ایک سرخ ستارے کی حیرت انگیز کہانی، جو کسی دن پوری کہکشاں کی روشنی کو بھی ماند کر دے گا!

ویب ڈیسک

آسمان کی وسعتوں میں پھیلا ہوا بے شمار ستاروں کا جھرمٹ ہمیں زمین سے دیکھنے پر ایک روشن دھاگے کی مانند لگتا ہے، لیکن اگر ہم اس کائناتی تصویر کو قریب سے دیکھیں تو ہمیں ان میں چھپے عظیم الشان اجرام فلکی کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک ستارہ جو اپنی دیوقامت جسامت اور دلکش رنگ کی وجہ سے ممتاز ہے، بیٹل جوز (Betelgeuse) ہے، جسے عموماﹰ بیٹل گُوز بھی کہا جاتا ہے۔

بیٹل جوز کا نام عربی زبان سے ماخوذ ہے، جہاں اسے ’یَد الجوزا‘ کہا جاتا تھا، یعنی ’جوزا کی بغل‘، جوزا دراصل اوریون کے جھرمٹ کا قدیم نام تھا۔

بیٹل جوز کو کبھی کبھی ’بگڑتا ہوا ستارہ‘ بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ اس کا بیرونی حصہ مسلسل سکڑتا اور پھیلتا رہتا ہے۔ بیٹل گوس کی روشنی کا اتار چڑھاؤ اتنا واضح ہے کہ اسے بغیر کسی دوربین کے بھی زمین سے دیکھا جا سکتا ہے، لیکن اگر اسے دوربین سے دیکھا جائے، تو یہ کسی ایسے شکاری کی طرح دکھائی دیتا ہے، جس نے اپنے کندھے پر بندوق اٹھا رکھی ہو۔ فلکیاتی ماہرین اسے ‘آرم پِٹ آف اے جائنٹ‘ (Armpit of a Giant) بھی کہتے ہیں۔

بیٹل جوز کا تعلق اوریون برج (Orion constellation) سے ہے، جو ایک انتہائی روشن اور نمایاں کہکشانی جھرمٹ ہے۔ بیٹل جوز اس جھرمٹ کے ایک حصے کے طور پر دیکھنے والوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ یہ ستارہ زمین سے تقریباً 640 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے، اور اپنے سرخ رنگ کی وجہ سے دور سے ایک سرخ جگمگاتی بتی کی مانند دکھائی دیتا ہے۔

بیٹل جوز کو ’سرخ عظیم الجثہ‘ (Red Supergiant) ستاروں میں شمار کیا جاتا ہے، جو اپنی زندگی کے آخری مراحل میں داخل ہو چکے ہیں۔ اس کی جسامت کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر بیٹل جوز کو ہمارے نظام شمسی میں رکھا جائے تو اس کا حجم اتنا بڑا ہوگا کہ یہ مریخ کے مدار تک پہنچ جائے گا! یعنی اس کی چوڑائی سورج سے لاکھوں گنا زیادہ ہے۔

ایسے دیوقامت ستاروں کا مطالعہ ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ کیسے کچھ ستارے اپنے زندگی کے آخری مراحل میں اتنے بڑے ہو جاتے ہیں، اور پھر سپرنووا میں تبدیل ہو کر کیسے فنا ہو جاتے ہیں۔

یہ ستارہ نہ صرف اپنے حجم بلکہ اپنے تبدیل ہوتے ہوئے رنگ اور روشنی کے باعث بھی مشہور ہے۔ بیٹل جوز کی روشنی وقت کے ساتھ ساتھ مدھم اور تیز ہوتی رہتی ہے، جو سائنسدانوں کے لیے ایک اہم موضوعِ تحقیق ہے۔

بیٹل جوز کی روشنی میں حالیہ برسوں میں غیر متوقع کمی بیشی ہوئی ہے، جس نے سائنسدانوں کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ 2019-2020 میں اس کی روشنی میں بڑی کمی آئی تھی، جس نے اس خیال کو جنم دیا کہ شاید یہ ستارہ جلد ہی سپرنووا (Supernova) کے عمل سے گزرے گا، یعنی ایک عظیم دھماکہ جس میں ستارہ اپنے اختتام کو پہنچ جاتا ہے۔

تاہم، بعد میں تحقیق سے یہ وضاحت سامنے آئی کہ یہ روشنی کا اتار چڑھاؤ ستارے کی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں یا اس کے گرد موجود گرد و غبار کی وجہ سے تھا۔ اس وضاحت کی تصدیق ہبل اور کئی دیگر دوربینوں سے حاصل شدہ ڈیٹا سے بھی ہوئی۔ ان دوربینوں کے ذریعے بھی اس ستارے کی روشنی مدہم ہو جانے کے عمل کا مشاہدہ کیا گیا تھا۔

اس نظریے کے مطابق تب بیٹل جوس نے اپنی بیرونی تہوں سے بڑی مقدار میں مواد خارج کیا تھا۔ یہ مواد ٹھنڈا اور گاڑھا ہو کر ایک ڈسٹ کلاؤڈ کی شکل اختیار کر گیا تھا، جو اس ستارے کی روشنی کو زمین تک پہنچنے سے جزوی طور پر روک رہا تھا۔

جرمنی کے شہر ہائیڈل برگ کی یونیورسٹی کے ماکس پلانک ریسرچ اسکول فار ایسٹرانامی اینڈ کاسمک فزکس سے پی ایچ ڈی اور اس وقت وہ متحدہ عرب امارات کی ریاست ابوظہبی کی نیو یارک یونیورسٹی سے بحیثیت محقق وابستہ ڈاکٹر فضیل محمود خان کا کہنا ہے کہ بیٹل جوز کا تعلق متغیر ستاروں کے ایک پورے گروپ سے ہے اور ایسے ستاروں کی روشنی میں ان میں رونما ہونے والے داخلی طبعی عوامل کے باعث ایک خاص مدت کے بعد تبدیلی پیدا ہوتی رہتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بیٹل جوز نامی عظیم الجثہ ستارے کی روشنی میں ایک باقاعدہ چکر کی صورت میں تغیرات آتے ہیں۔ ایسے ایک عام طبعی چکر یا فزیکل سائیکل کا دورانیہ 2170 دن ہوتا ہے۔ اس دوران اس جائنٹ اسٹار کی روشنی مدہم ہو کر دوبارہ از خود بحال ہو جاتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ روشنی میں یہ تغیرات اس ستارے کی بیرونی تہوں میں ارتعاش کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔

بیٹل جوز کے سائنسی مطالعے سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ بڑے ستارے کیسے اپنی زندگی گزار کر فنا ہوتے ہیں۔ بیٹل جوز جیسے ستارے اپنی زندگی کے ابتدائی مراحل میں بہت زیادہ ہائیڈروجن کو ہیلیم میں تبدیل کرتے ہیں، اور جیسے جیسے ان کا ایندھن ختم ہوتا ہے، وہ مزید بھاری عناصر کو تشکیل دینے لگتے ہیں، جیسے کاربن اور آکسیجن۔

جب یہ ستارہ اپنے ایندھن کا آخری حصہ بھی ختم کر دیتا ہے تو یہ اپنی اندرونی کشش ثقل کے تحت سکڑنے لگتا ہے، جس کے نتیجے میں اس کے اندرونی درجہ حرارت میں زبردست اضافہ ہوتا ہے اور آخر کار ایک عظیم دھماکے کے ساتھ اس کی باقیات خلا میں بکھر جاتی ہیں۔ اس عمل کو ’سپرنووا‘ کہتے ہیں۔

جب بیٹل جوز جیسا ستارہ سپرنووا میں تبدیل ہوتا ہے تو یہ بھاری عناصر جیسے کاربن، آکسیجن، اور لوہے کو خلا میں پھیلا دیتا ہے، جو بعد میں نئے ستاروں، سیاروں، اور یہاں تک کہ زندگی کی تشکیل میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ اس سے سائنسدانوں کو کائنات میں عناصر کی تقسیم اور ستاروں کی موت کے بعد ان کے ملبے سے نئے نظاموں کی پیدائش کا علم ہوتا ہے۔

ڈاکٹر فضیل محمود کے بقول بیٹل جوز کی کمیت ہمارے نظام شمسی کے سورج سے بمشکل پندرہ گنا زیادہ ہے اور فلکیاتی اعتبار سے اس کی زندگی کا دورانیہ محض دس ملین سال ہے، جو سورج کی زندگی یعنی دس بلین سال سے بہت ہی کم ہے۔ اسی لیے یہ ستارہ اب اپنے اختتام کے قریب ہے۔

سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ بیٹل جوز کبھی بھی سپرنووا کے دھماکے سے پھٹ سکتا ہے۔ لیکن کب؟ اس کا جواب اب تک غیر یقینی ہے۔ یہ کل بھی ہو سکتا ہے، یا پھر ہزاروں سال بعد بھی، کیونکہ کائناتی پیمانے پر وقت کا حساب مختلف ہوتا ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر فضیل محمود خان کہتے ہیں ”ماہرین فلکیات ابھی تک حتمی طور پر نہیں جانتے کہ بیٹل جوز کب پھٹ کر سپر نووا بنے گا، ہو سکتا ہے کہ ہم اپنی زندگی میں یہ بہت انوکھا منظر دیکھ سکیں، لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ ہماری آئندہ نسل بھی ایسا ہوتا نہ دیکھ سکے۔‘‘

بہرحال بیٹل جوز کی ممکنہ سپرنووا کا واقعہ جب بھی رونما ہوا، یہ زمین سے نظر آنے والا ایک نادر اور شاندار واقعہ ہوگا۔ اگر یہ دھماکہ ہوا تو زمین پر دن کے وقت بھی اس کی بے مثال روشنی دیکھی جا سکے گی۔

ماہرین فلکیات کے مطابق کسی ستارے سے سپر نووا بننے کا عمل انتہائی طاقت ور ہوتا ہے۔ سائنسدانوں کی رائے میں جب بیٹل جوز پھٹ کر سپر نووا بننے گا، تو یہ اتنا زیادہ روشن ہوگا کہ کئی بلین ستاروں سے بھری کسی کہکشاں کی روشنی کو بھی ماند کر دے گا۔

ڈاکٹر فضیل محمود کا کہنا ہے کہ بیٹل جوز جب پھٹ کر سپو نووا بنے گا، تو آسمان پر پورے چاند سے بھی زیادہ روشن دکھائی دے گا۔ ان کے بقول ”تب اسے شاید کئی ہفتوں یا مہنیوں تک دن کی روشنی میں بھی دیکھا جا سکے گا۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ سائنسدان اس ستارے کی روشنی اور حرکت کو مسلسل مانیٹر کر رہے ہیں، تاکہ جب یہ لمحہ آئے، تو اس کا مشاہدہ پوری تفصیل کے ساتھ کیا جا سکے۔

ڈاکٹر فضیل کہتے ہیں کہ درحقیقت ہائیڈروجن اور ہیلیم کے علاوہ تمام عناصر سپرنووا کے عمل سے وجود میں آئے۔ ”حتیٰ کہ زمین اور ہمارے جسم میں موجود تمام عناصر بھی ستاروں کے اندر ہی بنے تھے، جو بعد میں ان ستاروں کے پھٹ کر سپر نووا بننے کے دوران ہر طرف بکھر گئے تھے۔‘‘

ان کے مطابق کائنات کی طبیعیاتی تاریخ میں بہت زیادہ پیچھے جا کر دیکھا جائے تو انسانی وجود کا ظہور بھی دراصل ’اسٹار ڈسٹ‘ کی وجہ سے ہی ممکن ہوا۔

ڈاکٹر فضیل نے کہا ”جلد یا بدیر بیٹل جوز کی بیرونی تہہ پھٹ کر اسے ایک بلیک ہول میں تبدیل کر دے گی اور وہی اس عظیم الجثہ ستارے کی فلکیاتی زندگی کے دور کا آخری باب ہوگا۔“

ان تمام پہلوؤں کی وجہ سے بیٹل جوز سائنس کے لیے ایک قدرتی تجربہ گاہ بن گیا ہے، جو کائنات کی بنیادی ساخت، ستاروں کے ارتقا، اور کائناتی تبدیلیوں کے گہرے رازوں کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔

بیٹل جوز ہمارے کائنات کی خوبصورتی اور پیچیدگی کا ایک حیران کن نمونہ ہے۔ ایک سرخ، دیوقامت ستارہ جو اپنے زندگی کے آخری مراحل میں ہے اور کسی دن ایک زبردست دھماکے کے ساتھ ہمیں خیر باد کہہ دے گا۔ اس ستارے کا مطالعہ ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ کائنات میں موجود بڑے اجرامِ فلکی کیسے جنم لیتے ہیں اور کیسے اپنے اختتام کو پہنچتے ہیں۔ بیٹل جوز نہ صرف سائنسدانوں کے لیے ایک دلچسپ موضوع ہے بلکہ آسمان میں دیکھنے والوں کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کا تخلیق کردہ ایک دلکش منظر ہے، جو اپنے سرخ رنگ کے ساتھ ہمیں حیرت میں مبتلا کر دیتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close