وی پی این کی کہانی

ولید افشال

ہم میں سے ہر شخص نے اپنی زندگی میں کبھی نا کبھی وی پی این کا استعمال ضرور کیا ہوگا۔ زیادہ تر اس کا استعمال تب ہوتا ہے، جب ہمیں کسی ممنوعہ ویب سائٹ تک رسائی چاہیے ہو لیکن کیا آپ جانتے ہیں ہم وی پی این کو بہت سے دیگر مقاصد کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں

وی پی این کی کہانی 1990 کے ابتدا سے شروع ہوتی ہے، وہ انٹرنیٹ کا ابتدائی دور تھا اور اسے استعمال کرنے والے لوگ کم کم تھے۔ انٹرنیٹ کا سب سے پہلا استعمال 1960 میں یونائٹڈ اسٹیٹس کے ڈپارٹمنٹ آف ڈیفنس نے کیا۔ اَسی کی دہائی میں اس کا استعمال یونیورسٹیوں اور ریسرچ انسٹیٹیوشنز میں ہونے لگا۔ 1990 میں عام پبلک انٹرنیٹ سے استفادہ کرنے لگی۔ نئی ٹیکنالوجیز جیسے کہ ورلڈ وائڈ ویب اور ای میل کے آنے کے بعد سے انٹرنیٹ کا استعمال بڑھ گیا۔ وی پی این کی ابتدائی شکل ’پی پی ٹی پی‘ پروٹوکول تھا۔ جسے ’پوائنٹ ٹو پوائنٹ ٹنلنگ پروٹوکول‘ کہا جاتا ہے۔

کسی بھی کام کو کرنے لیے بنائے گئے رولز اور ہدایات کو پروٹوکولز کہا جاتا ہے۔ وی پی این پروٹوکولز ڈیٹا کو ان کرپٹ کرنے اور وی پی این کنیکشنز کو ترتیب دینے میں استعمال ہوتے ہیں

اس پروٹوکول کو 1996 میں مائکروسافٹ میں کام کرنے والے انجنئیر گردیپ سنگھ پال نے بنایا۔ انہیں محسوس ہوا کہ کہ کسی بھی کمپنی یا آرگنائزیشن کے ملازمین کو کسی پبلک وائی فائی یا گھر سے کمپنی کے نیٹ ورک سے جڑنے کے لیے ایک محفوظ کنیکشن کی ضرورت ہے تا کہ ڈیٹا کے محفوظ اشتراک کو یقینی بنایا جا سکے۔ پی پی ٹی پی دو کمپیوٹرز کے درمیان ایک ان کرپٹڈ ٹنل بنا دیتا تھا۔ یہ ٹنل ڈیٹا کو کسی تھرڈ پارٹی کے ہاتھ لگنے سے بچاتی تھی، جیسے کہ آپ کا انٹرنیٹ سروس پروائڈر، ہیکرز اور گورنمنٹ ایجنسیز وغیرہ۔ تاہم اب اس پروٹوکول کا استعمال نا ہونے کے برابر ہے، کیونکہ یہ اتنا محفوظ نہیں ہے۔ یہ ان کرپشن کے لیے ایک الگورتھم RC 4 کا استعمال کرتا ہے، جسے ہیکرز کے لیے توڑنا بہت آسان ہے۔

آج کل سب سے زیادہ استعمال ہونے والا پروٹوکول ’اوپن وی پی این‘ ہے۔ یہ سب سے زیادہ محفوظ وی پی این پروٹوکول ہے، جو کارپوریٹ نیٹ ورکس تک رسائی، فائلز کا اشتراک، سینسر شدہ مواد دیکھنے، اپنی شناخت چھپا کے انٹرنیٹ چلانے اور آنلائن پرائیویسی کو یقینی بناتا ہے

وی پی این کام کیسے کرتا ہے؟ آئیے اسے بینک چوری کی ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ فرض کیجیے کچھ لٹیرے بینک کے لاکر میں پڑا ہوا سونا چرانا چاہتے ہیں۔ اگر وہ اس چوری کے لیے بینک کا مین داخلی دروازہ استعمال کریں گے تو انہیں ٹریک کرنا اور پکڑنا آسان ہو جائے گا، اسی طرح اگر وہ زیرِ زمین ایک ٹنل بناتے ہیں جو انہیں بینک لاکر تک لے جائے تو وہ کسی کی نظروں میں آئے بغیر یہ چوری سر انجام دے سکتے ہیں

بالکل اسی طرح وی پی این کام کرتا ہے، وی پی این یعنی ورچوئل پرائیویٹ نیٹورک آپ کی ڈیوائس اور انٹرنیٹ کے درمیان ایک خفیہ ٹنل ہے، جب آپ وی پی این کلائنٹ اپنے لیپ ٹاپ یا سسٹم میں انسٹال کرتے ہیں تو آپ کے نیٹ ورک اور پبلک نیٹ ورک کے درمیان ایک ٹنل بن جاتی ہے۔ وی پی این پروٹوکولز آپ کے ڈیٹا کو محفوظ اور ان کرپٹ کر دیتے ہیں، آپ کی ڈیوائس (موبائل۔ فون، لیپ ٹاپ) اپنا آئی پی ایڈریس وی پی این سرور کے ساتھ شیئر کرتے ہیں اور وی پی این سرور آپ کو کسی بھی کمپنی کے سرور یا نیٹ ورک کے ساتھ جوڑتا ہے اور ڈیٹا کو ڈی کرپٹ کرتا ہے۔

یوں آپ پبلک نیٹ ورک کے اندر رہتے ہوئے بھی اپنی شناخت خفیہ رکھتے ہیں اور آپ کا ڈیٹا اور انفارمیشن محفوظ رہتی ہے۔ اس ٹنل پہ کسی دوسرے نیٹ ورک سے کوئی ہیکر حملہ نہیں کر سکتا۔ یہ آپ کے پرسنل ڈیٹا اور انٹرنیٹ پہ آپ کی سرگرمی کو چھپانے کے ساتھ ساتھ آئی پی ایڈریس کو بدلتا رہتا ہے۔ آئی پی ایڈریس انٹرنیٹ اور نیٹ ورکس کی دنیا میں آپ کی ڈیوائس کی پہچان ہے۔ جیسے شناختی کارڈ نمبر ہر شخص کی ایک منفرد پہچان ہے، اسی طرح آئی پی ایڈریس آپ کی ڈیوائس کی ایک منفرد شناخت ہے۔ آئی پی ایڈریس کی مدد سے آپ کی لوکیشن، آپ کی ڈیوائس میں نقب لگانا اور آپ کو ڈھونڈنا بہت آسان ہے۔

لیکن جب آپ وی پی این سرور سے جڑ جاتے ہیں تو وی پی این سرور پراکسی کے طور پہ کام کرتا ہے، وہ ہر لمحہ اپنی لوکیشن بدلتا ہے، جس کی وجہ سے ڈیوائس کو ڈی ٹیکٹ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ آپ پاکستان میں ہوں اور جو وی پی این آپ استعمال کر رہے ہوں، اس کا سرور کسی یورپین ملک میں پڑا ہوا اور جس کمپنی کے لیے کام کر رہے ہوں، اس کا اصل دفتر وسط ایشیا کے کسی ملک میں ہو۔ بہت سے ممالک جن میں چائنہ، ایران، کیوبا، سعودی عرب اور ویت نام شامل ہیں، ان ممالک میں انٹرنیٹ سینسرشپ سسٹمز ہیں۔ جو بہت ساری ویب سائٹس، مواد، سوشل میڈیا اور غیر ملکی میڈیا تک رسائی کو مشکل بنا دیتے ہیں۔

یہ پابندیاں لوگوں کی زندگیوں پہ غیر یقینی اور گہرا اثر چھوڑتی ہیں۔ انہیں عام معلومات تک رسائی، اپنے پیاروں اور دوستوں سے رابطہ کرنے اور گلوبل اکانومی میں اپنا حصہ ڈالنے میں بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے وی پی این کے استعمال کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کرنے کے بہت زیادہ نقصانات ہیں، جس میں سے سب سے اہم معاشی مسئلہ ہے۔ وہ تمام کاروبار اور آرگنائزیشنز جو کام کرنے کے لیے انٹرنیٹ کا سہارا لیتی ہیں، انہیں سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

باہمی کمیونیکیشن اور انفارمیشن نا ہونے کی وجہ سے لوگوں کے اندر غیر یقینی اور اشتعال انگیزی بڑھتی ہے۔ سب سے بڑھ کے ایسا کرنے سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

وکی لیکس سے کون واقف نہیں، یہ ایک نان پرافٹ آرگنائزیشن ہے۔ 7 مارچ 2017 کو وکی لیکس نے ڈاکومنٹس کی ایک سیریز سے پردہ اٹھانا شروع کیا، جسے ”والٹ 7“ کہتے ہیں۔ دو ہزار تیرہ سے سترہ کے درمیان سی آئی اے کی سرگرمیوں کا احاطہ کرتے یہ ڈاکومنٹس بتاتے ہیں کہ کس طرح امریکی خفیہ انٹیلیجنس ویب براؤزرز (گوگل کروم، مائکروسافٹ ایج، معشیلا فائرفاکس، اوپیرا) موبائل۔ فونز جن میں (ایپل آئی او ایس، گوگل اینڈرائڈ) اور آپریٹنگ سسٹمز (مائکروسافٹ ونڈوز، میک او ایس، لینکس) سے عام شہریوں کا ڈیٹا اکٹھا کرتی ہے۔ نو ہزار سے زائد پیجز پہ مشتمل یہ ڈاکومنٹس سی آئی کے ہیکنگ ٹولز کا بھانڈا پھوڑتے ہیں۔

جولائی دو ہزار بائیس میں سی آئی اے کے سابقہ سافٹ وئر انجنئیر Joshua Schulte پہ وکی لیکس کے لیے ان ڈاکومنٹس کو لیک کرنے پہ سزا سنائی گئی۔ ’والٹ 7‘ ڈاکومنٹس کا لیک ہونا انٹیلیجنس اور سائبر سیکورٹی کی دنیا میں ایک اہم واقعہ ہے۔ اس واقعے نے سائبر سیکورٹی لینڈ سکیپ کو بدل کے رکھ دیا۔

ایڈورڈ سنوڈن نے 2013 میں نیشنل سیکورٹی ایجنسی کی خفیہ کلاسیفائیڈ معلومات لیک کیں۔ سنوڈن نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے لیے بطور کنٹریکٹر کام کرتے تھے۔ یہ لیکس بتاتی ہیں کہ کس طرح این ایس اے کے پروگرامز دنیا بھر سے لاکھوں لوگوں کا ڈیٹا اکٹھا کر رہے ہیں۔ جس میں فون کالز، ای میلز اور انٹرنیٹ سرگرمیاں شامل ہیں۔ سنوڈن کے اس کارنامے کے بعد نیشنل سیکورٹی اور پرائیویسی کی نئی بحث نے جنم لیا۔

سنوڈن آج کل روس میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ جیسے جیسے انٹرنیٹ کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے۔ آن لائن فراڈ، دھوکا دہی، سائبر حملے بڑھتے جا رہے ہیں۔ انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے اپنی ذاتی انفارمیشن کو چھپانا اور ڈیٹا کی حفاظت مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

ہمیشہ یاد رکھیں اگر آپ وی پی این کا مثبت استعمال کرنا چاہتے ہیں تو پیڈ وی پی این استعمال کریں۔ فری وی پی این کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی کہ آیا وہ آپ کی شناخت کو چھپانے کے ساتھ ساتھ آپ کے ڈیٹا کی حفاظت کو یقینی بنا رہا ہے یا نہیں۔

وہ وی پی این سروس استعمال کریں، جو ”نو لاگ پالیسی“ پہ کام کرتے ہیں۔ نو لاگ پالیسی کا مطلب یہ ہے کہ وی پی این کی سروس فراہم کرنے والی کمپنی اپنے صارفین کا کسی قسم کا ریکارڈ نہیں رکھے گی، جیسے کہ سرچ انجن ہسٹری، آئی پی ایڈریس اور دیگر ڈیٹا، جس کے ذریعے صارف کو ڈھونڈا جا سکے۔ نارڈ اور ایکسپریس، یہ دو ایسے وی پی این ہیں، جو پیڈ ہونے کے ساتھ ساتھ نو لاگ پالیسی اپناتے ہیں اور اپنے صارف کی شناخت، لوکیشن اور آن لائن سرگرمی کو خفیہ رکھتے ہیں۔

بشکریہ: ہم سب
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close