سوشل میڈیا ہمارے دماغ اور نفسیات پر کیسے اثرانداز ہوتا ہے؟

ویب ڈیسک

ایک زمانہ تھا، جب مختلف ممالک کے لوگوں سے قلمی دوستی کرنے کے لیے مخصوص جرائد ہوا کرتے تھے، جن میں ان لوگوں کے ایڈریس درج ہوتے تھے، جن سے خط و کتابت کی جاتی اور لوگ دوستی کے رشتے میں بندھ جاتے، تاہم اس میں کافی وقت لگتا تھا

یہ معاملہ مگر اب تبدیل ہو چکا ہے، سوشل میڈیا نے جہاں فاصلے ختم کیے ہیں، وہیں آپ اب ایک کلک پر دنیا کے کسی بھی کونے میں موجود شخص سے نہ صرف متعارف ہو سکتے ہیں بلکہ اس سے رابطے میں بھی رہ سکتے ہیں۔۔ بلکل ایسے ہی، جیسے وہ آپ کسی بالمشافہ ملاقات کرتے ہیں

لیکن بدقسمتی سے سوشل میڈیا کی اس ترقی نے نہ صرف معاشرتی مسائل پیدا کیے ہیں، بلکہ اس سے نفسیاتی اور جذباتی طور پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں

ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ تقریباً 50 فی صد نوجوانوں سمجھتے ہیں کہ وہ سوشل میڈیا کی لت میں مبتلا ہیں۔

یونیورسٹی آف کیمبرج میں کی جانے والی تحقیق کے ابتدائی نتائج میں محققین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کے ساتھ کچھ لوگوں کا تعلق رویے کی لت کے جیسا ہو سکتا ہے

تحقیق میں کیمبرج یونیورسٹی کی ٹیم میلینیئم کوہورٹ اسٹڈی سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کا تجزیہ کر رہی ہے۔ یہ مطالعہ یونیورسٹی آف لندن میں سینٹر فار لونگیٹیوڈنل اسٹڈیز کی جانب سے کیا گیا ہے

اس مطالعے میں 2000 سے 2001 کے درمیان برطانیہ میں پیدا ہونے والے اٹھارہ ہزار سے زائد بچوں کی زندگیوں کا مطالعہ کیا تاکہ اکیسویں صدی کے ابتداء میں پیدا ہونے والے بچوں کے پس منظر کو ریکارڈ کیا جا سکے

کیمبرج محققین نے جائزے میں دیکھا کہ سروے کیے گئے سات ہزار بائیس افراد کے 48 فی صد حصے نے ’میرا خیال ہے میں سوشل میڈیا کی لت میں مبتلا ہوں‘ کے جملے سے اتفاق یا قطعی اتفاق کیا

یہ ڈیٹا جنوری 2018 سے مارچ 2019 کے درمیان اکٹھا کیا گیا، جس وقت ان شرکاء کی عمر سترہ برس تھی۔

سروے میں شریک وہ تمام افراد، جن کو یہ لگتا تھا کہ وہ اس لت میں مبتلا ہیں، ان میں لڑکوں (37 فی صد) کی نسبت لڑکیوں (57 فی صد) کی شرح زیادہ تھی

یونیورسٹی آف کیمبرج کی گریجویٹ طالبہ اور تحقیق کی سربراہ جورجیا ٹرنر کا کہنا تھا کہ محققین یہ نہیں کہہ رہے کہ جن لوگوں لگتا ہے وہ لت میں مبتلا ہیں، وہ مبتلا ہیں۔ لیکن اس بات کا احساس اچھا نہیں ہے کہ ان کو محسوس ہوتا ہو کہ ان کے اپنے رویے پر کوئی قابو نہیں، لہٰذا یہ کافی حیرت انگیز چیز ہے کہ کئی لوگ ایسا محسوس کرتے ہیں

جورجیا ٹرنر نے مزید کہا کہ تحقیق بتاتی ہے کہ سوشل میڈیا کی لت منشیات کی لت طرز پر اثر انداز ہو سکتی ہے

قبل ازیں بھی اس حوالے سے ماہرین اس موضوع پر تحقیق کرتے رہے ہیں۔ سنہ 2015 میں اس حوالے سے کیے گئے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ نوجوان ایک دن میں 9 گھنٹے سوشل میڈیا پر گزارنے کے بعد بھی اس سے مزید جڑے رہنے کے طلب گار ہوتے ہیں، جو ایک تشویشناک علامت ہے کیونکہ اس سے انسان کی ذہنی اور نفسیاتی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں

کینیڈا میں سنہ 2017 میں کی گئی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ وہ طالبِ علم جو دن میں دو گھنٹے سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں، ان کی ذہنی حالت ان لوگوں کے مقابلے میں بہت حد تک ابتر رہی، جو سوشل میڈیا سے دور رہتے ہیں

سنہ 2019 میں اس حوالے سے ہونے والی ایک اور تحقیق میں یہ بتایا گیا کہ سوشل میڈیا کے مسلسل استعمال سے پرسکون نیند متاثر ہوتی ہے، جس کی وجہ سے بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جن میں نفسیاتی اور ذہنی پریشانیاں اور الجھنیں شامل ہیں۔

ہر چیز کے مثبت اور منفی پہلو ہوتے ہیں، اسی طرح سوشل میڈیا کے بھی چند مثبت پہلو ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ذیل میں ان مثبت پہلوؤں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔

اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے مسلسل رابطے میں رہنا
نئے دوستوں سے متعارف ہونا
اپنے اطراف یعنی دنیا کے دیگر حصوں میں کیا کچھ ہو رہا ہے اس سے باخبر رہنا
وہ افراد جو دوردراز اور بڑی آبادی سے کٹے ہوئے علاقوں میں رہتے ہیں تو ان کے لیے بھی یہ مفید ثابت ہوتا ہے
مختلف معاشروں کے علاوہ متعدد امور کو جاننے کے لیے بھی مددگار ہے

تاہم سن خوبیوں کے مقابلے میں سوشل میڈیا کے منفی اثرات کہیں زیادہ ہیں، جو آہستہ آہستہ ان خوبیوں پر حاوی ہو رہے ہیں

اس حوالے سے اگرچہ تحقیق جاری ہے تاہم اب تک کیے گئے تحقیقی مطالعوں میں سوشل میڈیا کے مسلسل استعمال کو ڈپریشن اور پریشانی کا سبب قرار دیا گیا ہے

سوشل میڈیا کے استعمال کے عادی افراد اس کے نشے میں بری طرح مبتلا ہو جاتے ہیں اور ہر قسم کی پریشانی اور مسائل کا حل سوشل میڈیا میں تلاش کرنے لگتے ہیں۔

اس نشے میں مبتلا یعنی سوشل میڈیا کا شکار ہو جانے والے افراد ہر چند منٹ بعد اپنا فون چیک کرتے ہیں وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا کچھ نیا ہوا ہے۔ اس عادت سے مجبور ہو کر وہ یہ بھی فراموش کر دیتے ہیں کہ وہ گاڑی چلا رہے ہیں یا کسی اور مقام پر ہیں، وہ ہر تھوڑی دیر بعد اپنا موبائل فون ضرور چیک کرتے ہیں۔

پینسلوینیا یونیورسٹی کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں میں تنہائی کا احساس بتدریج زیادہ ہونے لگتا ہے۔

انسان کی تخلیق اس طرح کی گئی ہے کہ وہ معاشرے سے جڑا رہے، جبکہ سوشل میڈیا کا شکار ہوجانے والے افراد معاشرے سے کٹ جاتے ہیں اور وہ ایک دائرے میں محدود ہو جاتے ہیں۔ فطری تقاضوں سے دور ہونے کے باعث ان لوگوں میں اضطراب اور پریشانی کا عنصر بڑھ جاتا ہے کیونکہ انسان فطری طور پر معاشرے کا رکن ہوتا ہے اور اپنی اساس سے ہٹنے کی صورت میں اسے پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ایک سروے میں 10 فی صد بچوں نے سوشل میڈیا پر غیرمناسب رویے کی شکایت کی ہے۔ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ بلا وجہ دھونس کی وجہ سے انہیں کافی مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سوشل میڈیا کی جڑیں اس قدر گہری ہو چکی ہیں جو باعث تشویش امر ہے۔ اس حوالے سے لوگوں اور معاشرے پر سوشل میڈیا کے اثرات ذیل میں بیان کیے جا رہے ہیں۔

● سوشل میڈیا کی اہمیت کا حقیقی دوستوں سے بڑھ جانا

یہ سوشل میڈیا کا نشہ اس دور کی حقیقت بن چکی ہے جسے آپ تسلیم کریں یا نہ کریں کیونکہ اب محفل میں ہونے کے باوجود بھی ہر شخص سوشل میڈیا پر مصروف رہتا ہے۔

● خود کا موازنہ سوشل میڈیا پر موجود دوسرے لوگوں سے کرنا

آپ اگر سوشل میڈیا پر موجود لوگوں سے ملاقات کرکے یا ان کے بارے میں جان کر اپنی ذات کو کم تر محسوس کریں تو یقینی طور پر سوشل میڈیا نے آپ کی سوچ اور افکار کو کنٹرول کر لیا ہے اور آپ اس کا شکار ہو چکے ہیں جو انتہائی منفی عمل ہوگا۔

● فکری حدود

آپ کی سوچ اگر ایسی ہو گئی ہے کہ آپ سوشل میڈیا پر موجود لوگوں کی جانب سے ملنے والے کمنٹس سے مرعوب ہو جاتے ہیں یا غلط رویے سے متاثر ہوتے ہیں تو یقینی طور پر یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ آپ اس کا شکار ہو چکے ہیں۔

● کام کے دوران ذہنی تناؤ یا خلفشار

آپ اگر اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرتے ہوئے کچھ تحریر کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ کی بھرپور توجہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی جانب ہو مگر سوشل میڈیا کا مسلسل استعمال اور اس سے جڑے رہنے کی وجہ سے آپ کی توجہ بٹ جاتی ہے جس سے لوگ ذہن انتشار یا دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔

● اپنے بارے میں سوچنے کا وقت نہیں

کسی بھی انسان کے لیے یہ بہت اہم ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات کے بارے میں سوچے اور اپنی اصلاح کے لیے کوشاں رہے، مگر وہ افراد جو ہمہ وقت سوشل میڈیا پر اپنا وقت گزارتے ہیں وہ اس سے بیگانہ ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ یکسو ہو کر اپنے بارے میں سوچیں۔

● زیادہ لائیکس حاصل کرنے کے لیے حد سے تجاوز کرنا

سوشل میڈیا کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس کے عادی افراد محض زیادہ سے زیادہ لائیکس حاصل کرنے کے لیے ہر حد سے تجاوز کر جاتے ہیں جو بسا اوقات ان کے لیے انتہائی خطرناک بھی ثابت ہوتا ہے۔

● نیند میں خلل

جو افراد سوشل میڈیا کے اس قدر اسیر ہو جاتے ہیں کہ وہ سوتے ہوئے بھی سوشل میڈیا کو چیک کرتے ہیں یا بیدار ہوتے ہی ان کا سب سے پہلا عمل سوشل میڈیا کو چیک کرنا ہوتا ہے جس کے باعث ان کی نیند شدید متاثر ہوتی ہے جو ذہنی اور جسمانی نشونما کے لیے انتہائی اہم ہے۔

● اضطراب یا افسردگی میں اضافہ

یہ بات درست ہے کہ سوشل میڈیا آپ کی پریشانی یا افسردگی کو کم نہیں کرتا بلکہ اس میں اضافے کا بنیادی سبب ہے۔ اس کے علاوہ اس کے عادی بعض افراد تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

اگرچہ یہ حقیقت ایک ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے پیسے کمائے جاتے ہیں اسی لیے سوشل میڈیا کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ آپ اس سے مسلسل جڑے رہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ بعض حالتوں میں سوشل میڈیا سے منسلک افراد اس کے نشے کے اس قدر عادی ہو جاتے ہیں کہ بعد میں انہیں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جیسے ہی آپ کی کسی پوسٹ پر لائیک آئے یا اسے شیئر کرنے کا گراف بلند ہوتا ہے اور آپ کو اس بارے میں معلوم ہوتا ہے تو اس سے پیدا ہونے والا احساس آپ کے جسم میں مخصوص ہارمونز کا اضافہ کر دیتا ہے جس سے آپ سوشل میڈیا سے مزید جڑے رہتے ہیں چاہے ایسا کرنا آپ کے لیے نقصان دہ ہی کیوں نہ ہو۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close