این سی او سی کا 24 اضلاع میں تعلیمی ادارے مزید ایک ہفتہ بند رکھنے کا فیصلہ

نیوز ڈیسک

اسلام آباد : این سی او سی نے کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے ملک بھر کے 24 حساس اضلاع میں تعلیمی ادارے ایک بار پھر مزید ایک ہفتہ کے لیے بند رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے

این سی او سی نے کورونا پابندیوں میں ایک ہفتے کی توسیع کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت ملک بھر کے 24 حساس اضلاع میں تعلیمی ادارے مزید ایک ہفتہ بھر رہیں گے

اطلاعات کے مطابق کورونا کی تمام پابندیوں کا اطلاق ملک بھر کے 24 حساس اضلاع میں 15 ستمبر تک رہے گا، توسیع کا یہ فیصلہ کورونا صورتحال کے سبب ہیلتھ سسٹم پر پڑنے والے دباؤ کے پیش نظر کیا گیا ہے

ان اضلاع میں ان ڈور اور آؤٹ ڈائننگ اجتماعات پر پابندی ہوگی، انٹرسٹی ٹرانسپورٹ بند رہے گی، کھیل اور تفریحی سرگرمیاں ممنوع ہوں گی

این سی او سی نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ  پنجاب، کے پی اور آئی سی ٹی کے 24 ہائی ڈیزیز اضلاع میں 12 ستمبر تک نافذ کردہ این پی آئی کو 15 ستمبر 21 تک بڑھا دیا گیا ہے جس کا جائزہ 15 ستمبر کو لیا جائے گا

یعنی پنجاب اور خیبر پختون خوا میں 12 ستمبر کو کھلنے والے اسکول اب اس تاریخ کو نہیں کھلیں گے بلکہ 15 ستمبر کو جائزہ اجلاس میں اس حوالے سے فیصلہ ہوگا ان صوبوں کے اسکولز بھی کب کھولے جائیں

خیبر پختون خواہ حکومت نے این سی اوسی کے گزشتہ روزفیصلوں کی روشنی میں صوبائی دارالحکومت پشاور سمیت صوبے کے 9 اضلاع کی تعلیمی سرگرمیاں معطل کردی ہیں. ان اضلاع میں پشاور، مردان، صوابی، مالاکنڈ، سوات، ہری پور، مانسہرہ، ایبٹ آباد، ڈی آئی خان شامل ہیں جہاں کورونا تعطیلات میں 15 ستمبرتک توسیع کردی گئی ہے۔ اس سے قبل صوبے کے 8 اضلاع میں کورونا تعطیلات 11 ستمبر تک تھیں

آل پاکستان پرائیویٹ اسکولز اینڈ کالجز ایسوسی ایشن نے این سی او سی کے تعلیمی ادارے مزید بند رکھنے کے فیصلے پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ باقی شعبہ جات کھول کر صرف تعلیمی اداروں کو بند رکھنا زیادتی ہے

دوسری جانب یونیسف کی جانب سے کی جانے والی نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان کا شمار جنوبی ایشیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں حکومت اور شراکت داروں کی جانب سے ریموٹ لرننگ میں توسیع کی نمایاں کوششوں کے باوجود بھی اسکول بند ہونے سے بچوں کو تعلیمی مواقع میں خطرناک حد تک عدم مساوات پیدا ہوا ہے

یونیسف کا کہنا تھا پاکستان، بھارت، مالدیپ اور سری لنکا میں کی جانے والی تحقیق کے نتائج میں یہ بات سامنے آئی کہ کورونا وائرس وبا کے باعث جنوبی ایشیائی ممالک میں اسکول بند ہونے کی وجہ سے 43 کروڑ 40 لاکھ بچوں کی تعلیم میں خلل پیدا ہوا

پاکستان میں 23 فیصد بچے ایسے ہیں جن کے پاس ایسی کوئی ڈیوائس موجود نہیں ہے جس کے ذریعے وہ ریموٹ لرننگ تک رسائی حاصل کرسکیں، اس سے غریب اور پسماندہ گھرانے شدید متاثر ہوئے ہیں جہاں خاندان ایک ڈیوائس کے اخراجات برداشت کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں

یونیسف نے اس بات کی نشاندہی کی کہ جب ڈیوائسز موجود ہوتی ہیں تب بھی وہ اکثر کم استعمال کی جاتی ہیں اور بچوں کی ان تک رسائی اکثر محدود ہوتی ہے، مثال کے طور پر پاکستان میں وہ بچے جنہیں ڈیواسز تک رسائی حاصل ہے ان میں سے صرف 24 فیصد جب چاہیں اسے استعمال کر سکتے ہی

یونیسف کی تحقیق کے مطابق طلبہ اور ان کے والدین کی بڑی تعداد نے یہ شکایت کی ہے کہ طلبہ کے سیکھنے کے عمل میں کورونا وائرس سے قبل کے مقابلے میں نمایاں کمی آئی ہے، حکومت کی نمایاں کوششوں کے باوجود کنیکٹیوٹی کے مسائل اور ڈیجیٹل آلات تک رسائی میں کمی نے ریموٹ لرننگ کی کوششوں کو شدید متاثر کیا ہے

تحقیق سے معلوم ہوا کہ طلبہ اور اساتذہ میں رابطے کا فقدان، عام حالات میں اور اس کے برعکس، بچوں بالخصوص نوجوان طلبہ کے سیکھنے کے عمل میں کامیابی کے حوالے سے مضبوط پیش گوئی کرتا ہے

تاہم سرویز سے معلوم ہوا ہے کہ اسکول بند ہونے کے بعد زیادہ تر طلبہ اپنے اساتذہ سے بہت کم یا بالکل رابطے میں نہیں ہیں

بچوں میں سیکھنے کے عمل کو یقینی بنانے کے لیے یونیسف نے حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ حفاظتی اقدامات کے ساتھ ترجیحی بنیادوں پر اسکول کھولیں جبکہ اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ اگر ریموٹ لرننگ ضروری ہے تو بچے معیاری تعلیم حاصل کریں، اور اساتذہ بچوں کے سیکھنے کی سطح کا جائزہ لیتے ہوئے اس مدت کے دوران ‘لرننگ ریکوری’ کے عمل کو فعال رکھیں

حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر اساتذہ کو ویکسین لگانی چاہیے تاکہ محفوظ انداز میں اسکول کھولے جاسکیں اور اساتذہ کو ایسے بچوں تک رسائی کے لیے، جن کی ٹیکنالوجی تک محدود یا بالکل رسائی نہیں ہے، مختلف طریقوں بشمول موبائل ڈیوائسز، ٹی وی، ریڈیو اور شائع کردہ مواد کے ذریعے آلات اور تربیت فراہم کر

تحقیق میں مزید کہا گیا کہ حکومتوں اور عطیہ دہندگان کو ضروری پری پرائمری، بنیادی خواندگی اور حساب سکھانے کے لیے تعلیم کے شعبے کو محفوظ اور اس میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے جبکہ نجی سیکٹر اور سماجی تنظیموں کو روابط بہتر کرنے، معیار بلند کرنے اور طلبہ کی ضروریات کے مطابق کثیرالسانی ریموٹ لرننگ مواد فراہم کرنے کے لیے حکومت کے ساتھ کام کرنا چاہیے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close