بارہ لاکھ سال پرانی برف: سرد خانے میں دفن زمین کے ماضی کی کہانی

ویب ڈیسک

برف کی قدیم ترین تہہ تک رسائی کی یہ حیرت انگیز کہانی، جس پر سائنس دانوں نے چار سال کی انتھک محنت صرف کی، ایک اہم سائنسی پیش رفت کی تصویر پیش کرتی ہے۔ انٹارکٹکا کے دور افتادہ اور برف سے ڈھکے علاقے ’لٹل ڈوم سی‘ میں سائنس دانوں کی بین الاقوامی ٹیم کو برف کی تہہ در تہہ پرتوں میں ڈرلنگ کرتے ہوئے برف کی قدیم ترین تہہ تک پہنچنے کے لیے 2.8 کلومیٹر تک نیچے جانا پڑا، جس پر چار سال کا عرصہ لگا۔ قدیم برف کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ وہ کم از کم 12 لاکھ سال پرانی ہے۔

یہ نمونے برف کے ایسے انمول صفحات کی طرح ہیں، جن میں زمین کے ماضی کا راز چھپا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ان قدیم تہوں کا تجزیہ ہمیں اس دور کے موسم اور ماحول کی جھلک دکھائے گا، جب زمین کی فضاؤں میں کاربن گیسوں نے اپنا سفر شروع کیا تھا اور موسموں میں ڈرامائی تبدیلیاں آئیں۔ ان انکشافات سے یہ جانچنے میں مدد ملے گی کہ زمین کے برفانی ادوار کس طرح وجود میں آئے اور ماحول نے وقت کے ساتھ کس طرح کروٹ لی۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ قدیم ترین برف کے تجزیے سے یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ اس دور میں زمین کا ماحول اور آب و ہوا کیسی تھی۔ ان معلومات سے ماہرین بہتر طور پر یہ اندازہ لگا سکیں گے کہ زمین کے ماحولیاتی نظام میں کاربن گیسیں کب شامل ہونا شروع ہوئیں اور موسموں میں کس طرح تبدیلیاں آئیں۔

قدیم برف کا تجزیہ سائنس دانوں کو کرہ ارض کے برفانی ادوار کے متعلق بھی جاننے میں مدد فراہم کرے گا۔

گزشتہ چند عشروں سے زمین کا درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے جس سے نئے مسائل اور نئی مشکلات جنم لے رہی ہیں۔ لیکن لمبی مدت کے دوران زمین کا درجہ حرارت اور اس کے موسم ایک سے نہیں رہتے۔ آج سے لگ بھگ بارہ ہزار سال قبل زمین پر ایک طویل برفانی دور کا اختتام ہوا تھا اور درجہ حرارت بڑھنے سے موسم تبدیل ہونا شروع ہوئے تھے۔

سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ زمین اپنی پیدائش کے بعد سے کم ازکم پانچ برفانی ادوار سے گزر چکی ہے۔ اس لیے یہ محض برف کے نمونے نہیں، بلکہ وقت کی مہر بند کہانیاں ہیں، جو زمین کے پانچ بڑے برفانی عہدوں کی گواہ ہیں۔ ہر برفانی عہد ایک لاکھ سال تک محیط رہا، اور ان کے بعد گرمائی دور کا آغاز ہوا۔

آج کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے تناظر میں، یہ تحقیق ہمیں یاد دلاتی ہے کہ زمین کا موسم ہمیشہ بدلتا رہا ہے، لیکن ان تبدیلیوں کی رفتار اور اثرات ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہیں۔ سائنس اور ماحولیاتی تاریخ کے سنگم پر کھڑی یہ مہم، انٹارکٹکا کی یخ بستہ گہرائیوں میں دفن رازوں کو آشکار کرنے کا ایک نیا باب ہے، جو ہمیں زمین کے ماضی کی گہرائیوں میں جھانکنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔

یہ برف، جس نے زمین کے ماضی کی ایک جھلک کو اپنے سرد سینے میں سنبھال کر رکھا ہے، سائنس دانوں کے لیے ایک خزانہ ہے۔

 برفانی دور کا آغاز کیسے ہوتا ہے؟

زمین، جو اپنی گردش کے زاویے کے ساتھ سورج کے گرد سفر کرتی ہے، ایک پیچیدہ توازن کا حصہ ہے۔ سورج کے گرد زمین کے ایک خاص زوایے پر گردش کی وجہ سے قطبین پر سورج کی شعاعیں کم شدت سے پہنچتی ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں پانی جم کر برف کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔

ہزاروں برسوں میں زمین کی گردش کا زاویہ آہستہ آہستہ بدلتا ہے، اور سورج کی حرارت قطبین تک پہنچنے میں مزید کمی آتی ہے۔ اس کے نتیجے میں برف کے علاقے بڑھنے لگتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ برف سورج کی شعاعوں کو منعکس کرتی ہے، جس سے زمین مزید ٹھنڈی ہوتی ہے اور یوں برفانی دور کی ابتدا ہوتی ہے، ایک ایسا وقت جب برف اپنی سفید چادر سے زمین کے وسیع خطوں کو ڈھانپ لیتی ہے۔

شمالی انٹارکٹکا کے لٹل ڈوم سی میں، سائنس دانوں نے حال ہی میں قدیم برف کے نمونوں تک پہنچنے کے لیے جو ڈرلنگ کی، اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے ان برف کے ٹکڑوں میں وہ کہانیاں چھپی ہیں جو ہزاروں سال پرانے برفانی ادوار کی گواہی دیتی ہیں۔ سو زمین کی یہ برفانی کہانی نہ صرف ماضی کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے بلکہ ہمارے مستقبل کے لیے بھی سوالات پیدا کرتی ہے: کیا ہم ایک اور برفانی دور کی دہلیز پر ہیں، یا زمین کی گرمی نے اس امکان کو دھندلا دیا ہے؟

 برفانی دور کا خاتمہ: سورج کی نئی قربت

زمین کے برفانی دور کا اختتام، سورج اور زمین کے رشتے کی ایک حیرت انگیز کہانی ہے۔ ہزاروں برسوں کی خاموش تبدیلیاں، جب زمین کی گردش کا زاویہ دوبارہ اپنے پرانے انداز پر لوٹتا ہے، تو سورج کی گرم شعاعیں دھیرے دھیرے زمین پر اپنی موجودگی بڑھانے لگتی ہیں۔

قطبین کی سخت سرد برف، جو صدیوں سے جمے وقت کی طرح خاموش کھڑی تھی، سورج کی حرارت سے پگھلنے لگتی ہے۔ برف کے گلیشیئر پگھلتے ہیں، دریا اور جھیلیں زندگی کا نغمہ گانے لگتی ہیں، اور موسموں کا ساز ایک نیا سر چھیڑ دیتا ہے۔ یہ لمحہ زمین کے لیے ایک نئی شروعات کی علامت ہے، جب برفانی سردی کی گرفت ڈھیلی پڑتی ہے اور گرمی کا ایک نیا باب لکھا جاتا ہے۔

یوں زمین، اپنی گردش اور سورج کے تعلق میں ہونے والی لطیف تبدیلیوں کے ساتھ، برفانی قید سے آزاد ہو کر ایک نئے دور میں داخل ہوتی ہے، جہاں ہر بدلتا موسم ماضی کی ایک داستان سناتا ہے۔

برفانی دور کے زندگی پر اثرات

سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ زمین پر زندگی، نباتات اور حیوانات کے روپ میں، کروڑوں برسوں سے موجود ہے۔ برفانی ادوار، جو بظاہر ہر شے کو جمود کی قید میں ڈال دیتے ہیں، درحقیقت زندگی کے لیے آزمائش کا ایک موقع تھے۔ یہ وہ ادوار تھے جب قدرت نے زندگی کو لچک، حوصلے اور جدوجہد کا سبق سکھایا۔ جنگلی حیوانات برف سے ڈھکے میدانوں میں اپنی بقا کی راہیں نکالتے رہے، اور نباتات نے یخ بستہ زمین میں جڑیں مضبوط کر کے زندہ رہنے کا ہنر سیکھا۔

انسان کی کہانی بھی کچھ مختلف نہیں۔ دو لاکھ سال پہلے جب انسان کا ارتقا ہوا، تو وہ برفانی سردی کے سخت تھپیڑوں سے گزر رہا تھا۔ برفانی دور کی سرد ہوائیں، یخ زمین، اور محدود وسائل انسان کے لیے آزمائش بنے، لیکن اسی ماحول نے اس میں بقا کی قوت اور ارتقائی جدوجہد کا جذبہ پیدا کیا۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ برفانی ادوار نے زندگی کو نہ صرف مشکلوں سے لڑنا سکھایا، بلکہ اسے پہلے سے زیادہ مضبوط، تخلیقی اور منفرد بھی بنایا۔ زندگی، چاہے وہ برفانی پہاڑوں پر ہو یا یخ بستہ میدانوں میں، ہمیشہ اپنے راستے بنا لیتی ہے۔

 اگلا برفانی دور: زمین کا انتظار کب ختم ہوگا؟

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ زمین کے اگلے برفانی دور کی دہلیز تک پہنچنے میں ابھی پچاس ہزار سے ایک لاکھ سال باقی ہیں۔ یہ وقت، کائناتی گھڑی کی وسعت میں ایک پل جیسا ہے، لیکن ہماری زندگی کے پیمانے پر بہت طویل تصوراتی فاصلہ ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ انسانی سرگرمیوں سے خارج ہونے والی کاربن گیسوں نے اس قدرتی عمل کو متاثر کر دیا ہے۔ زمین، جو اپنے مخصوص وقت پر برف کی سفید چادر اوڑھنے کے لیے تیار ہو رہی تھی، اب انتظار کی حالت میں ہے۔ بڑھتی ہوئی گرمی اور کاربن کے بادل برفانی عہد کی آمد میں تاخیر پیدا کر سکتے ہیں، جیسے موسموں کی گھڑی کو عارضی طور پر روک دیا گیا ہو۔

یہ سوال کہ اگلا برفانی دور کب آئے گا، نہ صرف زمین کے مستقبل بلکہ ہماری موجودہ زندگی کے انتخابوں سے بھی جڑا ہوا ہے۔ کیا ہم زمین کے توازن کو واپس لا سکیں گے، یا برفانی دور کا خواب ایک دوردراز امکان بن کر رہ جائے گا؟ وقت کے ساتھ یہ راز ضرور آشکار ہوگا۔

 بارہ لاکھ سال پرانی برف کیا راز آشکار کرتی ہے؟

انٹارکٹک سے نکالی جانے والی 12 لاکھ سال پرانی برف کی پرت سائنس دانوں کو یہ جاننے میں مدد دے رہی ہے کہ برفانی دور کے چکر کس طرح تبدیل ہوئے اور کس طرح کاربن گیسوں کے اخراج نے زمین پر آب و ہوا کو تبدیل کیا۔

گلیشیئرز علوم کے ایک اطالوی ماہر کارلو باربنٹی کہتے ہیں کہ برف کی اس قدیم پرت سے ہم یہ جان سکیں گے کہ گرین ہاؤس گیسوں، کیمیکلز اور دھول سے ہمارے ماحول میں کیا تبدیلیاں آئی ہیں۔

باربنٹی کا تعلق اٹلی کی نیشنل ریسرچ کونسل کے قطبی سائنس کے انسٹی ٹیوٹ سے ہے۔ ماضی میں ان کی ٹیم برفانی تہوں کی کھدائی کر کے 8 لاکھ سال پرانی برف کے نمونے حاصل کر چکی ہے۔ اس بار ان کی ٹیم نے تقریباً 2.8 کلومیٹر کی گہرائی تک ڈرلنگ کی تھی۔

آرکٹک میں ڈرلنگ کرنے والی اس ٹیم میں 16 سائنس دان اور ماہرین شامل تھے۔انہوں نے چار سال تک گرمیوں کے موسم میں لگ بھگ منفی 35 ڈگری فارن ہائیٹ کے درجہ حرارت میں اپنا مشن مکمل کرنے کے لیے کام کیا۔

اس ٹیم میں شامل ایک سائنس دان فیڈیریکو سکوٹو نے بتایا کہ چٹان کی تہہ تک پہنچنا ہمارے لیے ایک عظیم لمحہ تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جب گہرائی سے نکالے جانے والے برف کے ٹکڑوں کا سائنسی تجزیہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ وہ 12 لاکھ سال پرانے ہیں۔

باربنٹی اور سکوٹو دونوں نے بتایا کہ ہم نے قدیم برف کے تجزیے میں یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس وقت فضا میں کاربن ڈائی اکسائیڈ اور میتھین گیسوں کی سطح کیا تھی۔

8 لاکھ سال پرانی برف میں یہ سطح صنعتی دور کے آغازسے قبل کے مقابلے میں کم تھی۔جب کہ 8 لاکھ سال پہلے زمین ایک گرم دور سے گزر رہی تھی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت ہماری فضا میں کاربن گیسوں کا ارتکاز 8 لاکھ سال پہلے کے مقابلے میں 50 فی صد زیادہ ہے۔

اس پراجیکٹ کے لیے یورپی یونین اور یورپی براعظم کے ممالک نے مالی تعاون فراہم کیا۔

 بارہ لاکھ سال پرانی برف: سرد خانے میں دفن زمین کے ماضی کی کہانی

انٹارکٹکا کی یخ بستہ گہرائیوں سے نکالی گئی 12 لاکھ سال پرانی برف سائنس دانوں کے لیے ایک نایاب خزانہ ہے۔ یہ برفانی پرت زمین کے برفانی ادوار اور کاربن گیسوں کے اثرات پر روشنی ڈال رہی ہے، یہ سمجھنے میں مدد دیتی ہے کہ کیسے وقت کے ساتھ آب و ہوا نے کروٹ لی۔

گلیشیئر سائنس کے اطالوی ماہر، کارلو باربنٹی، اس دریافت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: "یہ قدیم برف ہمیں دکھاتی ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں، کیمیکلز اور دھول نے ہمارے ماحول کو کیسے بدلا۔” باربنٹی، جو اٹلی کی نیشنل ریسرچ کونسل کے قطبی سائنس کے انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ہیں، اپنی ٹیم کے ساتھ اس سے قبل 8 لاکھ سال پرانی برف کے نمونے حاصل کر چکے ہیں۔ تاہم، اس بار تقریباً 2.8 کلومیٹر گہرائی تک ڈرلنگ کر کے انہوں نے تاریخ کی ایک اور پرت تک رسائی حاصل کی۔

یہ مہم آسان نہ تھی۔ 16 سائنس دانوں پر مشتمل ٹیم نے چار سال تک انٹارکٹکا کی سخت گرمیوں میں، جب درجہ حرارت منفی 35 ڈگری فارن ہائیٹ تک گرتا تھا، اپنا مشن جاری رکھا۔ ٹیم کے ایک اور سائنس دان، فیڈیریکو سکوٹو، نے اس کامیابی کو یادگار قرار دیتے ہوئے کہا: "چٹان کی تہہ تک پہنچنا ہمارے لیے ایک عظیم لمحہ تھا۔”

جب برف کے ان نمونوں کا تجزیہ کیا گیا، تو معلوم ہوا کہ وہ 12 لاکھ سال پرانے ہیں۔ باربنٹی اور سکوٹو کی تحقیق سے یہ انکشاف ہوا کہ اس وقت کی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین گیسوں کی سطح کیا تھی۔ 8 لاکھ سال پرانی برف سے معلوم ہوا تھا کہ صنعتی دور سے قبل گیسوں کی سطح کم تھی، لیکن آج یہ ارتکاز 8 لاکھ سال پہلے کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ ہے۔

یہ انمول تحقیق یورپی یونین اور مختلف ممالک کی مالی معاونت سے ممکن ہوئی۔ انٹارکٹکا کی گہرائیوں سے نکلی یہ برفانی داستان زمین کے ماضی کی جھلکیاں دکھاتے ہوئے ہمارے حال اور مستقبل کے لیے نئے سوالات چھوڑتی ہے: کیا ہم اپنی زمین کے ماحول کو سمجھنے اور بہتر بنانے کے لیے ان سبقوں سے کچھ سیکھیں گے؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close