روبنسن کروسو (شاہکار ناول کا اردو ترجمہ) چودہویں قسط

ڈینیل ڈیفو / ستار طاہر

میں نے اس سے اپنی کشتی کے بارے میں پوچھا کہ وہ پکڑی تو نہیں گئی تو اس نے نفی میں جواب دیا اور مجھ سے پوچھنے لگا کہ میں نے اپنی کشتی کہاں چھپائی ہے۔ میں نے اس کے سوال کا جواب دینے کی ضرورت محسوس نہ کی۔

پھر کچھ سوچ کر میں نے اسے کہا کہ یا تو وہ مجھے فرائیڈے کی جھونپڑی تک ساتھ لے چلے اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکتا تو خود کسی طرح سے فرائیڈے کو جا کر اطلاع دیدے کہ میں اس کی مدد کے لئے پہنچ چکا ہوں۔ اس نے سوچ کر رک رک کر جواب دیا.
”ماسٹر، اس جزیرے میں فرائیڈے کے والد یا فرائیڈے کے جتنے وفادار ہیں، ظالم سردار نے ان سب کی نگرانی شروع کر دی ہے۔ میں کوشش کر کے آپ کوفرائیڈ ے کی جھونپڑی کے قریب چھوڑ آتا ہوں۔“

اس جنگلی آدم خور کی ذہنی حالت کو میں بخوبی سمجھ رہا تھا. وہ ڈرا ہوا تھا، اس کے باوجود وہ کسی نہ کسی طرح میری مدد بھی کرنا چاہتا تھا۔ میں نے اسے سوچنے کاموقع دیا تو وہ کچھ دیر کے بعد خود ہی کہنے لگا
”میں فرائیڈے سے ملنے کی کوشش کرتا ہوں..“
یہ کہہ کر وہ جھونپڑی سے چلا گیا.

میں نے اس کے جانے کے بعد ایک بار پھر غور سے جھونپڑی کا جائزہ لیا جھونپڑی میں پانی کے دو مٹکوں اور دو پیالوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ شدید ناگوار بو جھونپڑی کے ایک کونے سے آ رہی تھی۔ میں اس طرف گیا تو وہاں جو کچھ دیکھا اسے دیکھ کر میری طبیعت بے حد خراب ہوئی اور میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے..

اس کونے میں انسانی جسم کے کئی کٹے ہوئے، گلے سڑے ٹکڑے بکھرے ہوئے تھے….

میں جلدی سے پلٹ کر دور کے کونے میں بیٹھ گیا۔ صاف ظاہر تھا کہ یہ بھی آدم خور تھا اور انسانوں کا گوشت کھاتا تھا!

میں اب جھونپڑیوں میں اکیلا تھا اور رات تیزی سے گزر رہی تھی۔ میں جانتا تھا کہ مجھے جو کچھ کرنا ہے آج کی رات ہی کرنا ہے.. تاخیر ہونے کی صورت میں سب کچھ بگڑ سکتا تھا۔ دل میں خیال آیا کہ اب دیر کرنی مناسب نہیں اور مجھے خود ہی فرائیڈے کی جھونپڑی کی طرف جانا چاہیے۔ میں ارادہ پختہ کر ہی رہا تھا کہ جھونپڑی کا گھاس پھونس کا دروازہ کھلا اور وہی آدم خور اندر داخل ہوا۔

میرے قریب آ کر اس نے آہستہ سے کہا ’’ماسٹر، میں اس سے نہیں مل سکا۔ پہرے داروں کو شک ہو جاتا..“
اس نے میرے سوالوں کے جواب میں بتایا کہ پہرے دار بہت چوکس ہیں۔
میں خاموشی سے سوچنے لگا۔ اب مزید وقت ضائع کرنا بے کار تھا۔ یہ بہت قیمتی وقت تھا۔ میں نے اس سے پھر پوچھا تو اس نے بتایا کہ ابھی تک میری کشتی قبیلے والوں کے ہاتھ نہیں لگی۔ میں تیزی سے منصوبہ بنانے لگا..

ایک طریقہ تو یہ تھا کہ اگر میں کسی طر ح جزیرے کے ظالم سردار کو یرغمال بنالوں تو اسے جان سے مارنے کی دھمکی دے کر میں فرائیڈے کو زندہ و سلامت اس جزیرے سے لے جا سکتا تھا۔ لیکن اس منصوبے میں کچھ خرابیاں تھیں.. ایک تو یہ کہ ان آدم خوروں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا تھا، یہ بھی ہوسکتا تھا کہ وہ سردار کی بھی پرواہ نہ کریں اور مجھ پر حملہ کر دیں۔ ایسی صورت میں نہ تو میں بچ سکتا تھا اور نہ ہی فرائیڈے.. اور یوں دونوں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے!

دوسری ترکیب واضح تھی کہ میں اس جھونپڑی پر حملہ کروں، جس کے اندر فرائیڈے کو قیدی بنا کر رکھا گیا ہے۔
اس مقصد کے لیے میں نے اس آدم خور کو راہ پر لانے کی کوشش کی اور اسے سمجھایا کہ وہ میرے ساتھ فرائیڈے کی جھونپڑی تک چلے۔ وہاں جا کر وہ پہرے داروں کو باتوں میں لگائے یا پھر ان میں سے کسی ایک کو باتوں میں لگا کر تھوڑی دیر کے لئے جھونپڑی سے دور لے جائے۔ اس نے خوف کا اظہار کیا تو میں نے اسے سمجھایا.
میں ان دونوں کوقتل کر دوں گا، کسی ایک کو بھی زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ اس لئے کوئی تمہاری مخبری نہیں کر سکے گا۔
وہ بالآخر رضامند ہو گیا اور ہم دونوں جھونپڑی سے باہر آ گئے۔

❖پھانسی کا پھندہ

باہر رات خاموش تھی.. ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی، کوئی آواز سنائی نہ دے رہی تھی۔ اس نے مجھے اپنے پیچھے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ ایک ٹیکری سی آئی تو ہم اس کے پیچھے رک گئے۔ اس نے مجھے غور سے دیکھا۔ پھر آہستہ سے وہاں سے کھسک گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ وہ پہرے داروں میں سے ایک پہرے دار کو باتوں میں لگائے ایک طرف لئے جا رہا تھا۔

یہی لمحہ تھا جب مجھے حملہ کرنا چا ہیے تھا۔
میں بہت احتیاط سے دبے پاؤں چلتا دوسرے پہرے دار کے پیچھے آ گیا۔ وہ جھونپڑی کے باہر ایک درخت سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ ترکش زمین پر رکھا تھا اور کمان اس کے گلے میں تھی۔ میں دبے پاؤں چلتا، جھکا جھکا اس کے پیچھے، آگے بڑھا.. خوش قسمتی سے گھاس گیلی تھی، اس لئے کسی طرح کی کوئی آہٹ بھی پیدا نہ ہوئی.

چمڑے کی وہ رسی میں نے مضبوطی سے ہاتھوں میں تھام رکھی تھی۔ وہ جس درخت کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھا تھا، اس کے پاس پہنچ کر میں رکا۔

میں نے محسوس کیا کہ وہ اٹھنے والا ہے. شاید وہ یہ دیکھنے کے لئے اٹھ رہا تھا کہ اس کا دوسرا ساتھی پہرے دار کدھر چلا گیا ہے۔اس کا اٹھنا میرے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا تھا… اس لئے اس کے ارادے کو بھانپتے ہی میں نے چمڑے کی رسی اس کی گردن میں ڈال کر پلک جھپکتے ہی اس زور سے کس دی کہ وہ آواز تک نہ نکال سکا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے گلا پکڑ کر اپنے آپ کو رسی کی گرفت سے آزاد کرانے کی بھرپور کوشش کی، لیکن میری گرفت بہت مضبوط تھی…

دو منٹوں میں وہ مر چکا تھا۔
میں نے اس کی لاش گھسیٹی اور جھاڑیوں میں لے جا کر چھپا دیا۔ اتنے میں اس کا ساتھی دوسرا پہرے دار آتا دکھائی دیا. وفادار آدم خور اب اس کے ساتھ نہیں تھا۔ میں جلدی سے جھاڑیوں کی اوٹ میں ہوگیا.

جب اس نے اپنے ساتھی پہرے دار کو وہاں نہیں دیکھا تو کچھ گھبرا گیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ چوکس ہو گیا ہے۔ کمان میں تیر چڑھا لیا ہے اور جھک کر آگے بڑھنے لگا ہے۔
اس نے خطرے کی بوسونگھ لی تھی!
عجیب اتفاق یہ ہوا کہ وہ سیدھا ان جھاڑیوں کی طرف آ رہا تھا، جہاں میں چھپا ہوا تھا۔ میں بھی ہر طرح سے تیار تھا۔
بس میری خواہش تھی تو یہ کہ وہ میرے آمنے سامنے نہ آئے بلکہ اس کی کمر میری طرف ہو، تاکہ میں عقب سے اس کا گلا گھونٹ کر اسے ہلاک کردوں، لیکن وہ ناک کی سیدھ میں میری طرف بڑھ رہا تھا..
میں اپنے سانس تک روک چکا تھا..
مجھے اپنی پرانی ترکیب یاد آئی۔ میں نے تھیلی سے ایک گولی نکالی اور اسے اچھال کر پہرے دار کے پیچھے جھاڑیوں میں پھینک دیا..
آدم خور خرگوش کی طرح اچھلا اور پیچھے کو گھوم گیا۔
یہی لمحہ تھا، جب میں نے آگے بڑھ کر پستول کا بھاری دستہ اس کے سر کے پیچھے پوری طاقت سے رسید کر دیا۔
وہ اوندھے منہ گر گیا..
میں نے پھر پستول کے دستے سے دوسرا کاری وار کیا، تو وہ مکمل طور پر بے ہوش ہو گیا. میں نے اس کے گلے میں رسی ڈالی اور اسے اس طرح کس دیا کہ ایک دو منٹوں میں وہ مر گیا. اب میرے لئے میدان صاف تھا..

(جاری ہے)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close