شہری فضائی آلودگی حالیہ دنوں میں ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے، سائنسدان اس مسئلے کے جدید حل کی ضرورت کو ایک چیلنج کی صورت میں دیکھتے ہیں۔
زیادہ تر لوگ اپنا زیادہ تر وقت گھر کے اندر گزارتے ہیں، جس کی وجہ سے ہم گھر، کام یا اسکول میں جو ہوا سانس لیتے ہیں، اس کا معیار ہماری صحت کے لیے انتہائی اہم ہے۔
تاہم، بہت سے ایئر پیوریفائر مہنگے ہوتے ہیں، انہیں باقاعدہ دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے، اور اچھی طرح سے کام کرنے کے لیے بار بار فلٹر تبدیل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اسی صورتحال کے پیشِ نظر بنگھمٹن یونیورسٹی کے الیکٹریکل اینڈ کمپیوٹر انجینیئرنگ شعبے کے پروفیسر سیوکھیون چوئی، پی ایچ ڈی طالبہ مریم رضائی اور ان کی ٹیم نے ایک دلچسپ نیا آئیڈیا تیار کیا ہے، اور ایسا مصنوعی پودا ایجاد کیا ہے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر کے اور آکسیجن چھوڑ کر نہ صرف ہوا کو صاف کرتا ہے بلکہ تھوڑی مقدار میں بجلی بھی پیدا کرتا ہے۔
یہ پراجیکٹ ماحولیات اور توانائی کے بحران کا مؤثر حل فراہم کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اس پودے کا ڈیزائن اور ٹیکنالوجی قدرتی نظاموں کی نقالی کرتے ہوئے ماحولیاتی آلودگی اور توانائی کی کمی جیسے چیلنجز کو دور کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ نیو یارک کی بنگھمٹن یونیورسٹی کی ایک ٹیم نے پہلے پہل تفریح کے لیے پانچ بیالوجیکل سولر سیلز اور ان کے فوٹو سنتھیٹک بیکٹیریا کا استعمال کرتے ہوئے ایک مصنوعی پتّا بنایا، لیکن بعد میں انہوں نے یہ محسوس کیا کہ اس ڈیوائس کو عملی استعمال کے لیے بھی استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔
لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب اور آکسیجن پیدا کرنے میں کتنا موثر ہے، تو انہیں احساس ہوا کہ ان کے خیال میں بہت وسیع صلاحیت موجود ہے۔ انہوں نے پانچ پتوں کے ساتھ ایک مصنوعی پودا بنایا اور جانچا کہ یہ کتنا اچھا کام کرتا ہے۔
ٹیم نے اس پروجیکٹ کی بنیاد بیکٹیریا سے چلنے والی بائیو بیٹریوں میں اپنی ابتدائی تحقیق پر رکھی اور اپنے نتائج کو جرنل ایڈوانسڈ سسٹین ایبل سسٹمز میں شیئر کیا۔
یہ مصنوعی پودا پانچ مصنوعی پتّوں کے ساتھ بجلی اور آکسیجن پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جب کہ یہ قدرتی پودوں سے کہیں زیادہ موثر شرح سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو بھی جذب کرتا ہے۔
پروفیسر چوئی کہتے ہیں ”کووڈ-19 کے بعد، لوگ اس بات سے زیادہ واقف ہو گئے ہیں کہ اندرونی ہوا کا معیار کتنا اہم ہے۔ تعمیراتی سامان، قالین، اور یہاں تک کہ کھانا پکانے جیسی چیزیں نقصان دہ کیمیکل خارج کر سکتی ہیں، اور بند جگہوں پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح بڑھ جاتی ہے۔“
محققین نے اس مصنوعی پودے کے تفصیلی مطالعے، جس کا عنوان ’Cyanobacterial Artificial Plants for Enhanced Indoor Carbon Capture and Utilisation‘ ہے، میں لکھا ہے کہ ”کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کم کرنے کے وینٹیلیشن اور فلٹریشن جیسے روایتی طریقے گلوبل وارمنگ کی وجہ سے بیرونی ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح میں اضافے کی وجہ سے زیادہ موثر نہیں رہے۔“
مطالعے میں مزید بتایا گیا ہے ”یہ مصنوعی پودے فوٹو سنتھیس کے عمل کو جاری رکھنے کے لیے انڈور لائٹ کا استعمال کرتے ہیں، جس سے انڈور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح میں پانچ ہزار سے پانچ سو پی پی ایم تک کمی ہوتی ہے، 90 فیصد کی یہ شرح قدرتی پودوں کے ساتھ 10 فیصد کمی سے کہیں زیادہ ہے۔“
مصنوعی پودے کی قدرتی پودوں کی طرح کی ضروریات ہوتی ہیں، جس میں انہیں کام کرنے کے لیے پانی اور غذائی اجزا کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے مستقبل کے ورژن میں دیکھ بھال کو کم سے کم کرنے کے طریقے شامل ہو سکتے ہیں، جس میں بیکٹیریا کی متعدد اقسام کا استعمال شامل ہے۔ سائنس دانوں کو امید ہے کہ اس ٹیکنالوجی کو زیادہ سے زیادہ افادیت فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکے گا۔
محققین نے اس حوالے سے مزید لکھا ہے ”جب یہ پتّے مصنوعی پودوں کے ڈھانچے سے جوڑ دیے جاتے ہیں تو یہ نظام 2.7 وی کا اوپن سرکٹ ویلیج (او سی وی) اور زیادہ سے زیادہ 140 µW بجلی پیدا کرتا ہے جو پورٹیبل الیکٹرانکس (لیپ ٹاپ اور موبائل فون جیسی ڈیوائسز) کو چارج کرنے کے لیے کافی ہے۔“
محققین کا مزید کہنا ہے ”اس ڈیوائس کی کارکردگی ہوا کے معیار کو بہتر بنانے اور پائیدار توانائی فراہم کرنے کے لیے ایک ڈبل فنکشن سسٹم کے طور پر اس کی صلاحیت کو ظاہر کرتی ہے۔“
پروفیسر چوئی کا مقصد کم از کم 1 ملی واٹ کی پاور آؤٹ پٹ تک پہنچنا ہے اور آخر کار اس توانائی کو سیل فون جیسے چھوٹے آلات کو چارج کرنے کے لیے استعمال کرنا ہے۔ وہ توانائی ذخیرہ کرنے کا نظام بھی شامل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جیسے لتیم آئن بیٹریاں یا سپر کیپسیٹر۔
پروفیسر چوئی متعدد قسم کے بیکٹیریا کا استعمال کر کے اور پانی اور غذائیت کے نظام کو شامل کرکے ان مصنوعی پودوں کو مزید موثر اور کم دیکھ بھال کرنے کی امید رکھتے ہیں
پروفیسر سیوکھیون چوئی نے اس بارے میں بتایا، ”میں اس بجلی کو موبائل فون چارج کرنے یا دیگر عملی اقدامات کے لیے استعمال کرنے کے قابل بنانا چاہتا ہوں، کچھ مزید کام کے ساتھ یہ مصنوعی پودے ہر گھر کا حصہ بن سکتے ہیں۔ اس خیال کے فوائد کو دیکھنا آسان ہے۔“
یہ مصنوعی پودا اصل میں بائیو ہائبرڈ ٹیکنالوجی پر مبنی ہے، جس میں قدرتی پودوں کی کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کی صلاحیت کو جدید میٹریلز اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ملا کر ایک نیا ماڈل تیار کیا گیا ہے۔ اس میں اہم عناصر درج ذیل ہیں:
1. فوٹوسنتھیسز کی نقالی: یہ مصنوعی پودا فوٹوسنتھیسز کے عمل کی نقالی کرتے ہوئے ماحول سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتا ہے اور اسے توانائی میں تبدیل کرتا ہے۔ پودے کے مصنوعی پتوں میں بایومیٹریلز استعمال کیے گئے ہیں جو قدرتی پودوں کے پتوں کی طرح گیسوں کو جذب اور تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
2. بجلی پیدا کرنے کا عمل: مصنوعی پودے میں فوٹو وولٹائک (solar) سیلز نصب کیے گئے ہیں جو سورج کی روشنی کو براہ راست بجلی میں تبدیل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، پودے میں موجود مائیکروبیل ایندھن کے سیلز بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں، جو کہ بیکٹیریا کے ذریعے حیاتیاتی مواد کو توڑ کر بجلی پیدا کرتے ہیں۔ اس سے توانائی کی اضافی فراہمی ممکن ہوتی ہے۔
3. ہوا صاف کرنے کا نظام: مصنوعی پودے کے پتوں میں فلٹریشن سسٹم موجود ہے جو ہوا میں موجود زہریلی گیسوں اور مضر ذرات کو جذب کرکے صاف ہوا پیدا کرتا ہے۔ یہ نظام شہروں میں فضائی آلودگی کی سطح کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
بنگھمٹن یونیورسٹی کی ٹیم کا تیار کردہ یہ مصنوعی پودا ہمارے وقت کی ایک اہم اور پیچیدہ ضرورت کو ایک نئے زاویے سے حل کرنے کی جانب قدم ہے۔ یہ صرف ایک تکنیکی ایجاد نہیں ہے، بلکہ ایک فکری انقلاب بھی ہے جو فطرت اور ٹیکنالوجی کے درمیان توازن پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
جس دنیا میں ہم رہتے ہیں، وہاں فطری وسائل کا بے دریغ استعمال اور آلودگی کی بے قابو بڑھتی ہوئی شرح ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس تناظر میں مصنوعی پودا ایک خواب کی طرح لگتا ہے جو حقیقت کا روپ دھار رہا ہے۔
سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ یہ مصنوعی پودا فطرت کے کاموں کی نقالی کرتا ہے اور اُس دور کی علامت ہے جہاں انسان نہ صرف فطرت کی تقلید کر رہا ہے بلکہ اُسے مزید بہتر بنانے کی کوشش بھی کر رہا ہے۔
تاہم، یہ پودا ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ ہم نے فطرت کو کتنا نقصان پہنچایا ہے کہ اب ہمیں مصنوعی طریقے اختیار کرنے پڑ رہے ہیں۔ جہاں یہ پودا ہمارے مسائل کا حل پیش کرتا ہے، وہیں یہ اس بات کی نشاندہی بھی کرتا ہے کہ اگر ہم نے فطرت کا خیال نہ رکھا تو ہمیں مزید ایسی مصنوعی اختراعات پر انحصار کرنا پڑے گا۔
یوں دیکھا جائے تو بنگھمٹن یونیورسٹی کی یہ ایجاد نہ صرف ایک تکنیکی کامیابی ہے، بلکہ ہمارے وقت کی ضرورت اور ہمارے اعمال کے اثرات پر غور کرنے کی دعوت بھی ہے۔