روبنسن کروسو (شاہکار ناول کا اردو ترجمہ) تیرہویں قسط

ڈینیل ڈیفو / ستار طاہر

جھونپڑی

قدم قدم پر جان لیوا خطرے تھے..
چلتے ہوئے، ایک جگہ اچانک میں نے دیکھا کہ ایک سرخ رنگ کا سانپ پھن پھیلائے، میرے سامنے کھڑا تھا، میں رک گیا.. اگر میں اس لمحے پھرتی سے کام نہ لیتا تو آج یہ کہانی سنانے کو زندہ نہ ہوتا.
میں نے جلدی سے چھرا نکالا اور اُدھر سانپ نے ایک سنسنی خیز سیٹی بجائی اور جھک کر مجھ پر حملہ کیا اور میں نے اس پر چھرے سے وار کیا۔ پہلا وار ہی کاری ثابت ہوا اور سانپ کی گردن کٹ گئی.

میں چھپتا چھپاتا پھونک پھونک کر قدم رکھتا بڑھتا رہا.. پھر میں نے عورتوں اور مردوں کی کچھ آوازیں سنیں۔ اب میں ان کی جھونپڑیوں کے قریب پہنچ گیا تھا..

میں نے ایک اونچے گھنے درخت کا انتخاب کیا اور بڑی احتیاط سے آس پاس کا جائزہ لے کر اس درخت پر چڑھ گیا. دور بین لگا کر دیکھا تو مجھے سردار کی اونچی جھونپڑی دکھائی دی. جس کی چھت پر ایک بانس پر انسان کی کھوپڑی ٹنگی ہوئی تھی.. وہ جھونپڑی مجھے دکھائی نہ دی، جہاں فرائیڈے کو قید کیا گیا تھا۔ بہرحال میں نے اندازہ لگا لیا کہ وہ جھونپڑی، اس کے عقب میں ہوگی.

جس وقت میں اس گھنے درخت سے اترنے ہی والا تھا کہ دو آدم خور کچھ دور سے باتیں کرتے اس طرف آتے دکھائی دیئے..

میں نے اپنے آپ کو پتوں اور شاخوں میں چھپا لیا۔ وہ چلے گئے. درخت سے آگے بڑھ گئے.. لیکن پھر اچانک رک گئے.. وہ دونوں زمین کی طرف دیکھ رہے تھے..

یہ وہی جگہ تھی، جہاں میں نے سانپ کا سر اڑایا تھا، سانپ کے جسم کے دونوں حصے پڑے تھے.. ایک آدم خور نے سانپ کی سری اٹھائی اور اپنے ساتھی کو دکھائی تو وہ کہنے لگا.
”یہ مردہ شکرقندی ہے، کھالو..“
وہ زور سے اپنے مذاق پر ہنسنے لگا۔ پہلے آدم خور نے اسے غصے سے مکا مارا اور بولا۔ ’’خاموش.. چپ ہو جاؤ.‘‘

دوسرا چپ ہو گیا. پہلے آدم خور نے سانپ کا دوسرا حصہ بھی اٹھا لیا، اسے غور سے دیکھا.. میں اب درخت پر ٹنگا کچھ بے چین ہو رہا تھا۔اچانک اس آدم خور نے سانپ کو منہ میں ڈالا اور شوق سے کھاتا ہوا اپنے ساتھی کے ساتھ آگے بڑھ گیا.

تھوڑی دیر میں وہ میری نظروں سے اوجھل ہو گئے.

میں کافی دیر تک درخت پر ہی بیٹھا رہا۔ حالات کا تقاضا تھا کہ میں انتہائی احتیاط سے کام لوں. میں آہستہ سے درخت سے اترا۔ اب مجھے اندازہ ہو چکا تھا کہ یہاں کسی لمحے بھی کسی آدم خور سے سامنا ہوسکتا ہے. اس لئے مجھے انتہائی چوکس او محتاط رہنے کی ضرورت تھی. بہرحال احتیاط اپنی جگہ، لیکن میں نظروں سے غائب تو نہیں ہو سکتا تھا..

میں بہت احتیاط سے چاروں طرف کا ہر ممکن جائزہ لیتے ہوئے سردار کی جھونپڑی کے پیچھے واقع جھونپڑی کی طرف بڑھ رہا تھا، کیونکہ یہی وہ جھونپڑی تھی، جہاں فرائیڈے کو قید کیا گیا تھا. راستے میں ایک چھوٹا سا تالاب آیا. جہاں سنگھاڑے نظر آئے تو میں نے کچھ سنگھاڑے اکھاڑ کر کھائے، یوں میری بھوک میں کمی ہوئی. تالاب کے پیچھے سے ہوتا ہوا جب میں آگے بڑھا تو مجھے وہ جھونپڑی دکھائی دی..

یہ جھونپڑی درختوں میں گھری ہوئی تھی. دو ننگ دھرنگ آدم خور تیر کمان سنبھالے وہاں پہرہ دے رہے تھے اور ان کے پاس چھرے بھی تھے. ایک جھونپڑی کے بند دروازے کے سامنے لیٹا تھا اور دوسرا کھڑا تھا اور وہ دونوں ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے.

میں نے بڑے غور سے جھونپڑی کا معائنہ کیا.
اس جھونپڑی کی دیواریں بانس جوڑ کر بنائی گئی تھیں اور اتنی مضبوط تھیں کہ انہیں توڑا نہیں جا سکتا تھا. پہریدار بھی چوکس بیٹھے تھے.. اور سب سے بڑی بات یہ، کہ دن کا وقت تھا جب کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا تھا..
میں سوچ رہا تھا کہ فرائیڈے اس جھونپڑی میں قید، موت کا انتظار کر رہا ہے اور اسے بالکل علم نہیں کہ میں اس جھونپڑی سے صرف پچاس قدم کے فاصلے پر کھڑا اس کی مدد کے لیے آ چکا ہوں..

ایک بار میرے دل میں خیال آیا کہ فرائیڈے کو اپنی آمد کی اطلاع دینے کے لیے کیوں نہ مخصوص سیٹی بجاؤں.. پھر میں نے سوچا کہ اگر ایسا کیا تو جواب میں فرائیڈے بھی سیٹی بجا سکتا ہے اور اس سے پہرےدار کو شک ہو سکتا ہے اور معاملہ بگڑ سکتا ہے..

بہرحال یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ پہرے دار رات کے وقت بھی اس جھونپڑی کی نگرانی کرتے ہوں گے اور جب تک ان پر قابو نہ پایا جائے یا انہیں قتل نہ کیا جائے، فرائیڈے تک پہنچنا اور اسے آزاد کرانا ممکن نہیں. دن کے وقت اگر میں اپنے ہتھیار استعمال کرتا تو معاملات خراب ہو سکتے تھے.. میں نے سوچا کہ اب مجھے شام کی تاریکی کا انتظار کرنا چاہیے.

یہ سوچنے کے بعد میں اچھی طرح دیکھ بھال کر کے قریب ہی واقع ایک بیری کے درخت پر چڑھ کر چھپ گیا. اگرچہ بیری میں بہت کانٹے تھے لیکن ایک تو میں بہت سخت جان تھا اور دوسرا بکری کی کھال کا لباس پہن رکھا تھا، اس لئے کانٹوں کو برداشت کر گیا..

انگلش ماسٹر

بیری کے درخت پر چڑھنے اور چھپنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ میں نے لال لال اور پکے ہوۓ بیر توڑ کر پیٹ بھر کر کھائے. پھر ذرا آرام دہ صورت بنا کر درخت پر ٹانگیں پھیلا لیں تاکہ کچھ تھکن اتر سکے. کچھ دیر اونگھا بھی اور بالآخر انتظارختم ہوا اور شام کی تاریکی پھیلنے گی، درخت پر طوطے شور مچانے لگے..

اس پورے عرصے میں، میں لگ بھگ ہر دس منٹ کے بعد اس جھونپڑی کا جائزہ ضرور لے لیتا تھا۔ میں نے دیکھا کہ جب شام ہونے والی تھی تو جھونپڑی کے پہرےدار تبدیل ہو گئے. بہرحال جو پہرےدار آۓ، وہ بھی پہلے جیسے آدم خوروں کی طرح تھے۔

میں نے یہ بھی دیکھا کہ شام کے وقت ایک آدم خور پتے پر شکر قندی کے کچھ ٹکڑے رکھ کر جھونپڑی کے اندر گیا۔ واپس آیا تو اس کے ہاتھ خالی تھے۔ میں سمجھ گیا کہ وہ فرائیڈے کے لئے کھانا لے کر جھونپڑی کے اندر گیا تھا۔

مجھے شدت سے پیاس محسوس ہونے لگی۔ پھر پیاس اس حد تک بڑھی کہ میں صبر نہ کر سکا۔ درخت سے اترا اور اسی تالاب کا رخ کیا، جہاں سے میں نے سنگھاڑے توڑ کر کھاۓ تھے.. جب میں تالاب کے پانی سے پیاس بجھا کر چھپ چھپ کر واپس آر ہا تھا، تو یکدم ایک ادھیڑ عمر کے آدم خور سے میرا آمنا سامنا ہوگیا…

میں گھبرا گیا.. لیکن میں نے دیکھا کہ وہ آدم خور بجاۓ اس کے کہ شور مچاتا، جہاں کھڑا تھا ، وہیں چپ چاپ کھڑا رہا…

میں نے پستول نکال کر اس پر تان لیا.. میں اپنی جان بچانے کے لئے اسے گولی کا نشانہ بنانے کا فیصلہ کر چکا تھا..
آدم خور نے عجیب حرکت کی، آہستہ سے بولا
”ماسٹر، انگلش ماسٹر..؟“

میں حیرت سے اسے تکتا رہ گیا۔ اس طرح تو فرائیڈے مجھے مخاطب کیا کرتا تھا۔ پھر اچانک ایک خیال میرے دل میں بجلی کے کوندے کی طرح لپکا۔ مجھے یاد آیا کہ فرائیڈے نے کئی بار مجھے بتایا تھا کہ اب بھی اس جزیرے میں کچھ ایسے آدم خور موجود ہیں، جو اس کے وفادار ہیں۔ اس نے یہ بھی بتایا تھا کہ ایسے وفادار آدم خوروں کی تعداد بہت کم ہے۔ میں نے سوچا کہ یہ آدم خور بھی اس کے اور اس کے والد کے وفاداروں میں سے ایک ہو گا اور فرائیڈے نے اسے میرے بارے میں بتایا ہوگا کہ میں اس کا انگش ماسٹر ہوں اور میں نے ہی فرائیڈے کی جان بچائی تھی۔

میں چند قدم آگے بڑھا اور اس سے پوچھا۔ ’’ہاں.. میں ہی انگش ماسٹر ہوں.. میں فرائیڈے کو بچانے آیا ہوں، بتاؤ فرائیڈے کہاں ہے؟‘‘
میں نے دیکھا کہ آدم خور کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی، وہ ڈرے بغیر میرے پاس آ گیا۔ اس کا رنگ بے حد سیاہ تھا۔ آنکھیں سرخ اور سر کے بال سفید تھے۔ گلے میں انسانوں اور جانوروں کی ہڈیوں کی مالا پہن رکھی تھی۔

میرے قریب آ کر اس نے بہت آہستہ سے کہا، ”وہ بانس کی اس جھونپڑی میں بند ہے، دو دن کے بعد ظالم سردار اسے قتل کر کے بھون کر کھا جائے گا.. ماسٹر تم بھی بھاگ جاؤ.. یہاں سے نکل جاؤ… ظالم سردار تمہاری تلاش میں ہے.. وہ تمہیں بھی بھون کر کھا جائے گا“

میں نے اسے کھینچا اور گھنی جنگلی جھاڑیوں میں لے گیا۔ وہاں قدرے کھلی جگہ پر ہمارا کھڑا رہنا ہمارے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا تھا۔

میں نے اسے بتایا کہ میں کیسی کیسی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے یہاں پہنچا ہوں اور یہاں سے خالی ہاتھ نہیں جاؤں گا بلکہ فرائیڈے کو آ زادکرا کے ہی جاؤں گا۔

وہ آدم خور کچھ سوچنے لگا۔ پھر اس نے رک رک کر مجھے بتایا کہ وہ فرائیڈے کے والدین کا وفادار ساتھی ہے۔ وہ فرائیڈے کا بھی وفادار ہے۔
اور پھر کہنے لگا ”ہم جو اس کے وفادار میں، تعداد میں بہت کم ہیں.. ہم مل کر بھی اسے ظالم سردار کے چنگل سے نہیں بچا سکتے.. میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم اکیلے اتنے بڑے قبیلے کے سردار کا مقابلہ کیسے کر سکو گے۔‘‘

میں نے اسے بتایا ”میں یہ فیصلہ کر کے آیا ہوں کہ فرائیڈے کو ساتھ لے کر جاؤں گا.. یہ دیکھو میرے پاس چھ سات پستول اور ایک بندوق ہے اور مجھے پانچ چھ ایسے آدمی مل جائیں جو پستول چلانا جانتے ہوں، تو میری ہر مشکل آسان ہو جائے گی“
اس آ دم خور نے جواب دیا. ”یہاں تو کوئی بھی ایسا نہیں جو پستول چلانا جانتا ہو.. بلکہ میں نے تو زندگی میں پہلی بار پستول دیکھا ہے اور ہمارے ساتھی بھی پستول سے بالکل ناواقف ہیں‘‘

کچھ سوچنے کے بعد میں نے اسے کہا۔ ”تم مجھے فرائیڈے کی جھونپڑی تک پہنچا دو اور میرے ساتھ رہو“
اس نے جواب دیا ”میں ایسا نہیں کر سکتا۔ اگر سردار کو علم ہو گیا، تو وہ مجھے قتل کر کے بھون کر کھا جائے گا۔ ہاں.. میں یہ کر سکتا ہوں کہ تمہیں اپنی جھونپڑی میں رات بھر چھپالوں اور جب صبح ہو رہی ہو تو تم یہاں سے فرار ہو جاؤ..“

میں اسے کچھ بھی بتائے بغیر اس کے ساتھ چل پڑا۔ ایک تو میں اب بیری پر ٹنگا رہنا نہیں چاہتا تھا اور اس کی جھونپڑی میرے لئے زیادہ محفوظ ثابت ہوسکتی تھی۔ دوسرے میرے دل میں یہ امید بھی تھی کہ ممکن ہے اس کی جھونپڑی میں کوئی ایسا وفادار مل جائے جو فرائیڈے کی جان بچانے کے لئے بہادری کا مظاہرہ کر کے میر اساتھ دینے پر تیار ہو جائے..

وہ مجھے جنگل کے انتہائی گھنے علاقے کے اندر سے گزارتا ہوا ایک تالاب کے پاس سے آگے بڑھا۔ اس کی جھونپڑی چاروں طرف سے گھنی بیلوں میں چھپی ہوئی تھی۔ یہاں غیر معمولی سناٹا تھا۔ چھوٹی سی جھونپڑی کے اندر لا کر اس نے مجھے پینے کے لئے پانی دیا اور کھانے کے لئے پیلے رنگ کے کیلوں کا ایک گچھا لے آیا۔ میں نے کیلے کھانے شروع کئے اور دل میں ایک دو بار یہ بھی خیال آیا کہ کہیں مجھے کسی چال میں تو نہیں پھنسایا گیا… لیکن اپنے پستولوں اور بندوقوں کی وجہ سے میرا حوصلہ قائم رہا، اور میں نے دل میں کہا اگر میں مقابلے میں مارا گیا تو بھی مرنے سے پہلے دس بارہ آدم خوروں کو تو قتل کر کے ہی مروں گا۔

جھونپڑی بڑی بدبودار تھی اور بو بہت نا گوار تھی..
میں نے پوچھا۔ ”کیا تم بھی انسانوں کا گوشت کھاتے ہو؟‘‘
وہ خاموش رہا اور مجھے دیکھتا رہا۔
اچانک باہر آہٹ ہوئی.. اس نے مجھے جلدی سے ایک کونے میں چھپا دیا اور خود جھونپڑی کے باہر چلا گیا۔ میں نے پستول پر اپنے ہاتھ کی گرفت مضبوط کر لی..

کچھ دیر وہ باہر کسی سے باتیں کرتا رہا۔ میں نے باہر آدم خوروں کی سیٹیوں کی آوازیں بھی سنیں۔ وہ باتیں کر رہا تھا، لیکن اس کا ایک لفظ بھی میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ اندر آ گیا اور میرے پاس زمین پر بیٹھ گیا.

میں نے اپنا پستول اس کی کنپٹی سے لگاتے ہوئے کہا۔
”اگر تم نے میرے ساتھ دھوکا کیا تو جان لو کہ میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا‘‘
اس نے میرے گھٹنے پر اپنا بڑا اور کھر درا ہاتھ رکھ کر اپنی وفاداری کا یقین دلایا اور کہا کہ وہ فرائیڈے اور اس کے باپ کا وفادار ہے.
جب میں نے اس سے پوچھا کہ وہ باہر کس سے کیا باتیں کر رہا تھا، تو اس نے جواب دیا. ”انگش ماسٹر ، سردار کو پتہ چل چکا ہے کہ تم جزیرے میں ہو۔ تمہاری تلاش کی جا رہی ہے۔ فرائیڈے کی نگرانی بھی سخت کر دی گئی ہے۔“

جاری ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close