بلوچستان میں داخل ہونے والے مغربی ہواؤں کے سلسلے کے اثرات کی وجہ سے جمعہ یکم مارچ کو سندھ کے دارالحکومت کراچی میں گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے، بارش کی وجہ سے درجہِ حرارت میں کمی اور موسم قدرے سرد ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر اور اس سے ملحقہ علاقوں میں شدید ترین موسلادھار بارشوں کا سلسلہ جاری رہا، جس کے باعث بیشتر علاقے سیلابی ریلوں کی نظر ہو چکے ہیں جبکہ کئی دیہات بھی ڈوب گئے۔ گوادر کے نزدیک مکران کوسٹل ہائی وے پر سیلابی ریلے گزرتے رہے۔ مساجد میں بارش کے رکنے کے لیے اذانیں دی گئیں۔ گوادر میں گزشتہ روز 138 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔
گزشتہ روز محکمہ موسمیات ارلی وارننگ سینٹر کی جاری پیش گوئی کے مطابق یکم مارچ سے کراچی کے مختلف علاقوں میں گرج چمک کے ساتھ بارش ہونے کی توقع ہے، جبکہ یکم مارچ سے سندھ کے دیگر اضلاع جامشورو، ٹھٹہ، تھرپارکر، بدین، عمرکوٹ، میرپورخاص، حیدرآباد، ٹنڈوالہ یار، ٹنڈومحمد خان، نوشہرو فیروز، نواب شاہ میں بھی گرج چمک کےساتھ بارش کا امکان ہے۔
ارلی وارننگ سینٹر کے مطابق مغربی ہواؤں کا بلوچستان پر برقرار سلسلہ شدت اختیار کر جائے گا، جس کے باعث 29 فروری سے 2 مارچ کے درمیان قمبر شہدادکوٹ، جیکب آباد، لاڑکانہ، شکارپور، کشمور، گھوٹکی اور سکھر میں بارش ہو سکتی ہے۔
چیف میٹرولوجسٹ کراچی سردار سرفراز کے مطابق یکم مارچ سے کراچی میں گرج چمک کےساتھ ہونے والی بارش کے دوران شہر کے کچھ مقامات پر موسلادھار بارشں ہونے کی بھی توقع ہے جبکہ بارش کے دوران معمول سے تیز ہوائیں چل سکتی ہیں۔
سردارسرفراز نے بتایا کہ بارش بلوچستان پر موجود مغربی ہواؤں کے نئے سلسلے کے تحت ہوگی، جس کی شدت خلیج عمان اور بحیرہ عرب میں ملنے والی نمی کے سبب بڑھ جائے گی۔ دو مختلف سمندروں سے ملنے والا یہ موئسچر بارش کے ایک طاقتور سسٹم کی تشکیل کر سکتا ہے۔
سردار سرفراز کا مزید کہنا تھا کہ بارش کی وجہ سے درجہ حرارت میں کمی اور خنکی میں اضافہ ہونے کی توقع ہے۔
غیرسرکاری ویدر اسٹیشن پاک ویدر ڈاٹ کام کے جواد میمن کے مطابق مذکورہ مغربی سسٹم کے تحت کراچی میں بارش کے بھاری اسپیل ہو سکتے ہیں، جس کے دوران شہر کے کچھ حصوں میں ژالہ باری بھی ہو سکتی ہے۔
محکمہ موسمیات نے بدھ اور جمعرات کو کراچی میں زیادہ وقت دھوپ نکلے رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔
منگل کو کراچی دن بھر بلوچستان کی تند و تیز ہواؤں کی زد میں رہا، شمال مشرقی سمت سے چلنے والی ہواؤں کی رفتار 45 کلومیٹرفی گھنٹہ ریکارڈ کی گئی، جبکہ شہر کے مضافاتی علاقوں میں گرد آلود ہوائیں چلتی رہیں۔
دوسری جانب گوادر سمیت مکران ڈویژن میں کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی مسلسل بارشوں کے باعث گوادر شہر کا بیشتر حصہ پانی میں ڈوب گیا ہے اور اس وقت شہر میں ’اربن فلڈنگ‘ کی صورت حال ہے۔
متعدد مکانات اور دیواریں منہدم ہوگئیں۔ نشیبی علاقوں سے سینکڑوں لوگ اپنے گھر بارچھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔
محکمہ موسمیات کوئٹہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر مختار مگسی نے خبردار کیا ہے 29 فروری کو مغربی ہواؤں کا ایک نیا سلسلہ بلوچستان میں داخل ہوگا جو موجودہ سپیل سے زیادہ طاقتور ہوگا۔
’اس کے نتیجے میں گوادر، کیچ اور لسبیلہ سمیت صوبے کے جنوب اور جنوب مشرقی علاقے زیادہ متاثر ہوں گے۔‘
پی ڈی ایم اے نے بلوچستان کے تمام اضلاع میں 29 فروری سے 2 مارچ تک بارشوں کا الرٹ جاری کرتے ہوئے شہریوں کواس دوران غیر ضروری سفر کرنے، آبی گزرگاہوں اور پہاڑی دروں، گہرے پانی اور ڈیموں کے قریب جانے اورخستہ و کمزور مکانات میں رہائش سے گریز کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔
آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے ’پی ڈی ایم اے‘ نے ایک بیان میں کہا کہ گوادر میں 2010 کے بعد پہلی مرتبہ اس قدر شدید بارش ہوئی ہے اور ’ایمرجنسی لگا کر شہریوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا جارہا ہے۔‘
بیان میں کہا گیا کہ ’ڈی سی گوادر سمیت تمام ضلعی انتظامیہ کے لوگ، پی ڈی ایم اے، لیویز، پولیس تمام میدان عمل میں ہیں۔ سول سوسائٹی بھرپور کردار ادا کر رہی ہے۔‘
محکمہ موسمیات کوئٹہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر مختار مگسی نے بتایا کہ گوادر میں منگل کو چند گھنٹوں کے دوران 100 ملی میٹر سے زائد بارش ہوئی جس کی وجہ سے اربن فلڈنگ کی صورتحال پیدا ہوئی۔
ضلعی انتظامیہ کے مطابق گوادر اور اس سے ملحقہ علاقوں میں منگل کی صبح چار بجے شروع ہونے والی بارش دوپہر بارہ سے ایک بجے تک بغیر کسی وقفے کے جاری رہی جس کے باعث سیلابی صورتحال ہے۔
صحافی اعظم الفت کے مطابق ڈی جی پی آر کے افسر عبدالواحد نے بتایا ہے کہ ضلع گوادر بارشوں نے تباہی مچادی ہے۔گوادر کے علاقے سربندن اور شنکانی در میں بارش کا پانی کوسٹل ہائی وے پر بہہ رہا ہے، جس سے ہائی وے پر ٹریفک کی روانی متاثر ہے جبکہ رہائشی آبادی اور دکانیں پانی میں ڈوب گئی ہیں۔
موسلادھار بارش کے باعث دریائے نہنگ میں سیلاب سے ایک مقامی پل بھی بہہ گیا جس کے بعد سکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں کو بند کر دیا گیا ہے۔
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ شہر میں ایمرجنسی نافذ کرکے شہریوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جارہا ہے۔ متاثرہ علاقوں سے ڈی واٹر پمپ اور ٹینکرز کے ذریعے پانی کی نکاسی کا کام بھی کیا جا رہا ہے۔
محکمہ موسمیات کوئٹہ کے مطابق گوادر میں منگل کو چند گھنٹوں کے دوران 100 ملی میٹر سے زائد بارش ہوئی۔
بلوچستان کے ضلع کیچ میں بھی طوفانی بارش سے تربت تا مند کا راستہ پانی میں بہہ جانے سے سڑک بند ہےجبکہ نصیرآباد، ڈیرہ مرادجمالی اور گردونواح میں بھی تیز بارش ہوئی جس کے باعث نشیبی علاقے زیر آب آ گئے اور بجلی کے آٹھ فیڈر ٹرپ کر گئے جس سے کئی علاقوں میں بجلی کی فراہمی معطل ہوگئی ہے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق عبداللہ، توبہ اچکزئی، توبہ کاکڑی، زیارت، خانوزئی، کان مہترزئی اور مسلم باغ کے پہاڑوں پر برفباری جبکہ قلات، تربت، کیچ، کوئٹہ، زیارت، پنجگور، گوادر، آوران، خضدار، چمن اور پشین میں دوسرے روز (منگل) کو بھی بارشوں کا سلسلہ جاری رہا اور دارلحکومت کوئٹہ میں بارش اور پہاڑوں پر برف باری کے باعث شہر شدید سردی کی لپیٹ میں ہے۔
پانی کی نکاسی کا موثر نظام نہ ہونے سے پانی سڑکوں پر جمع ہو گیا ہے۔
سربراہ حق دو تحریک بلوچستان کے نو منتخب ایم پی اے گوادر مولانا ہدایت الرحمان بلوچ نے سوشل میڈیا پر جاری بیان میں کہا ہے کہ طوفانی بارش میں پورا گوادر شہر ڈوب گیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہےکہ گوادر میں فوری طور پر ایمرجنسی نافذ کی جائے۔
سینیٹر کہدہ بابر کہتے ہیں پورا گوادر شہر ڈوبا ہوا ہے۔ ضلعی انتظامیہ اپنی مدد آپ کے تحت کام کر رہی ہے اور انہوں نے آفات سے نمٹنے کے قومی اور صوبائی اداروں، این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے، سے کہا ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کریں۔
گوادر کے مقامی صحافی صداقت بلوچ کے مطابق گوادر شہر کے علاوہ جیونی، سربندن، کلانچ، پشکان ، پلیری، ستنسر اور ضلع کے باقی علاقے بھی بارش سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ شہر میں مواصلات کا نظام درہم برہم ہے، بجلی کے کھمبے گرنے اور فیڈر ٹرپ ہونے سے بجلی کی فراہمی منگل کی صبح سے معطل ہے۔ کئی علاقوں میں موبائل فون نیٹ ورک نے بھی کام چھوڑ دیا ہے۔
گوادر میں طوفانی بارش کے باعث طلبہ کی بڑی تعداد فزکس اور جنرل سائنس کا امتحان بھی نہیں دے سکے۔ ضلعی انتظامیہ اور ضلعی تعلیمی افسر کی درخواست پر بلوچستان بورڈ نے متاثرہ طلبہ سے بعد میں امتحان لینے کا اعلان کیا ہے۔
گوادر کے علاقے ملا بند کے رہائشی مولا بخش نے بتایا کہ گھر میں گھٹنوں تک پانی کھڑا ہے۔
کمشنر مکران ڈویژن نے تصدیق کی کہ کچھ علاقوں میں تین سے چار فٹ تک بھی پانی جمع ہے۔
مکینوں کے مطابق ’سارا سامان اور کمرے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں، بیٹھنے تک کی جگہ نہیں۔ گلی کوچے اور سڑکیں بھی ڈوب چکی ہیں۔ گھر سے پانی نکالنے کا کوئی طریقہ اور راستہ نہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں اگر مزید بارشیں ہوئیں اور گھروں سے پانی نہ نکالا گیا تو ہمارے گھر تباہ ہوجائیں گے۔
ایس ایچ او گوادر محسن علی نے بتایا کہ پرانی آبادی میں دو سے تین فٹ تک پانی جمع ہے، رہائشی مکانات زیادہ متاثر ہیں اور پانی جمع ہونے کی وجہ سے ان کے منہدم ہونے کا خطرہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ضلعی انتظامیہ اور پولیس مل کر شہریوں کوشہر کے بالائی علاقوں میں سرکاری سکولوں، عمارتوں اور دیگر محفوظ مقامات پر منتقل کررہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اب تک سینکڑوں افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جاچکا ہے۔
سیلابی ریلوں کی وجہ سےگوادر فش ہاربر اور سربندن میں سمندر کنارے کھڑی کی گئیں ماہی گیروں کی متعدد کشتیاں ڈوب یا پھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئیں۔
گوادر کے رہائشی ناصر سہرابی نے بتایا کہ ساحلی ضلع میں گذشتہ 14 سالوں میں ایسی بارش نہیں ہوئی۔ اس سے پہلے اتنی تیز بارش 2010 میں ہوئی تھی جب سمندری طوفان ’پیٹ‘ آیا تھا اور تین دنوں میں 377 ملی میٹر بارش ہوئی۔
اس وقت گوادر شہر کا بڑا حصہ پانی میں ڈوب گیا تھا اور شہر میں کئی فٹ تک پانی جمع ہوگیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ منگل کو ہونے والی بارش سے سب سے زیادہ گوادر پورٹ سے ملحقہ شہر کی پرانی آبادی بالخصوص پرانا ملا بند، سورگ دل، شادو بند اور فاضل چوک متاثر ہوئے ہیں۔ یہ علاقے ڈیم کا منظر پیش کررہے ہیں۔
محکمہ آبپاشی کے مطابق موسلا دھار بارش کے نتیجے میں گوادر کا آنکاڑہ ڈیم بھر گیا ہے۔
ناصر سہرابی کے مطابق پہلے پہاڑوں سے آنےوالے پانی کے ریلے یہاں سے بہہ کر مشرقی کی جانب سمندر میں چلے جاتے تھے اب مشرق میں فش ہاربر کی دیوار، شمال میں فش ہاربر کی اونچی سڑک بنا دی گئی ہے جبکہ جنوب اور مغرب میں پہاڑ ہے اور پانی سمندر تک جانے کے سارے راستے بند ہوگئے۔
ان کا کہنا ہے کہ پانی کی پرانی گزرگاہ بند ہونے کی وجہ سے سیلابی ریلوں نے آبادی کا رخ کرلیا ہے جس سے ان علاقوں میں دو سے تین فٹ تک پانی جمع ہوگیا ہے۔
گوادر پورٹ کے سیلابی نالوں کا رخ بھی سمندر کی بجائے پرانی آبادی کی طرف موڑا گیا ہے جس سے صورتحال مزید خراب ہوگئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پرانی آبادی میں گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے نکاسی آب کے لیے بچھائی گئی لائنیں ناکارہ ثابت ہوئی ہیں اس کی گنجائش بہت کم ہیں جو معمولی بارش کا دباؤ بھی برداشت نہیں کرسکتیں۔
حق دو تحریک کے سربراہ اور گوادر کے نومنتخب رکن بلوچستان اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان کا کہنا ہے کہ صورتحال کافی خراب ہیں۔
’پورا شہر پانی میں ڈوبا ہوا ہے، پانی نکالنے کا کوئی بندوبست نہیں، انتظامیہ بارش کا پانی ٹینکر کے ذریعے نکال کر سمندر میں پھینک رہی ہیں۔ یہ کام بہت سست روی کا شکار ہیں اس طرح تو پانی نکالنے میں کئی دن اور لگ جائیں گے۔‘
مولانا ہدایت الرحمان کے بقول نکاسی آب کی ساری منصوبہ بندی بارش میں بہہ گئی ہے۔ ’اربوں روپے کے فنڈز خرچ کیے گئے مگر اس سے عوام کو فائدہ پہنچنے کی بجائے نقصان پہنچا ہے اور ان کا بڑے پیمانے پر نقصان ہوگیا ہے۔‘
مکران کوسٹل ہائی وے کے دونوں جانب پانی جمع ہے۔ کئی مقامات پر شاہراہ پانی میں ڈوب چکی ہے جس کی وجہ سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوئی ہے تاہم ڈپٹی کمشنر گوادر میجر ریٹائرڈ اورنگزیب بادینی کا کہنا ہے کہ گوادر کا مکران کوسٹل ہائی وے کے ذریعے کراچی اور کیچ سے رابطہ بحال ہے۔
کمشنر مکران ڈویژن احمد عمرانی نے اردو نیوز کو بتایا کہ انتظامیہ کی پہلے سی تیاری تھی تاہم چند گھنٹوں میں 100 ملی میٹر بارش ہوجائے تو اس سے سیلاب آجاتا ہے گوادر میں بھی یہی صورتحال ہے۔
سینیٹر کہدہ بابر نے گوادر کو آفت زدہ شہر قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
گوادر سے ملحقہ کیچ میں بھی موسلا دھار بارش ہوئی ہے۔ تمپ اور مند میں 51 ملی میٹر، دشت میں 46 ملی میٹر بارش ہوچکی ہے جس کی وجہ سے نہنگ ندی میں طغیانی پیدا ہوگئی ہے اور دو لاکھ کیوسک کا ریلہ گزر رہا ہے۔
پی ڈی ایم اے مکران زون کے مطابق بارشوں کی وجہ سے 244 فٹ کی گنجائش رکھنے والامیرانی ڈیم بھر گیا ہے اور اس کے سپیل وے کھول دیئے گئے ہیں۔ اس کے سپیل وے سے 4.9 فٹ یا 20 ہزار کیوسک پانی خارج ہو رہا ہے ۔