اسلام آباد : نئے قانون کے تحت مقررہ وقت تک اپنا آمدن ٹیکس اور ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے پر موبائل فون غیر فعال اور بجلی، گیس کی سہولت منقطع کیے جانے کی سزاؤں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے
ٹیکس نادہندگان اور گوشوارے جمع نہ کروانے والوں پر بھاری جرمانے بھی لگائے جا سکتے ہیں
پاکستان میں پہلی مرتبہ ٹیکس بچانے کی غرض سے آمدن کے ذرائع خفیہ رکھنے یا ٹیکس گوشوارے مقررہ وقت تک جمع نہ کرانے کو جرم قرار دیا گیا ہے، جس کی سزا جرمانے کے علاوہ قید کی صورت میں بھی بھگتنی پڑ سکتی ہے
یاد رہے کہ حکومت نے حال ہی میں ٹیکس لاز (تیسری ترمیم) آرڈیننس 2021ع میں ترامیم کے ذریعے ٹیکس نادہندگان اور گوشوارے جمع نہ کروانے والوں کے لیے سزاؤں میں اضافہ متعارف کروایا ہے
اس حوالے سے ٹیکس قوانین کے ماہر احمد ہمایوں کا کہنا ہے کہ نئے قوانین کا مقصد ٹیکس نادہندگان کے گرد گھیرا تنگ کرنا، اور انہیں ہر صورت ٹیکس ادا کرنے اور گوشوارے جمع کروانے پر مجبور کرنا ہے
معاشی امور پر لکھنے والے صحافی ذیشان حیدر کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کا مقصد زیادہ سے زیادہ شہریوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہے تاکہ ٹیکس اہداف کے قریب سے قریب تر جایا جا سکے
اس مقصد کے لیے یوں تو ٹیکس لاز (تیسری ترمیم) آرڈیننس 2021 کے تحت بہت ساری ترامیم کی گئی ہیں، تاہم قارئین کے لیے یہاں ٹیکس کے قوانین میں کی گئی کچھ ترامیم کا مختصر ذکر کیا جا رہا ہے
1۔ ٹیکس قانون میں ترامیم کے تحت بروقت ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے والے شہری پر اس مقصد کے لیے مقررہ تاریخ کے بعد ہر دن ایک ہزار روپے یا مجموعی ٹیکس کا 0.1 فیصد، دونوں میں جو زیادہ ہے، جرمانہ عائد ہوگا
تنخواہ دار شہری پر کم از کم جرمانہ دس ہزار روپے جب کہ غیر تنخواہ دار کو پچاس ہزار روپے ہوگا
یعنی اگر کسی نے اس سال کے ٹیکس گوشوارے 30 ستمبر کے بجائے تین روز کی تاخیر سے جمع کیے تو انہیں واجب الادا ٹیکس کی رقم کے علاوہ دس ہزار روپے جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا
2۔ گوشوارے بروقت جمع نہ کروانے والوں کا نام فعال ٹیکس دہندگان کی فہرست (Active Taxpayers List ALT) میں سے نکال دیا جائے گا، اور اس فہرست میں دوبارہ نام ڈلوانے کے لیے اس شخص کو نئے سرے سے سارے عمل سے گزرنا ہوگا
3۔ گوشوارے بروقت جمع نہ کروانے والوں کے موبائل ٹیلیفون یا فون سم غیر فعال کی جا سکتی ہے، جبکہ انہیں بجلی اور گیس کی سہولت بھی منقطع کی جا سکتی ہے
4۔ ایف بی آر کا نظام نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے نظام کے ساتھ منسلک کر دیا گیا ہے، اور نادرا آمدن خفیہ رکھنے والوں سے متعلق ایف بی آر کو مطلع کر سکتا ہے، جب کہ خود سے کسی بھی شہری کی آمدن کا اندازہ اور اس پر لگنے والے ٹیکس کا حساب کر سکتا ہے
احمد ہمایوں کا کہنا تھا کہ اگر نادرا کے ریکارڈ میں کسی شہری کے نام تین گاڑیاں یا گھر ہیں تو ان کی آمدن کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، اور اس سے اس شخص پر لگنے والے انکم ٹیکس کا حساب بھی آسانی سے کیا جا سکتا ہے
5۔ بجلی کے صنعتی میٹرز پر ایڈوانس ٹیکس 35 فیصد تک بڑھا دیا گیا ہے
ماہرین ٹیکس دہندگان کی تعداد اور ٹیکس محصولات میں اضافے کی خاطر کیے گئے حکومتی اقدامات پر ملی جلی آراکا اظہار کیا ہے ، کچھ انہیں مفید قرار دیتے ہیں، جبکہ دوسرے ان ترامیم کے منفی اثرات کی پیشن گوئی کر رہے ہیں
عباس توقیر کا کہنا تھا ان اقدامات سے شہریوں میں ڈر اور خوف پیدا ہوگا، اور یہ پاکستان کی معیشت اور ٹیکس کے نظام کے لیے بالکل بھی تجویز نہیں کیے جا سکتے۔
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسے اقدامات پہلے سے موجود ٹیکس دہندگان اور فائیلرز کی تعداد میں کمی کا باعث بن سکتے ہیں
عباس توقیر کا کہنا تھا کہ خصوصا گوشوارے جمع کروانے کا عمل پیچیدہ اور مشکل ہے، جب کہ پاکستان میں اکثریت کم اور نا خواندہ لوگوں کی ہے، جو دفتری اور کاغذی کاروائیوں کی غلام گردشوں میں گھرنے سے احتراز کرتی ہے
انہوں نے کہا کہ بہت سارے لوگ تو اس لیے بھی گوشوارے جمع نہیں کروائیں گے کہ کہیں غلطی کی صورت میں ان کے خلاف جرمانہ عائد کر کے مجرمانہ کاروائی کا آغاز نہ کیا جائے
اسلام آباد ہی سے تعلق رکھنے والے ایک دوسرے ٹیکس قوانین کے ماہر کا کہنا تھا کہ جرمانے کی دفعات نادہندگان کے خلاف ایک مضبوط رکاوٹ ثابت ہوں گی، اور ان سے گوشواروں کا بروقت جمع ہونا، اور ٹیکس فائلرز کی تعداد بڑھانے میں مثبت نتائج حاصل ہوں گے. اس سے حکومت کو ٹیکس اہداف حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے
تاہم ان کا خیال ہے کہ نان فائیلرز کو ٹیکس دہندگان کی فہرست میں سے نکالنا پیچیدگیوں کا باعث بن سکتا ہے. اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس فہرست میں نئے سرے سے شامل ہونا ایک لمبا اور تکلیف دہ عمل ہے، جس پر ٹیکس دہندہ کا خرچہ بھی آتا ہے، اس لیے ہو سکتا ہے اس اقدام سے بہت سارے لوگ گوشوارے جمع کروانے سے دور رہنے کی کوشش کریں
ذیشان حیدر کا کہنا تھا کہ یہ اقدامات ٹیکس نا دہندگان کو تو ٹیکس کی ادائیگی پر اتنا مجبور نہ کر سکیں لیکن دہندگان میں خوف اور ڈر کا باعث بن سکتے ہیں
انہوں نے کہا کہ ایسے اقدامات ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں لیکن ان کا خاطر خواہ نتیجہ دیکھنے میں نہیں آیا، اس لیے سختی کے بجائے ایسے سائنسی اور سہل طریقے اپنائے جائیں، جن کے ذریعے شہری بخوشی ٹیکس کی ادائیگی پر آمادہ ہو
واضح رہے کہ ٹیکسوں کی مد میں آمدن بڑھانے کے لیے اس طرح کے سخت اقدامت متعارف کروانے کے سلسلے میں پاکستان دنیا کا واحد ملک نہیں ہے، بلکہ کئی قوموں نے سرکاری آمدن میں اضافے کے لیے اس سے زیا دہ سختیوں سے کام لیا. اس سلسلے میں سکنڈینیوین ممالک کی مثال خاص طور پر دی جاتی ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے جیسے ممالک میں ٹیکس کے پیسوں کا استعمال بھی اسی طرح شفاف طریقے سے ہوتا ہے
ذیشان حیدر کا کہنا تھا کہ یورپ میں سکینڈینیوین ممالک فلاحی معاشروں کے طور پر ابھرے ہیں، اور اس کی واحد وجہ یہی ہے کہ وہاں ہر شہری ٹیکس ادا کرتا ہے
وہ کہتے ہیں کہ وہاں بھی لوگ اپنی مرضی سے ٹیکس نہ دیتے اگر حکومتیں سختی سے کام نہ لیتیں
مسلمان ممالک میں سے انڈونیشیا اور بنگلہ دیش ایسے ملک ہیں، جہاں ٹیکس نادہندگان کو جرمانے کے علاوہ قید کی سزائیں بھی دی جاتی ہیں. جبکہ ملائیشیا میں ٹیکس ادا نہ کرنے کی سزا بھاری جرمانوں کے علاوہ زیادہ سے زیادہ تین سال قید بھی ہے.