گریٹ گیم‘: جب انگریزوں نے دریائے سندھ کو دریائے ٹیمز میں بدلنے اور مٹھن کوٹ میں بندرگاہ بنانے کا منصوبہ بنایا

اسد علی

یہ انیسویں صدی کے پہلے نصف کی بات ہے۔

نوجوان برطانوی افسروں پر مشتمل ایک خفیہ مشن دریائے سندھ میں پانی کے بہاؤ، اس کی گہرائی اور اس میں جہاز رانی کے امکانات کے بارے میں معلومات اکٹھی کر رہا تھا اور اُن کی پوری کوشش تھی کہ سندھ کے اُمرا اور پنجاب میں رنجیت سنگھ کی حکومت کو اس کی کانوں کان خبر نہ ہو۔

لندن میں دریائے سندھ کو برطانوی مفاد میں ایک تجارتی آبی گزرگاہ میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا جا چکا تھا۔ ایک اعلیٰ انگریز افسر کے الفاظ میں ’دریائے سندھ کو دریائے ٹیمز میں بدلا‘ جانا تھا۔ دریائے سندھ پر مرکزی بندرگاہ بنانے کے لیے مٹھن کوٹ نامی علاقے کا انتخاب کیا گیا تھا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب برطانیہ ’سونے کی چڑیا‘ کہلانے والے انڈیا میں اپنی موجودگی کو مستحکم کر چکا تھا اور اب اسے خطرہ تھا کہ روس اس سے انڈیا چھین نہ لے۔ روس اور برطانیہ کے درمیان خطے میں بالادستی کی کشمکش پہلے سے جاری تھی۔

برطانیہ اور روس کے جاسوس اور مخبر پشاور، کابل، قندھار، بخارا، ملتان جیسے بڑے شہروں کے علاوہ بڑے بڑے پہاڑی سلسلوں کی دور دراز وادیوں اور ویران صحراؤں میں اپنی جان خطرے میں ڈال کر اپنی حکومتوں کے لیے حمایت اور معلومات حاصل کر رہے تھے۔ برطانیہ اور روس کے درمیان خطے میں بالادستی کی اس کشمکش کو ’گریٹ گیم‘ بھی کہا گیا۔

افغانستان میں عالمی طاقتوں کی رسہ کشی کی تاریخ کی اس کہانی کا سرا کئی جگہوں سے پکڑا جا سکتا ہے لیکن ہم بات شروع کرتے ہیں سنہ 1830 میں ہرات شہر کے بازار میں دو مختلف دنیاؤں کے لوگوں کی ایک اتفاقیہ ملاقات سے۔

اُن میں سے ایک تھے برطانوی افسر لیفٹیننٹ آرتھر کونولی اور دوسرے صاحب تھے پشین سے تعلق رکھنے والے سید مہین شاہ۔

10 اگست 1829 کو انگلینڈ سے روانہ ہو کر اور زمینی راستے سے سفر کرتے ہوئے ہرات پہنچنے والے یہ نوجوان برطانوی افسر آرتھر کونولی اُس وقت مالی مشکلات کا شکار تھے اور انھیں نقد رقم کی ضرورت تھی۔ سید مہین شاہ اس وقت ہرات کے بازار میں اپنے معمول کے دورے پر تجارت کے لیے انڈیا جانے کی تیاری کر رہے تھے۔

آرتھر کونولی اپنے سفرنامے (A Journey to the North of India through Russia, Persia and Afghanistan) میں لکھتے ہیں کہ جب ان کی مشکل کا لوگوں کو پتہ چلا تو ان میں سے ایک نے کہا کہ وہ کچھ لوگوں کو جانتے ہیں جو شاید مدد کر سکیں اور ’وہ شخص پشین کے کچھ سید برادری کے تاجروں کو لے کر اُن کے گھر آ گیا۔‘

کونولی لکھتے ہیں کہ ان سیدوں کی بہت عزت اور اونچا مقام تھا۔ ان کے خصوصی رتبے کی وجہ سے خطرناک ترین علاقوں میں بھی کوئی اُن کو اور اُن کے مالِ تجارت کو نقصان نہیں پہنچاتا تھا اور اسی لیے ’عام لوگوں کی بانسبت ان کے لیے تجارت کرنا آسان تھا۔‘

ان میں سے ایک سید مہین شاہ تھے جنھوں نے نوجوان برطانوی افسر کی مدد کا وعدہ کر لیا اور اُن کو اور ان کے ساتھی کرامت علی کو، جو روس میں سینٹ پیٹرزبرگ سے ان کے ساتھ تھے اور انڈیا کے رہنے والے تھے، بحفاظت دلی پہنچانے کی ذمہ داری بھی قبول کر لی۔ تاہم انھوں نے کہا کہ نقد رقم تو ان کے پاس نہیں ہے کیونکہ وہ انڈیا میں فروخت کرنے کے لیے اپنی پاس موجود رقم سے تیس گھوڑے خرید چکے ہیں۔

کونولی بتاتے ہیں کہ سید مہین شاہ کی ضمانت پر کئی دوسرے لوگ بھی اُن کی مدد کرنے پر تیار ہوئے لیکن صرف مال کی حد تک، ان میں سے کوئی بھی نقد رقم نہیں دینا چاہتا تھا۔

آرتھر کونولی نے اپنی یاداشتوں میں لکھا ہے کہ ’میں نے کچھ دن کی ناکام کوشش کے بعد چار ہزار پانچ سو بنگالی روپے کا بل بنا دیا جس کے بدلے میں اس مالیت کی کشمیری شالیں مل گئیں، جو ہم نے بازار میں بیچ کر اپنا قرض اتارا اور ہم نے سید مہین شاہ کے ساتھ سفر شروع کر دیا۔ 19 اکتوبر کو سفر کا آغاز کیا اور ہمارے قافلے میں درجن بھر تاجر بھی تھے جن میں زیادہ تر پشین ہی کے سید تھے۔‘

▪️افغانستان کے درانی حکمران

یہ وہ زمانہ تھا جب افغانستان میں درانی خاندان کی حکومت تھی، جس کی بنیاد احمد شاہ ابدالی نے سنہ 1747 میں رکھی تھی اور جنھوں نے بعد میں ’درانی‘ (درِ دران یعنی موتیوں میں موتی) نام اپنا لیا تھا۔ ان کی سلطنت کا دارالحکومت قندھار تھا جو ان کے بیٹے تیمور شاہ کے دور میں کابل منتقل ہو گیا تھا۔

مؤرخ پیٹر لی نے سنہ 2019 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب (Afghanistan: A history from 1260 to the Present Day میں لکھا ہے کہ احمد شاہ ابدالی کے ہاتھوں قندھار میں قائم ہونے والی بادشاہت مختلف صورتوں میں سنہ 1978 تک قائم رہی۔

سنہ 1830 میں جب آرتھر کونولی اور سید مہین شاہ ہرات سے روانہ ہوئے تو درانی تخت پر دوست محمد بیٹھے تھے۔ اور ایک اہم بات یہ ہے کہ ان کے پیش رو اور سلطنت کے چوتھے حکمران شاہ شجاع کو سنہ 1809 میں محلاتی سازشوں کے نتیجے میں اپنی بادشاہت کھونے کے بعد انگریزوں کی میزبانی میں انڈیا میں رہتے ہوئے کئی برس بیت چکے تھے۔

جس انڈیا میں درانی خاندان کے بانی احمد شاہ ابدالی حملہ آور کے طور پر گئے تھے اور جس انڈیا کی طرف سید مہین شاہ اور آرتھر کونولی سفر کر رہے تھے وہاں اب احمد شاہ ابدالی کے ایک وارث پناہ لیے ہوئے تھے اور یہ ایک مختلف انڈیا تھا۔ اس انڈیا پر برطانوی اپنے پنجے گاڑ چکے تھے اور اس پر ہر حملہ برطانوی مفادات پر حملہ تھا اور کسی بھی ممکنہ حملے سے نمٹنا برطانیہ کی ترجیحات میں شامل تھا

19 ویں صدی میں برطانیہ کو روس اور فرانس کی طرف سے خطرہ رہتا تھا کہ وہ شمال مغرب کے راستے انڈیا پر چڑھائی نہ کر دیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ فرانس کے بارے میں برطانیہ کے خدشات تو کم ہو گئے لیکن روس کی طرف سے خطرہ بدستور موجود تھا۔

برطانیہ میں روس کی طرف سے حملے سے نمٹنے کے لیے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے جو حکمت عملی سوچی گئی اس کے پس منظر میں آرتھر کونولی اور پشین کے سید مہین شاہ کی ملاقات آئندہ مہینوں اور برسوں میں انتہائی اہمیت اختیار کرنے والی تھی۔

▪️ہرات میں خریدے گئے گھوڑے ممبئی میں انگریز افسر کتنے میں خریدتے تھے؟

سید مہین شاہ جب درجن بھر دیگر تاجروں اور آرتھر کونولی کے ساتھ ہرات سے روانہ ہوئے تو ان کی تجارتی قافلے میں انڈیا میں بیچنے کے لیے تقریباً چار سو گھوڑے تھے جن میں ’کوالٹی‘ کے گھوڑے پچاس ہی تھے۔

ایک مؤرخ شاہ محمود حنیفی اپنی کتاب (Connecting Histories in Afghanistan: Market Relations and State Formation on a Colonial frontier) میں لکھتے ہیں کہ کونولی کے پوچھنے پر کہ اتنے کمزور گھوڑوں سے منافع کیسے کمایا جا سکتا ہے؟ انھیں بتایا گیا کہ ممبئی میں بصرا کے تاجر آتے ہیں جو ان کے چار یا پانچ سو روپے کے گھوڑے انگریزوں کو عربی گھوڑے کہہ کر بارہ سو یا پندرہ سو میں بیچ دیتے ہیں۔

حنیفی لکھتے ہیں کہ گھوڑوں کی خرید و فروخت ان تاجروں کے کاروبار کا سب سے منافع بخش پہلو نہیں تھا۔ ’پشین کے تاجروں نے بتایا کہ ان کا زیادہ تر منافع اس تجارت کے دوسرے راؤنڈ میں ہوتا ہے جب وہ انڈیا اور انگلینڈ کی مصنوعات افغانستان، ایران اور وسطی ایشیا میں فروخت کرتے ہیں۔‘

حنیفی کے مطابق کونولی دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے مہین شاہ کے کھاتے دیکھے اور ان کے مطابق سنہ 1828 میں مہین شاہ نے ممبئی میں سات ہزار روپے کی سرمایہ کاری کی اور وہ مال کشتی کے راستے سندھ لایا گیا اور پھر وہاں سے زمینی راستے سے کابل اور بخارا کی منڈیوں تک پہنچا۔

انھوں نے لکھا کہ کونولی کے مطابق سید مہین شاہ نے کابل میں 110 فیصد اور بخارا میں 150 سے 200 فیصد کے بیچ منافع کمایا۔ اب ان تاریخی منڈیوں میں کمایا جانے والا یہی منافع بڑی طاقتوں کے درمیان مقابلے کا مرکز بننے والا تھا۔

▪️روس اور فرانس کے انڈیا پر حملے کا ڈر اور برطانوی پالیسی

جن دنوں میں افغان خانہ بدوش تاجروں اور انگریز افسر کا قافلہ ہرات سے دلی کے لیے روانہ ہوا، مؤرخ جانتھن لی کے مطابق، اس وقت تک برطانیہ کی ’دریائے سندھ کی ریاستوں‘ کے بارے میں پالیسی ’عدم مداخلت‘ اور ’لاتعلقی‘ پر مبنی تھی کیونکہ سنہ 1809 کے انگریز، سکھ معاہدے کو شمال سے ممکنہ حملے سے نمٹنے کے لیے کافی سمجھا گیا۔

اور اسی برس انگریزوں نے فرانس اور روس کے متوقع حملوں کے پیش نظر اس وقت کے درانی بادشاہ شاہ شجاع سے بھی معاہدہ کیا تھا جن کا بعد میں ان کے بھائی شاہ محمود نے تختہ الٹ دیا تھا۔

لیکن یہ صورتحال یکسر بدلنے والی تھی اور اس کے ساتھ ہی برطانوی حکومت کی ’عدم مداخلت‘ کی پالیسی بھی۔ اور اس نئی پالیسی میں جس کا نتیجہ پہلی انگریز افغان جنگ کی صورت میں نکلا، سید مہین شاہ، آرتھر کونولی اور شاہ شجاع کو سب سے اہم کردار ملنا تھا۔

▪️’ہمیں روس سے انڈس میں لڑنا پڑے گا۔۔اور وہ ایک بہت بڑی جنگ ہو گی‘

سنہ 1830 میں لندن میں لارڈ ایلنبرو کی صورت میں ایک ایسا شخص ایسٹ انڈیا کمپنی کے بورڈ آف کنٹرول کا صدر بن گیا جس کی نظر میں روسی سلطنت کی سلطنت عثمانیہ، ایران اور وسطی ایشیا میں مسلم ریاستوں کے خلاف حالیہ جنگی کامیابیاں برطانیہ کے لیے براہ راست خطرہ تھیں۔

ایک انگریز افسر جارج ڈی لیسی ایونز نے کہا کہ روس کو ’انڈیا پر حملے کے لیے تیس ہزار افراد پر مشتمل ایک چھوٹی سی فوج چاہیے۔‘ جانتھن لی کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ ایران اور افغان حکمران نہ صرف کسی حملہ آور کے سامنے مزاحمت نہیں کریں گے بلکہ روس کی مدد بھی کر سکتے ہیں۔ لارڈ ایلنبرو اس دلیل کو تسلیم کرتے تھے اور انھوں نے اپنی ڈائری میں بھی لکھا کہ ’مجھے یقین ہے کہ ہمیں روس سے انڈس میں لڑنا پڑے گا۔۔۔ اور وہ ایک بہت بڑی جنگ ہو گی۔‘

کمپنی کے بورڈ آف کنٹرول کے صدر کی حیثیت سے ان کی رائے وزن رکھتی تھی۔ انھوں نے گورنر جنرل لارڈ بینٹنک کو روسی خطرے سے نمٹنے کے لیے رہنما اصول تیار کرنے کا حکم دیا کہ برطانیہ کو ’روس کے دریائے سندھ کی ریاستوں اور خاص طور پر کابل، قندھار، ہرات اور خیوا کے شہروں میں اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے تیاری کرنی چاہیے۔‘

ان کا خیال تھا کہ اس کا بہترین طریقہ دریائے سندھ اور وسطی ایشیا کی ریاستوں کے ساتھ تجارت میں اضافہ ہے۔ مؤرخ جانتھن لکھتے ہیں کہ 19ویں صدی میں بہت سے برطانوی سیاستدانوں کے نزدیک تجارت وہ ’جادوئی طاقت‘ تھی جس کے ذریعے سلطنت کے مقاصد حاصل کیے جا سکتے تھے۔

حنیفی لکھتے ہیں کہ یہ اتفاق تھا یا مہین شاہ کی خوش قسمتی کہ ان کے آرتھر کونولی کو دلی پہنچانے سے گیارہ ماہ پہلے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی ایک خفیہ کمیٹی نے ’انڈیا اور یورپ کی مصنوعات کی ایک کھیپ کو ایران اور انڈیا کے درمیان ایک مرکزی شہر تک لے جانے کے لیے پچاس ہزار روپے مختص کیے تھے تاکہ تجارت کو فروغ ملے اور ان (وسطی ایشیائی) منڈیوں کا اندازہ لگایا جا سکے۔‘

▪️سید مہین شاہ کو برطانوی حکام نے کیا مشن سونپا؟

سید مہین شاہ کو دلی پہنچنے کے بعد فوری طور پر برطانیہ کے لیے کمرشل تجرباتی مہمات سونپ دی گئیں جن کا مقصد یہ ثبوت حاصل کرنا تھا کہ انڈیا اور یورپ کی مصنوعات افغانستان اور وسطی ایشیا میں ایکسپورٹ کرنا کتنا منافع بخش ہو سکتا ہے۔

حنیفی لکھتے ہیں کہ سنہ 1831 اور 1835 کے درمیان انھوں نے برطانیہ کے لیے وسطی ایشیا کی منڈیوں کے چار تجارتی دورے کیے اور برطانیہ کے لیے اس خیال کو درست ثابت کیا کہ دو مختلف راستوں سے افغانستان اور وسطی ایشیا کی منڈیوں میں مال پہنچا کر منافع کمایا جا سکتا ہے۔

حنیفی لکھتے ہیں کہ کمپنی کی سرپرستی میں مہین شاہ کے تجارتی مشن کے اعداد و شمار کو بھی سنہ 1839 میں افغانستان پر حملے کے لیے دلیل کے طور پر پیش کیا گیا۔

▪️شکارپور، ملتان، کابل، قندھار میں صدیوں سے جاری تجارت

سید مہین شاہ اور ان کے ساتھی افغان خاندہ بدوش تاجر جن تجارتی راستوں پر ہر سال سفر کر تے تھے وہ صدیوں سے دنیا کے مختلف کونوں میں منڈیوں کو ملا رہے تھے۔

مؤرخ حنیفی بتاتے ہیں کہ مغل دور میں کابل کوہ ہندو کش کی حدود کے اندر ایک اہم سرحدی مرکز تھا اور دریائے سندھ سے ذرا مشرق میں ملتان شہر کو اہم تجارتی مقام حاصل تھا۔ یہ کابل اور قندھار سے انڈیا درآمد ہونے والے گھوڑوں کی اہم منڈی تھا۔ ملتان کے تاجر سنہ 1600 اور سنہ 1900 کے درمیان ایران، وسطی ایشیا اور روس تک کاروبار کے لیے جاتے تھے۔

بخارا اور ملتان کے درمیان تجارت کابل کے راستے ہوتی تھی اور، حنیفی نے لکھا کہ، اس پر شکارپوری ہندوؤں اور لوہانی افغانوں کا غلبہ تھا۔ اب انڈیا کے برطانوی حکمران اس تاریخ تجارتی سرکٹ کو اپنی خواہش کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنے والے تھے۔

▪️مٹھن کوٹ دریائے سندھ پر ایک بڑا تجارتی مرکز؟

حنیفی لکھتے ہیں تمام دستاویزات تو اب موجود نہیں لیکن پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ سید مہین شاہ کا پہلا تجارتی دورہ انتہائی کامیاب رہا جس میں وہ کلکتہ سے بڑی مقدار میں مختلف طرح کا کپڑا لے کر وسطی ایشیا گئے تھے۔ اس طرح مہین شاہ سنہ 1831 اور 1832 میں اور پھر 1834 اور 1835 میں چار بار برطانیہ کی سپانسرشپ میں مال لے کر وسطی ایشیا گئے اور اس میں انھیں بہت منافع ہوا۔

’سید مہین شاہ نے برطانیہ کو اہم کمرشل معلومات فراہم کیں جسے دریائے سندھ کے ذریعے تجارت کے بڑے پراجیکٹ کے حق میں ٹھوس دلیل کے طور پر پیش کیا گیا۔‘

سید مہین شاہ نے جو تجارتی دورے کیے وہ دو روٹوں پر تھے۔ ایک راستہ قندھار اور دوسرا پشاور سے گزرتا تھا۔ حنیفی نے ان کی تفصیل بتاتے ہوئے لکھا کہ قندھار شمال میں مشہد اور ہرات اور جنوب میں کوئٹہ، کراچی، شکارپور اور ممبئی کو ملاتا تھا اور پشاور والا روٹ شمال میں کابل، مزار شریف اور بخارا کو ملاتا تھا اور جنوب میں لاہور، امرتسر، دلی اور کلکتہ کو۔

حنیفی لکھتے ہیں ’برطانوی حکام ان روٹوں کو بدلنا چاہتے تھے کہ زیادہ تر تجارت قندھار سے کابل کے راستے ہو۔‘

’دریائے سندھ پر تجارت میں ممکنہ طور پر اضافے کی صورت میں اس پر ایسا پورٹ بنانے کے لیے جگہ کے انتخاب کے لیے کافی بحث ہوئی۔‘

اس ضمن میں ڈیرہ اسماعیل خان اور ڈیرہ غازی خان کا نام بھی زیر غور آیا لیکن بالآخر دریائے سندھ پر بندرگاہ کے لیے مٹھن کوٹ کا انتخاب کیا گیا۔

▪️افغانستان کو ’متحد‘ کرنے کا منصوبہ

اسی دوران آرتھر کونولی کو بھی ایک پالیسی دستاویز تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی جنھوں نے مارچ 1831 میں رپورٹ دی کہ روس کی طرف سے حملے کا خطرہ حقیقت پر مبنی ہے اور یہ کہ ایران روس کا سامنا نہیں کر سکتا کہ وہ ایک بفر کا کام دے۔

انھوں نے افغانستان کو ’متحد‘ کرنے کا مشورہ دیا۔ افغانستان کو کیسے متحد کیا جانا تھا اس کا جواب تو شاید شاہ شجاع کو ایک بار پھر ان کے تخت پر بٹھانے کی صورت میں آسان تھا لیکن اس سے پہلے کچھ اور مسائل بھی حل ہونے تھے۔

جانتھن نے لکھا ہے کہ سنہ 1830 میں دریائے سندھ پر کوئی بندرگاہ نہیں تھی اور کراچی نہ صرف یہ کہ برطانیہ کے کنٹرول میں نہیں تھا بلکہ اس وقت صرف ایک ’مچھیروں کا چھوٹا سا گاؤں‘ تھا۔

▪️دریائے سندھ کو دریائے ٹیمز بنانے کا منصوبہ

وسطی ایشیا کے لیے برطانوی مصنوعات پہلے سمندر کے ذریعے کلکتہ آتی تھیں جہاں سے انھیں کشتیوں پر لاد کر دریائے گنگا کے ذریعے انڈیا میں اندر تک لایا جاتا تھا اور پھر زمینی راستوں سے یہ لاہور اور پھر وہاں سے شکارپور پہنچائی جاتی تھیں جہاں سے ’قافلے‘ انھیں افغانستان اور بخارا کے بازاروں تک پہنچاتے تھے۔ یہ بہت مہنگا طریقہ تھا اور اتنی مہنگی چیزیں روسی مصنوعات کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھیں۔

لارڈ ایلنبرو کے نزدیک اس مسئلے کا حل ’دریائے سندھ کو دریائے ٹیمز میں بدلنا تھا۔‘ ان کے ذہن میں دو سو ٹن تک وزن اٹھانے والی کشتیوں کے ذریعے اٹک تک مال پہنچانے کا منصوبہ تھا۔

جانتھن کے مطابق ایلنبرو کا منصوبہ انڈیا میں انگریز افسروں میں بہت مقبول نہیں تھا اسی لیے اس پر عمل کروانے کے لیے انھوں نے کسی سینیئر افسر کی بجائے جونیئر افسروں کو دریائے سندھ میں پانی کے بہاؤ اور دیگر پہلؤں کا جائزہ لینے کے لیے ذمہ داری سونپی۔

ان میں ایک ایلیگزینڈر برنس تھے جن کے بھائی جو ڈاکٹر تھے اور سندھ کا دورہ کر چکے تھے جس میں انھوں نے دریائے سندھ میں جہاز رانی کے امکانات کے بارے میں بہت مثبت رپورٹ دی تھی۔

جانتھن لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر برنس کے مشن کے اصل مقصد کو خفیہ رکھنے کے لیے اس کا مقصد مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دربار کا دورہ اور انھیں ایک بگھی اور گھوڑے تحفے میں دینا بتایا گیا تھا۔ جانتھن لکھتے ہیں کہ سنہ 1809 میں سکھوں سے معاہدہ کرنے والے چارلس میٹکاف نے اس مشن پر اعتراض اٹھایا تھا کہ یہ ’بالکل بھی ہماری (برطانوی) حکومت کے شایان شان نہیں۔‘

برنس کے سنہ 1830-1831 کے مشن کی روشنی میں معلوم ہوا کہ دریائے سندھ پر ’فلیٹ باٹم والی کشتیاں‘ ہی چل سکتی ہیں جن پر زیادہ سے زیادہ 75 ٹن وزن آ سکتا ہے۔

▪️پہلی افغان جنگ کس ایجنڈے پر لڑی گئی؟

دریائے سندھ کی فوج برطانیہ کی اس سوچ کی عکاسی کرتی تھی جس پر دریائے سندھ کا پراجیکٹ حاوی تھا۔ حنیفی کہتے ہیں پہلی افغان جنگ شجاع کو درانی تخت پر بٹھانے سے بڑے ایجنڈے پر تھی اور یہ بڑے عالمی تجارتی مفادات کے لیے لڑی گئی تھی۔

برطانوی حکام نے اس منصوبے کے حق میں رابطہ مہم کے سلسلے میں کابل میں سیاسی اکابرین سے رابطے کیے اور درخواست کی کہ وہ تاجروں کو دریائے سندھ کا روٹ اپنانے پر قائل کریں۔ اس پراجیکٹ میں مرکزی کردار لوہانی کہلانے والے افغان خانہ بدوش تاجروں کا تھا۔

آرتھر کونولی کے ساتھی سید کرامت علی جن کا پہلے ذکر آ چکا ہے جو سنہ 1831 سے 1835 تک کابل میں برطانیہ کے نیوز رائٹر تھے۔ مٹھن کوٹ کے بارے میں انھیں ہدایت دی گئی کہ ’وہ تاجروں کو مٹھن کوٹ کے بارے میں بتائیں کہ وہ ایک ایسی منڈی ہو گی جہاں ان کا پھل ہندوستانی تاجر خرید لیں گے چاہے اس کی کتنی بھی مقدار ہو اور بدلے میں انھیں ہندوستان کا اپنی ضرورت کا سامان بھی وہیں مل جائے گا۔ اس طرح انھیں پنجاب کے راستے ہندوستان جانے کی تکلیف بھی نہیں اٹھانی پڑے گی.

حنیفی نے لکھا کہ ’برطانوی مٹھن کوٹ کو جنوبی اور وسطی ایشیا کے درمیان میں ایک منڈی کے طور پر دیکھتے تھے جس تک ہر علاقے کے تاجروں کی باآسانی رسائی ہو۔ اور ہر برس کلکتہ تک ایک لمبا چکر لگانے کی بجائے ان کا خیال تھا کہ افغان خانہ بدوش تاجر لوہانی دریائے سندھ کے سال میں کئی چکر لگا سکیں گے۔ ’ان کا مقصد تھا کہ تجارت خاص سیزن کی بجائے سارا سال جاری رہے۔‘

لیکن دریائے سندھ پر مٹھن کوٹ کے مقام پر بندرگاہ کا منصوبہ پہلی انگریز افغان جنگ اور شاہ شجاع کی ناکامی کے ساتھ ختم ہو گیا۔

▪️شاہ شجاع کی واپس افغانستان جانے کی خواہش

اسی دوران درانی سلطنت کے چوتھے حکمران شاہ شجاع نے بھی جو سنہ 1803 سے 1809 تک حکمرانی کرنے کے بعد تخت گنوا بیٹھے تھے اب واپس جانے کا ارادہ کر لیا۔ انھوں نے سنہ 1832 میں لارڈ بینٹنک کو خط لکھ کر خود کو ملنے والے وظیفے کا ایک سال کا ایڈوانس مانگا تاکہ وہ اپنا تخت حاصل کرنے کی کوشش کر سکیں۔

مؤرخ بتاتے ہیں کہ کچھ تامل کے بعد انھیں سولہ ہزار روپے دیے گئے اور دلی میں اسلحے کی خریداری پر ٹیکس کی چھوٹ بھی دی گئی۔

اس کے علاوہ شاہ شجاع نے رنجیت سنگھ سے بھی سنہ 1834 میں معاہدہ کیا کہ وہ تخت پر بیٹھنے کی صورت میں درانی سلطنت کے ان علاقوں سے دستبردار ہو جائیں گے جو اب سکھ سلطنت کا حصہ تھے اور جن میں پشاور بھی شامل ہے۔

انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا کے مطابق انگریز مطمئن نہیں تھے کہ درانی بادشاہ دوست محمد ممکنہ حملے کی صورت میں روس کا راستہ روک سکیں گے اور اس کے علاوہ انھیں دوست محمد کے بارے میں یہ تسلی بھی نہیں تھی کہ وہ ان کو دوست سمجھتے ہیں یا نہیں۔ اس ماحول میں انھوں نے شاہ شجاع کو تخت پر بٹھانے کے لیے افغانستان میں براہ راست مداخلت کا فیصلہ کیا۔

انگریزوں کی ’دریائے سندھ کی فوج‘ کی مدد سے قندھار اور غزنی فتح کرتے ہوئے شاہ شجاع اگست 1839 میں دوسری بار درانی سلطنت کے تخت پر بیٹھے۔ لیکن یہ تبدیلی بہت مقبول ثابت نہیں ہوئی۔

انسائیکلوپیڈیا کے مطابق دوست محمد پہلے بلخ اور پھر بخارا گئے جہاں انھیں گرفتار کر لیا گیا لیکن وہ قید سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ ’دو نومبر 1840 کو جنگ میں دوست محمد کا پلڑا بھاری تھا لیکن اگلے دن انھوں نے کابل میں انگریزوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور انھیں اپنے اہلخانہ کے ساتھ انڈیا ڈی پورٹ کر دیا گیا۔‘

لیکن حالات پھر بھی قابو میں نہیں آئے اور برطانیہ کو پسپائی پر مجبور ہونا پڑا۔

▪️شاہ شجاع کی موت اور برطانیہ کی پسپائی

انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا میں پسپائی کا منظر کچھ یوں بیان کیا گیا ہے۔

’دوست محمد کے بیٹے اکبر خان کے ساتھ واپسی کی شرائط طے پا رہی تھیں کہ اس دوران برطانوی پولیٹیکل ایجنٹ ولیم میکناٹین وفات پا گئے۔۔۔۔ چھ جنوری 1842 کو تقریباً ساڑھے چار ہزار برطانوی اور انڈین فوجی اور ان کے کیمپ کے تقریباً بارہ ہزار افراد کابل سے نکل گئے۔۔۔۔ افغانوں کے گروہوں نے ان کو گھیر لیا اور اس طرح پسپائی کے دوران خون کی ندیاں بہہ گئیں۔ انگریزوں کے کابل سے جانے کے بعد شاہ شجاع بھی مارے گئے۔‘

اس برس برطانوی فوج دوبارہ کابل پر قابض ہو گئی تھی، لیکن انسائیکلوپیڈیا کے مطابق انڈیا کے گورنر جنرل لارڈ ایلنبرو نے افغانستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور سنہ 1843 میں دوست محمد دوبارہ کابل کے تخت پر بیٹھ گئے۔

جی ہاں یہ وہی لارڈ ایلنبرو ہیں جنھوں نے ’عدم مداخلت‘ اور ’لاتعلقی‘ کی پالیسی ختم کر کے کابل پر کنٹرول کر کے وسطی ایشیا تک نئے تجارتی روٹ کھولنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔ افغانستان پر روس ہی کہ اثر و رسوخ کے مسئلے پر سنہ 1878 – 1880 کے درمیان ایک اور انگریز افغان جنگ ہوئی اور یہ بھی برطانوی فوج کی پسپائی پر ختم ہوئی۔

لیکن مؤرخ شاہ محمود حنیفی لکھتے ہیں کہ اس دور پر زیادہ تر کتابوں سے تاثر ملتا ہے کہ ان دو جنگوں کے نتائج کی وجہ سے افغانستان انڈیا پر برطانوی سامراج کے اثرات سے بچا رہا، پر ایسا نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ دونوں جنگیں عام طور پر صرف برطانوی حملہ آوروں کی غیرمعمولی ’ناکامی‘ یا دفاع کرنے والے مقامی افغانوں کی متوقع ’کامیابیوں‘ کے طور ہر دیکھی جاتی ہیں جبکہ ان کی تحقیق کے مطابق انڈیا میں برطانوی سامراج کی افغانستان پر گہری سیاسی، اقتصادی اور انٹلیکچوئل چھاپ ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close