چترال سے بدخشان جانے والی سڑک پر گرم چشمہ بازار سے گزریں تو دائیں جانب پہاڑ کے دامن میں ایک اجتماعی قبر موجود ہے جو زمین سے کئی فٹ اونچی ہونے کے باعث دور سے ہی نمایاں نظر آتی ہے۔
نوے کی دہائی کے شروع میں یہ قبر کافی آباد رہتی۔ آتے جاتے لوگ وہاں فاتحہ خوانی کے لیے رکتے۔ کئی مرلہ زمین پر بنی اس قبر کے داخلی دروازے پر کبھی سفید تو کبھی سیاہ پرچم لہراتا۔ دیوار پر نصب پتھر کی سیل پر کالے رنگ سے نیم دائرے میں کلمہ طیبہ لکھا تھا۔ احاطے کی دیواروں میں کی گئی سفیدی اس مقام کو اور نمایان کرتی تھیں۔
اجتماعی قبر میں وہ افغان ’مجاہدین‘ دفن ہیں جو 17 نومبر 1989 کو گرم چشمہ کے اسلحہ ڈپو میں ہونے والے دھماکے میں مارے گئے تھے۔ اجتماعی قبر میں کتنے لوگ دفن ہیں یہ معلوم نہیں، لیکن سنگِ مزار انگلیوں پر گنیں تو گنتی تیس پر ختم ہوتی ہے۔ دہائیوں بعد کسی خبر کی تلاش میں نیو یارک ٹائمز کے آرکائیوز کھنگال رہا تھا تو مجھے اس دھماکے کی خبر مل گئی جس میں نیو یارک ٹائمز کے مطابق چالیس لوگ جان سے گئے تھے۔ شاید قبر میں بھی چالیس لوگ ہی دفن ہیں۔
یہ سب کے سب افغان جنگجو کے کمانڈر احمد شاہ مسعود کے سپاہی تھے۔ اسلحہ ڈپو سے احمد شاہ مسعود کو ہتھیار اور گولہ بارود سپلائی ہوتے تھے جو سویت یونین سے بر سرپیکار تھے اور اپنی بہادری کے باعث مجاہدین کمانڈروں میں منفرد مقام رکھتے تھے۔
اسی کی دہائی کے آخری سالوں میں سویت یونین افغانستان سے واپس چلا گیا، چند سالوں بعد جنگجو کابل پر قابض ہوگئے لیکن نوے کی دہائی کے وسط تک صورت حال نے نیا موڑ لے لیا تھا۔ کل جو ’مجاہد‘ کہلاتے تھے، وہ آج ’فسادی‘ قرار پائے۔ دیکھتے ہی دیکھتے افغانستان میں طالبان کے نام سے نئی قوت ابھر آئی۔
’مجاہدین‘ کی قبر پر لہراتا پرچم پھریرے میں تبدیل ہوا۔ وقت کے ساتھ پھریرا بھی ہوا میں تحلیل ہوگیا، صرف ڈنڈا رہ گیا۔ دیوار پر نصب پتھر کی سیل پر لکھا کلمہ طیبہ دھوپ اور بارش کی نذر ہو گیا۔ قبر پر فاتحہ خوانی کرنے والوں نے قبرستان کی جانب دیکھنا بھی چھوڑ دیا اور بے نیازانہ وہاں سے گزرنے لگے۔ یہ سب اچانک نہیں ہوا بلکہ اس کے پیچھے ایک پر اسرار کردار کی کئی سال کی تپسیہ کارفرما تھی
جب قبر پر ویرانی کے سائے گہرے ہو رہے تھے تو حیران کن طور پر گرم چشمہ بازار میں ایک نو وارد مہاجر دکاندار کی دکان آباد ہو رہی تھی۔ ہائی اسکول کے مرکزی دروازے کے بالکل سامنے کھلنے والی اس دکان کے مالک کا اصل نام معلوم نہیں تاہم ان کی دکان مزاری کی دکان کے نام سے مشہور ہو گئی۔
سننے میں آیا تھا کہ مہاجر دکاندار کا تعلق بلخ کے شہر مزار شریف سے تھا اور وہ خود کو مزاری کہلوانا پسند کرتے تھے۔ مزاری کی دکان پر ہفتہ وار میگزین ’ضرب مومن‘ کی کاپیان باقاعدگی سے آنے لگیں۔ دکان کی دیواریں افغانستان میں طالبان کی فتوحات کی تصویروں اور افغانستان کے نقشوں سے مزین ہو گئیں۔
مزاری دکان پر آنے والوں کو طالبان کی بہادری کے قصے سناتے، ’ضرب مومن‘ کی کاپیوں سے نکال نکال کر افغانستان کی تصویریں اور طالبان کی فتوحات کے نقشے دکھاتے۔ مزاری نے ہی پورے علاقے میں مشہور کر دیا کہ احمد شاہ مسعود کے علاقے میں اسلام کا کھلے عام مذاق اڑایا جاتا ہے، خواتین نیکروں میں پھرتی ہیں، اور لوگ ڈش انٹینا لگا کر بے حیائی پھیلانے والی فلمیں دیکھتے ہیں، جبکہ طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں میں مکمل اسلامی قوانین نافذ ہوچکے ہیں اور شریعت کے مطابق فیصلے ہوتے ہیں۔
مزاری کی دکان سے پڑھے لکھے لوگوں کو ’ضرب مومن‘ کی کاپیاں ملتیں، ان پڑھ لوگوں کو طالبان کے قصے سننے کو ملتے اور بچوں کو ٹافیوں کے ساتھ ساتھ تصویریں دیکھنے کو ملتیں۔ یوں سب کے ذہنوں سے ’مجاہدین‘ کا نقش اترتا گیا اور طالیان کا ہیولا رفتہ رفتہ واضح سے واضح تر ہوتا گیا۔
ہم بھی اسکول سے فارغ ہو کر مدرسے کی جانب جاتے تو مزاری کی دکان پر تھوڑی دیر کے لیے ضرور رکتے اور ٹافیوں کے ساتھ ساتھ وہ گیان بھی حاصل کرتے جو اسکول اور مدرسے سے نہیں ملتا تھا۔
آٹھویں جماعت کے معاشرتی علوم کی کتاب میں ’سنہ 2000 کی دنیا‘ کے عنوان سے ایک مضمون ہوتا تھا۔ ہم سنہ 2000 عبور کر کے 2001 میں داخل ہو چکے تھے لیکن کتاب میں یہ مضمون بدستور پڑھایا جا رہا تھا۔ مضمون میں جہاں سائنسی ترقیوں کی پیش گوئیاں تھیں وہاں ایک اونچی عمارت کی تصویر بھی تھی جو اس مضمون کے مطابق دنیا کی بلند ترین عمارت تھی اور تعمیراتی سائنس کی شاہکار تھی۔
ایک دن صبح اسکول کھلتے ہی پتہ چلا کہ رات کو وہ عمارت گرا دی گئی، جو دنیا میں سب سے زیادہ اونچی تھی۔ القاعدہ نامی تنظیم نے امریکہ کے اپنے جہاز ہائی جیک کر کے نیو یارک اور واشنگٹن پر گرا دیے اور یہ کام افغانستان میں بیٹھے اسامہ بن لادن نام کے ایک شخص نے کیا ہے۔ اسکول سے باہر نکلے تو مزاری کی دکان پر ٹیپ ریکارڈ بج رہا تھا اور پرجوش آواز میں اسامہ بن لادن کی مدح سرائی کی جارہی تھی۔
اسلام کا ہیرو نمبر ون
میرا شیخ اسامہ بن لادن..
کل روس کا سورج ڈوبا تھا،
امریکہ کی اب باری ہے..
……وغیرہ وغیرہ
ساتھ میں کھوار زبان کا وہ مرثیہ بھی چل رہا تھا ،جو بامیان میں ایک لڑائی کے دوران مارے گئے چترالی مجاہدین کی یاد میں لکھا گیا تھا۔ اگلے چند ماہ مزاری کی دکان پر خوب گہما گہمی رہی۔ امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو مزاری کی دکان سے پل پل کی خبریں گرم چشمہ کے عوام تک پہنچی رہیں۔
یہ وہ خبریں ہوتی تھیں جو ریڈیو پاکستان اور بی بی سی اردو کی سیربین اور جہان نما میں نہیں بتائی جاتی تھیں۔ ایک دن مزاری کی دکان پر اس امریکی طیارے کی تصویر بھی ہم نے دیکھی جو طالبان نے مار گرایا تھا۔ 2001 کا سال ختم ہوتے ہوتے طالبان کی حکومت بھی ختم ہو گئی اور ایک دن پتہ چلا کہ مزاری بھی اپنی دکان بڑھا گئے ہیں۔
مزاری کی دکان سے جو گیان بانٹا گیا تھا وہ آج بھی پوری ایک نسل کے دماغ میں سمایا ہوا ہے اور وقتاً فوقتاً جوش مارتا رہتا ہے۔