بلوچوں پر صدیوں پر محیط مظالم کا گواہ اور فریادی

حسن مجتبٰی

میں نے جب انہیں سال دو ہزار ایک کے مئی مہینے میں واشنگٹن ڈی سی میں ایک سندھی کانفرنس میں دیکھا، تو وہ اپنے ویسٹرن ہیٹ اور اسپر لگے کسی نایاب پرندے کے پر اور اس کانفرنس میں اپنے انداز خطابت میں ایک نیٹِوِ امریکی  قبیلے کے سے سربراہ کے طور پر لگے تھے، جو اپنی قدیم سرزمین پر قابض آبادکاروں سے  ان کے قبضے پر اپنا احتجاج کر رہا ہو۔ شاید امریکہ میں جارج ڈبلیو بش کے دن  تھے اور یہ قد آور بلوچ رہنما امریکی طاقت کے منبعوں  سے کہہ رہا تھا کہ آؤ اور ملائوں کے بجائے ہم سے بات کرو.. ہم جو آبنائے ہرمز سے لے کر دریائے آمو اور کئسپین تک اپنی دھرتی کے وارث ہیں۔ یہ سردار عطا اللہ مینگل تھے۔  جو تھے تو نسلاً براہوی قبائل کے سردار اور انسان لیکن بقول سیلگ ہیریسن  اس جدید بلوچ قومپرستی کی اس سہ مورتی کی ایک شکل و شبیہہ تھے، جس کا ٹوٹ جانا آج مکمل ہوا۔

جدید بلوچ قومپرستی کی یہ سہ مورتی خیر بخش مری، مینگل اور میر غوث بخش بزنجو سے جڑی تھی۔  بلوچ، جنہیں میں کردوں کا کزن کہتا ہوں اور وہ بھی کردوں کی طرح بڑی تعداد میں معدنیات سے  مالا مال وسیع ساحل اور سمندر ہونے کے، تاریخ میں مار کھاتے، لڑتے مرتے وہ لوگ ہیں.. بقول جلال طالبانی کے، کہ جن کا کوئی دوست نہیں، سوائے پہاڑوں کے…

جس وقت سردار عطاءاللہ مینگل سندھی  کانفرنس میں تقریر کر رہے تھے تو  میرے دو دلبر دوست حیدر رضوی اور ظفریاب احمد بھی میرے ساتھ تھے اور وہ کردوں سے لے کر سندھیوں اور بلوچوں تک ہر پچھاڑے ہوؤں کے کاز کے ساتھ تھے، لیکن پھر بھی کچھ سیاسی طور پر نابالغ سندھیوں کی پنجابیوں کو مغلظات کا بیجا طور پر نشانہ تھے.. چہ جائیکہ  وہ پاکستانی سفارتخانے کے باہر سندھیوں اور بلوچوں کے حقوق کی تلفی پر احتجاج میں شریک تھے۔ اب اس  قوم کا کیا کیا جائے، جو “پنجاب سامراج” کہتی ہو اور امریکہ اور یورپ میں خود مہاجر ہوتے ہوئے بھی افغانوں سمیت دنیا بھر کے مہاجروں کے خلاف ہوں۔

اس پر مجھے یاد آیا کہ میرا ایک  دوست بھی لندن میں ایک اور سندھی کانفرنس میں پرندے کے پر والا ٹوپلا پہن کر اسٹیج پر عطاء اللہ مینگل کے ساتھ اس تقریب کی پریزیڈیم میں بیٹھا تھا لیکن ایسا ٹوپلا پہننے سے کوئی عطاء اللہ مینگل نہیں  بن جاتا۔ ان دنوں  میرا یہ دوست پاکستانی ریاست کا خطاب یافتہ ستارہ امتیاز ہے اور مایہ ناز پاکستانی صحافی بھی کہلایا جاتا ہے۔

مجھے ایک دفعہ حیدر رضوی نے بتایا تھا کہ جب یہ ہمارا مشترکہ دوست کئی برس بعد اس سے ملا تو اس نے حیدر سے کہا ”تمہیں پتہ ہے میں ریڈیو پاکستان کا زار بن گیا ہوں“ جی ہاں.. یہ لوگ گھر سے لینن بننے نکلے تھے، لیکن زار بن گئے!

مجھے وہ عطاء اللہ مینگل آج بھی  یاد ہے، جو بڑے بھٹو کے زمانے میں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ تھے۔ انہوں نے بلوچی کو رومن رسم الخط میں اپنے وزیر تعلیم اور بلوچ قومی شاعر گل خان نصیر کے توسط سے قومی و سرکاری زبان بنایا تھا۔ کئی ہزاروں تو نہیں سینکڑوں بلوچوں اور براہویوں کو کئی اچھی اچھی ملازمتیں دی تھیں اور  یہ بھی قرار دیا تھا کہ بلوچستان میں کام  کرنے اور ملازمت کرنے والے کے لیے بلوچستان کا ڈومیسائیل لازمی ہوگا۔ بھٹو حکومت اور ٹکا خان کی سربراہی میں گورنر میر غوث بخش بزنجو اور وزیر اعلی عطاء اللہ مینگل کی اس حکومت کے خلاف پٹ فیڈر و دیگر علاقوں میں وفاقی مسلح بغاوت شروع کرا دی گئی تھی اور پنجابی آبادکاروں اور مقامی بلوچوں  کے درمیان بھی متشدد مسابقت بھی۔ اور پھر اس کا بہانہ بناکر بلوچستان پر ٹکا خان کی سربراہی میں فوج کشی کردی گئی.. باقی سب تاریخ ہے!

انہی دنوں کراچی کے کٹرک ہال میں ”یوم بلوچستان“ منایا گیا تھا، جہاں مہمان خصوصی عطاء اللہ مینگل تھے،جنہوں نے اپنے خطاب میں بڑے پرجوش انداز میں کہا تھا کہ اگر پاکستان ٹوٹ بھی گیا، تو وہ بلوچستان کا نام پاکستان رکھ دیں گے اور یہ بھی کہا تھا کہ ”پاکستان کی بیغیرت افواج کو نوروز خان کے بیٹوں پر گولی چلانے سے پہلے دو بار سوچنا چاہیئے۔“

اس سے  ایک سال قبل عطاء اللہ مینگل  حیدرآباد بسنت ہال میں سندھی قومپرستوں کی طلبہ تنظیم جیئے سندہ اسٹوڈنٹس فئڈریشن کی طرف سے سندھی طلبہ کی جدوجہد کی یاد میں منائے جانے والے ”یومِ چار مارچ“ میں مہمان خصوصی تھے اور وہ تقریب، اس میں شرکت کرنے والوں کو آج بھی یاد ہو گی۔

بلوچستان پر فوج کشی اور اس کے خلاف مسلح بلوچ مزاحمت کے دوران عطاء اللہ مینگل کو بھی گرفتار کیا گیا تھا اور دل کے عارضے کے سبب اس بلوچ رہنما نے اپنی نظربندی کا ایک بڑا عرصہ کراچی کے جناح ہسپتال میں کاٹا تھا۔ ان کی اسی بیماری کے دوران انہیں بھٹو حکومت یا پاکستانی ریاست نے ایک اور سانحے سے گزارا کہ انیس سو چھہتر میں ان کا جواں سال بیٹا اسد اللہ مینگل  غائب کردیا گیا اور جو آج تک غائب ہے۔ لیکن قوی اطلاعات یہ ہیں کہ بھٹو حکومت میں اسداللہ مینگل کو ریاستی تشدد کے ذریعے  قتل کرا کے اس کی لاش کو ٹھٹہ کے  پاس گاڑھو شہر یا گھوڑا باری کے نزدیک سمندر برد کر دیا گیا تھا۔ بہرحال بلوچ منحرفین، سرمچاروں، ان کے اہلِ خانہ، عام بلوچ مرد، عورتوں، بچوں چاہے بلوچ زعما اور رہنماؤں سے زیادتیوں پر بھٹو کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔  شاید غلام مصطفیٰ جتوئی اس وقت سندھ کے وزیر اعلیٰ تھے، جب اسداللہ مینگل کو غائب کردیا گیا تھا۔ اسد اللہ مینگل کو کراچی میاں محمد علی سوسائٹی میں اس کے گھر، جو  بلخ شیر مزاری کے گھر کے قریب ہے، سے اٹھایا گیا تھا.  اسد اللہ مینگل ہو کہ جانی ٹی داس، حسین ناصر زیدی یا اشوک کمار… یہ پاکستان میں ریاست یا ریاستی یا  فوجی جاسوسی  محکموں کے ہاتھوں اوائلی غائب شدگان تھے، جن کا آج تک اتا پتہ نہیں۔

میں وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ اس ڈائلاگ میں کتنی صداقت ہے جو عطاء اللہ مینگل سے منسوب کیا جاتا ہے، جب جناح ہسپتال کے دل کے وارڈ میں داخل سردار عطاء اللہ مینگل کو اپنے بیٹے کی گمشدگی کی خبر دی گئی، تو انہوں نے کہا تھا ”میرے اصل بیٹے تو وہ ہیں جو پہاڑوں پر لڑ رہے ہیں۔ میں نے اسد کو کہا تھا کہ وہ پہاڑوٖں پر جا کر لڑے، لیکن اس نے میری بات نہیں مانی تھی.“ پھر یہ ڈائلاگ بھی کہ جب فوجی آمر ضیا الحق کے ہاتھوں بھٹو کا دھڑن تختہ ہونے پر بلوچستان ٹربیونل توڑ دی گئی اور تمام نعپ (نیشنل عوامی پارٹی)  کے  ولی خان سمیت پشتون اور بلوچ لیڈروں کو رہا کردیا گیا تو عطاء اللہ مینگل اپنی نظربندی سے رہائی ہر سیدھا لاڑکانہ بھٹو کی تعزیت اور گڑھی خدا بخش ان کی قبر پر پہنچے تھے اور بھٹو کی قبر کی مٹی اپنی مٹھی میں لیتے ہوئے اس کی قبر سے مخاطب ہوئے تھے کہ ”اے بزدل قوم  کے بہادر فرزند، اگر  تو فوج کے کہنے پر نہیں چلتا، تو آج اس طرح قتل نہیں ہوتا اور ہم (بلوچ) تیرے قتل کا بدلہ لیں گے!“

عطاءﷲ مینگل نظربندی سے رہائی پر جلاوطنی اختیار کرتے ہوئے ایک بڑے عرصے تک لندن چلے گئے۔ جہاں انہوں نے ممتاز بھٹو، عبدالحفیظ پیرزادہ، افضل بنگش کے ساتھ سندھی بلوچ پشتون فرنٹ قائم کیا۔  پھر کبھی عمر بھر عطاءاللہ مینگل نے نہ پاکستانی سیاست کی اور نہ ہی وہ کبھی پاکستان سے پر امید رہے.

جام صادق علی سے بھی ان کے قریبی اور دوستانہ تعلقات رہے۔ ایک دفعہ جام صادق علی سے ملنے ایک سندھی نوجوان آیا۔ جام سے جب بھی کوئی ملنے آتا تو اسے خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے۔ (ایک دفعہ ان کے پاس میرا دوست مدد علی سندھی ملنے گیا تو جام صادق علی نے اسے اپنی نظر کی عینک اتار کر دی کہ اس وقت اس کے پاس بس یہی عینک ہے) تو جب وہ سندھی نوجوان جام سے ملنے آیا تو اس کے پاس عطاء اللہ مینگل بیٹھا تھا۔ جام صادق علی نے اچانک عطاء اللہ مینگل سے سوال کیا کہ تمہاری  جیب میں کتنے پئسے ہیں؟ تو عطاء اللہ مینگل نے کہا کہ اس وقت  ان کی جیب میں کوئی ڈیڑھ سو تین سو پائونڈ ہیں۔ جام عطاء اللہ مینگل سے پئسے لیتے ہوئے نوجوان کو دینے لگے تو نوجوان پس و پیش کرنے لگا تو جام نے اس نوجوان سے  کہا ”کیا تم  سردار عطاء اللہ مینگل کی جیب سے پئسہ نکال سکتے ہو؟ تو شرافت سے لے لو…“  یہاں پر یہ ذکر بھی فضول ہوگا کہ عطاء اللہ مینگل سندھ کے کوہستانی سردار اور وڈیرے ملک سکندر کے رشتے میں ماموں لگتے تھے ویسے تو وہ رشتوں میں  خیر بخش مری  اور شاید صالح بھوتانی کے  بھی رشتہ دار تھے۔

سردار عطاء اللہ مینگل کی وفات سے بلوچوں پر دہائیوں کیا صدیوں پر محیط ریاستی مظالم و نسل کشی کا  ایک اہم گواہ اور فریادی چلا گیا.. وہ گواہ، جسے پاکستانی ریاست کے حافظے  نے کبھی اپنی انتقام پسندی سے محو نہیں کیا۔ اسی لیے ان کے ایک اور بیٹے  اختر مینگل کو فوجی آمر مشرف کے حکم پر کراچی جیل میں عدالت لگا کر سلاخوں والے پنجرے میں پیش کیا جاتا رہا کہ اختر مینگل نے فوجی جاسوسی محکموں کے ان اہل کاروں سے سرزنش کی تھی، جو ان کے اسکول جاتے چھوٹے بچوں کا پیچھا کیا کرتے.

یہ بھی پڑھئیے:

مرحوم سردار عطاء ﷲ خان مینگل کا مختصر سوانحی خاکہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close