بھارت: پولیس اور سرکاری فوٹوگرافر کی مسلم شہری پر تشدد کی وڈیو وائرل

ویب ڈیسک

دسپور : بھارتی ریاست آسام کے گاؤں دھول پور تین میں پولیس اہلکاروں اور ایک سرکاری فوٹوگرافر کی جانب سے ایک زخمی شخص پر بدترین تشدد کی وائرل وڈیو نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر غم و غصے کی ایک لہر کو جنم دیا ہے

بھارتی ریاست آسام میں گھر خالی کرانے کے خلاف احتجاج کرنے والے ایک مسلمان شہری کو پولیس اہلکاروں نے ڈنڈوں سے مار مار کر ادھ موا کردیا، جس کے بعد ایک سرکاری فوٹوگرافر نیم مردہ شخص پر بھی کودتا رہا

20 ستمبر کی یہ وڈیو ریاستی حکومت کی جانب سے ’تجاوزات‘ کے خلاف آپریشن کے دوران سامنے آئی، جس میں مبینہ طور پر ایک غیر قانونی آباد کار شخص کو پولیس اہلکاروں کے ایک گروہ کی طرف ہاتھ میں لاٹھی لیے جاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، جسے سینے پر گولی مار دی جاتی ہے اور پھر بے دردی سے مارا جاتا ہے

وڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مذکورہ شخص کو پولیس اہلکاروں نے زیر کر لیا، لیکن پھر بھی اس کے سینے پر گولی ماری گئی

ویڈیو میں سب سے زیادہ چونکا دینے والی بات یہ تھی کہ فوٹوگرافر، جس کی خدمات ضلعی انتظامیہ نے حاصل کی تھیں، زمین پر بے سدھ پڑے شخص کو سینے پر لاتیں اور گھونسے مارتا نظر آیا

بھارتی نیوز ویب سائٹ انڈیا ٹو ڈے کے مطابق اس واقعے میں ملوث فوٹوگرافر کی شناخت بیجے شنکر بانیہ کے طور پر ہوئی ہے، جس کی خدمات درنگ میں ضلعی کمشنر کے دفتر کے ذریعے حاصل کی گئی تھیں۔ بانیہ کو جمعرات کی شام گرفتار کیا گیا

آسام کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (ڈی جی پی) بھاسکر جیوتی مہانتا نے انڈیا ٹوڈے کو بتایا: ’جس لمحے میں نے وڈیو دیکھی، میں نے فوٹوگرافر کی فوری گرفتاری کا حکم دیا۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس قسم کی حرکتیں بالکل برداشت نہیں کی جائیں گی

بھارت میں مودی سرکار کی طرف سے اقلیتوں کے ساتھ مظالم کا یہ سلسلہ نیا نہیں ہے، لیکن حال ہی میں بی جے پی حکومت نے آسام میں لاکھوں افراد کو شہریت نہ دینے کا اعلان کیا ہے اور اب وہاں لوگوں کو بے گھر کرنے کی مہم زور و شور سے جاری ہے

انسانیت سوز بدترین تشدد پر مبنی اس وڈیو کے وائرل ہونے پر صارفین نے مودی حکومت پر کڑی تنقید کی ہے، جب کہ اپوزیشن جماعتوں نے واقعے کے تمام ذمہ داروں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے

واقعہ کے پس منظر کے حوالے سے انڈیا ٹو ڈے نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ آسام کے ضلع درنگ میں کم از کم آٹھ سو بنگالی نژاد مسلمان خاندانوں نے تقریباً 4500 بیگھا اراضی پر ’قبضہ ‘ کر رکھا ہے، جسے ’تجاوزات ‘ کے خلاف ریاستی حکومت کی مہم کے تحت خالی کروایا جارہا ہے

یہ مہم 20 ستمبر کو صبح نو سے شام چار بجے کے درمیان سپا جھر کے علاقے میں دھول پور ایک اور دھول پور دو دیہات میں کی گئی

وڈیو میں دیکھے جانے والے زخمی شخص کی حالت کے بارے میں معلوم نہیں ہوسکا، تاہم پولیس نے دو ہلاکتوں کی اطلاع دی ہے

دوسری جانب آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنت بسوا سرما نے دعویٰ کیا ہے کہ اس دوران چار مذہبی عمارتوں اور ایک نجی ادارے کو بھی مسمار کردیا گیا

دھول پور واقعے کے بارے میں سوال پر آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنت بسوا سرما نے بتایا کہ انہوں نے اس واقعے کی عدالتی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ ’میں اس واقعے کی مذمت کرتا ہوں۔ یہ بدقسمتی تھی۔ انکوائری میں کوئی خلاف ورزی پائی گئی، تو ہم سخت کارروائی کریں گے‘

اس واقعے کے بعد ٹوئٹر پر انڈین مسلم انڈر اٹیک اور ہندوتوا سٹیٹ ٹیرر کے نام سے دو ہیش ٹیگز ٹرینڈ کر رہے ہیں، جہاں لوگ بھارتی پولیس اور حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں

شیخ ظاہر الاسلام نے اسے ’بھارت میں اسلامو فوبیا‘ کا نام دیتے ہوئے لکھا کہ ’آسام کے یہ مسلمان بنگلہ دیشی نہیں بلکہ بھارتی ہیں‘

ایک بھارتی صارف نے زخمی شخص پر تشدد کرنے والے فوٹوگرافر کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا

دراب فاروقی نے لکھا کہ وڈیو میں تمام عالمی لیڈروں کو ٹیگ کرنا چاہیے، تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close