مانچسٹر : برطانوی ماہرین نے چاند اور مریخ پر انسانی بستیاں تعمیر کرنے کے لیے ’’ایسٹروکریٹ‘‘ (AstroCrete) کے نام سے ایسا مضبوط اور پائیدار کنکریٹ تیار کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے ، جس میں خلائی راکھ کے علاوہ انسانی خون، پسینہ اور آنسو بھی شامل ہیں
یہ ایجاد یونیورسٹی آف مانچسٹر، برطانیہ کے سائنسدانوں نے کی ہے، جس کی تفصیلات ریسرچ جرنل ’’مٹیریلز ٹوڈے بایو‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہیں
تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ اس کنکریٹ کی تیاری میں ایسی مٹی استعمال کی گئی ہے، جسے مصنوعی طور پر بالکل مریخی مٹی جیسا بنایا گیا تھا
اس مٹی کو کنکریٹ کی شکل دینے کےلیے اس میں ’’البومین‘‘ نامی پروٹین ملائی گئی، جو انسانی خون میں بکثرت پائی جاتی ہے. جبکہ کنکریٹ کو مضبوط اور پائیدار بنانے کے لیے اس میں یوریا کا اضافہ بھی کیا گیا جو انسانی پیشاب، پسینے اور آنسوؤں میں وافر پایا جانے والا مرکب ہے
مختصر اور محدود پیمانے پر تجربات سے معلوم ہوا کہ صرف خون (البومین) کی ملاوٹ والے کنکریٹ کی مضبوطی ویسی ہی تھی جیسی عام کنکریٹ کی ہوتی ہے
البتہ، جب اس میں یوریا کی معمولی مقدار شامل کی گئی، تو کنکریٹ کی مضبوطی میں تین سو فیصد اضافہ ہوگیا اور وہ کئی گنا زیادہ دباؤ برداشت کرنے کے قابل ہوگئی
اس کنکریٹ کا مقصد مستقبل میں مریخ اور چاند پر پہلے سے دستیاب وسائل کے استعمال سے انسانی بستیاں تعمیر کرنا ہے، جو نہ صرف پائیدار ہوں گی بلکہ ان پر اٹھنے والے اخراجات بھی قابلِ برداشت حد میں ہوں گے
واضح رہے کہ اگر ہمیں صرف ایک اینٹ بھی زمین سے مریخ تک پہنچانی ہو تو اس کا خرچہ کم از کم بیس لاکھ ڈالر (تقریباً 32 کروڑ پاکستانی روپے) ہوگا
اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایسی صورت میں مریخ پر انسانی رہائش کے لیے لاکھوں کروڑوں اینٹوں والی کوئی عمارت تعمیر کرنا کس قدر مہنگا اور ناقابلِ برداشت منصوبہ ہوگا
یہ اور اس جیسی کئی دوسری وجوہ کی بناء پر زیادہ مناسب یہی خیال کیا جاتا ہے کہ مریخ اور چاند پر پہلے سے موجود قدرتی وسائل استعمال کرتے ہوئے وہاں انسانی بستیاں بسائی جائیں
’’ایسٹروکریٹ‘‘ بھی ایسی ہی ایک ایجاد ہے جو مریخ اور چاند پر انسانی رہائش کے لیے ’’کم خرچ اور پائیدار عمارتوں‘‘ یا یوں کہہ لیں کہ ”کم خرچ، مریخ نشیں“ کا خواب حقیقت بنا سکتی ہے.