایسا پہلو دار کرکٹر ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گا۔ ان کا میدان میں ہونا شرط تھا وہ کسی بھی حیثیت سے شائقین کو محظوظ کر سکتے تھے۔

ان کی متنوع خوبیوں کی بنا پر سنیل گواسکر نے کہا کہ وہ کرکٹ کی فیلڈ میں سب کچھ کر سکتے تھے۔

ٹی20 میں چھکے ہی چھکے جدید دور کا قصہ ہے۔ سوبرز نے سنہ 1968 میں ناٹنگھم شائر کی طرف سے کھیلتے ہوئے گلیمورگن کے میلکم ناش کے اوور کی چھ کی چھ گیندوں کو باؤنڈری لائن سے باہر پھینک کر فرسٹ کلاس کرکٹ میں ایک اوور کی تمام گیندوں پر چھکے مارنے والے پہلے کھلاڑی بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

کرک انفو نے سنہ 2020 میں کرکٹ ماہرین کا چار رکنی پینل بنا کر ماضی کے کھلاڑیوں پر مشتمل ٹی20 کی ڈریم ٹیم بنائی۔ ماہرین نے کھلاڑیوں کی کارکردگی کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا۔ ان میں خاصی رد و کد ہوئی لیکن دلچسپ بات ہے کہ جس واحد کھلاڑی کو متفقہ طور پر چُنا گیا، وہ گیری سوبرز تھے۔ کھلاڑی ہی نہیں ٹیم کی کپتانی کے لیے بھی انہی کا انتخاب ہوا۔

بہرحال کرکٹ کوئی بھی روپ اختیار کر لے، اس میں رنگ بھرنے کے لیے گیری سوبرز کی طرح کے عظیم کھلاڑی کی ضرورت ہمیشہ رہے گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close