سائنسدانوں نے تباہ کن سیارچوں کے راستے تبدیل کرنے اور انہیں زمین کو نقصان پہنچانے سے روکنے کے لیے جوہری ڈیوائس کو سمیولیٹ کرنے کے لیے ایک نیا ٹول تیار کرنے کی خبر سنائی ہے
منگل کو ’پلینٹری سائنس جرنل‘ میں شائع ہونے والی نئی تحقیق کسی سیارچے کی سطح پر جوہری ڈیوائس سے توانائی کے پھیلاؤ کو جانچنے کا ایک جدید طریقہ فراہم کرتی ہے
محققین امید کر رہے ہیں کہ وہ اس ماڈل کو ناسا کے 2022 ڈارٹ مشن سے حاصل کردہ معلومات پر استوار کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔ واضح رہے کہ اس مشن میں امریکی خلائی ایجنسی نے جان بوجھ کر ایک خلائی جہاز کو سیارچے کو اس کے مقررہ مدار کے راستے سے ہٹانے کے لیے اس کی سطح سے ٹکرایا تھا
لارنس لیورمور نیشنل لیبارٹری (ایل ایل این ایل) کے ماہر طبیعیات میگن برک سیال نے اس حوالے سے بتایا، اگرچہ ہماری زندگی کے دوران کسی بڑے سیارچے کے زمین سے ٹکرانے کی صورت میں پیدا ہونے والے اثرات کا امکان کم ہے، لیکن ایسا ہونے کے ممکنہ نتائج تباہ کن ہو سکتے ہیں
چونکہ جوہری ڈیوائس میں توانائی کی کثافت کا تناسب ان کی بڑی کمیت کی وجہ سے فی یونٹ سب سے زیادہ ہوتا ہے، اس لیے امریکی لیباٹری ایل ایل این ایل سمیت دیگر سائنسدانوں نے کہا ہے کہ اس طرح کی ٹیکنالوجی سیارچوں کے خطرات کو کم کرنے میں اہم ہے۔
محققین مطالعے میں لکھتے ہیں ”اگر سیاروں کے ٹکرانے کے حوالے سے کوئی حقیقی دفاعی ہنگامی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو تحقیقی یا تخفیفی مشن شروع کرنے کے حوالے سے فیصلہ سازی میں ان جدید ترین ماڈلنگ اور سٹمیولیشن صلاحیتوں سے آگاہی حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی“
انہوں نے کہا کہ اس طرح کی سٹمیولیشن کو بھی تیز رفتاری سے چلانے کی ضرورت ہے تاکہ فوری طور پر جوابی اقدامات کی تیاری کی جا سکے۔
ایل ایل این ایل سے وابستہ ماہر طبیعیات میری برکی نے کہا، ”اگر ہمارے پاس وارننگ جاری کرنے کا کافی وقت ہو تو ہم ممکنہ طور پر ایک جوہری ڈیوائس لانچ کر سکتے ہیں، جو اسے لاکھوں میل دور زمین کی جانب بڑھتے ہوئے کسی بھی سیارچے تک لے جا سکے“
انہوں نے مزید کہا، ”اس کے بعد ہم اس ڈیوائس کو دھماکے سے اڑا دیں گے، جو یا تو سیارچے کو برقرار رکھتے ہوئے اسے موڑ سکے گا لیکن زمین سے دور ایک کنٹرولڈ دھکا فراہم کرے گا یا ہم سیارچے میں خلل ڈالیں گے، اسے چھوٹے اور تیزی سے حرکت کرنے والے ٹکڑوں میں توڑ دیں گے، جو سیارے پر نہیں پہنچ پائیں گے“
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ جوہری دھماکوں کے ساتھ سیارچے کو موڑنے کی پیشن گوئی کرنے کے لیے طبیعیات میں متعدد نظریات پر مشتمل جدید ترین سٹمیولیشنز کی ضرورت ہوتی ہے
ان کا کہنا ہے ”ان سٹمیولیشنز میں متعلقہ فزکس کے حوالے سے مختلف شدت کے کئی دور ہوتے ہیں، جن کے لیے مختلف پیچیدہ طبیعیات کے پیکجز کی ضرورت ہوتی ہے اور حساب کے لحاظ سے یہ مہنگے ہوتے ہیں“
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایل ایل این ایل کی طرف سے تیار کردہ نیا ماڈل طبعی عوامل کی ایک وسیع رینج کا احاطہ کرتا ہے، جس سے سٹمیولیشن کا پیچیدہ اور کمپیوٹیشنل طور پر مطالبہ کیا جاتا ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ یہ ماڈل کئی عوامل کی سٹمیولیشن کرتا ہے، جس میں کئی پیچیدہ عوامل شامل ہوتے ہیں، جیسے کہ ریڈی ایشن اور سیارچے کے مواد میں روشنی داخل کرنا۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ حقیقی ہنگامی صورت حال میں اس طرح کی ایک جامع حکمت عملی اس ماڈل کو ممکنہ سیارچے کے منظرناموں کی ایک وسیع رینج فراہم کرے گی۔